مذھبی قیادت

مذھبی قیادت

 

 ایک مکمل مذھبی قیادت کےلئے دین کے اصول و فروع سے متعلق وسیع علم اور اسلامی معاشرہ کی ضرورتوں سے مکمل آگاھی ضروری ھے اور اس طرح کی مکمل آگاھی کے بغیر مذھبی قیادت ممکن نھیں ھے۔

کیونکہ بشر کی تخلیق کا مقصد یھی ھے کہ وہ شریعت الٰھی پر عمل کرتے ھوئے اور ارتقاء و کمال تک پھنچنے اورپیغمبروں کے بھیجے جانے اور شرعی وقوانین کے نفاذ کا مقصد بھی اس کے سوا کچھ نھیں کہ انسان کو گمراھیوں سے بچا لیا جائے اور اسے کمالات و فضائل کی طرف رھنمائی کی جائے۔ الٰھی قوانین پر عمل کرتے ھوئے ترقی کی منزلیں طے کرنا اس صورت میں ممکن ھے جب الٰھی فرائض و احکام بندوں کی دسترس میں ھوں تا کہ کمال کی راہ طے کرنے والوں کےلئے کوئی عذرو بھانہ باقی نہ رھے یا ان کی راہ سے رکاوٹیں دور کی جائیں۔

تمام احکام تک رسائی حاصل کرنے کےلئے شرط ھے کہ پیغمبر کے بعد لوگوں میں کوئی ایسا شخص موجود ھو جو سماج کی دینی ضرورتوں سے پوری طرح آگاہ ھو۔ تا کہ لوگوں کو ارتقاء و کمال کا راستہ اور صراط مستقیم دکھائے اور تخلیق کے مقاصد کو صحیح ثابت کرنے میں ذرا بھی غفلت سے کام نہ لے ۔

خلفائے ثلاثہ کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے واضح ھوتا ھے کہ ان میں سے کوئی ایک بھی ان خصوصیات کا حامل نہ تھا اور احکام و لوگوں کی دینی ضروریات کے بار ے میں ان کے معلومات بھت ضعیف تھے۔

قرآن مجید کے بعد اسلامی معاشرہ کو ارتقاء بخشنے کا واحد راستہ سنن و احادیث پیغمبر سے آگاھی ھے کہ ان کا اعتبار اور حجیت تمام مسلمانوں کی نظر میں مسلّم ھے ۔ قرآن مجید نے بھی بھت سی آیات میں سنّت اور احادیث پیغمبر پر عمل کو ضروری قرار دیا ھے مثال کے طور پر درج ذیل آیہ شریفہ ملاحظہ ھو:

(مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہ فَانْتَھُوا ) (۱)

” جو رسول تمھیں دے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ“

لیکن مذکورہ خلفاء اسلامی احکام کے بارے میں کوئی نمایاں آگاھی نھیں رکھتے تھے اور ان ناقص اور معمولی معلومات کے ذریعہ انسانی قافلہ کو ھرگز کمال کی منزل تک نھیں پھنچایا جاسکتا ھے ، جس کےلئے خود اسلامی احکام پر عمل پیرا ھونا لازم ھے۔

احمد بن حنبل نے اپنی مسند میں جو روایتیں حضرت ابو بکر سے نقل کی ھیں ان کی کل تعداد 80 احادیث سے زیادہ نھیں ھے (۲) جلال الدین سیوطی نے انتھائی کوشش کرکے ان کی تعداد 104 تک پھنچائی ھے (۳)

سر انجام حضرت ابوبکر سے نقل کی گئی روایتوں کی آخری تعداد 142 بتائی گئی ھے (۴) ان میں سے بھی بعض روایتیں نھیں ھیں بلکہ یہ باتیں ھیں جو ان سے نقل کی گئی ھیں مثلا ایک حدیث جو ان سے نقل کی گئی ھے اور انھی 142 احادیث میں شمار ھوتی ھے یہ جملہ ھے :

” ان رسول اللّٰہ اھدی جملاً لاٴبی جھل“

یعنی پیغمبر نے ابو جھل کو ایک اونٹ ھدیہ کے طور پر دیا “

اس کے علاوہ ان سے نقل کی گئی کئی احادیث قرآن مجید اور عقل کے منافی ھیں مثلاً درج ذیل دو حدیثیں ملاحظہ ھوں:

1۔ ”ان المیت ینضح علیہ حمیم ببکاء الحی “

یعنی ، زندہ لوگوں کے رونے سے مردے پر گرم پانی ڈالا جاتا ھے ۔

واضح ھے کہ اس حدیث کا مضمون چند لحاظ سے مردود ھے :

اولاً: میت پر معقول رونا ، انسانی جذبات کی علامت ھے اور پیغمبر اکرم نے اپنے بیٹے حضرت ابراھیم (ع)کے سوگ میں شدت سے آنسو بھائے تھے اور فرماتے تھے :

” پیارے ابراھیم ! ھم تیرے لئے کچھ نھیں کرسکتے ، تقدیر الٰھی ٹالی نھیں جاسکتی ، تیری موت پر تیرے باپ کی آنکھیں اشک بار ھیں اور اس کا دل محزون ھے ، لیکن میں ھرگز ایسی بات زبان پر جاری نھیں کروں گا قھر خدا کا سبب بنے ۔(۵)

جب پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ”جنگ مؤتہ “ میں ” جعفر ابن ابو طالب “ کی شھادت کی خبر سے آگاہ ھوئے ، تو آپ اس قدر روئے کہ آپ کی ریش مبارک پر آنسو جاری ھوگئے تھے (۶)

دوسرے یہ کہ ھم فرض بھی کرلیں کہ اس قسم کا رونا صحیح نہ ھوگا، تو آخر کسی ایک کے عمل سے دوسرا کیوں عذاب میں مبتلا کیا جائے گا ۔ قرآن مجید فرماتا ھے :

(وَ لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وَزْرَ اُخْرَیٰ ) (۷) اور کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجہ نہ اٹھائے گا ۔

پھر ابو بکر کے نقل کے مطابق پیغمبر اکرم نے یہ کیسے فرما دیا کہ کسی کے رونے سے ، ایک بے بس مردہ عذاب میں مبتلا ھوگا؟!

2۔ ”انما حرّ جھنمّ علی امتی مثل الحمّام“

یعنی ، میری امت کےلئے جھنم کی گرمی حمام کی گرمی کے مانند ھے۔

یہ بیان گناھگاروں کے گستاخ ھونے کا سبب بننے کے علاوہ ، جھنم کے بارے میں قرآن مجید میں بیان شدہ نصوص کے بالکل خلاف ھے ۔ جیسے ” وقودھا الناس و الحجارة “ اس کا ایندھن پتھر اور انسان ھیں اور اس آگ کے کوہ پیکر شعلے بیدار دلوں کو پگھلادیتے ھیں

بھر حال جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، جو احادیث حضرت ابو بکر سے نقل ھوئی ھیں وہ یا ان کے معمولی بیانات ھیں یا وہ چیزیںھیں جو عقل و قرآن مجید سے ٹکراؤ رکھتی ھیں ۔ اور جسے حدیث کا نام دیا جائے ان میں بھت کم ملتی ھے۔

ظاھر ھے کہ ایسا شخص ، ان ضعیف اور ناچیز معلومات کے ساتھ اسلامی معاشرے کو ارتقا اور کمال کی طرف رھنمائی نھیں کرسکتا اور امت کی ضروریات کو پورا نھیں کرسکتا ۔

خلیفہ ، خود اپنے ایک بیان میں اپنی معلومات سے پردہ اٹھاتے ھوئے کھتے ھیں :

”انّی ولیت و لست بخیرکم و ان راٴیتمونی علی الحق فاٴعینونی و ان راٴیتمونی علی الباطل فسدونی (۸)

اے لوگو ! تمھارے امور کی باگ ڈور میرے ھاتہ میں دیدی گئی ھے ، جبکہ میں تم میں سے بھترین فرد نھیں ھوں ، اگر تم لوگ مجھے حق پر دیکھو تو میری مدد کرو اور اگر مجھے باطل پر دیکھو تو میری مخالفت کرو اور مجھے اس کام سے روکو“

دین و مذھب کے قائد کو جس کے نقش قدم پر اسلامی معاشرے کو چلنا ھے دینی مسائل میں امت سے مدد کا محتاج نھیں ھونا چاھئے ۔ یہ ھرگز مناسب نھیں ھے کہ دینی قائد بجائے اس کے کہ امت کو تخلیق کے مقصد کی طرف راھنمائی کرے اپنی غلطیاں اور گمراھیاں سدھارنے کےلئے امت سے مدد مانگے ۔

