احمد حسين يعقوب

احمد حسين يعقوب

احمد حسین اردن كے “جرش” شھر میں ۱۹۳۹ع میں شافعی مذھب گھرانہ میں پیدا ھوئے ۔ سیكنڈری كلاس مصر سے پاس كیا، قانون كی تعلیم دمشق یونیورسٹی میں حاصل كی، لبنان یونیورسٹی میں داخلہ لیا  اور پھر وكیل، امام جمعہ اور شھر كے چیرمین کی حیثیت سے کام کرتے رہے ۔ احمد حسین اپنے متعلق لكھتے ھوئے كھتے ھیں ۔

میں نے لبنان یونیورسٹی میں پیش كردہ تھیسس كے  دفاع كے لئے بیروت كا سفر كیا اس رسالہ كا موضوع تھا ” اسلامی حكومت میں رئیس كا تصور ” میں نے اس رسالہ میں پورے عقیدہ اور یقین كے ساتھ سنی مكتب فكر كا دفاع كیا ھے اور اھل سنت كے نظریۂ خلافت كو ثابت كیا ھے جس دوران میں لبنان میں تھا اچانك ایك كتاب جس كا نام تھا (ابناء الرسول فی كربلا) ” اولاد پیامبر (ص) كربلا كی سر زمین پر ” تالیف : خالد محمد خالد میری نگاہ اس كتاب پر پڑی اس كا مطالعہ كیا مولف اس كتاب میں قاتلین اولاد پیامبر كی جانبداری كر رھا ھے اور انھیں كا طرفدار ھے ان كے اس واقعۂ قتل و ظلم كی توجیہ كرتا ھے اور ان كے لئے عذر بھانہ تلاش كررھا ھے پھر بھی مجھے اس كا بھت صدمہ ھوا كہ امام حسین (ع) ان كی اولاد اور ان كے اصحاب پر یہ كیا گزری، امام حسین كے ساتھ یہ ھولناك واقعہ سبب بنا كہ میری فكر و زندگی میں تحول آنا شروع ھوگیا۔  یھی وہ كتاب اور یھی وہ واقعہ تھا جو میرے تحول كا سر آغاز تھا، جس كے بعد میں نے بیروت میں رھكر ” الشیعۃ بین الحقائق و الاوھام ” شیعہ ایك حقیقیت یا وھم ” تالیف : محسن امین (رح) كا مطالعہ كیا پھر كتاب المراجعات تالیف : شرف الدین عاملی كا مطالعہ كیا آخر الامر اھل بیت اور ان كے شیعوں كے متعلق تحقیقات كا سلسلہ شروع ھوا جس كے نتیجہ میں تاریخ سے متعلق میری فكر بدل گئی میرے سابقہ عقائد جو میرے ذھن میں راسخ تھے نابود ھو گئے ۔

اس طرح میں نے اھل بیت (ع) كو پھچانا ۔

استاد احمد كھتے ھیں كہ میرے لئے واضح ھو گیا كہ اھل بیت نبی (ص) اور ان كے موالی ھی مؤمن اور نجات یافتہ ھیں ۔ یہ وھی شاھدین حق ھیں جو محافظ دین ھیں پوری تاریخ میں اور اب تك صحیح اور پاكیزہ اسلام درك نھیں كیا جاسكتا بجز اس گروہ كے ذریعہ ۔

اھل بیت (ع) ان دو گرانقدر اشیاء میں سے ھیں جن كو رسول خدا (ص) نے اپنے بعد امت كے لئے ترك كیا ھے وھی كشتی نوح اور باب حطہ ھیں وھی چراغ ھدایت اگر نہ ھوتے اسلام ضایع ھوچكا ھوتا ایك بھی مومن نہ ھوتا ۔

یہ وہ لوگ ھیں جنھوں نے ظلم كی مخالفت اور انقلاب كا پرچم ھمیشہ بلند ركھا ھے اور اللہ كی راہ میں مشكلات و آلام كو برداشت كیا ھے جس كو كوئی بھی بشر برداشت نھیں كرسكتا، اس طرح ان لوگوں نے دین محمد (ص) كو ھم تك پھنچایا ھے خلاصہ یہ كہ میں ھدایت پا گیا اور معلوم ھوا كہ اھل بیت (ع) كا مسئلہ ایك عالمی مسئلہ ھے ۔ میں نے اپنے رب سے عھد كیا كہ اس مسئلہ كا میں ھمیشہ دفاع كروں گا جس كے نتیجہ میں میری ساری تالیفات اھل بیت (ع) كی حقانیت پر متمركز ھوگی اور عقلوں كو بیدار كرنے كے لئے مختص كردی تاكہ وہ لوگ جو میری طرح (گمراہ) ھیں ھدایت پا سكیں ۔

