ہوشیار اور عاجز انسان کی نظر اور رفتار میں فرق

ہوشیار اور عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کی تربیت کرے اور مرنے کے بعد والی زندگی کے بارے میں سعی و کوشش کرے اور کمزور و ناتواں وہ ہے جو اپنے نفسانی خواہشات کی اطاعت کرے اور اسی حالت میں خدائے متعال سے اپنی آرزؤں کی درخواست کرے۔

ہوشیار اور عاجز انسان کی نظر اور رفتار میں فرق:

اگر انسان کسی گناہ کا مرتکب ہونے کے بعد اس کے بارے میں فکرمند اور پریشان ہو تو‘ خداوند تعالیٰ اسے اس خوف و پریشانی کی وجہ سے نجش دیتا ہے۔ ممکن ہے غلط فہمی سے یہ گمان کیا جائے کہ جو بھی گناہ کا مرتکب ہو جائے اس کے بعد تو بہ کرے تو اسے بخش دیا جائے گا‘ اور یہ گمان بذات خود بیشتر لغزش و آلودگی کا سبب ہے‘ کیونکہ گنہگار ہر گناہ کے بعد اس امید میں رہے گا کہ خدا اسے بخش دے گا۔اس غلط گمان کو رفع کرنے کےلئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں: ہوشیار اور عقلمند انسان وہ ہے جو ہمیشہ اپنی عمر سے بہتر استفادہ کرنے اور زیادہ سے زیادہ نیک کام کرنے کی فکر میں رہتا ہے‘ نفسانی خواہشات کی مخالفت کرتا ہے اور اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق عمل نہیں کرتا ہے تاکہ سر انجام غفلت میں مبتلا نہ ہو جائے:

ہوشیار اور عقلمند وہ ہے جو اپنے نفس کی تربیت کرے اور مرنے کے بعد والی زندگی کے بارے میں سعی و کوشش کرے اور کمزور و ناتواں وہ ہے جو اپنے نفسانی خواہشات کی اطاعت کرے اور اسی حالت میں خدائے متعال سے اپنی آرزؤں کی درخواست کرے۔

انسان عقل و ہوش کا مالک ہے‘ کبھی نفسانی خواہشات پر عقل غلبہ آتی ہے اور کبھی عقل پر نفسانی خواہشات کا غلبہ ہوتا ہے۔ حدیث کے اس حصہ میں ان دونوں پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

بعض اوقات انسان کا نفس ضعیف ہوتا ہے اور اس کی خواہشات اس کی عقل پر غالب نہیں ہوتی ہے۔ یہ اس عقلمند انسان کے بارے میں ہے کہ جو تہذیب نفس اور اصلاح کی راہ میں گامزن اور مسلسل موت کے بعد والی ابدی زندگی کے بارے میں سوچتا رہتاہے۔ اس کے برعکس کبھی نفس اور اس کی خواہشات عقل پر غالب آتی ہیں اور انسان اپنے نفسانی خواہشات کے مقابلہ میں ناتواں ہوتا ہے اور ان کی مدافعت نہیں کر سکتا ہے۔ یہ تفسیربحار الانوار کے اس نسخہ کی بنیاد پر ہے کہ جس میں آیا ہے ”من دانہ نفسہ“ یعنی عقلمند وہ ہے جس کا نفس کمزور ہو۔ لیکن دوسرے نسخوں میں ”من ادّب نفسہ“ آیا ہے،شاید دوسری تعبیر بہتر ہو‘ اس صورت میں جملہ کا معنی یوں ہوتا ہے: ہوشیار وہ ہے جس نے اپنے نفس کی اصلاح کی ہو‘ دوسری تعبیر میں وہ اصلاح کرے اور ہوائے نفس اور نفسانی خواہشات کے لئے موقع فراہم نہ کرے۔ ایسا انسان عقلمندی کے ساتھ سوچ سکتا ہے اور محدود مادی دنیا سے اپنی نظر اٹھا کر بیکراں‘ لامتناہی اور ابدی افق پر نظر ڈال کر تنگ نظری سے بچ سکتا ہے ،وہ اپنے اعمال کو قیامت کے جاویدانی دور کےلئے انجام دیتا ہے۔

اسلام کے نقطہٴ نظر سے ایسی فکر عاقلانہ اور یہ انسان زیرک ہے‘ کیونکہ وہ ایک مقصد کے بارے میں سوچتا ہے اور دنیا کے محدود عالم کے بجائے آخرت کے ابدی اور لا محدود عالم پر نظر رکھتا ہے، دنیا کی عارضی لذتوں کو آخرت کی ابدی نعمتوں سے موزانہ کر کے عقلمندی کے ساتھ دوسرے مورد کو ترجیح دیتا ہے۔

تنگ نظر لوگ عارضی اور ناپائدار لذتوں کے علاوہ کسی اور چیز کے بارے میں نہیں سوچتے اور انہیں آخرت کی ابدی لذتوں پر ترجیح دیتے ہیں‘ ایسے لوگ اپنے عقل کی باگ ڈور کو ہوائے نفس کے حوالے کر کے زبوںحالی کے عالم میں اپنے آپ کو شکم و شہوت کا تابع قرار دیتے ہیں‘… ایسے افرادکے بارے میں مولائے متقیان حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

کم من عقل اسیر عند ھویٰ امیر“ ۱#

کتنے ہی لوگوں کی عقل ہوائے نفسانی کی اسیر ہوتی ہے اور ان کے نفسانی خواہشات عقل پر حکمرانی کرتی ہیں۔

ایسا انسان نفسانی خواہشات کی پیروی کرتا ہے اور آرزو رکھتا ہے کہ بہشت میں اولیائے الہٰی کی مصاحبت میں ہو!

امانت داری اور خشوع:

اس سے پہلے خوف و حزن نامی دو خصوصیات کے بارے میں بحث ہوئی‘ ان دو خصوصیات کے ضمن میں خشوع کی دو حالتیں انسان کےلئے پیدا ہوتی ہیں جوپسندیدہ و مطلوب ہیں‘ لیکن چونکہ ممکن ہے بعض معنوی کمالات کو انسان سے چھین لیا جاتا ہے‘ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں:

یَا اَبَاذَرٍّ! اِنَّ اَوَّلَ شَیْءٍ یُرْفَعُ مِنْ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ الْاَمَانَةُ وَالْخَشُوعُ حَتّٰی لاَ یَکٰادُ یُریٰ خَاشِعٌ․“

اے ابوذر! پہلی صفت جواس امت سے اٹھالی جائے گی‘ وہ امانتداری و خشوع ہے‘ یہاں تک ایک شخص بھی اہل خشوع نہیں ملے گا۔

اس بیان میں‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دو اخلاقی خصوصیات کی طرف اشارہ فرماتے ہیں ان دو میں سے ایک امانتداری ہے جو ایک اخلاقی اور سماجی خصوصیت ہے اور سالم و محفوظ اور سماجی روابط کو برقرار رکھنے میں اہم رول ادا کرتی ہے اور اس کے بغیر ایک سالم معاشرہ کو تشکیل نہیں دیا جا سکتا ہے‘ کیونکہ اجتماعی روابط کی بنیاد متقابل اور طرفین اعتماد پر ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حدیث کے اس حصہ میں جناب ابوذر کو گوش گزار فرماتے ہیں کہ

—————————————————

۱۔نہج البلاغہ (ترجمہ فیض الاسلام) حکمت ۲۰۲‘ ص ۱۱۸۲

میرے بعد اس امت سے جو نیک اور پسندیدہ صفات اٹھالئے جائیں گے کہ ان میں سے برجستہ ترین صفت امانتداری اور خشوع ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت کو ایک تربیت یافتہ معاشرے کے عنوان سے دوسری ملتوں پر دو امتیاز ی برتری حاصل تھی: پہلا امتیاز آپسی روابط اور دوسری ملتوں کے ساتھ اجتماعی روابط کے حوالے سے تھا اور دوسرا امتیاز امت کی انفرادی شخصیت کے حوالے سے اخلاقیات و حالات کی تعمیر سے متعلق تھا، یہ امت انفرادی‘ روحی اور معنوی شخصیت کے لحاظ سے بھی ممتاز تھی اور اجتماعی حیثیت سے بھی، یہ صفات اسی طولانی تربیت کے نتیجہ میں حاصل ہوئے تھے جو خدا وند متعال کی طرف سے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے توسط سے انجام پائی تھی۔