خلیفہ اول کی لاعلمی کے چند نمونے

یھاں پر ھم خلیفہ کے معلومات سے متعلق چند نمونے پیش کرتے ھیں جو بذات خود دینی مسائل کے بارے میں ان کے معلومات کی سطح کے گواہ ھیں ۔ یہ نمونے اس امر کی حکایت کرتے ھیں کہ وہ بھت سے روز مرہ کے مسائل کے جواب سے بھی ناواقف تھے:

1۔ ”دادی“ کی وراثت کا مسئلہ عام مسائل میں سے ھے خلیفہ اس کے بارے میں آگاھی نھیں رکھتے تھے ۔ ایک عورت کا پوتا فوت ھوگیا تھا اور اس نے اس سلسلے میں ان سے حکم خدا پوچھا ، انھوں نے جواب دیا کہ : کتاب خدا اور پیغمبر کے ارشادات میں اس بارے میں کچھ بیان نھیں ھوا ھے ۔ اس کے بعد اس عورت سے کھا: تم جاؤ ، میں رسول خدا کے صحابیوں سے پوچھوں گا کہ کیا انھوں نے پیغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے اس سلسلے میں کچھ سنا ھے ؟! مغیرة بن شعبہ جو اسی مجلس میں موجود تھا ، اس نے کھا : میں پیغمبر خدا کی خدمت میں تھا، آپ نے دادی کےلئے میرا ث میں سے 3/1 حصہ مقرر فرمایاتھا ۔ (۹)

خلیفہ کی لاعلمی زیادہ تعجب خیز نھیں ھے بلکہ تعجب اس بات پر ھے کہ اس نے مغیرہ جیسے آلودہ اور بد کردار شخص سے حکم الھی سیکھا ۔

2۔ ایک ایسا چور خلیفہ کے پاس لایا گیا جس کا ایک ھاتہ اور ایک پاؤں کاٹا جاچکا تھا ، انھوں نے حکم دیا اس کا پاؤں کاٹ دیا جائے ، خلیفہ دوم نے اشارہ کیا کہ ایسے موقع پر سنت پیغمبر یہ ھے کہ ھاتہ کاٹا جائے ، اس پرخلیفہ نے اپنا نظریہ بدل دیا اور خلیفہ دوم کے نظریہ کی پیروی کی (۱۰)

خلیفہ کی لاعلمی زیادہ تعجب خیز نھیں ھے بلکہ تعجب اس بات پر ھے کہ اس نے مغیرہ جیسے آلودہ اور بد کردار شخص سے حکم الھی سیکھا ۔

ان دونمونوں سے فقہ اسلامی کے بارے میں خلیفہ کی معلومات کے کمی کا بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ھے اور واضح ھے کہ اس قدر معلومات کے فقدان اور مغیرہ جیسے افراد سے رجوع کرنے والے شخص کے ھاتھوں میں معاشرے کی معنوی قیادت کی باگ ڈور ھرگز نھیں دی جاسکتی ھے جس کی بنیادی شرط اسلامی احکام سے متعلق وسیع معلومات کا حامل ھونا ھے۔

خلیفہ دوم کی معلومات کا معیار

حضرت عمر نے جن احادیث کو پیغمبر سے نقل کیا ھے ان کی تعداد پچاس سے زیادہ نھیں ھے ۔ درج ذیل داستان خلیفہ دوم کے فقھی معلومات کی سطح کی صاف گواہ ھے :

1۔ ایک شخص نے حضرت عمر کے پاس آکر ان سے دریافت کیا: مجنب ھوں اور پانی تک رسائی نھیں حاصل کرسکا۔ ایسے میں میرا فریضہ کیا ھے ؟

حضرت عمر نے جواب دیا: تم سے نماز ساقط ھے ، خوشبختی سے ” عمار “ اس جگہ موجود تھے انھوںنے خلیفہ کی طرف رخ کرکے کھا: یاد ھے کہ ایک جنگ میں ھم دونوں مجنب ھوئے تھے اور پانی نہ ھونے کی وجہ سے ، میں نے مٹی سے تیمم کرکے نماز پڑھی تھی ، لیکن تم نے نماز نھیں پڑھی تھی ؟ جب پیغمبر سے یہ مسئلہ پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا: کافی تھا اپنے ھاتھوں کو زمین پر مارکر چھرے پر ملتے یعنی تیمم کرتے ۔