تالیفات

1۔ “النظام السیاسی فی الاسلام” اسلام میں سیاسی نظام كا تصور (شیعہ سنی اور شریعت كے مطابق) كتاب مؤسسہ انصاریان قم سے ۱۴۱۲ ھ شایع ھوئی مؤلف مقدمہ كتاب میں لكھتے ھیں:

اسلامی، سیاسی نظام كے سلسلہ میں عصر حاضر میں موجود روش كے مطابق كچھ تحریر كرنا آسان كام نھیں ھے یہ كوئی فكری سیاحت نھیں ھے جیسا كہ پھلی نظر میں نظر آتا ھے

2 ۔ “نظریۃ عدالۃ الصحابۃ و المرجعیۃ السیاسیۃ فی الاسلام” نظریہ عدالت صحابہ اور اسلام میں سیاسی مرجعیت (شیعہ، سنی اور شریعت كی نگاہ میں)

مولف مقدمہ میں لكھتے ھیں اس مختصر سی بحث كے ذریعہ ھم نے ثابت كیا ھے جو خداوند عالم كی طرف سے نازل ھوا ھے وہ دوسری شی ھے اور جس كو ھم لوگ سمجھ رھے ھیں یہ ایك اور شی ھے ۔

رسول اعظم كی وفات كے بعد جو مخالفین اور واقعات رونما ھوئے ھیں اس نے اسلامی نظام سیاست كو زندگی سے مٹا كر ركھ دیا ۔

انسانی حیات میں اسلامی نظام نافذ نہ ھونے میں اسلام كی خطا نھیں ھے اور نہ اسلام میں كمی كی وجہ سے ایسا ھے، دین اسلام ایك كامل و جاودانہ نظام زندگی ھے، اس كی وجہ صرف اور صرف مسلمان ھیں ۔ جنھوں نے خدا كی نعمت و نظام میں تبدیلیاں اور تحریفات ایجاد كی ھیں اور اپنے من پسند تفسیر و تاویل كی ھیں ۔

3 ۔ “مرتكزات الفكر السیاسی (فی الاسلام، فی الرأسمالیۃ، فی الشیوعیۃ)” اصول فكر سیاسی، (اسلام، سرمایہ داری، اشتراكی مكتب فكر میں سیسی شعور كے مسلمات) كتاب ۱۴۱۳ھ میں شایع ھوئی ۔

4 ۔ “الخطط السیاسیۃ لتوحید الامۃ الاسلامیۃ” امت اسلام كے اتحاد كی سیاسی راھیں ۔

یہ كتاب دار الثقلین بیروت سے ۱۴۱۵ھ میں شائع ھو چكی ھے ۔

مؤلف كتاب كے مقدمہ میں لكھتے ھیں :

امت اسلام كی وحدت جب كہ ایك گران قیمت آرزو اور الٰھی فریضہ ھے اور سارے مسلمانوں كا مشترك ھدف بھی اور آج كے اس دور میں ان كی ضرورت بھی، مگر پھر بھی مسلمانوں میں متحد ھونے كی راھیں متحد نھیں، اتحاد كے وسائل اور اس كے ذرایع پر ان میں انفاق نھیں ھے اتحاد كی یہ راھیں شانتی كے ساتھ ھیں جس میں تشدد نھیں ھے حكمت اور اطمینان كے ساتھ ھے جس میں طاقت كا استعمال نھیں اور زبردستی نھیں ھے جب كہ اسلامی پارٹیوں نے دسیوں طریقے پیش كئے ھیں اور اس پر عمل كیا ھے مگر سب ناكام رھے ھیں لیكن نئی راھیں كشف و ایجاد كرنے سے متوقف نھیں ھوئی ھیں میں نے بھی امت اسلام میں منادیان وحدت كے لئے اس كتاب كو تحریر كیا ھے ۔

5 ۔ “طبیعۃ الأحزاب السیاسیۃ العربیۃ” (الاحزاب العلمانیۃ، الأحزاب الدینیۃ، معالم فكر اھل بیت النبوۃ) ۔ عرب سیاسی پارٹیوں كی طبعیت (سیكولر، ریلیجن اھل بیت (ع) كی تھیوری كے آئینہ میں) ۔

كتاب عربی زبان میں دار الاسلامیہ سے ۱۴۱۲ھ میں شائع ھوچكی ھے ۔

6 ۔ “الوجیز فی الامامۃ و الولایۃ” امامت اور ولایت كا اجمالی تصور

كتاب دار الغدیر سے عربی زبان میں ۱۴۱۷ھ میں نشر ھوئی ھے ۔

مولف، مقدمہ كتاب میں لكھتے ھیں :

