آداب عید سعیدغدیر

آداب عید سعیدغدیر

 

تاریخ اسلام میں دواھم اور بڑے واقعات رونما ھوئے جس کے نتیجے میں ایک سے رسالت اور دوسرے سے امامت وجود میں آئی ۔

پہلاواقعہ وحی کے نزول کا هے جو پیغمبر کی رسالت کو اپنے دامن میں ھی لئے ہوئے ھے، اوردوسرا واقعہ واقعہٴ غدیر هے جس نے امامت کو وجود عطا کیا اور حقیقت میں یہ منصب ایک طرح سے رسالت کا استمرار ھی ھے ۔ روز غدیر اور امامت کی اتنی ھی اھمیت هے جتنی اہمیت روز مبعث و رسالت کی هے ۔

پروردگار عالم قرآن میں اس ارتباط کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا هے:

یاایُّھَاالرَّسوُلُ بَلِّغ مَآاُنزِلَ اِلیک من رَبّکِ وَاِن لم تفعل فما بلغت رسالتہ واللہ یعصمک من الناس ان اللہ لا یھدی القوم الکا فرین (1)

”اے رسول! پہونچادیجئے اس حکم کو جو آپکے رب کی جانب سے آپ پر نازل کیا جا چکا هے اور اگر ایساآپ نے نہ کیا تو گویا کار رسالت ہی انجام نہ دیا او اے رسول اگر آپ ڈرتے ہیں تو خدا لوگوں کے شر سے آپ کی حفاظت بھی فرمائے گا اور اللہ کا فر قوم کی ہدایت نہیں کرتا هے”

اور دوسری آیت جو اسی دن واقعہ غدیر کے بعد نازل ہوئی فرمایا :

الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا(۲(

”آج تمہارے لئے دین کو کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمتیں کامل کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو بعنوان دین پسند کیا ۔“

مرحوم الحاج میرزا جواد ملکی تبریزی فرماتے ہیں :

روز غدیر کو روز مبعث سے وہی نسبت هے جوآخری جز ء کو علت تامہ سے ہوتی هے بلکہ شئی ظاہر کو باطن سے جو نسبت هے وہی نسبت روز غدیر کو روز مبعث سے هے بلکہ بمنزلہ روح انسانی هے کیونکہ روز مبعث میں جو کچھ بھی خیر و خوبی ، کا میا بی ،کامرانی اور سعادت هےوہ امیرالموٴمنی علیہ السلام اورآپ کے بعد دیگر ائمہ علیہ السلام کی ولایت سے مشروط هے )۳(

روز غدیر کی اہمیت کے پیش نظر جو کہ اسلامی عیدوں میں بزرگترین اور مہتم بالشان عید هے اس کے لئے آداب و اعمال اور بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں ، اس مقالے میں آداب غدیر بقدر امکا ن ر وایت کی روشنی میں پیش کئے جائیں گے ۔ ہر چیز سے پہلے چند نکات کی طرف اشارہ کیا جاتا هے ۔

۱۔آج کے دن اعمال اور آداب بکثرت اور فوق العادت ہیں اور کسی دن کے اعمال سے مقایسہ و موازنہ نہیں کیا جاسکتا ۔ اس تحقیقی مقالے میں جہاں تک مقالہ نگار کے بس میں هے چالیس سےزیادہ آداب روز غدیر روایت کی روشنی میں بیان کئے جائیں گے ۔

۲۔ آداب اور اعمال غدیرمیں تمام فرقے اور گروہ ، مورد خطاب ہیں اور ہر گروہ کے لئے چاهے جن افکار و نظریات کا مالک ھو اور کسی بھی سن وسال کا ہو اسکی مناسبت سے آداب موجود ہیں ۔

۳۔ اس روز کے اعمال و آداب ،جامعیت و معنویت گیرائی اور گہرائی میں انسان کی زندگی کےتمام شعبوں(عبادتی ،سیاسی،فقہی) سے مربوط ہیں ۔

ان نکات مذکورہ بالاسے استفادہ ہوتا هےکہ اس مہم تاریخی واقعہ کی بناء رکھنے والا یہ چاھتا هےکہ یہ دن تاریخ میں ہمیشہ زندہ رهے۔ ہم اس مقالے میں آج کے دن کو روایات کے آئینے میں سیا سی، عبادی ، اجتماعی اوراخلاقی عناوین کے تحت دستہ بندی کریں گے اور ان سے مربوط احادیث پیش کریں گے ۔

 

۱۔ نماز

نماز ،روز غدیر کےشب وروز میں نیز نماز مسجد غدیر، روایات میں وارد ہوئی هے جس کے چند نمونے ہم روایات سے پیش کررهے ہیں ۔

الف : نماز شب غدیر : سید ابن طاووس اس مورد میں فرماتے ہیں :

عبادت کی کتابوں میں شب عیدغدیر نماز کا ذکر ملتا هے اور”نماز بہترین موضوع هے” کاعنوان تمام نمازوں کو شامل هے ۔

کیفیت نماز شب غدیر :یہ نماز ۱۲رکعت هےاور یہ نماز ایک سلام سے پڑھنی چاہیے دو آخری رکعت میں سلام پڑھے اور ہر دو رکعت کے درمیا ن بیٹھے ہر رکعت میں ایک بار سورہ الحمد اور دس مرتبہ سورہ توحید اور ایک بار آیة الکرسی اور بارھویں رکعت میں سات بار سورہ الحمد ، سات بار سورہ اخلاص اور اس کے بعد قنوت میں یہ دعا سات مرتبہ پڑھے

لا الہ الا اللہ وحدہ لاشریک لہ لہ الملک ولہ الحمد یحیی ویمیت ویمیت ویحیی وھو حی لا یموت بیدہ الخیر وھو علی ٰ کل شی قدیر

اس کے بعدرکوع اور سجود بجالائے اور سجدے میں سات مرتبہ یہ دعا پڑھے:

”سبحان مَن احصی کل شی علمہ و سبحان من لا ینبغی التسبیح الا لہ سبحان ذی المنّ والنّعم ، سبحان ذی الفضل والطول سبحان ذی العزّة و الکرم اسئلک بمعاقد العز من عرشک ومنتھی الرحمةمن کتابک و بالاسم الاعظم و کلماتہ التامّۃ ان تصلی علی محمدرسو لک و اھل بیتہ الطاہرین وان تفعل بی کذا وکذا انک سمیع مجیب ۔“(۴(

ب:روز غدیر کی نماز: شیخ طوسی نمازروز غدیر کے بارے میں اس طرح نقل کرتے ہیں : حسین ابن حسن حسنی نے فرمایا مجھ سے بیان کیا محمد ابن موسی ہمدانی نے انھوں نے فرمایا مجھ سے بیان کیا علی ابن حسان واسطی نے ، انھوں نے فرمایا مجھ سے بیان کیا علی ابن حسین عبدی نے وہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام صادق علیه السلام کو بیان فرماتے سُنا:

غدیر خم کے دن کا روزہ دنیا کی پوری زندگی کے روزے کے برابر هے وہ اس طرح کہ اگر ایک انسان عمر دنیا کے برابر زندہ رہے اور ہر روزہ روزہ رکھے تو غدیر کے دن روزہ رکھنے والے کا ثواب اللہ کے نزدیک ہر سال سو حج مقبول اور سو عمرہ مقبولہ انجام دینے والے کے ثواب کے برابر ہے اور غدیر کا دن ، اللہ کی سب سے بڑی عید کادن ہے ۔ ۔ ۔

جوروز غدیر دو رکعت نماز بجالائے تو اس کی یہ دو رکعت نمازاللہ کے نزدیک ایک لاکھ حج اور ایک لاکھ عمرہ کے برابر هے …

جو شخص روز عیدغدیرکسی بندہ مومن کو افطار کرائے گویا اس نے گروہ گروہ لوگوں کو افطار کرایا ہے امام علیہ السلام،عید غدیر کے روزہ کی فضیلت بیان کرتے رهے یہاں تک کہ اپنے ہاتھ پر دس تک گنا اس کے بعد فرمایا : کیا تم جانتے ہو کہ فئام کتنا هے ؟ میں نے عرض کیا کہ : نہیں ، فرمایا ہر فئام ایک لاکھ کے برابر هے جس کے ہر فرد نے حرم خدا میں اسی عدد (ایک لاکھ)کے برابر انبیاء شہدا صدیقین کو کھانا کھلایا ہو اور انھیں شدت عطش اور قحط سال کے دنوں میں سیراب کیا ہو ۔ اور روز غدیر ایک درہم صدقہ دینا دس لاکھ درہم کے برابر هے ۔(۵(

ج:نماز مسجد غدیر : عظیم الشان محدث مرحوم کلینی نماز مسجد غدیر کے بارے میں فرماتے ہیں :ہمارے چند اصحاب نے، سہل ابن زیاد سے ، انھوں نے احمد ابن محمد ابن ابی نصر سے انھوں نے ابان سے اور وہ حضرت ابو عید اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا : مسجد غدیر میں نماز مستحب هےکیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بمقام غدیر خم آپ کو امام اور ہا دی نصب فرمایا تھا ، اور غدیر ایسی جگہ هے جہاں پر اللہ نے حق کو ظاہر کیا۔ (۶)

 

۲۔ روزہ:

روز غدیر کے روزہ کے سلسلے میں متعدد روایات وارد ہوئی ہیں جسکے نمونہ پیش کئے جا رهے ہیں . شیخ صدوق فرماتے ہیں : مجھ سے بیان کیا علی ابن احمد ابن موسی نے وہ فرماتے ہیں مجھ سے بیان کیا محمد ابن ابی عبداللہ کوفی نے وہ فرماتے ہیں مجھ سے بیان کیاحسین بن عبیداللہ اشعری نے ، وہ فرماتے ہیں مجھ سے بیان کیا محمد بن عیسی بن عبید نے ان سے بیان کیا قاسم بن یحیٰ نے ان سے بیان کیا انکے جدحسن بن راشدنے ان سے بیان کیا مفضل بن عمر نے وہ فرماتے ہیں میں نے صادق آل محمد علیہ السلام سے دریافت کیا: مسلمانوں کی کتنی عیدین ہیں ؟ فرمایا چار راوی کہتا هے میں نے کہا عیدین اور جمعہ کو میں جانتا ہوں یہ چوتھی کون سی عید هے؟ ارشاد فرمایا :عظیم ترین اوربہترین عید اٹھارہ ذی الحجہ کی عیدهے یہ وہی دن هے جس دن رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیر المومنین علیہ السلام کو اپنے ہاتھوں پر بلند کیا تھا اور لوگوں کے لئے ہادی اور رہبر نصب کیا تھا ۔ راوی کہتا هے میں نے دریافت کیااس دن ہم پر کیا واجب هے؟فرمایا اس دن تم پر شکر الٰھی بجالانے کے طور پر روزہ رکھنا واجب هے اس لئے کہ وہ ہر ساعت اور ہر لمحہ مستحق شکر هے ۔ اور اسی طرح انبیا ء نے اپنے جانشینوں کو حکم دیا کہ اپنے و صایت اور امامت کے دن روزہ رکھیں اور اسے عید کا دن قرار دیں ، اور اس دن کا روزہ ساٹھ سال کے عمل سے بہتر هے ۔(۷(

مرحوم کلینی بھی اس دن کے روزہ اور دوسرے اعمال کے سلسلے میں اس طرح نقل کرتے ہیں :