امت اسلامیہ ایک باغ کی مانند تھی جس میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جیسی عظیم شخصیت نے سر سبز میوہ دار درخت لگائے تھے۔ اب اگر اس باغ میں آفت آپڑے تو اس میں آفت پڑنے کے آثار ظاہر ہوں گے اور رفتہ رفتہ یہ باغ نابودی اور خرابی کی طرف بڑھ جائے گا۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی امت جو انفرادی اور اجتماعی خصوصیات کے لحاظ سے بے مثال تھی‘ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد اس میں آفت آپڑی اور اس کی سر سبز و شادابی خزاں میں تبدیل ہوئی ،پہلی آفت جو امت مسلمہ پر پڑی وہ یہ تھی یہ قوم سنگ دل ہو گئی اور خضوع و خشوع اور نرم دلی کی صفت ان سے چلی گئی یہاں تک حق کے سامنے تسلیم نہیں ہوتے تھے اور مثبت اور قابل قدر خصوصیات کا اثر قبول نہیں کرتے تھے۔ ان میں فرد فرد ایسا سنگ دل تھا کہ حق بات ان میں اثر نہیں کرتی تھی جہاں میں نرم خو ہو کر آنسو بہانا چاہیے تھا‘ وہ ایسا نہیں کرتے تھے۔

دوسری آفت ان کے اجتماعی روابط میں ظاہر ہوئی۔ ان میں امانتداری اور ایمانداری کا جنبہ ضعیف ہوگیا‘ ایک دوسرے کے لئے امین اور وفا دار نہیں رہے وہ امانت میں خیانت کرنے لگے یہ سماج کےلئے ایک خطرہ کی گھنٹی تھی۔اگر یہ انفرادی اور اجتماعی دو آفتیں معاشرے میں رسوخ پیدا کرجائیں تو وہ معاشرے کے زوال کا موجب بنتی ہیں۔

یہ اقدار صرف اسلام اور مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہیں۔ اسلام کے ظہور سے پہلے اور لوگوں کے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے سے پہلے بھی سب لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ایمانداری اور امانت داری اچھی چیز ہے اور لوگوں کے اموال میں خیانت کرنا بری بات ہے۔

الف: امانت داری کا اثر:

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے عربوں کے درمیان بلکہ ساری دنیا میں کامیاب ہونے کا سب سے بڑ ا سبب آپ کا امین ہونا تھا۔ رسالت سے پہلے تمام لوگ آپ کو امین جانتے تھے اور آپ کو ”محمد امین“ کے نام سے پکارتے تھے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف لوگوں کے میلان کا سبب آپ کی یہی خصوصیت تھی‘ کیونکہ امین ہونے کا لازمہ سچ کہنا بھی ہے۔ اگر انسان دوسروں کے مال میں خیانت کرے تو وہ راست گو نہیں ہو سکتا ہے۔ بہت سے لوگوں نے پیغمبر کی پیغمبری کے دعویٰ کو اس بنا پر قبول کیا تھا کہ وہ جانتے تھے کہ آپ جھوٹ نہیں بولتے ہیں۔

چنانچہ اس سے پہلے بیان ہوا کہ‘ امانت داری اہمیت و عظمت کو عقل کے ذریعہ بھی درک کیا جاسکتا ہے‘ لہذا اگر بعثت و دعوت پیامبر بھی نہ ہوتی پھر بھی لوگ اسے درک کرتے‘ لیکن اسلام نے اس عقلی حکم کی تائید کرتے ہوئے فرمایا:

اِنَّ اللهَ یَا مُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمَانَاتِ إِلیٰ اٴَھْلِھَا…“ (نساء/۵۸)

بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو․․․“

امانتداری زندگی کی ضروریات میں سے ہے اور اگر لوگ اپنی زندگی میں اس کی رعایت نہ کریں اور ایماندار ی سے کام نہ لیں تو نظام درہم برہم ہوجا ئے گا اور کوئی کسی پر اعتماد نہیں کرے گا‘ کیونکہ اجتماعی زندگی کی بنیاد اور پائداری متقابل اور طرفین اعتماد پر ہے۔

(بیان میں امانت سچ کہنے کا لازمہ ہے اور کردار میں امانت ایمانداری کا لازمہ ہے اور ان کی قدرو قیمت بدیہیات عقلی میںسے ہے اور ان میں استدلال و تعبدکی ضرورت نہیں ہے اس موقع پر اسلام کی تعلیمات ارشادی ہیں‘ یعنی وہ چیز جسے عقل درک کرتی ہے شرع اس کی تائید و تاکید کرتی ہے)۔

امانت داری صرف دوسروں کے شخصی اموال اور ملکیت کے تحفظ سے مربوط نہیں ہے بلکہ عمومی اموال اور بیت المال کا تحفظ بھی امانتداری کے مصادیق میں ہے۔ سڑکیںِ زمین‘ پانی ، درخت اور تمام وہ چیزیں جو اسلامی معاشرہ سے تعلق رکھتی ہیں امانت شمار ہوتی ہیں۔ بلکہ عمومی اموال کا تحفظ زیادہ ضروری ہے‘ کیونکہ اگر کوئی کسی ایک شخص کے مال میں خیانت کرلے وہ تو صرف ایک صاحب مال کا مقروض ہے‘ لیکن اگر عمومی اموال اور بیت المال میں خیانت کرے تواس نے تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ وہ ڈرائیور جو سرکاری گاڑی چلارہا ہے‘ اگر ایماندار نہ ہواور احتیاط سے کام نہ لے اور گاڑی کو کوئی نقصان پہنچادے‘ تو اس نے تمام لوگوں کے ساتھ خیانت کی ہے۔ اگر سرکاری گاڑی کو ذاتی کام میں استعمال کیا جائے‘ تو وہ بیت المال کی خیانت ہوگی۔

قرآن مجید اسلامی معاشرے کو عہد و پیمان کے ساتھ وفادار اور امانت داری کرنے والے کی حیثیت سے تعارف کراتا ہے:

وَالَّذِینَ ھُمْ لِاَ مَانَاتِھِمْ وَ عَھْدِ ھِمْ رَاعُون> (مومنون/

 

۸)

اور مومنین اپنی امانتوں اور اپنے وعدوں کا لحاظ رکھنے والے ہیں

دوسری جگہ پر حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے مالکوں کو واپس کر دو۔

اِنَّ اللهَ یَامُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَ مَانَاتِ اِلٰی اَہْلِہَا․․․“(نساء/۵۸)

بیشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتوں کو ان کے اہل تک پہنچا دو․․․“

امانتداری کی اس قدر تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ اگر امانتداری کی اہمیت کو معاشرے سے اٹھا لیا جائے‘ تو لوگ ایک دوسرے کے ساتھ خیانت کریں گے اور ایک دوسرے کے حقوق کو ضائع کریں گے‘ نتیجہ کے طور پر متقابل اعتماد پر استوار معاشرے کے پیوند اور بنیادیں متزلزل ہوکر گرجائیں گی اور یہ بذات خود انسانی اقدار اور خصوصی قابل اہم صفات کو پس پشت ڈالنے کا آغاز ہوگا۔

ب۔خشوع کا اثر:

اگر لوگ خاشع و متواضع ہوں اور حق کے سامنے جھکنے والے ہوں‘ معاشرے میں رونما ہونے والے حوادث کے بارے میں لاپروانہ ہوں اور ان کے مقابلے میں ردعمل کا اظہار کرتے ہوں‘ تو ایسے لوگ پیغمبروں کی دعوت اور رہنمائی کو دل و جان سے قبول کرتے ہیں۔

اس کے برعکس‘ سنگ دل انسان، ان کو پیش کئے جانیوالے حقائق اور رونما ہونے والے حوادث کے مقابلہ میں لا پروا ہوتے ہیں، کیونکہ ان کا دل حقائق کو قبول کرنے کی آمادگی نہیں رکھتا ہے، فطری طور پروہ پیغمبروں کی دعوت کو بھی قبول نہیں کرتے ہیں اور حق کے مقابلے میں تواضع نہیں رکھتے۔ وہ صرف اپنی ذاتی فکر میں ہوتے ہیں اور اپنے نفسانی خواہشات کے بارے میں سوچتے ہیں۔

قرآن مجید اہل کتاب کے دوگروہوں کا تعارف کراتا ہے: پہلا گر وہ قوم یہود ہے جو اسلام و مومنین کے سب سے بڑے دشمن تھے:

․․․․․ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُکُمْ مِنْ بَعْدِ ذٰلِکَ فَھِیَ کَالْحِجَارَةِ اٴَوْ اٴَشَدُّ قَسْوَةً وَ اِنَّ مِنَّ الْحِجَارَةِ لَمٰا یَتَفَجَرُّ مِنْہُ الْاَنْھَٰرُ وَ إِنَّ مِنْھَا لَمَا یَشَّقَقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَاءُ ․․․> (بقرہ۔ ۷۴)