میں نے بڑی دقت سے ریاست كے سلسلہ میں موجودہ مكاتب فكری و نظری میں تحقیق كی ۔ چونكہ وہ اسلامی تصور كے مدمقابل قرار پارھے تھے اس لئے میں نے اس كتاب كی تالیف شروع كی جو چار باب پر مشتمل ھے ۔

– پھلا باب تاریخ اور شریعت كی رو سے امامت و ولایت كا تصور ۔

– دوسرا باب امام كا انتخاب یا انتصاب ۔

– تیسرا باب نبی كے بعد امامت و ولایت ۔

– چوتھا باب سیاہ بغاوت اور غیر شرعی امامت كا قیام

7 ۔ “المواجھۃ مع رسول اللہ و آلہ ۔ القصۃ الكاملۃ” رسول اللہ (ص) كا سامنا ۔

كتاب دار الغدیر سے عربی زبان میں ۱۴۱۷ھ میں شایع ھوئی مولف كتاب كے مقدمہ میں لكھتے ھیں :

میں نے اس كتاب میں اس مقابلہ كا ذكر كیا ھے جو رسول اللہ اور دشمنوں كے درمیان واقع ھوا تھا اور تاریخ كے ساتھ ساتھ جاری رھا، دشمنوں نے اپنا امام منتخب كیا رسول كی مخالفت كی ان كے خلاف چالبازیاں كیں، اكیس (۲۱) سال تك مسلحانہ جنگ كی، ۱۳ سال ھجرت سے پھلے اور ۸ سال ھجرت كے بعد ۔

8 ۔ “مساحۃ للحوار، من أجل الوفاق و معرفۃ الحقیقۃ” گفتگو كا ایك موقع ۔

كتاب ۱۴۱۸ھ میں دار الغدیر سے عربی زبان میں شایع ھوئی یہ كتاب ایك انٹرویو اور گفتگو كی صورت میں ھے جس میں ایك طرف خود مولف ھیں اور دوسری طرف ان كا ایك سنی دوست ۔

یہ دونوں مل كر آپس میں گفتگو كرتے ھیں سنی اپنے سوالات تحریر كرتا ھے پھر مولف اس كے جواب لكھتے ھیں، پھر اس پر سوال یا اشكال ھوتا ھے پھر اس كا جواب دیا جاتا ھے اس طرح یہ سلسلہ چلتا ھے ان سارے مجموعوں كو ایك جگہ ملا كر كتاب كی صورت میں شایع كیا گیا ھے ۔

9 ۔ “كربلاء، الثورۃ و المأساۃ” كربلا، انقلاب اور مصیبت

یہ كتاب ۱۴۱۸ھ میں دار الغدیر سے عربی زبان میں شایع ھوئی ۔

10 ۔ “الھاشمیون فی الشریعۃ و التاریخ” شریعت اسلام اور تاریخ كی روشنی میں بنی ھاشم كا حال ۔ كتاب ۱۹۹۹ع میں شایع ھوئی ۔

11 ۔ “حقیقۃ الاعتقاد بالامام المھدی المنتظر” امام مھدی منتظر (ع) كا عقیدہ ۔

یہ كتاب ۲۰۰۰ عیسوی میں دار الملك اردن سے شایع ھوئی ۔

سارے انسانوں میں یہ ایك عام عقیدہ ھے كہ ایك منجی ظھور كرے گا جو لوگوں كو نجات دے گا، اس منجی كے مختلف شكل و روپ ھیں ھر دین خصوصا آسمانی ادیان، اور بالاخص اسلام میں ایك خاص تصور ھے، جو مھدی نامی عقیدہ پر مركوز ھے ۔ یہ مھدی منتظر شیعوں كے نزدیك ان كا بارھواں امام، اور شرعی رھنماؤں كا آخری فرد ھے ۔

12۔ “این سنۃ الرسول و ماذا فعلوا بھا” ۔ سنت رسول كے ساتھ كیا كیا گیا ۔

مؤلف، اس كتاب كے مقدمہ میں لكھتے ھیں كہ میں نے كتاب میں ان دو سوالوں كے جواب دینے كی كوشش كی ھے ۔ سنت رسول كھاں ھے ؟ سنت رسول كے ساتھ كیا كیا گیا ؟

كتاب آٹھ باب پر مشتمل ھے ۔

13 ۔ “الاجتھاد بین الحقائق الشرعیۃ و المھازل التاریخیۃ” ۔ اجتھاد (شرعی حقائق یا تاریخی مذاق ) ۔

14 ۔ “المرجعیۃ السیاسیۃ فی الاسلام” ۔ اسلام میں سیاسی مرجعیت

مجلہ المنبر ش ۱۰ ذی الحجۃ ۱۴۲۱ھ ( گروہ ترجمہ سایٹ صادقین )


متعلقہ تحريريں: 

 سيد حسن نصراللہ کا انٹرويو

اسعد بن علی             

تبصرے
Loading...