علی ابن ابراہیم سے ا نھوں نے اپنے والد سے انھوں نے قاسم بن یحیٰ سے انھوں نے اپنے جدحسن بن راشد سے انھوں نے صادق آل محمدعلیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ میں نے پوچھا : قربان جاوٴں عیدین کے علاوہ بھی مسلمانوں کے لئے کوئی عید هے ؟ فرمایا : ہاں اے حسن :ان دونوں عیدوں سے افضل و اشرف ایک اور عید هے . میں نے دریافت کیا : مولا وہ کو ن سادن هے ؟ فرمایا : وہ وہ دن هے جس دن امیرالمومنین صلوات اللہ وسلامہ علیہ لوگوں کے لئے امام اور ہادی نصب ہوئے تھے ۔ میں نے استفسار کیا : اس دن کیا کرنا ہم لوگوں کے لئے مناسب اور سزاوار هے ؟ فرمایا : اے حسن! اس دن روزہ رکھو ، اور کثرت سے محمد و آل محمد علیھم السلام پر درود بھیجو اور ان کے ظالموں سے تبرا کرو کیونکہ انبیاء علیہم السلام اپنے جانشینوں کو حکم دیا کرتے تھے کہ جس دن ان کو وصی مقرر کیا گیا هے اس دن کو عید کا دن قرار دیں ۔ راوی کہتا هے : میں نے پوچھا : اس دن روزہ رکھنے والے کے لئے کیا ثواب هے ؟ فرمایا : ساٹھ مہینہ میں نے کے روزے کاثواب هے اور ستائیس رجب کا روزہ بھی ترک نہ کرو کیونکہ یہ وہ دن هے جس دن محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مبعوث بہ رسالت ہوئے تھے اور اس دن کے روزے کا بھی ثواب ساٹھ مہینے کے روزہ کے برابر هے ۔(۸(

حدیث کے آخر میں روزہ روز غدیر کے بعد روز مبعث کی طرف اشارہ ہوا هےاور دونوں دنوں کے روزہ کاثواب ساٹھ مہینے کے روزے کے برابر جانا گیا هے اس سے دونوں دنوں کے حقیقی ارتباط اور اہمیت کا اندازہ ہوتا هے ۔

۳۔ شب اور روز غدیر کی دعا :

رہبر ان اسلام سے مختلف دعائیں اس عید کے شب و روز میں نقل ہوئی ہیں جنکے نقل کی اس مقالہ میں گنجائش نہیں هے محدثین کی کثیر تعداد نے ان دعاوٴں کو نقل کیا هےمنجملہ سید بن طاووس ، علامہ مجلسی اور محدث قمی وغیرہ جنکی کتابوں کی طرف رجوع کیا جاسکتا هے ۔(۹(

۴۔ خدا اور پیغمبر کی یاد :

غدیر کے آداب میں تاکید کی گئی هےکہ اتنی بڑی عید کے موقع پر روزہ اور نماز کے ذریعے خدااور محمد وآل محمد علیھم السلام کی یاد میں رہنا چاہئیے ۔ اس مورد میں بھی بزرگ شیعہ محدث مرحوم کلینی سے ایک حدیث نقل کررهے ہیں ۔

سہل بن زیاد نے عبد الرحمن ابن سالم سے انھوں نے اپنے والد سے انھوں نے فرمایا : میں نے ابو عبد اللہ امام صاد ق علیه السلام سے در یافت کیا کہ: مسلمانوں کے لیے جمعہ ،عید الاضحی اور عید الفطر کے علاوہ بھی کوئی عید هے ؟فرمایا : ہاں کیوں نہیں ایک عید هےجو حرمت میں سب سے زیادہ عظیم هےمیں نے پوچھا .قربان جاوٴں وہ کونسی عید هے ؟ فرمایا : وہ دن جس دن رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین کو نصب کیا تھا اور فرمایا تھا:” من کنت مولاہ فہٰذا علیّ مولاہ“ جس کا جس کا میں مولا ہوں اس کے اس کے یہ علی مولا ہیں : میں نے پوچھا : وہ کون سا دن هے ؟ فرمایا : تمہیں دن سے کیا لینا دینا ہے سال تو گردش کرتا رہتا هے رہی یہ بات کہ کون سا دن هے تو وہ دن اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا . میں نے پوچھا : ہمیں اس دن کیا کرنا چاہیے ؟ فرمایا روزہ اور عبادت کے ذریعہ یاد خدامیں رہو اور محمد اور آل محمد علیھم السلام کا ذکر کرتے رہو(۱۰(

۵۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود اور صلوات :

مرحوم شیخ حر عاملی ،محمد بن علی بن حسین سے اس طرح نقل کرتے ہیں :

صفار سے ، وہ محمد بن عیسیٰ سے ، وہ علی بن سلمان بن یوسف ہزار سے وہ قاسم بن یحیٰ سے وہ اپنے جد بزرگوار حسن بن راشد سے نقل کرتے ہیں کہ : ابو عبد اللہ امام جعفر صادق علیہ السلام سےدریافت کیا گیا: کیا جمعہ او رعیدین کے علاوہ بھی مومنین کے لئے کوئی عید هے ؟راوی کہتا هے ،امام نے فرمایا : ہاں مومنین کے لئے ان عیدوں سے عظیم ترعیدهے ،جس دن امیرالمومنین علیه السلام بعنوان ہادی نصب کئے گئے اور غدیر خم میں آپ کے سر پہ تاج ولایت رکھا گیا اور عورتوں اور مردوں سے آپ کی بیعت لی گئی ، میں نے دریافت کیا : وہ کون سا دن تھا ؟فرمایا : دن بدلتے رہتے ہیں پھر فرمایا :وہ اٹھارہ ذی الحجہ کا دن تھا ۔ پھراس کے بعد فرمایا : اس دن کا عمل اسّی مہینے کے برابر هے ،اور سزاوار هے کہ اس دن اللہ کا زیادہ سے زیادہ ذکر کیا جائے محمد وآل محمد علیہم السلام پر کثرت سے درود بھیجا جائے اور آدمی کو اپنے اہل وعیال کے سلسلے میںوسعت اور فراخدلی کا مظاہرہ کرنا چاہئے(۱۱(

امام رضا علیہ السلام روز غدیر کی فضیلت بیان کرنے کے ضمن میں فرماتے ہیں :

غدیر کا دن محمد و آل محمد علیہم السلام پر کثرت سے درود بھیجنے کا دن هے ۔(۱۲(

۶۔ غسل:

امام صادق علیہ السلام سے اس حدیث کے ضمن میں جس کے ایک حصہ کو نما ز کے سلسلے میں نقل کر چکے ہیں اس طرح نقل ہوا هے ۔

“زوال آفتاب کے وقت غسل کرنا مستحب هے ،اور زوال آفتاب سے آدھا گھنٹہ پہلے اللہ سے دعا کی جائے گی ۔(۱۳(