خلیفہ نے عمار کی طرف رخ کرکے کھا: خدا سے ڈرو ؟ ( یعنی اب اس بات کو بیان نہ کرنا )

عمار نے کھا: اگر آپ نھیں چاھتے تو میں اس واقعہ کو کھیں بیان نھیں کروں گا (۱۱)

یہ واقعہ اھل سنت کی کتابوں میں مختلف صورتوں میں نقل ھوا ھے اور یہ تمام صورتیںاس امر کی حکایت کرتی ھیں کہ خلیفہ دوم مجنب کے بارے میں جس کے پاس پانی نہ تھا حکم الٰھی سے بے خبر تھے۔

قرآن مجید نے دو سوروں (۱۲) میں ایسے شخص کا فریضہ بیان کیا ھے ۔ لیکن ایسا لگتا ھے کہ قرآن مجید کی یہ دو آیتیں خلیفہ کے کانوں تک نھیں پھنچی تھیں !

ایسا شخص جو بارہ سال تک کوشش کے بعد صرف سورہ بقرہ یاد کر سکے اور اس کے شکرانہ کے طور پر قربانی کرے(۱۳) ، بھلا وہ کس طرح ان آیات تک آسانی سے رسائی حاصل کرسکتا ھے ؟!

ابن عباس کھتے ھیں : ایک دن حضرت عمر نے مجھ سے پوچھا: اگر ایک شخص اپنی نماز کی تعداد کے بارے میں شک کرے تو اس کا فریضہ کیا ھے ؟ میں نے خلیفہ کو جواب دیا کہ : میں بھی اس مسئلہ کے حکم سے واقف نھیں ھوں ، اسی اثنا میںعبد الرحمان بن عوف آئے اور انھوں نے اس سلسلے میں رسول خدا کی ایک حدیث بیان کی (۱۴)

شاید اس سلسلے میں ابن عباس کاجواب سنجیدہ نہ تھا ، اور اگر رھا بھی ھو تو بھی خلیفہ کی ایسے موضوع کے سلسلہ میں نا آگاھی واقعاً حیرت انگیزھے !!

ایک دن خلیفہ نے منبر سے مَھر زیادہ ھونے کے خلاف تنقید کی اور اس مخالفت کا اس حد تک اظھار کیا کہ اعلان کردیا کہ مھر کی زیادتی منع ھے ۔ جب خلیفہ منبر سے نیچے اترے تو ایک عورت نے سامنے آکر ان سے سوال کیا : آپ نے عورتوں کے مھر میں اضافہ پر پابندی کیوں لگا دی ، کیا خدائے تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ نھیں فرمایا ھے :

(وَ آتَیْتُمْ اِحْدیٰھُنَّ قِنطَاراً ) (۱۵)

اگر عورتوں میں سے ایک کو زیادہ مال دیدیا ھے تو حرج نھیں ھے “

اس وقت خلیفہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا اور بارگاہ الٰھی میں رخ کرکے کھا : ” خدا یا ! مجھے بخش دے اور اس کے بعد کھا: تمام لوگ احکام الٰھی کے بارے میں عمر سے زیادہ واقف ھیں (۱۶) اس کے بعد دوبارہ منبر پر جا کر اپنی بات کی تردید کردی (۱۷)

اس پر حضرت عمر نے ایک تکبیر کھی اور اپنا حکم واپس لے لیا ۔

اس قسم کے ناحق فیصلے خلیفہ دوم کی زندگی کی تاریخ میں بھت ملتے ھیں ۔ مرحوم علامہ امینی نے الغدیر کی چھٹی جلد میں احکام اسلام کے بارے میںخلیفہ کی نا آگاھی کے سو واقعات مستند حوالوں کے ساتھ ذکر کئے ھیں اور ان کا نام ” نوادر الاٴثر فی علم عمر “ رکھا ھے ۔

ان امور کے جائزہ سے صاف معلوم ھوتا ھے کہ اسلامی معاشرے کی قیادت ھرگز ایسے فرد کے ھاتھوں میں نھیں دی جا سکتی ھے جو کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کے سلسلے میں اتنا بھی نھیں جانتا ھو کہ دیوانہ اور پاگل پر کوئی فریضہ عائد نھیں ھوتا۔