پھر تمہارے دل سخت ہوگئے جیسے پتھر یا اس سے بھی کچھ زیادہ سخت اس لئے کہ پتھروں سے تو نہر یں بھی جاری ہو جاتی ہیں اور بعض شگافتہ ہو جاتے ہیں تو ان سے پانی نکل آتا ہے۔

پتھر سے پانی جاری ہوجاتا ہے لیکن یہود اُتنے سنگ دل ہیں کہ ہر گز ان کا دل نہیں ٹوٹتا تاکہ ان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو اور یہ افراد قوم مومنین کے جانی دشمن ہیں۔

اس کے برعکس، قرآن مجید اہل کتاب کے دوسرے گروہ کا تعارف کراتا ہے، جو مومنین کے دوست اور ان کے ساتھ مہربان ہیں، فرماتا ہے:

․․․وَلَتَجِدَنَّ اَقْرَبَھُمْ مَوَدَّةً لِلَّذِینَ آمَنُوا الَّذِینَ قَالُوا اِنَّا نَصَٰریٰ ذٰلِکَ بِاَنَّ مِنْھُمْ ِقسِّیسِینَ وَرُھْبَانًا وَاِنَّھُمْ لاَ یَسْتَکْبِرُونَ> (مائدہ/۸۲)

اور ان کی محبت سے سب سے زیادہ قریب وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم نصرانی ہیں۔ یہ اس لئے ہے کہ ان میں بہت سے قسیس اور راہب پائے جاتے ہیں اور یہ تکبر اور برائی کرنے والے نہیں ہیں۔

اس آیت کے ضمن میں خدا وند کریم فرماتا ہے:

وَاِذَاسَمِعُوامَا اُنْزِلَ اِلٰی الرَّسوُلِ ترَیٰ اَعْیُنَھُمْ تَفٖیضُ مِنَ الدَّمْعِ مِمَّا عَرَفُوا مِنَ الْحَقّ․․․․․>(مائدہ/۸۲)

اور جب اس کلام کو سنتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر نازل ہوا ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی آنکھوں سے بے ساختہ آنسو جاری ہو جاتے ہیںیہ اس لئے ہے کہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ہے۔

حق کے مقابلے میں ان کی نرمی اور جھکاؤ کی حالت ان کے ایمان لانے کا سبب بنی‘ کیونکہ ان کے دل حقائق کےلئے کھلے تھے۔ اس کے برعکس سنگ دل یہود ایمان نہیں لاتے تھے، اس لحاظ سے ہم تاریخ میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ بہت سے عیسائیوں نے اسلام قبول کیا ہے اور پاک و مخلص مومن بن گئے ہیں‘ ان کے مقابلہ میں یہودیوں میں سے بہت کم لوگوں نے ایمان قبول کیا ہے۔

پیغمبر اکرم فرماتے ہیں: ایک دن ایسا آئے گا کہ جب کوئی متواضع انسان نہیں پایا جائے گا، فروتنی اور انکساری کی حالت بے معنی ہو کر رہ جائے گی۔ اپنے آپ کو اسلام شنا س کہنے والے بعض لوگ کہتے تھے، اسلام انسان کے لئے ذلت و خواری کو پسند نہیں کرتا ہے، حتی انسان کو خدا کے حضورمیں بھی ذلت کا احساس نہیں کرنا چاہیے۔ دل شکستہ ہونا گریہ وتواضع جیسی کیفیت ان لوگوں کی نظروں میں انسانی اقدار کی خلاف ہے! یہ اس حالت میں ہے جب قرآن مجید مومنین کا متواضع ہونے کی حیثیت سے تعارف کراتا ہے۔

ایک عالم دین پر حق سے منحرف ہونے کا الزام لگایاگیا صرف اس لئے کہ جب ان کے سامنے قرآن مجید کی تلاوت ہوتی تھی تو وہ روتے تھے۔ وہ لوگ خیال کرتے تھے کہ صرف عزاداری اور مصیبت میں رونا چاہیے اور قرآن مجید کی تلاوت کے دوران رونے کو بدعت جانتے تھے۔ یعنی یہ کام اس قدر متروک و غیر ماٴنوس ہو چکا تھا کہ اگر کوئی ایسا کام کرتا تھا۔ اس پر انحراف اور بدعت کی تہمت لگاتے تھے۔

خشوع، احساس حقارت، ذلت و فروتنی ہے جو دل میں پیدا ہوتا ہے اور اس کا ردعمل انسان کے جسم کے اعضا و جواح میں ظاہر ہوتا ۔ مرحوم راغب اصفہانی کہتے ہیں: خشوع، احساس ضعف و ذلت کے معنی میں ہے اور اس کا بیشتر استعمال اس جگہ پر ہے جہاں اعضا و جوارح سے یہ کیفیتظاہر ہو۔

مثال کے طور پر قرآن مجید کے مندرجہ ذیل مواقع پر خشوع استعمال ہوا ہے:

۱۔گفتگو کرتے وقت:

․․․․وَخَشعَتْ الْاَصْوَاتِ لِلرَّحْمٰن․․․> (طہ/ ۰۸ا)

(قیامت کے دن) خداوند رحمان کے نزدیک آوازیں خاشع ہوجائیں گی۔

۲۔ آنکھوں میں:

خُشِّعاً اَبْصَارَھُمْ یَخْرُجُونَ مِنَ الْاَجْدَاثِ․․․> (قمر/ ۷)

(قیامت کے دن کافرین خوف سے) نظریں جھکائے ہوئے قبروں سے اس طرح نکلیں گے جس طرح ٹڈیاں پھیلی ہوئی ہوں۔

۳۔ چہرہ میں:

وُجُوہٌ یَومَئِذٍ خَاشِعَةٍ“ (غاشیہ/ ۲)

اس دن بہت سے چہرے ذلیل اور رسوا ہوں گے۔

۴۔ سجدے میں:

وَیَخِرُّونَ لِلْاَ ذْقَانِ یَبْکُونَ وَیَزِیدُھُمْ خُشُوعاً> (اسراء/ ۱۰۹)

اور وہ منہ کے بھل گر پڑتے ہیں روتے ہیں اور قرآن ان کے خشوع میں اضافہ کر دیتا ہے۔

۵۔ عبادت و نماز میں:

قَدْاَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذٖینَ ھُمْ فِی صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُونَ> (مومنون/۱و۲)

یقینا صاحبان ایمان کا میاب ہوگئے۔ جو اپنی نمازوں میں گڑ گڑا نے والے ہیں

۶۔ دل میں:

اَلَمْ یَاٴْنِ لِلَّذِینَ آمَنُوا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُھُمْ لِذِکْرِ اللهِ> (حدید/۱۶)

کیا صاحبان ایمان کے لئے ابھی وہ وقت نہیں آیا ہے کہ ان کے دل ذکر خدا اور اس کی طرف نازل ہونے والے حق کے لئے نرم ہو جائیں۔

مذکورہ مواقع کے ہر ایک مطلب پر جداگانہ بحث کرنے کے لئے کافی فرصت کی ضرورت ہے، جس کی فی الحال گنجائش نہیں ہے۔ اجمالی طور پر واضح ہوگیا کہ خاشع وہ شخص ہے جس کی رفتار میں غرور و تکبر کے احساس کے بغیر بندگی، حقارت اور شرمندگی کے آثار پیدا ہوجائیں اور ایک ذلیل بندے کے مانند اس میں خود خواہی اور تکبر کا عنصر نابود ہوجائے۔ کیونکہ خود خواہی اور تکبر انسان کو خدا کے سامنے فروتنی، تواضع اور خشوع کے ساتھ پیش آنے میں رکاوٹ بنتے ہیں اور بیشک متکبروں اور باغیوں کی واضح مثال شیطان ہے۔ قرآن مجید اس کے بارے میں فرماتا ہے:

فَسَجَدَ الْمَلَائِکَةُ کُلُّھُمْ اَجْمَعُونَ اِلاَّ اِبْلِیسَ اٴَبٰی اَنْ یَکُونَ مَعَ السَّاجِدِینَ> (حجر/۳۰و ۳۱)

تمام ملا ئکہ نے اجتماعی طور پر(آدم کے سامنے ) سجدہ کرلیا تھا، علاوہ ابلیس کے کہ( اس نے انکار کیا اور) وہ سجدہ گزاروں کے ساتھ نہ ہو ہو سکا۔

اس آیہٴ کریمہ کی تفسیر میں حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