۷۔ پروردگار عالم کی حمد و ستائش اور اس کا شکر ادا کرنا :

علامہ مجلسی نے اس طرح نقل کیا هے:

بعض افاضل کی تحریر مجھے ملی جس میں شہید محمد بن مکی کی تحریر کا حوالہ تھاْفرمایا : پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی هےمستحب هےکہ مؤمن، غدیر کے دن سو مرتبہ یہ دعا پڑھے :

”الحمد لّٰلہ الذی جعل کمال دینہ وتمام نعمتہ بولایة امیرالمومنین علی بن ابی طالب(۱۴(

دوسری حدیث میں آیا هے :

غدیر کا دن خدا کی عبادت اس کی حمد و ستائش اور شکر کا دن هے ۔ (۱۵(

۸۔ زیارت امیرالمومنین علیہ السلام:

امام علی رضا علیہ السلام نے احمد بن محمد بن نصر بز نطی سے فرمایا : اےفرزند ابو نصر!جہاں کہیں بھی رہو غدیر کے دن امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کرو کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہر مؤمن و مومنہ اور ہر مسلم و مسلمة کے ساٹھ سال کے گنا ہوں کو بخش دیتا هے اور جتنے لوگوں کو ماہ رمضان ، شبہای قدر اور شب عید الفطر آتش جہنم سے آزاد کرتا هے اس کے دو گنا اس دن لوگوں کو آتش جہنم سے آزاد کرتا هے ۔(۱۶(

مرحوم محدث قمی بیان فرماتے ہیں:

تیسرا عمل غدیر کے دن حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت هے ،سزاوار هےکہ انسان جہاں کہیں بھی ہو خود کو آنحضرت علیہ السلام کی قبر مطہر تک پہونچائے اور ان جناب علیہ السلام کے لئے اس دن تین مخصوص زیارتیں نقل ہوئی ہیں جن میں سے ایک زیارت امین اللہ هےجو نزدیک اور دور سے پڑھی جاسکتی هے ۔(۱۷(

۹۔تعویذ:

سید ابن طاوٴوس نے ایک فصل اس عنوان سے مخصوص کی هے اور اس فصل میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعویذ بیان فرمائی هے : ہم ان کی عبارت کا ترجمہ نقل کررهے ہیں۔

فصل: اس فصل میں ہم اس تعویذ کا ذکر کر رهے ہیں جو پیغمبر نے غدیر خم میں بنائی تھی لہٰذا اس دن کے مذکورہ اعمال شروع کرنے سے پہلے تم بھی یہ تعویذ اپنے لئے بناوٴ تاکہ موانع و مشکلات سے بچاوٴ ہو سکے اور وہ تعویذ یہ هے ۔

بسم اللہ الرحمن الرحیم خیرالاسماء ، بسم اللہ رب الآخرة والاولیٰ و رب الارض والسماء الذی لایضر مع اسمہ کید الاعدا ء وبہا تدفع کل الاسواء۔“ (۱۸(

۱۰۔عبادت :

امام علی رضاعلیہ السلام ایک مفصل حدیث کے ضمن میں جوکہ اس دن کی فضیلت اور آداب کے بارے میں هے فرماتے ہیں :

اور یہ وہ دن هے جس دن خدا اپنے بندے کے مال میں اضافہ فرماتا هے … اور عبادت کا دن هے … (۱۹(

اجتماعی اور اخلاقی آداب

۱۔ جشن برپا کرنا اور عید منانا :

بہت ساری روایتوں میں غدیر کو روز عید بلکہ بہترین اسلامی عید کے عنوان سے جانا اور پہچانا گیا هے اور شائستہ هےکہ لوگ اس دن کو عید منائیں اور محفلیں منعقد کریں

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا : غدیر اللہ کی سب سے بڑی عیدهے ، پروردگار عالم نے کسی بھی نبی کومنصب نبوت ورسالت نہیں دیا مگر یہ کہ اس نے اس دن کو عید مناءی اور اس کی حرمت کا پاس و لحاظ رکھا ۔(۲۰(

اور رسول خدا نے فرمایا : روز غدیر خم میری امت کی افضل ترین عید هے اور یہ وہ دن هے جس دن خدا نے مجھے حکم دیا کہ میں اپنے بھائی علی کو اپنی امت کے لئے امام اور ہادی بناوٴں ۔(۲۱(

۲۔ تبریک و تہنیت :

روایات میں تین طرح کی تبریک کی طرف اشارہ ہوا هے :

الف ۔ روز غدیر خم امیر المومنین علیہ السلام کو مبارک باد دینا

علامہ امینی فرماتے ہیں :

مورخ غیاث الدین متوفی ۹۴۲ ( حبیب السیر ) میں کہتےهیں: پھر امیر المومنین علیہ السلام ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حکم سے ایک ایسے خیمے میں جو آپ سے مخصوص تھا بیٹھے لوگ آآکر آپ کو تہنیت اور مبارک باد پیش کرتے تھے انھیں لوگوں میں عمر بن خطاب بھی تھے جنھوں نے ان الفاظ میں مبارک باد پیش کی”بخٍ بخٍ لکَ یا بن ابی طالبٍ ، اصبحتَ مولایَ و مولی کل مومنٍ و مومنۃٍ “ مبارک ہو مبارک ہو اے ابوطالب علیه السلام کے فرزند آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کےمولاہوگئے ، پھر پیغمبر نے امہات المومنین کو حکم دیا کہ وہ جائیں اور امیر المومنین کو مبارک باد پیش کریں ۔(۲۲(

ب:پیغمبر اکرم (ص)کو مبارکباد

علامہ امینی س مورد میں فرماتے ہیں :