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ لوگوں کی ناموس اور اسلامی سماج کی باگ ڈور ایک ایسے شخص کے ھاتھوں میں دے دی جائے جو عاقل اور دیوانہ میں فرق نہ کرسکتا ھو؟

کیا عقل اس بات کی اجازت دیتی ھے کہ خدائے عادل لوگوں کی جان و مال کو ایک ایسے شخص کے سپرد کردے جو یہ بھی نہ جانتا ھو کہ عورت چہ ماہ میں بچے کو جنم دے سکتی ھے اور ایسی عورت پر بدکاری کی تھمت نھیں لگائی جاسکتی اور نہ اسے سنگسار کرنے کا حکم دیا جا سکتا ھے ؟ (۱۸)

خلیفہ ٴ سوم کے معلومات کا معیار

الٰھی احکام کے بارے میں تیسرے خلیفہ کے معلومات بھی گزشتہ دو خلفاء سے زیادہ نھیں تھے ۔ ان کے ذریعہ پیغمبر سے نقل کی گئی احادیث کی کل تعداد 146 سے زیادہ نھیں ھے (۱۹)

اسلام کے اصول و فروع کے سلسلے میں حضرت عثمان کی آگاھی بھت کم اور ناچیز تھی قارئین کرام کی آگاھی کےلئے اسلامی تعلیمات سے ان کی بے خبری کے سلسلہ میں صرف ایک اشارہ پر اکتفا کی جاتی ھے :

اسلام کے واضح احکام میں سے ایک حکم یہ ھے کہ مسلمان اور کافر کا خون برابر نھیں ھے اور پیغمبر اسلام نے اس سلسلے میں فرمایا ھے :”لا یقتل مسلم بکافرٍ“

کافر کو قتل کرنے پر مسلمان کو قتل نھیں کیا جاسکتا ، بلکہ قاتل دیت ادا کرے گا ۔

لیکن افسوس ھے کہ خلیفہ سوم کی خلافت کے دوران جب ایک ایسا واقعہ پیش آیا تو خلیفہ نے قاتل کو قتل کرنے کا حکم صادر کردیا پھر بعض اصحاب رسول کی یاد دھانی پر اپنے حکم کو بد لا (۲۰)

خلیفہ سوم کی زندگی میں ایسے بھت سے نمونے ملتے ھیں ۔ بیان کو مختصر کرنے کیلئے ھم ان کی تفصیلات سے صرف نظر کرتے ھیں اور ایک بار پھر بحث کے نتیجہ کی طرف آتے ھیں:

امت اسلامیہ کی مذھبی قیادت کےلئے الٰھی احکام سے متعلق وسیع علم اور معلومات کا مالک ھونا شرط ھے اور ایسا علم عصمت یعنی گناھوں سے محفوظ رھے بغیر ممکن نھیں ھے اور افسوس ھے کہ پھلے تینوں خلفاء اس لطف الٰھی سے محروم تھے۔

 

حوالہ جات

۱۔ حشر / 7۔

۲۔ مسند احمد ، ج 1، 2۔14۔

۳۔ تاریخ الخلفاء ، ص 59 ۔ 66۔

۴۔ الغدیر ج 7 ص 108

۵۔ سیرہ حلبی ، ج 3 ، ص 34، بحار ج 22، ص 157۔

۶۔ مغازی واقدی ، ج2، ص 766 ، بحار ، ج21، ص 54 ۔

۷۔ انعام / 164

۸۔ طبقات ابن سعد، ج 3،ص 151۔

۹۔ موطاٴ ابن مالک ص 335۔

۱۰۔ سنن بیھقی ، ج8 ص 273۔

۱۱۔ سنن ابن ماجہ ، ج 1، ص 200۔

۱۲۔ نساء ․ 43، مائدھ/ 6۔

۱۳۔ الدر المنثور ج1،ص 21۔

۱۴۔ مسند احمد ، ج 1 ،ص 192۔

۱۵۔ نساء/ 20

۱۶۔ ”کل الناس افقہ من عمر”

۱۷۔ الغدیر ، ج 6․ ص 87 ( اھل سنت کی مختلف اسناد سے منقول)

۱۸۔ اس کی تفصیل پانچویں فصل میں گزری ھے ۔

۱۹۔ الاٴضواء ، ص 204

تبصرے
Loading...