تکبر اور خود خواہی میں مبتلا ہو کر اس نے اپنی خلقت پر آدم پر فخر کرتے ہوئے اپنی اصلیت (کہ آگ سے پیدا کیا گیا تھا) کے بارے میں تعصب سے کام لیا اور کھلم کھلا خدا وند متعال کی نافرمانی کی۔ لہٰذا یہ دشمن خدا، متعصبوں اور باغیوں کا پیشوا ہے جس نے تعصب کی بنیاد ڈالی ہے اور خدائے متعال سے عظمت و بزرگی کا مقام حاصل کرنے کے لئے (جو خدا سے مخصوص ہے) لڑ پڑا اور عظمت و سربلندی ( جو اس کا حق نہیں تھا) زیب تن کر کے تواضع وانکساری کے لباس کو تن سے جدا کیا۔ ۱#

مزید اس کے ضمن میں فرماتے ہیں:

شیطان کے ساتھ خدا وند عالم کا یہ رویہ ( سخت مواخذہ) لوگوں کے لئے باعث عبرت ہے کہ اتنی زیادہ عبادت و بندگی اور اس قدر سعی و کوشش سب کو خدا وند عالم نے برباد کر دیا۔ اس کے باوجود کہ اس نے چھ ہزار سال تک خدائے متعال کی عبادت کی، معلوم نہیں یہ سال دنیوی سال ہیں یا آخرت کے۔ یہ سب کچھ اس کے ایک لمحہ کے تکبر کے نتیجہ میں ہوا۔ لہٰذا شیطان کے بعد کون تکبر و سرکشی کے نتیجہ میں خدا کے عذاب سے بچ سکتا ہے؟ خداوندعالم ہر گز اپنے کسی بندہ کو بہشت میں داخل نہیں کرے گا جو اس گناہ میں مرتکب ہو گا جس کے جرم میں اس نے اپنے فرشتہ کو بہشت سے نکالاہے۔ بیشک خدا کا حکم و فرمان اہل آسمان اور اہل زمین کے لئے یکساں ہے۔

اس نکتہ کا ذکر ضروری ہے کہ خشوع کے ختم ہونے کی علت اور قساوت قلب نیز امانت میں خیانت کا سبب دنیا سے وابستگی ہے۔ دنیا سے وابستگی خضوع، خشوع اور گریہ و زاری کو انسان سے سلب کرتی ہے، یہ دنیا سے وابستگی کا نتیجہ ہے کہ انسان شروع میں مشکوک کا موں میں ملوث ہوتا ہے اور رفتہ رفتہ سر انجام محرمات میں آلودہ ہو کر گناہان کبیرہ کا اصرار کرنے لگا ہے۔ لہذا حالت خشوع کے تحفظ کے لئے دنیا سے وابستگی اور اسے ہدف و مقصد قرار دینے سے اجتناب کرنا چاہیے اور مبہم کاموں اور محرمات سے دوری اختیار کرنی چاہیے۔

اگر ہم مشاہدہ کریں کہ معاشرے سے اقدار اور کمالات رفتہ رفتہ ختم ہو کر ان کی جگہ اجتماعی مفاسدلے رہے ہیں، تو ہمیں اس کا سبب مادیات کی طرف مائل ہونے میں تلاش کرنا چاہیے۔ یہ وابستگی

—————————————————

نہج بلاغہ ترجمہ فیض الاسلام ،خطبہ ۲۳۴، ص/ ۷۷۶

اورمیلان ہر گناہ کو انجام دینے کا موقع فراہم کرتے ہےں۔ انسان گناہ کا مرتکب ہونے پر غمگین نہیں ہوتا لیکن اگر اسے کوئی دنیوی نقصان پہنچے، تھوڑے سے پیسے اس کے گم ہو جائیں تو غمگین ہوتا ہے۔ وہ ٹیکس دینے سے گھبراتا ہے یہ دنیا سے وابستگی اور محبت کی وجہ سے ہے۔ اگر کوئی آخرت سے وابستگی رکھتا ہے اور اسے اپنا مقصد قرار دیتا ہے، تو وہ ہر چیز سے اپنی آخرت کے لئے استفادہ کرتا ہے۔ اگر پیسے والا ہے تو وہ پیسے سے اپنی آخرت درست کرتا ہے۔ اگر مال دار نہیں ہے تو صبرو تحمل کے ذریعہ اپنی آخرت کے لئے ذخیرہ اکٹھاکرتا ہے۔ اگر مال دار ہے تو وہ راہ خدا میں اسے انفاق کرتا ہے۔ اگر مال دار نہیں ہے تو دوسری صورت میں محتاجوں کی مدد کرتا ہے۔

جب انسان کی وابستگی دنیا سے بڑھ جاتی ہے تو پہلے حتی الا مکان مباحات سے استفادہ کرتا ہے اور اگر اس سے نہیں ہو سکا تو پھر مشکوک چیزوں کی طرف رخ کرتا ہےا اور کوشش کرتا ہے کہ مراجع کے فتوؤں کا سہارا لے کر ان کی توجیہ کرے، آج سود کو جائز قرار دیتا ہے کل قطعی و یقینی حرام تک ہاتھ بڑھاجائے گا اور اس کا کام یہاں تک پہنچتا ہے کہ چاہے جتنا بڑا، گناہ ہو اس کے انجام دینے سے خوف نہیں کھاتا۔ فطری بات ہے کہ ایسا انسان سنگ دل بن جاتا ہے اور وہ خشوع کی حالت سے محروم ہوجاتا ہے۔ جب دنیا سے وابستگی پیدا ہوئی، تو لوگوں کے مال میں خیانت کرتا ہے اور اس سے ذاتی استفادہ کرتا ہے۔ پس، قساوت قلب کے گناہ کا سبب مادیات اور حیوانی لذتوں کی طرف مائل اور متوجہ ہونا ہے۔ اب اس بیماری کے علاج کے لئے پہلے اس کی جڑ کو پکڑنا چاہیے دیکھنا چاہیے کہ یہ درخت کیوں خشک ہوگیا ہے، اسے کونسی زہریلی غدا کھلائی گئی ہے جن کے نتیجہ میں یہ خشک ہوا ہے۔ وجود انسان کے درخت کو آفت سے محفوظ رکھنے کے لئے صحیح وسالم غذا دینی چاہیے اور اسے شہوانی اور حیوانی خواہشات کی پیروی کرنے سے روکنا چاہیے کیونکہ اس کا نتیجہ بے رحمی اور سنگدلی ہے۔

قساوت قلب اور گناہ کی بیخ کنی کرنے کے لئے انسان کو آفتوں سے آگاہ کرنا چاہیے، چونکہ تمام آفتوں کا سرچشمہ۔ جو انسان کو خدااور معنویت سے دور کرتا ہے۔ دنیا ہے، اس لئے قرآن مجید گونا گوں بیانات سے انسان کو دنیا سے ڈراتا ہے اور اس کے اندر خوف پیدا کرتا ہے۔

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ میں کئی بار دنیا کی مذمت کی گئی ہے اور مسلسل علی علیہ السلام اپنے اصحاب کو دنیا سے ڈراتے ہیں، کیونکہ حضرت جانتے ہیں کہ تمام بیماریوں کی جڑحب دنیا ہے۔ جب تک حبِ دنیا باقی ہے کوئی بھی فضیلت و کمال انسان کے لئے پائدار نہیں ہو سکتا ہے۔

ممکن ہے انسان برسوں کی سختیوں کے نتیجہ میں کسی کمال تک پہنچے لیکن ایک مہلک زہر کے اسے نابود کردے ، اسی لئے قرآن مجید، پیغمبر واہل بیت صلوات اللہ علیہم اجمعین مختلف مواقع پر لوگوں کو دنیا سے دوری اختیار کرنے کے سلسلہ میں نصیحت فرماتے تھے لیکن دنیا سے ڈرنے کا معنی کام سے ہاتھ کھینچنا اور علم و صنعت سے اجتناب کرنے کے معنی میں نہیں ہے بلکہ اس کا معنی و مفہوم دنیاوی چمک دمک اور اس کی رعنائیوں سے عدم وابستگی اور شہوت پرستی سے پرہیز کے معنی میں ہے۔ مختصر یہ کہ دنیا سے ڈرنا اور اصل دنیا کو بنیاد نہ بنانے اور اسے آخرت کا وسیلہ قرار دینے کے معنی میں ہے۔ اس صورت میں انسان کی تمام کوششیں حتی مال و دولت جمع کرنا بھی آخرت کے لئے قرار پائے گا، کیونکہ آخرت طلبی و دنیا طلبی کا دارومدار انسان کے محرک اور مقصد پر ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر از دواج کرنے میں مرد کا مقصد صرف شہوت رانی ہو، تویہ دنیا طلبی ہے۔ وہ صرف شہوت رانی کے بارے میں سوچتا ہے، ممکن ہے اس کے لئے اس میں کوئی فرق نہ ہو کہ یہ مقصد اسے حلال راہ سے دستیاب ہو یا حرام طریقے سے۔ لیکن کبھی ازدواج میں اس کا منشا حکم خدا کی اطاعت ہے۔ چونکہ خدائے متعال چاہتا ہے کہ وہ خانوادے کو تشکیل دے ورنہ ایسا نہیں کرتا، اگر چہ اس کے لئے اس میں کافی لذت بھی ہوتی۔ لیکن وہ خدا کے لئے اس کام کو انجام دیتا ہے حتی اگر اسے ہزاروں مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑے۔