حافظ ابو سعید خر کوشی نیشاپوری متوفی ۴۰۷ ہجری اپنی تالیف ( شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) میں براء ابن عاذب سے احمد بن حنبل کے الفاظ میں روایت کرتے ہیں اور دوسرے سلسلۂ سند میں ابو سعید خدری سے ان الفاظ میں روایت کرتے ہیں پھر نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مجھے مبارک باد دو مجھے مبارک باد دو پروردگار عالم نے مجھے منصب نبوت و رسالت سے سر فراز کیا اور میرے اہلبیت علیہ السلام کو امامت سے سرفراز کیا ، پھر عمر ابن خطاب امیرالمومنین علیه السلام سے ملے اور فرمایا: ”طوبیٰ لک یا ابالحسن اصبحت مولای ومولی کل مومن ومومنہ ۔“ اے ابوالحسن !مبارک اور گورا ہو آپ میرے اور ہر مومن ومومنہ کے مولا و آقاہوگئے ۔(۲۳(

ج ۔ ایک دوسرے کو مبارک باد دینا

امیرالمومنین علیہ السلام نے خطبہٴ غدیر کے ضمن میں جس کی طرف پہلے بھی اشارہ کیاجاچکا هے فرمایا :

نعمت خداکی ایک دوسرے کو تبریک پیش کرو جس طرح خدانے اگلی اور پچھلی عیدوں کے مقابلے میں کئی گنا ثواب کی تمہیں تہنیت و تبریک پیش کی۔(۲۴(

امام ہشتم علیہ السلام نے فرمایا :

یہ روز تہنیت هےایک دوسرے کو مبارک باد پیش کرو اور جب مومن اپنے مومن بھائی سے ملاقات کرے تو اس سے یہ کہناچاہئے ” الحمد لّلہ الذی جلعنا من المتمسکین بولایة امیر المومنین والائمة علیہم السلام۔“(۲۵(

۳۔ ایک دوسرے کے دیداراور ملاقات کو جانا :

شیخ طوسی فرماتے ہیں :

زیاد ابن محمد سے روایت هے : میں ابو عبد اللہ امام جعفر صادق علیہم السلام کی خدمت بابرکت میں پہونچا اور استفسار کیا ؛ کیا مسلمانوں کے لئے جمعہ ، عید الضحیٰ اور عید الفطر کے علاوہ بھی کوئی عید هے ؟ فرمایا : ہاں وہ دن جس دن رسول اللہ نے مؤمنین کا امیر مقرر کیا ہے ۔میں نے پو چھا: اے فرزند رسول! وہ کون سا دن هے ؟ فرمایا : تم وہ دن معلوم کرکے کیا کرو گے ؟ ایام تو گردش کرتے رہتے ہیں لیکن وہ ذی الحجہ کی اٹھارہویں تاریخ تھی تمہارے لئے سزاوار هے کہ نیکی و روزہ نماز اور صلہ رحم کے ذریعے خدا کا تقرب حاصل کرو کیونکہ انبیاء علیہم السلام جب اپنا جانشین معین کرتے تھے توان باتوں کا حکم دیتے تھے اور خود بھی ان باتوں کو عملی کرتے تھے ۔(۲۶(

امام علی بن موسی ٰ الرضا علیہ السلام نےفضیلت حدیثِ غدیر کے ضمن میں فرمایا :جو اس دن کسی بندہ مومن کی زیارت کرے پرور دگار عالم اس کی قبر میں ستر نور داخل کرے گا اور اسکی قبر کشادہ کردی جائے گی اور اس کی قبر مطاف ملائکہ ہوگی ہر روز ستر ہزار فرشتے اس کے قبر کی زیارت کریں گے اور اس کو جنت کی بشارت دیں گے ۔(۲۷(

۴۔ افطار کرانا :

امیرالمومنین علیہ السلام نے اس کے بارے میں ارشاد فرمایا : جو کسی مومن کو غدیر کی شب افطار کرائے گویا اس نےفءام فءام مومنوں کو افطار کرایا اسی طرح آپ نے فءام فءام کہتے ہوءے انگلیوں پر دس تک شمار کیا ، ایک شخص اٹھا اور سوال کیا اے امیر المومنین! فئام کیا هے ؟ فرمایا : ایک لاکھ انبیاء ، صدیق اور شہداء۔(۲۸(

اس حدیث کے مشابہ نماز روز غدیر کے ضمن میں ایک اور حدیث گزر چکی هے اوراسی طرح “ احادیث آداب سیاسی کے ضمن میں ہم نے دیکھا کہ امام ہشتم نے اپنے چند خاص لوگوں کو جو غدیر کے دن آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوئے تھے افطار کے لئے اپنے گھر میں روکا اور ان لوگوں کو افطار کرایا اور ان کے گھروں میں بھی غذااور لباس وغیرہ بھجوایا ۔

۵ صدقہ دینا :

آداب روز غدیر میں ایک چیز فقراء کو صدقہ دینا هے . امام ششم نے سابق حدیث میں فرمایا : آج کے دن ایک دس لاکھ درہم کے برابر هے ۔(۲۹(

امیر المومنین علیه السلام نے خطبہٴ غدیر کے ضمن میں فرمایا:

تنگدستوں کے ساتھ بقدر استطاعت اور بقدر امکان اشیاء خورد ونوش میں مواسات کرو کیونکہ روز غدیر ایک درہم راہ خدا میں انفاق کرنا ایک لاکھ درہم کے برابر هے اور خداکی طرف سے اور بھی اضافہ ہوسکتا هے ۔(۳۰(

۶۔عید غدیر کے دن شائستہ اعمال انجام دینا :

احادیث میں متعدد آداب و اعمال جو اخلاقی اور اجتماعی پہلو رکھتے ہیں نیز ایام عیداور جشن سے مناسبت بھی رکھتے ہیں بیان ہوئے ہیں ان کی طرف فقط اشارہ کیا جاتا ہے ۔اس کے بعد چند روایات بطور نمونہ پیش کی جائیں گی ، وہ اعمال و آداب درج ذیل ہیں:

)۱(ہدیہ دینا،(۲)زینت کرنا ،(۳) خوشی کرنا ،(۴) دوسروں کو شاد و خرم کرنا (۵)نئے اور پاکیزہ کپڑے پہننا(۶)مہمان بلانا (۷)عفو و در گزر کرنا (۸) دوسروں کے مسائل حل کرنا ، (۹)دوسروں کے ساتھ نیکی کرنا (۱۰)اپنے قرب و جوار کے گھروں میں غذا بھجوانا (۱۱) اپنے خا نوادہ اور بھا ئیوں کی زندگی میں وسعت اور فراخی دینا یعنی ان کی زندگی کو خوشحال بنانا(۱۲) خوش خبری دینا (۱۳) استراحت کرنا (۱۴) قرض دینا (۱۵) دوستی کرنا (۱۶) گناہوں سے بچنا (۱۷) عقد مواخا ت پڑھنا (۱۸) مصافحہ کرنا (۱۹) صلہ رحم (۲۰) عمل صالح انجام دینا )۲۱(اور دوسروں کے ساتھ عطوفت اور مہر بانی سے پیش آنا ۔

شیخ طوسی فرماتے ہیں :

داوٴد ابن کثیر رقی نے ابو ھارون عمار ابن حریز عبدی سے روایت کی ھےراوی کہتا هےمیں امام صادق علیہ السلام کی خدمت میں ۱۸ ذی الحجہ کو شر فیا ب ہوا آپ روزہ تھے ، مجھ سے فرمایا : یہ بہت عظیم دن هے آج کے دن کی حرمت خدا نے مومنین پر عظیم کی ہے اور ان کے لئے آ ج کے دن دین کو کامل کیا اور ان پر نعمتیں مکمل کیں، اور جو عہد و میثاق روز الست ان سے کیا تھا اس کی تجدید کی ہے ، آپ سے پوچھا گیا:آج کے دن کے روزہ کا ثواب کیا هے ؟فرمایا : آج کا دن عید کا دن هے مسرت و شادمانی کا دن هے ور خدا کے شکرانہ کے طور پر روزہ کادن هے آج کے دن کا روزہ ساٹھ مہینے کے روزے کے برابر هے وہ بھی اشہر حرم میں یعنی حرمت والے مہینوں میں جسمیں جدال و قتال حرام هے ۔(۳۱(

نیز شیخ طوسی نے خطبہٴ امیر المومنین میں نقل کیا هے کہ امام علیه السلام نے فرمایا :

اجتماع ختم ہونے کے بعد اپنے اہل و عیال کی فراخی کا سامان بہم پہونچاوٴ اور ان کی رسیدگی کرو ، اور اپنے بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ نیکی کا برتاوٴ کرو ، اور عطیہٴ خدا وندی پر اس کا شکر بجالاوٴ ، اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرو خدا تمہاری شیرازہ بندی کرے اور تمہیں متحد کرے ، ایک دوسرے کے ساتھ بھلائی اور نیکی کا برتاوٴ کرو خدا تمہارے اندر الفت و محبت پیدا کرے ، اور مسلسل خدا کی نعمتوں کا شکر ادا کرتے رہو جس طریقے سے اس نے عید غدیر کے قبل و بعد مکرر عیدیں رکھکر تمہارے لئے اجر و ثواب کی راہ ہموار کی ہے ، غدیر کے دن کسی کے ساتھ بھلائی اور نیکی کرنا مال میں اضافہ کاباعث هے اور عمر میں بھی اضافہ ہوتاهے ، غدیر کے دن دوسروں کے ساتھ عطوفت اور مہر بانی کرنا رحم و لطف پروردگار کا متقاضی هے ۔

اور اپنے دوستوں اور عیال کے ساتھ خدا کے فضل کرم سےجتنا جو دو عطا اور سخاوت کا مظاہرہ کر سکتے ہو کرو ، اپنے درمیا ن مسرت و شادمانی کا اظہار کرو اور ملاقات میں خوشی ظاہر کرو ، اور عطیات الہی پر اس کی حمد و ثناء کرو ۔اور جوتم سے امید و آس لگائے بیٹھے ہیں ان کے ساتھ مزید احسان اور بھلائی کرو اور ان پر اپنے جو دو سخاکی بارش کرو اور جو معاشی اعتیا ر سے کمزور ہیں اپنی اشیاء خورد و نوش میں ان کے ساتھ مواسات کرو اور جتنا کر سکتے ہو بقدر امکا ن اپنی چیزوں میں کمزوروں کو بھی شریک کرو کیونکہ غدیر کے دن ایک درہم انفاق کرنا ایک لاکھ درہم انفاق کرنے کے برابر هے اور اس سے زیادہ بھی خدا اپنے فضل و کرم سے دے سکتا هے ، اور اس دن کے روزہ کی بہت زیادہ فضیلت هےخدا نے اس دن روزہ رکھنے کاحکم دیا هے اور اس کے بدلے میں بہت بڑی جزاء قرار دی هے ۔

ہاں تک کہ اگر کوئی بندہ ابتداء دنیا سے لیکر اختتام تک صائم النہار اور قائم اللیل ہو اور اپنے روزہ میں مخلص بھی ہوتو اس کے لئے دنیا کے ایام نا کا فی ہونگے یعنی غدیرکے دن روزہ رکھنے کا اتنا ثواب هے کہ اگر کوئی شخص آغا ز دنیا سے لیکر اختتام تک اپنے کو خدا کی عبادت میں لگائے تو بھی اس کے اجر و ثواب کا مقابلہ نہیں ہو سکتا هے ۔

جو شخص اپنے بھا ئی کی ابتداء ًحاجت روائی کرے (بغیر مانگے پوری کرے )اور برضا و رغبت اس کے ساتھ نیکی کرے تو اس کا اجر و ثواب اس شخص کے مانند هے جو اس دن روزہ رکھے اور رات عبادت میں بسر کرے ۔ اور جوغدیرکی شب کسی بندہ مومن کو افطار کرائے گویا اس نے فئام فئام لوگوں کو افطار کرایا اور اسی طرح اپنے ہاتھ سے د س تک فئام فئام گنتے رہے ، اتنا سننا تھا کہ ایک شخص کھڑا ہو ااور کہا :اے امیرالمومنین! فئام کیا چیز هے ؟ فرمایا ایک لاکھ نبی ، صدیق اور شہیدجو شخص کچھ مومن اور مومنات کی کفالت کرے ہم ضمانت لیتے ہیں کہ وہ کفر اور فقر سے محفوظ رهے گا اور اگر شب غدیر یا روز غدیر بغیر گناہ کبیرہ کئے ہوئے مرجائے تو اس کا اجر خدا پر هے ۔

