اتحاد بین المسلین اور اسکی ضرورت (۱)

دنيا کے ہر خطے ميں آج مسلمان، خواہ وہ مسلم ممالک ہوں يا ايسي رياستيں جہاں مسلمان اقليت ميں ہيں، اسلام کي سمت جھکاۆ اور رجحان اور اپني اسلامي شناخت کي بازيابي کا احساس کر رہے ہيں- آج علم اسلام کا روشن خيال طبقہ اشتراکيت اور مغربي مکاتب سے بد دل ہوکر اسلام کي سمت بڑھ رہا ہے اور عالم انسانيت کے درد و الم کي دوا کے لئے اسلام کا دامن تھام رہا ہے اور اس سے راہ حل چاہ رہا ہے- آج مسلم امت ميں اسلام کي جانب ايسي رغبت پيدا ہوئي ہے جو گزشہ کئي صديوں ميں ديکھنے ميں نہيں آئي- اسلامي ممالک پر کئي صدیوں تک مغربي اور مشرقي حکومتوں کے گہرے سياسي و ثقافتي تسلط کے بعد اب عالم اسلام کے نوجوانوں کي فکروں کا افق اور نگاہوں کا مرکز اسلام بن گيا ہے- يہ ايک سچائي ہے- خود مغرب والے اور دنيا کي سامراجي طاقتيں بھي اس کي معترف ہيں- اکابرين سامراج کے لئے جو چيز سوہان روح بني ہوئي ہے وہ مسلمانوں کا اسلامي تشخص اور يہ احساس ہے کہ وہ مسلمان ہيں- يہ چيز مسلمانوں کو متحد کرتي اور ايک دوسرے سے جوڑتي ہے-

اگر مسلمانان عالم کے درمیان شمع اخوت و وحدت فروزاں رھے گی، تو یقینا ان کے اردگرد پروانہ عزت وکرامت کا طواف ھوگا اور اگر ان کی مختصر سی غفلت کی وجہ سے یہ شمع وحدت بجھی، تو پروانۂ عزت بیگانہ چراغ کی طرف رخ کرلے گا ۔ اسی وجہ سے قرآن مجید نے مسلمانوں کو صدر اسلام میں ھی ھوشیار کر دیا کہ “یا ایھاالذین آمنوا اتقوا اللہ حق تقاتہ ولا تموتنّ الاّوانتم مسلمون واعتصموا بحبل اللہ جمیعاًولا تفرقوا”۔(۱)

(اے ایمان والو !خدا کا ایسا تقویٰ اختیار کرو جو اس کے تقوے کا حق ھے اور موت کو گلے نہ لگاو مگر یہ کہ حالت اسلام میںاور خدا کی رسّی کو تھام لو اور تفرقہ نہ کرو)۔

خدائے واحد، قرآن مجید میں مسلمانوں کی وحدت کے علل واسباب کو اپنی طرف منسوب کر رھا ھے اور پیغمبر اسلام(ص) کو اس بات سے آگاہ کررھاھے کہ اے رسول!اگر صرف اور صرف آپ یہ چاھتے کہ ان لوگوں کے قلوب میں بذر اتحاد بو دیں، تو تمام وسائل و اسباب اور دولت و ثروت کے باوجود بھی یہ کام آپ کے بس میں نہ تھا”والّف بین قلوبھم لو انفقت ما فی الارض جمیعاًما الفت بین قلوبھم ولکن اللہ الّف بینھم انّہ عزیز حکیم”(۲)

(اور ان کے دلوں میں محبت پیدا کر دی ھے کہ اگر آپ ساری دنیا خرچ کر دیتے تو بھی ان کے دلوں میں باھمی الفت پیدا نھیں کر سکتے تھے لیکن خدا نے یہ الفت اور محبت پیدا کر دی ھے کہ وہ ھر شئی پر غالب اور صاحب حکمت ھے)۔