آج کل جو دنیائے غرب میں خانوادگی کا شیرازہ بکھر تا جا رہا ہے اور ان کی نسلی بنیاد سست پڑ تی جا رہی ہے، اس کی یہ وجہ ہے کہ وہ صرف شہوت رانی اور لذت حاصل کرنے کے پیچھے پڑے ہیں، لہذا اپنے آپ کو خاندانی زندگی کے بندھنوں میں نہیں باند ھتے۔ جب دیکھتے ہیں کہ ازدواجی زندگی میں مشکلات کا سامنا ہے تو وہ اس قید سے آزاد ہونے کے لئے اسے چھوڑ دیتے ہیں، لیکن اسلامی معاشرہ ایسا نہیں ہے۔ جب تک اسلامی اقدار حاکم ہیں ایک انسان خانوادگی زندگی کے مشکلات کو برداشت کرتا ہے کیونکہ خدا کی مرضی اسی میں ہے۔ البتہ خدائے متعال نے بھی اپنی مہر بانیوں سے اس کام میں لذتوں کو قرار دیا ہے (خانوادگی زندگی اور اولاد کو پالنے میں فطری اور طبیعی لذتیں قرار دی ہیں) لیکن بہر صورت کچھ مشکلات ضرور ہیں۔ پس اگر کسی نے دنیوی لذتوں کو خدا کے لئے انجام دیا ہے تو نہ صرف یہ کہ اس کا یہ کام ناپسندیدہ نہیں ہے بلکہ اس کا کام آخرت طلبی ہے نہ دنیا طلبی، دنیا طلبی اس وقت ہے جب ان لذتوں کو بنیاد اور مقصد قرار دے۔

خدا کی نظر میں دنیا کا حقیر اور ناچیز ہونا:

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ، اس حدیث کے دوسرے جملہ میں دنیا کے ناچیز ہونے اور اس کی مذمت میں فرماتے ہیں:

یَا اَبَاذَّرٍ؛ وَالَّذٖی نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِیَدِہِ لَوْ اَنَّ الدُّنْیٰا کٰانَتْ تَعْدِلُ عِنْدَ اللهِ جَنَاحَ بَعُوضَةٍ اَوْ ذُبَابٍ مَا سَقَی الْکَافِرَ مِنْھَا شَرْبَةً مِنْ مَاءٍ

اے ابوذر! اس خدا کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، اگر خدا کے نزدیک دنیا کی قدر و قیمت ایک مچھر یا مکھی کے پر کے برابر ہوتی تو کافر کو ایک بار بھی پانی نہ پلاتا۔

دنیا پرستی ایک مصیبت ہے جس میں ہم سب کم و بیش مبتلا ہیں، اگر ہم اس وقت اس میں مبتلا نہ ہوں تو احتمال ہے آیندہ مبتلا ہوں گے۔ پس مناسب ہے کہ ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اس بیان کی طرف بیشتر توجہ دیں اور کوشش کریں اپنے نفس کی تربیت کے لئے اس سے استفادہ کریں۔

ہمارے لئے قدر و قیمت کا معیار، حیوانی لذتیں ہیں، لہٰذا جو چیز ہمیں زیادہ پسند آئے ہم اس کی قدرو منزلت کے قائل ہیں اور وہی ہمارے لئے پسندید ہ اور مطلوب ہے۔ لیکن اسلام قدرو منزلت کا ایک دوسرا معیار پیش کرتا ہے اور وہ معیار خدا کی مرضی کی مطابق ہونا ہے، یعنی ایک ایسی چیز کی قیمت ہے جس کی خدا کے نزدیک اہمیت ہو۔

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم قسم کھاتے ہیں کہ اگر یہ دنیا، تمام وسعتوں اور لذتوں کے باوجود‘ جن کو حاصل کرنے کے لئے جانیں نچھاور کی جاتی ہیں اور عمریں ضائع ہوتی ہیں۔ خدا کے نزدیک قدر ومنزلت رکھتیں تو خدائے متعال کا فر کو ایک گھونٹ پانی بھی نہیں پلاتا۔ اگر سمندروں اور دریاؤں کی خدا کے نزدیک قدر ہوتی، تو کافروں کو اس سےبہر مند نہ کرتا بلکہ صرف اولیائے الہٰی کو ان سے مستفید فرماتا (البتہ یہاں پر وہ کافر مراد ہیں جو دین کے دشمن ہیں اور حق کو تسلیم نہیں کرتے ہیں ورنہ مستضعف کافرکا حساب جدا گانہ ہے) یہ جومشاہدہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان اور کافر یکساں طور پر دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں، اس امرکی علامت ہے کہ دنیا کی ذاتی قدر نہیں ہے بلکہ یہ ایک آزمائش کا وسیلہ ہے۔

خدائے متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے:

اِنَّمَا اَمْوَٰلُکُمْ وَاَوْلَادُکُمْ فِتْنَةٌ> (تغابن/ ۱۵)

تمہارے اموال اور تمھاری اولادیں تمھارے لئے صرف امتحان کا ذریعہ ہیں ۔

دوسری جگہ پر فرماتا ہے:

اَلْمَالُ وَالْبُنُونَ زِینَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَالْبَٰ-اقِیَاتُ الصَّ-ٰ-لِحَاتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّکَ ثَوَاباً وَخَیْرٌ اَمَلاً > (کہف/۴۶)

مال اور اولاد زندگانی دنیا کی زینت ہیں اور باقی رہ جانے والی نیکیاں پرور دگار کے نزدیک ثواب اور اُمید دونوں کے اعتبار سے بہتر ہیں۔

ایک دوسری آیہٴ مبارکہ میں دنیا کے فانی ہو جانے اور خدا کے نزدیک موجود ہ چیزوں کے لافانی ہونے کے بارے میں فرماتا ہے:

مَاعِندَکُمْ یَنْفَدُوَمَا عِندَ اللهِ بَاقٍ> (نحل/ ۹۶)

جو کچھ تمھارے پاس ہے وہ سب خرچ ہوجائے گا اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے وہی باقی رہنے والا ہے۔

انسان تصور کرتا ہے کہ دنیا کی نعمتیں قیمتی ہیں اورجو ان سے بیشتر استفادہ کرتاہے وہ زیادہ قدر و منزلت رکھتا ہے۔ قرآن مجید اس غلط تصور کے بارے میں فرماتا ہے:

فَاَمَّا الِْانْسَانُ اِذَامَاا بْتَلَ-ٰ-ہُ رَبُّہُ فَاَکْرَمَہُ وَنَعَّمَہُ فَیَقُولُ رَبِّی اَکْرَمَنِ وَاَمَّا اِذَامَا ابْتَل-َٰ-ہُ فَقَدَرَعَلَیْہِ رِزْقَہُ فَیَقُولُ رَبِّی اَھَ-ٰ-نَنِ> (فجر/ ۱۵و۱۶)

لیکن انسان کا حال یہ ہے کہ جب خدا نے اس کو اس طرح آزمایا کہ اسے عزت اور نعمت دی تو کہنے لگا میرے رب نے مجھے باعزت بنایا ہے،اور جب آزمائش کے لئے روزی کو تنگ کر دیا تو کہنے لگا میرے پرور دگار نے میری توہین کی ہے۔

حقیقت میں دنیا امتحان کا وسیلہ ہے اور انسان، خواہ نعمت اور مال دنیا سے سرفراز ہو یا محروم ہو، خدا کی طرف سے آزمائش ہے نہ دنیا سے بہر مند ہونا کرامت وسر بلندی کی علامت ہے نہ ہی فقرو تنگدستی ذلت وخواری کی نشانی ہے پس چونکہ دنیا خدا کے نزدیک ناچیز ہے، اس لئے کافر کو اس سے محروم نہیں کرتا، اس کے برعکس بہشت اور اس کی نعمتیں خدا کے نزدیک قدر و قیمت رکھتیں ہیں، اس لئے ان سے کافر کو محروم کرتا ہے:

وَنَادیٰ اٴَصْحَابُ النَّارِ اَصْحَابَ الْجَنَّةِ اَنْ اَفِیضُوا عَلَیْنَا مِنَ الْمَآءِ اَوْمِمَّا رَزَقَکُمُ اللهُ قَالُوا اِنَّ اللهَ حَرَّمَھُمَا عَلَی الْکَافِرِینَ> (اعراف/ ۵۰)