اور جو شخص اپنے بھا ئیوں کی رہنمائی کرے اور ان کی مدد کرے میں ضمانت لیتاہوں کہ خدا اس کی حاجت پوری کرے گا اور اگر مر گیا تو نیکی اپنے ساتھ لیکر جائے گااور اس کی مکمل کفالت کی جائے گی اور جب آپس میں ایک دوسرے سے ملو تو سلام کرنے کے ساتھ ساتھ مصافحہ کرو اور اس دن خدا کی نعمتوں کا شکریہ ادا کرو اور یہ بات جوحاضر ھےغیر حاضر تک پہو نچائے اور شاھد ، غیر شاھد تک پہونچائے اور غنی فقیر کے ساتھ اور قوی ضعیف کے ساتھ نیکی کرے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اس بات کا حکم دیا هے ۔

سید ابن طاوس اہمیت اور فضیلت غدیر کے بارے میں مفصل حدیث کے ضمن میں امام رضا علیه السلام سے اس طرح نقل کرتے ہیں غدیر کرب و آلام سے چھٹکارے کا دن هے ، غدیر گناہوں سے پاک ہونے کا دن هے غدیر عطیہ و بخشش کا دن هے ، نشر علم کا دن هے ، بشارت و خو شخبری اور عید اکبر کا دن هے ، قبولیت دعا کا دن هے ۔ عظیم موقف کا دن هے ،نئے کپڑے پہننے کا دن هے۔ سیاہ کپڑے اتارنے کا دن هے ، شرط و مشروط کا دن هے غم و آلام کی نفی کادن هے ، گنہگارانِ شیعہ امیر المومنین سے عفو ودر گزر کا دن هے ،(نیکیا ں کرنے میں ) سبقت کا دن هے ، کثرت سے محمد وآل محمد پر درود بھیجنے کا دن هے ، رضا و خوشنودی کا دن هے ،اہل بیت محمد کی عید کا دن هے ، اعمال کی قبولیت کا دن هے ، رزق و روزی کے اضافہ کادن هے ، مومنین کی استراحت کا دن هے ۔تجارت کا دن هے ، محبت والفت کادن هے ، رحمت خداوندی تک پہو نچنے کادن هے تزکیہ کادن هے ، کبیرہ و صغیرہ گناہوں کے ترک کرنے کا دن هے ، عبادت کا دن هے ، روزہ داروں کو افطار کرانے کا دن هے یہاں تک کہ فرمایا:اہل ایمان کے سامنے ہنسنے مسکرانے کا دن هے جواپنے مومن بھائی کے سامنے غدیر کے دن مسکرائے خدا اس پر قیامت کے دن رحمت کی نظر کرے گا اور اس کی ہزار حاجتیں پوری کرے گا اور اس کے لئے جنت میں سفید موتیوں کاقصر بنائے گا۔

جو شخص غدیر کے دن زینت کرے پروردگار عالم اس کے ہر گنا ہ معاف کر دیگا خواہ صغیرہ ہویا کبیرہ اور اس کی طرف اپنے فرشتے بھیجے گا جو اس کے لئے نیکیاں لکھیں گے او ر دوسرےسال وہ دن آنے تک اس کے درجات کو بلند فرمائیں گے ۔(۳۲(

۱۔ ظالم سے تبر اکرنا :

اس حدیث میں جس کو مرحوم کلینی اور دوسروں نے روز غدیر کے روزہ کے سلسلے میں امام صادق علیہ السلام سے نقل کیا هے اس طرح آیا هے ۔

“اے حسن! غدیر کے دن روزہ رکھو اور محمد وآل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر کثرت کے ساتھ درود بھیجو اور محمد و آل محمد کے ظالموں سے تبرا کرو (یعنی اظہار بیزاری کرو) ۔ (۳۳(

۲۔ رهبرکی زیارت اور بیعت

مرحوم شیخ حر عا ملی مختلف اسناد کے ساتھ اس طرح نقل کرتے ہیں

محمد ابن لیث مکی سے وہ ابو اسحاق ابن عبداللہ علوی عریض سے نقل کرتے ہیں کہ: میرے دل میں یہ بات آئی کہ وہ ایام کون سے ہیں جن میں روزہ رکھا جائے ، لہٰذا میں نے امام ابوالحسن علی ابن محمد کی خدمت بابرکت میں شرفیاب ہونے کاقصد کیا اور یہ بات میں نے خلق خدا میں سے کسی پر ظاہر نہیں کی ، میں امام کی خدمت میں پہونچااور جب آپکی نظر مجھ پر پڑی تو فرمایا :

اے ابواسحا ق! تم اس لئے آئے ہوکہ ان ایام کے متعلق دریافت کرو جن میں روزہ رکھا جاتا هے ۔

تو سنو وہ ایام چار ہیں ( یہاں تک کہ فرمایا ) اور روز غدیر جس میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بھائی علی علیہ السلام کو اپنے بعد ہادی اور امام مقرر کیا تھا،میں نےکہا: آپ نے سچ فرمایا ،میں اسی لئے آپ کے پاس آیا تھامیں گواھی دیتا ہوں کہ آپ مخلوقات پر اللہ کی حجت ہیں ۔(۳۴(

دوسری حدیث میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس طرح آیا هے :

یہ بہت عظیم دن هے اس کی حرمت کوخدانے مومنین پر عظیم قرار دیا هے اور ان کے لئے آج کے دن دین کو کامل کیا اور نعمتیں کامل کیں اور وہ عہد ومیثاق جو روز الست لیا تھا اس کی تجدید کی هے ۔(۳۵(

اور روایت میں یہ بھی آیا هے :

آسمان میں اس کا نام عہدو معہود کادن هے اور زمین میں اس کانام لئے گئے میثاق کا دن ہے (۳۶(

غدیر سے مربوط احادیث کو ملاحظہ کرنے سے روشن ہوتا هےکہ رہبر اور پیشوائے مسلمین کے دیدار کا برنامہ اور اسکی بیعت ائمہ کے زمانے سے اور بالخصوص امام علی ابن موسیٰ الرضا علیہ السلام کے زمانے سے مرسوم تھی . اور لوگ اطراف و اکتاف عالم سے اس کے دیدار اور تجدید عہد کے لئے خودکو ان کےحضور پہونچاتے تھے ۔