اسی وجہ سے پیغمبر اسلام  نے خداوند عالم کے لطف و کرم کے نتیجہ میں مسلمانوں کے درمیان عقد اخوت پڑھا اور امت مسلمہ کے ما بین ایک الھی رابطہ قائم کر دیا ۔ مسلمان بھی اس گرانقدر رابطہ میں خود کو گرہ لگا کر توحید ،نبوت ،معاد،قرآن اور کعبہ کے مشترک عقیدہ پر گامزن ھو گئے، جس کی وجہ سے انکی وحدت شھرہ آفاق بن گئی اور ان کی ہیبت سے مرکز کفر کانپ اٹھا۔

قرآن میں اتحاد کی قسمیں

 قرآن مجید نے اتحاد کو چند قسموں میں تقسیم کیا ھے:

۱۔امت کا اتحاد: “انّ ھذہ امتکم امة واحدة وانا ربکم فاعبدون”(۳)

(بے شک یہ تمھارادین ایک ھی دین اسلام ھے اور میں تم سب کا پروردگار ھوں لھذا میری ھی عبادت کیا کرو)۔

۲۔آسمانی ادیان کے پیرو کاروں کا اتحاد:” قل یا اھل الکتاب تعالوا لیٰ کلمة سواء بیننا و بینکم الاّنعبد الاّ اللہ ولا نشرک بہ شیئاً”(۴)

(اے پیغمبر! آپ کھہ دیں کہ اھل کتاب آوٴ ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کر لیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ بنائیں)۔

۳۔ تمام ادیان کا اتحاد:”شرع لکم من الدین ما وصیٰ بہ نوحاً والذی اوحینا الیک وما وصینا بہ ابراھیم وموسیٰ وعیسیٰ اٴن اقیموا الدین ولاتتفرقوا فیہ” (۵)

(اس نے تمھارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ھے جس کی نصیحت نوح کو کی ھے اور جس کی وحی اے پیغمبر تمھاری طرف بھی کی ھے اور جس کی نصیحت ابراھیم، موسیٰ اور عیسیٰ کو بھی کی ھے کہ دین کو قائم کرو اور تفرقہ نہ کرو)۔

۴۔ تمام انسانوں کا اتحاد:”یا ایھا الناس انا خلقناکم من ذکر و انثیٰ وجعلنا کم شعوباً و قبائل لتعارفوا”(۶)

(اے انسانو! ھم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ھے اور پھر تم میں شاخیں اور قبیلے قرار دئے ہیں تاکہ آپس میں ایک دوسرے کو پھچان سکو)۔

ان آیات کے پیش نظر ھمیں یہ یقین کرنا ھو گا کہ سب سے پھلے مرحلہ میں اتحاد بین المسلمین کا فریضہ ھر مسلمان پر واجب ہے یعنی اتحاد اسی وقت مکمل طور پر نمایاں ھو گا جب امت اسلامیہ کی ایک ایک فرد اس فریضۂ مفروضہ پر عمل پیرا ھو۔ اس لئے کہ اتحاد بین المسلمین کا فریضہ واجب کفائی نھیں ہے جو کسی ایک خاص فرد یاگروہ کے عمل کرنے کے ذریعہ ادا ھو جائے یا دوسروں کی گردن سے اس کا وجوب ساقط ھو جائے، بلکہ اتحاد ایک ایسی حقیقت واحدہ ھے جس کے وجوب کے گھیرے میں ھر ایک فرزند توحید شامل ھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

۱۔ سورۂ آل عمران ۱۰۲،۱۰۳۔

۲۔سورۂ انفال/۳۶۔

۳۔سورۂ انبیاء/ ۹۲۔

۴۔ سورۂ آل عمران /۶۴۔

 ۵۔سورۂ شوریٰ /۱۳ ۔

 ۶۔سور ۂ حجرات/۱۳۔

تبصرے
Loading...