اور جہنم والے جنت والوں سے پکار کر کہیں گے کہ ذرا ٹھنڈا پانی یا خدا نے جو رزق تمہیں دیا ہے اس میں سے ہمیں بھی پہنچاؤ تو وہ لوگ جواب دیں گے کہ ان چیزوں کو اللہ نے کافروں پر حرام کر دیا ہے۔

بہشت اور اس کی نعتوں کی ایسی قدرو منزلت ہے کہ کافر ان کی لیاقت نہیں رکھتے اور حقیقت میں یہ بنیادی قدرو منزلت اولیائے الہٰی سے مخصوص ہے۔ اس کے برعکس دنیا کی خدا کے نزدیک کوئی قیمت نہیں ہے، اسی لئے کافر بھی اس سے استفادہ کرتے ہیں اور ممکن ہے وہ دوسروں سے زیادہ اس سے استفادہ کریں اور دنیوی وسائل سے بہرہ مند ہوجائیں، البتہ جتنا وہ اس سے زیادہ استفادہ کریتے ہیں اتنا ہی زیادہ ان کے عذاب میں اضافہ ہوتا ہے، کیونکہ کفار اسے راہ حق سے انحراف اور بغاوت کے لئے استفادہ کرتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ پیغمبر اسلام دنیا کے حقیر اور ناچیز ہونے کے بارے میں قسم کھاتے ہیں۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس مطلب کے بارے میں باور کرنا عام انسانوں کے لئے مشکل ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے یہ دنیا اتنی وسعت، منابع و امکانات اور انسان کے استفادہ کے لئے فراوان لذتوں سے مالا مال ہونے کے باوجود خدا کے نزدیک ایک مکھی کے پر کے برابر قیمت اور اہمیت نہیں رکھتی ہے! اس سلسلہ میں اس کے علاوہ کچھ نہیں کہ حقائق کے بارے میں ہماری معلومات محدود اور ہماری بصیرت کم ہے۔ ہم نے ماد یات کی طرف توجہ کو اپنی زندگی کی بنیاد قرار دیا ہے اورد نیا کو اصلی ہدف سمجھتے ہیں۔ ہم اس سے غافل ہیں کہ خدا کے نزدیک اور قرآن کے نظریہ کے مطابق دنیا ناچیز ہے اور صرف ایک وسیلہ کی حد تک اعتبار رکھتی ہے۔ حقیقی قدر و قیمت ان نیکیوں اور خوبیوں کی ہے جو انسان کے لئے سعاد تمندی اور رضوان الہٰی کا سبب بنتی ہیں۔ حقیقی قدر و قیمت اس چیز میں ہے جو انسان کے لئے قرب الہٰی حاصل کرنے کا سبب بنتی ہے اور یہ وہی مقصد ہے جس کے لئے انسان پیدا کیا گیا ہے اور اس سے کہا گیا ہے کہ اس مقصد تک پہنچنے کے لئے تمام امکانات اور وسائل سے استفادہ کرے۔

چودھواں سبق

آخرت پسندی اور دین میں زہدو

بصیرت کی ستائش اوردنیا طلبی کی مذمت

rدنیا طلبی کی مذمت اور ایمان کی بلندی کا ذکر

r آخرت درستی کی ضرورت

r خدائے متعال کی خیر خواہی اور دنیا میں دین و زہد کی آگاہی۔

آخرت پسندی اور دین میں زہد و بصیرت کی ستائش اور دنیا طلبی کی مذمت

یَا اَبَاذَرٍ! اَلدُّنْیَا مَلعُونَةٌ وَ مَلْعُونٌ مَافِیہَا اِلّٰا مَا اُبتُغِیّ بِہِ وَجْہُ اللهِ وَ مَامِنْ شَیْءٍ اَبْغَضُ اِلیَ اللهِ تَعَالیٰ مِنَ الدُّنْیَا، خَلَقَہَا ثُمَّ عَرَضَہَا فَلَمْ یَنْظُرْ اِلَیْہَاوَلَا یَنْظُرْ اِلَیْھَا حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَةُ وَ مَامِنْ شَیءٍ اَحَبُّ اِلیَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الِایمَانِ بِہِ وَ تَرْکِ مَا اٴَمَرَ بِتَرْکِہِ۔

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَوحٰی اِلیٰ اَخِی عِیسٰی: یَا عِیسٰی لَا تُحِبِّ الدُّنیَا فَاِنِی لَسْتُ اُحِبَُّھَا وَاٴَحِبَّ الْآخِرَةَ فَاِنَّمَا ھِیَ دَارُالْمَعَادِ

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ جَبرَئِیلَ اٴَتَانِی بِخَزَائِنِ الدُّنْیٰا عَلٰی بَغْلَةٍ شَھْبَاءَ فَقَالَ لِی یَا مُحَمَّدَُ ھٰذِہِ خَزَائِنُ الدُّنْیَا وَلاَ یَنْقُصُکَ مِنْ حَظِّکَ عِنْدَ رَبِّکَ فَقُلْتُ حَبٖیبِی جَبْرَئِیلَ لاٰ حَاجَةَ لِی فِیھَا إِذَاشَبِعْتُ شَکَرْتُ رَبِّی وَإِذَا جُعْتُ سَاٴَلْتُہُ

یَا اَبَاذَرٍ! اِذَا اَرَادَاللهُ عَزَّوَجَّلَ بِعَبْدٍ خَیْراً فَقَّھَہ فِی الدِّینِ وَ زَھَّدَہُ فِی الدُّنْیَا وَ بَصَّرَہُ بِعُیُوبِ نَفْسِہِ

اس حدیث کے بعض حصے دنیا کی مذمت کے بارے میں ہیں کہ اس کا ایک حصہ بیان ہوا اور اب ہم اس کے دوسرے حصہ کو پڑھتے ہیں۔ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا کہ دنیا کی مذمت اس معنی میں نہیں ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے مختلف پہلوؤں میں انجام دینے والے کاروبار اور تلاش و کوشش سے ہاتھ کھینچ لے اور مال و دولت کو حاصل کرنے کے پیچھے نہ جائے، بلکہ مذمت، دنیا کی زینتوں سے وابستگی اور انہیں مقصد قرار دینے کی ہے۔ حقیقت میں یہ نیت اور محرک ہے جو انسان کے عمل کو جہت بخشتا ہے اور اس بات کا باعث بنتا ہے کہ وہ عمل شائستہ و پاک محسوب ہو یا ناشائستہ وغیر طاہر۔

قرآن مجید کی آیات و روایات کے مطابق، انسان دنیا کے ہی راستہ سے آخرت تک پہنچتا ہے اور دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ پس انسان کو دنیا میں جستجو اور سعی و کوشش کرنی چاہیے۔ اگر اس کی سعی و کوشش اور دنیوی سرگرمیاں خدا کے لئے ہیں تو وہ سعادت تک پہنچتا ہے اور اگر اس کی سر گرمیاں دنیاوی فعالیت اس کی لذتوں کے لئے ہیں تو خواہ مخواہ معصیت و گناہ کی طرف کھینچتا جارہا ہے اور وہ آتش جہنم اور عذاب ابدی کا راستہ ہے۔

دنیا طلبی کی مذمت اور ایمان کی بلندی کا ذکر:

اولیائے الہٰی مومنوں کو دنیا پرستی اور اس کی لذتوں سے بچانے کے لئے ایک نرس کے مانند —-جو مختلف طریقے سے بیمار کو ان چیز وں سے منع کرتی ہے جو اس کے لئے مضر ہوتی ہیں —- مختلف بیانات سے کوشش کرتے ہیں کہ دنیا کو مومن کی نظر میں قابل نفرت قرار دیں، من جملہ ان بیانات میں سے ایک بیان یہ ہے جس کی طرف یہاں پر اشارہ کرتے ہیں:

یَا اَبَاذَرٍ! اَلدُّنْیَا مَلعُونَةٌ وَ مَلْعُونٌ مَافِیہَاالَّا مَا اُبتُغِیّ بہ وجہ اللہ

اے ابوذر! دنیا اور جو کچھ اس میں ہے، اس پرلعنت ہو مگر یہ کہ ان کے وسیلہ سے خدا کی خوشنودی حاصل کی جائے۔