شیخ طوسی ایک حدیث میں جواسی موضوع سے متعلق هے اس طرح فرماتے ہیں : ہمیں خبر دی ایک جماعت نے ابو محمد ھارون ابن موسی تلعبکری سے فرمایا :

ہم سے بیان کیا ابوالحسن علی بن محمد خراسانی حاجب نے ماہ رمضان ۳۳۷ ہجری میں ، فرمایا : ہم سے بیان کیا سعید بن ھارون ابو عمر و مروزی نے جب اکیاسی سال کے تھے فرمایا:

ہم سے بیان کیا فیاض بن محمد بن عمر طوسی نے طوس میں ۲۵۹ہجری میں جب وہ نوے ”۹۰“ سال کے تھے ۔ کہ ابوالحسن علی بن موسی الرضا علیہ السلام کے محضر میں غدیر کے دن شرفیاب ہوئے آپ کے محضر میں آپ کے خصوصی لوگوں کی ایک جماعت تھی جن کو آپ نے افطار کے لئے روک رکھا تھا ، اور ان کے گھر وں ،یں کھانا گندم اور ھدیے لباس بھیجے یہاں تک کہ نعلین اور انگشتریاں بھیجیں اور اس طرح آپ نے حاشیہ نشینوں کے حالات بدل دئے اور وہ اسباب و و سا ئل جو کہنہ ہو چکے تھے نئے اسباب و سا ئل فراہم کئے اور اس سے اس دن کی انتھا ئی اھمیت کا اندازہ ہاتا ہے

امیرالمومنین علیہ السلام نے غدیر کے دن ایک خطبہ میں جو روز جمعہ سے مصادف تھا اس طرح فرمایا : و اجمعو ا یجمع اللہ شملکم( ۳۷(

اتحاد و اتفاق کا مظاھرہ کرو خدا تمھاری شیرا زہ بندی کرے اور تمھیں متحد کرے

امام صادق علیہ السلام بھی غدیر کی فضیلت بیان کرتے وقت فرماتے ہیں :

اس کانام آسمان میں عہد و معہود کے دن سے عبارت هے اور زمین میں میثاق ماخوذاور جمع مشہود سے عبارت هے ۔

( ۳۸(

…………………………

1 ) مائدہ ، ۶۷۔

۲) مائدہ ، ۳۔

۳) المراقبات،ص۳۷۔

۴) اقبال الاعمال ،ص ۷۶۱۔

۵) تہذیب الاحکام ، ج۳، ص۱۴۳۔بحار الا نوار ،ج۹۸، ص۳۲۱، ح۶۔

۶) اصول کافی،ج ۴، ص۵۶۷۔

۷) کتاب الخصال ،ج۱، ص۲۶۴، ح۱۴۵؛مصباح المتہجد، ص۷۳۶۔(بطور اختصار)

۸) اصول کافی، ج۴، ص۱۴۸ ؛مصباح المتجہد، ص۷۶۳؛ وسائل الشیعہ ،ج۷، ص۳۲۳،ح۲۔بحارالا نوار ، ج ۹۸، ص ۳۲۲

۹) اقبال الاعمال،۷۹۷اور۷۶۱؛بحار الانوار،ج۹۸، ص۳۰۸، کے بعد مفاتیح الجنان ،اعمال رزو غدیر۔

۱۰)اصول کافی ،ج۴، ص۱۴۹، ح۳۔

۱۱) وساءل الشیعہ ، ج۷ ، ص۳۲۵ ، ح ۶۔

۱۲)اقبال الاعمال ، صفحہ ۷۷۸

۱۳)تہذیب الاحکام ، ج ۳ ص ۱۴۳ بحارالا نوار ج ۹۸ ص ۳۲۱ ، ج ۶

۱۴)بحا رالا نوار ، ج ۹۸ ص ۳۲۱ ، ح ۵ ۔

۱۵) وسائل الشیعہ ج ۷ ص ۳۲۸ ، ح ۱۳۔

۱۶)اقبال الاعمال ، ص ۷۴۸۔

۱۷) مفاتیح الجنان ص۷۸۸۔

۱۸) اقبال الاعمال ص ۷۸۸۔

۱۹) اقبال الاعمال ص ۷۸۸۔

۲۰) تہذیب الاحکام ، ج ۳ ، ص ۱۴۳۔

۲۱) امالی صدوق ، ص ۱۲ ، ج ۸۔

۲۲)الغدیر ج ۱، ص ۲۷۱۔

۲۳) الغدیر ج ۱،ص ۲۷۴۔( کتاب شرف المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) شرف النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام سے فارسی میں ترجمہ ہوکر چھپ چکی هے ۔

۲۴) اقبا ل الاعمال ، ص ۷۷۶ ، مصباح المتہجد ، ص ۷۵۷ ، بحار الا نوار ، ج ۹۷ ص ۱۱۷۔

۲۵) اقبال الاعمال ، ص۷۷۸۔

۲۶) مصباح المتہجد ص ۷۳۶۔

۲۷) اقبال الاعمال ص ۷۷۸۔

۲۸) مصباح المتھجد ص ۷۵۷۔

۲۹) تھذیب الا حکام ، ج ۳ ، ص ۱۴۴

۳۰) مصباح المتھجد ص ۷۵۷۔

۳۱) مصباح المتھجد ص ۷۵۷۔

۳۲) اقبال الاعمال ، ص۷۷۸ ۔

۳۳) الکافی ج۴، ص۱۴۸( پاورق نمبر ۱۳ کی طرف رجوع کریں )

۳۴) وسائل الشیعہ ، ج۷، ص۳۲۴، ح۳

۳۵) مصباح المتھجد ، ص۷۳۷

۳۶) تہذیب الاحکام ، ج۳ص۱۴۳

۳۷) تہذیب الاحکام ، ج۳ص۷۵۷۔

۳۸) تہذیب الاحکام ، ج۳ ، ص۱۴۳۔

تبصرے
Loading...