صحیفہٴ امام علی علیہ السلام

صحیفہٴ امام علی علیہ السلام  :

          بعض محدثین نے امام علی  علیہ السلام  کے ایک صحیفے کی طرف اشارہ کیا هے جو آپ کے غلاف شمشیر میں تھا لیکن ان احادیث کا کتاب علی  علیہ السلام  کے بارہ میں وارد احادیث سے مقائسہ کرنے پر یہ نتیجہ نکلتا هے کہ یہ صحیفہ کتاب علی  علیہ السلام  کے علاوہ هے کیونکہ صحیفہ یا وہ کتاب جو ستر ہاتھ کی ہو اسے کس طرح غلاف شمشیر میں رکھا جا سکتا هے اس کا مطلب هے کہ صحیفہ ایک چھوٹی سی تحریر تھی جو غلاف شمشیر میں رکھتے تھے حضرت علی  علیہ السلام  سے اس صحیفے میں موجود مطالب کے بارے میں سوال کے تعلق سے جو روایتیں آئی هیں ان میں هے کہ آپ نے فرمایا : اس میں عقل ، اسیر کی آ زادی اور یہ کہ کسی مومن کو کافر کے قتل کر دینے سے قتل نهیں کیا جائے گا وارد ہوا هے ۔ (۱۵)

          اگر اس حدیث کو سهی بھی مان لیا جائے تو کتاب علی  علیہ السلام  کے سلسلے میں اہل بیت  علیہم السلام  کے ذریعہ سے وارد احادیث سے منافات نهیں رکھتی بلکہ اس طرح کی احادیث سے استفادہ ہوتا هے کہ مذکورہ حدیث جعل کی گئی هے تاکہ یہ ظاہر کیا جائے کہ علوم نبوت میں سے حضرت علی  علیہ السلام  کے پاس کچھ نهیں تھا اس دعوے کی دلیل وہ روایتیں هیں جو صحیفہٴ امام کے غلاف شمشیر میں ہونے کے سلسلے میں سنی منابع حدیث میں آئی هیں(۱۶) اور جن سے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی گئی هے کہ حضرت علی  علیہ السلام  کی تحریر صرف یهی ایک صحیفہ هے جس میں تین کلمے سے زیادہ اور کوئی چیز موجود نهیں تھی ۔

امام علی  علیہ السلام  علم پیغمبر  کے وارث هیں :

          مذکورہ روایت کے صحیح مان لینے کے بعد بھی یہ سوال باقی رہ جاتا هے کہ امام علی  علیہ السلام  کی اعلمیت اور ان کے باب علم کے ہونے کے بارے میں پیغمبر  سے وارد احادیث کے عظیم مجموعے کے ساتھ کیا کیا جائے ۔

          ۱۔ رسول خدا   (ص)نے فرمایا هے : حضرت علی تم سب میں قضاوت سے سب سے زیادہ آشنا هیں ۔ (۱۷)

          ۲۔ امام ترمذی اور دوسروں نے نقل کیا هے کہ رسول خدا  نے فرمایا : میں حکمت کا گھر اور علی  علیہ السلام  اس کے دروازہ هیں (۱۸)

          ۳۔ ابن عباس رسول خدا  (ص) سے نقل کرتے هیں کہ آپ نے فرمایا : میں علم کا شہر اور علی اس کا در هیں جسے علم چاہئے اسے چاہئے کہ دروازے سے آئے ۔ (۱۹)

          ۴ ۔ ابن عساکر نقل کرتے هیں رسول خدا  نے حضرت علی  علیہ السلام  سے فرمایا: آپ میرے بعد میری امت کے لئے ان مسائل کو حل کریں گے جس میں انھوں نے اختلاف کیا هے ۔ (۲۰)

   حوالے جات:

          ۱۔ نہج البلاغہ ،خطبہ ۲۳۵۔

          ۲۔ نجم (۵۳) آیات ۳، ۴ ۔

          ۳۔ نہج البلاغہ ، خطبہ ۱۹۲۔

          ۴۔ ہمان ، خطبہ ۱۹۷ ۔

          ۵۔ کنز العمال ، ج۶، ص۱۵۶ و ۴۰۱ ۔

          ۶۔ تاریخ الخلفاء ، ص۱۱۵۔

          ۷۔ المال الدین ، ج۱ ص۲۰۶ و امالی صدوق ، ص۲۲۷۔

          ۸۔ کافی ، ج۱ ص۲۴۱ و بصائر الدرجات ، ص۱۴۲۔

          ۹۔ بصائر الدرجات ، ص۱۴۷۔

          ۱۰۔ کافی ، ج۱ ص۲۳۹ و بصائرالدرجات ، ص۱۴۳۔

          ۱۱۔ بصائر الدرجات ، ص۱۴۵۔

          ۱۲۔ کافی ، ۷ ص۱۱۹۔ 

          ۱۳۔ وسائل الشیعہ ، ج۱۷ ص۵۲۲ ، باب ۶ از ابواب میراث ازواج ، حدیث ۱۷ ۔

          ۱۴۔ تہذیب الاحکام ، ج۹ ، ص۲۴۷۔

          ۱۵۔ رجال نجاشی ، ج۲ ، ص۲۶۰ و ۹۶۷۔

          ۱۶۔ کافی ، ج۳ ، ص۳۹۷ ، ح۱۔

          ۱۶۔ مسند احمد ، ج۱، ص۷۹ ۔

          ۱۷۔ ر۔ک: مسند احمد ، ج۱ ، ص۸۱ ، ۱۰۰ ، ۱۰۲ ، و۱۱۰ ۔

          ۱۸۔ استیعاب ، در حاشیۃ الاصابہ ، ج۳ ، ص۳۸۔

          ۱۹۔ صحیح ترمذی ، ج۵ ، ٓ۶۳۷۔

          ۲۰۔ مستدرک حاکم ، ج۳ ، ص۱۲۷۔

          ۲۱۔ تاریخ ابن عساکر ، ترجمہ امام علی  علیہ السلام  ، ج۲ ، ص۴۸۸۔

تبصرے
Loading...