حدیث کے مضمون سے واضح ہے کہ دنیا کی نعمتوں جیسے زمین، درخت اور آسمان پر لعنت نہیں کی گئی ہے، کیونکہ جو چیز خدا کی خوشنودی تک پہنچنے کا وسیلہ بن سکتی ہے، نہ صرف قابل لعنت نہیں ہے بلکہ وہ مطلوب و پسندیدہ بھی ہے، لہذا دنیا کو مقصد اور اصل قرار دینا قابل لعنت ہے۔ کیونکہ دنیا کی تخلیق اور اس کی نعمتوں کی تخلیق اس لئے کی گئی ہے کہ انسان خدا کا قرب حاصل کرنے کے لئے انھیں اپنا وسیلہ قراردے ۔ دنیا کو انسان کے اختیار میں قرار دیا گیا ہے تاکہ اس کی مدد سے خدا تک پہنچے۔ اب اگر انسان نے دنیا کو خدا تک پہنچنے کے لئے اپنے لئے وسیلہ قرار دیا تو رحمت الہٰی ہمیشہ اس کے ہمراہ ہوگی۔ چونکہ وہ مقصد کو معین کر کے اسی راہ پر گامزن ہے۔ عقلمند انسان کبھی اپنے مقصد سے غافل نہیں رہتا ہے بلکہ ہمیشہ اپنے مقصدا ور اس راہ پر نظر رکھتا ہے جو اسے منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس کے علاوہ مقصد ہے خدا کی نظر رحمت انسان سے منھ پھیر لیتی ہے، کیونکہ اس صورت میں اس نے اپنے مقصد اور دنیا کی پیدائش کے مقصد سے منہ موڑا ہے اور اس نے سعادت کی راہ کے بجائے شقاوت و بدبختی کے راستہ کا انتخاب کیا ہے۔

اصحاب ائمہ علیہم السلام میں سے ایک شخص اپنے کارو بار کے وسیع ہو جانے کی وجہ سے ناراض تھا۔ امام اس سے ملے اور فرمایا: تم کیوں غمگین ہو؟ اس نے کہا: مولا، میری دولت بڑھ گئی ہے، دنیا کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ فرمایا: تم کیوں مال دنیا کے پیچھے پڑے ہو؟ اس نے کہا: تاکہ میں اور میرے فرزند دوسروں کے محتاج نہ رہیں اور اپنے مومن بھائیوں کی مدد کرسکوں۔ حضرت نے فرمایا: یہ تو وہی آخرت طلبی ہے یہ دنیا طلبی نہیں ہے، پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ تم جب دنیوی لذتوں پر فریفتہ ہوجاؤ گے اور دنیا کو دنیا کے لئے چاہو گے، تو اس وقت فکر مند ہو نا۔

مَامِنْ شَیْءٍ اَبْغَضُ اِلیَ اللهِ تَعَالیٰ مِنَ الدُّنْیَا خَلَقَہَا ثُمَّ عَرَضَہَا فَلَمْ یَنْظُرْ اِلَیْہَاوَلَا یَنْظُرُ اِلَیْھَا حَتّٰی تَقُومَ السَّاعَةُ

خدا کے نزدیک دنیا کے برابر کوئی چیز قابل نفرت نہیں ہے۔ اس نے اسے پیدا کیا پھر اس سے منہ موڑلیا اوراس سے اپنی نظر رحمت کو ہٹا لیا اور قیامت تک اس کی طرف نظر نہیں کرے گا۔

اس کلام کے مضمون کو بزرگوں‘ خاص کر امام خمینیۻ اپنی اخلاق کی کتابوں میں زیادہ بیان فرماتے تھے اور اس پر اصرار فرماتے تھے۔ (یہ ایک عجیب تعبیر ہے۔ اہل معرفت کےلئے یہی تعبیر کافی ہے کہ عمر بھر دنیا کی طرف رغبت نہ کریں)۔

اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی تمام مخلوقات کو دوست رکھتا ہے۔ وہ اسماا ور صفات الہٰی کے آثار ہیں۔ اس لحاظ سے کہ دنیا اور اس کی نعمتیں اس کی صفات و اسماء کے مظہر ہیں‘ قیامت تک ان پر توجہ و عنایت رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ دنیا پر اس جہت سے توجہ اور عنایت نہیں کرتا جکہ اسے مستقل اور اصالت کا درجہ دیا جائے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس دنیا میں محبت و عنایت الہٰی کا تعلق کس چیز سے ہے؟ اس نکتہ کے بیان میں آنحضرت فرماتے ہیں:

وَ مَامِنْ شَیءٍ اَحَبُّ اِلیَ اللهِ عَزَّوَجَلَّ مِنَ الِایمَانِ بِہِ وَ تَرْکِ مَا اٴَمَرَ بِتَرْکِہِ

خدا کے نزدیک ایمان اور محرمات سے پرہیز کرنے کے برابر کوئی چیز محبوب تر نہیں ہے۔

خدا کے نزدیک پہلے مرحلہ میں ایمان اور دوسرے مرحلہ پر تقویٰ نیز گناہ و محرمات کو ترک کرنا عزیز ترین شیٴ ہیں۔ اس روایت سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ترک گناہ، واجبات کو انجام دینے سے مطلوب تر ہے۔ اگرچہ کہا جا سکتا ہے کہ انجام واجبات کاایمان کے مراتب میں ہے۔کیونکہ ایمان اعمال قلبی کو بھی شامل ہے اور اس اعمال ظاہری کو بھی جو اعضا و جوارح کے توسط سے انجام دیئے جاتے ہیں۔ اب جو کچھ دنیا میں ہے اگر وہ ایمان تک پہنچنے اور گناہ سے دوری کے سلسلہ میں وسیلہ بن جائے تو وہ خدا کے نزدیک محبوب ہے۔ لہذا خدائے متعال نے بہت سے دنیوی امور کا حکم دیا ہے۔ کیونکہ انسان ان کے ذریعہ تقویٰ‘ نیک اعمال اور خدا کا تقرب حاصل کر سکتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نقل فرماتے ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

تِسْعَةُ اعْشٰارِ الْعِبَادَةِ فِی التِّجَارَةِ“ ۱#

عبادت کے دس حصوں میں سے نو حصے تجارت اور کسب معاش سے مربوط ہیں۔

ایک دوسری روایت میں امام جعفر صادق ںفرماتے ہیں:

مَامِنْ بنٰاءٍ فِی الْاِسْلاٰمِ اَحَبُّ اِلَی الله عَزَّوَجَلَّ وَ اَعَزُّمِنْ التَّزْوِیجِ“۲#

اسلام میں، خدا کے نزدیک ازدواج سے زیادہ عزیز ترین کوئی عمارت نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے یہ امور دنیوی ہیں، لیکن چونکہ یہ خدا کی بندگی اور ترک گناہ کے لئے وسیلہ ہیں، اس لئے خدا کے نزدیک عزیز ہیں۔

آخرت درستی کی ضرورت:

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ اللهَ تَبَارَکَ وَ تَعَالیٰ اَوحٰی اِلیٰ اَخِی عِیسیٰ: یَا عِیسٰیٰ لَا تُحِبِّ الدُّنیَا فَاِنِی لَسْتُ اُحِبَُّھَا وَاُحِبِّ الْآخِرَةَ فَاِنَّمَا ھِیَ دَارُالْمَعَادِ

————————————–

۱۔بحار الانوار ، ج /۸۵، ص/ ۳۱۹ ، ح/ ۲

۲۔ بحار الانوار ، ج /۱۰۳ ، ص /۲۱۹ ، ح /۱۴

۳۔ بحار الانوار ، ج /۱۰۳ ، ص /۲۲۲ ، ح /۴۰

اے ابوذر! خدائے متعال نے میرے بھائی عیسٰی پر وحی نازل فرمائی: اے عیسٰی دنیا کو دوست نہ رکھو کیونکہ میں اسے پسند نہیں کرتا ہوں، آخرت کو دوست رکھو کیونکہ وہ واپس لوٹنے کی جگہ ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم حضرت عیسٰی کی زبانی نقل فرماتے ہیں کہ خدائے متعال نے انھیں وحی بھیجی کہ میں دنیا کو پسند نہیں کرتا ہوں تم بھی اسے دوست نہ رکھو۔ فطری بات ہے پیغمبر بھی دنیا کے دشمن ہےں، چونکہ معصومین کے لئے کسی چیز یا کسی شخص سے دوستی اور دشمنی کا معیار خدا کی دوستی و دشمنی ہے۔ فطری بات ہے کہ مومنین اور حق کے پیروی کرنے والوں کے لئے دنیا سے برتاؤ کرنے میں انبیاء اور معصومین علیہم السلام اور ان کی عملی سیرت نمونہ ہے۔

حضرت علی علیہ السلام، دنیا کی نسبت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے نظریہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

قَدْ حَقَّرَ الدُّنْیَا وَ صَغَّرَ ھَا․․․ فَاَعْرَضَ عَنِ الدُّنْیَا بِقَلْبِہِ وَ اَمَاتَ ذِکْرَھَاعَن نَفْسِہِ وَاَحَبَّ اَنْ تَغٖیبَ زِینَتُھَا عَن عَیْنِہِ لِکَیْلاَ یَتَّخِذَ مِنْھَا رِیَاشاً اَوْ یَرْجُو فِیھَا مُقَاماً․․․۱#

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم دنیا کو حقیر جانتے تھے اور اسے نا چیز کی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ آپ نے دل سے دنیا کو ترک کیا تھا اور اس کی یاد کو اپنے نفس سے نکال باہر کیا تھا اور اس کی زینت کو دیکھنا پسند نہیں فرماتے تھے تاکہ اس کی زینت سے اپنے لباس آراستہ نہ کریں اور اس کی تمنانہ کریں۔

یہ ایسی حالت میں تھا کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے لئے تمام مادی نعمتوں سے استفادہ کرنے کے امکانات موجود تھے، آپ کے اپنے قول کے مطابق دنیا کے تمام خزانے آپ کو پیش کئے گئے تھے، لیکن آپ نے انہیں قبول نہیں فرمایا تھا:

یَا اَبَاذَرٍ! اِنَّ جَبرَئِیلَ اٴَتَانِی بِخَزَائِنِ الدُّنْیٰا عَلٰی بَغْلَةٍ شَھْبَاءَ فَقَالَ لِی یَا مُحَمَّدَُ ھٰذِہِ خَزَائِنُ الدُّنْیَا وَلاَ یَنْقُصُکَ مِنْ حَظِّکَ عِنْدَ رَبِّکَ

اے ابوذر! جبرئیل امین عام دنیا کے خزانوں کو ایک سیاہ و سفید رنگ کے خچر پر رکھ کر میرے پاس

—————————————————-

۱۔ نہج البلاغہ ، ( ترجمہ فیض الاسلام ) خطبہ ۱۰۸ ، ص/ ۳۳۶

لائے اور کہا: اے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم یہ دنیا کے خزانے ہیں اور ان کو خرچ کرنا آپ کے نصیب میں ہے، اس سے خدا کے نزدیک کو ئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

یہ جو پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم فرماتے ہیں :جبرئیل ایک سیاہ سفید رنگ کے گھوڑے پر سوار دنیا کے خزانے لے کر میرے پاس آئے، شاید اس کا کہنا یہ ہوگا کہ دنیا لذت و رنج اور خیر و شرکا سنگم ہے۔ دنیا میں کوئی ایسا شخص پایا نہیں جاسکتا جس نے کہ زندگی میں صرف رنج و پریشانی دیکھی ہو اور کسی طرح کی لذت و خوشی کا سامنا نہ کیا ہوااس کے برعکس ایسا بھی کوئی نہیں ہے کہ جس نے زندگی میں صرف لذت ہی لذت دیکھی ہو اور کسی بھی رنج و مصیبت سے دو چار نہ ہوا ہو۔ حقیقت میں ہر رنج و غم کے ساتھ ایک لذت و خوشی ہے اور ہر لذت و خوشی کے ساتھ ایک رنج و الم ہے اور یہ دونوں انسان کے لئے امتحان کا وسیلہ ہیں:

․․․وَنَبْلُوْ کُمْ بِالشَّرِّ وَالْخَیْرِ فِتنَہً․․․> (انبیاء/ ۳۵)

ہم تو اچھائی اور برائی کے ذریعہ تم سب کو آزمائیں گے۔

اور ایک نکتہ یہ ہے کہ جبرئیل آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہتے ہیں: اگر آپ دنیا کے تمام خزانوں سے استفادہ کریں گے تو آپ کے آخرت سے استفادہ کرنے میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔ مادی لذتوں کی آفتوں میں سے ایک یہ ہے کہ جس قدر ان سے استفادہ کیا جائے گا احتمال ہے اخروی فائدوں سے محروم ہو جائے۔ لیکن اولیائے الہٰی اور انبیاء اس طرح نہیں ہیں، اس لحاظ سے جبرئیل کہتے ہےں:

تمام دنیوی خزانوں سے استفادہ کرنے سے آپ کے اخروی حصہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلمنے جبرئیل کے جواب میں فرمایا:

حبیبی جبرئیل لا حاجة لی فیھا اذاشبعت شکرت ربی واذاجعت سالتہ۔

میرے دوست جبرئیل مجھے اس کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھی میں سیر ہوں گا اس کا شکر کروں گا۔ اگر مجھے بھوک لگے گی تو اس سے مانگ لوں گا۔

مومن کے لئے بہترین حاجت یہ ہے کہ ایک طرف سے خدا کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے اور ان کے لئے خدا کا شکر بجالائے اور دوسری طرف سے خدا کی نسبت احساس فقرو محتاجی کرے اور ہمیشہ اس کی طرف ہاتھ پھیلائے۔ کیونکہ انسان ایک ایسی مخلوق ہے کہ جس کے دو پہلو ہیں ، اسے چاہئے کہ خد اکی نعمتوں سے استفادہ کرے اور اس کا شکر بجالائے۔ بس اس کی نعمتوں سے استفادہ اور اس کا شکربجا لانا اس کی سعادت کا سبب ہے۔ اور دوسری طرف سے ہمیشہ احساس فقر و محتاجی کرے تاکہ مغرور اور غافل نہ ہو اور خود کو دوسروں سے برتر تصور نہ کرے۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں: اگر دنیا کی ساری دولت میرے اختیار میں ہو جب بھی مجھے کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی۔ مجھے ہمیشہ خدا پر نظر رکھنی چاہیے اور اس سے نعمت مانگوں اور اس کی نعمت کا شکر بجالاؤں۔

خداوند عالم کی خیر خواہی اور دنیا میں دین و زہد کی آگاہی:

حدیث کو جاری رکھتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں:

یَا اَبَاذَرٍ! اِذَا اَرَادَاللهُ عَزَّوَجَّلَ بِعَبْدٍ خَیْراً فَقَّھَہ فِی الدِّینِ وَ زَھَّدَہُ فِی الدُّنْیَا وَ بَصَّرَہُ بِعُیُوبِ نَفْسِہِ․“

اے ابوذر! جب خدائے متعال کسی بندہ کے لئے خیر چاہتا ہے اسے دین میں فقیہ اور دانا بنا دیتا ہے اور دنیا میں زاہد قرار دیتا ہے اور اسے اپنے عیوب کی طرف دیکھنے کی بینائی و بصیرت عطا کرتا ہے ۔

جب خدائے متعال کسی بندے کو خیر پہنچانا چاہتا ہے تو اسے تین چیزیں عطا کرتا ہے:

۱۔ دین کی معرفت

۲۔دنیا میں زہد اور دنیوی لذتوں سے بے رغبتی

۳۔ اپنے عیوب کے بارے میں آگا ہی

(مذکورہ تین خصوصیتوں کے مقابلہ میں، انسان کے لئے بدترین چیز دین کے بارے میں جہل، دنیا پرستی، اپنے آپ سے راضی ہونا اور دوسروں کی عیب جوئی کرنا ہے)

گزشتہ مطالب اور آنے والے مطالب کے پیش نظر قابل تو جہ جملہ ”وزھّدہ فی الدّنیا“ ہے۔ کیونکہ بحث دنیا کی اہمیت و منزلت کے بارے میں ہے پس اگر کوئی شخص اپنے دل میں یہ احساس کرتا ہے کہ اسے دنیا سے کوئی رغبت نہیں ہے اور اس سے صرف اپنی ضرورتوں کو پورے کرنے کی حدتک استفادہ کرتا ہے اور فقط فرائض کے انجام دینے کے لئے دنیوی امور کی طرف توجہ کرتا ہے تو اسے معلوم ہونا چاہئے خدائے متعال اس کی خیر چاہتا ہے۔ البتہ ایک معنی میں خدائے متعال سبھی کے لئے خیر چاہتا ہے لیکن وہ اپنے تشریعی ارادے کی بنیاد پر سبھی کے لئے بعض و ظائف معین کئے ہیں اور انہیں محرمات سے روکا ہے۔ اب اگر انتخاب کرنے والا انسان صحیح انتخاب کرے اگر چہ صحیح راستہ کو انتخاب کرنے کے مقدمات خدائے متعال کی توفیق سے حاصل ہوتے ہیںاگر یہ طےہو جائے کہ بندگی کے راستہ کو اختیار کرے گا اور ایسی چیز کو پسند کرے گا کہ جسے خدا پسند کرتا ہے اور خدا کے دوستوں کے ساتھ دوست اور خدا کی راہ میں قدم بڑھائے گا تو خدا کا خاص تکوینی ارادہ اس سے متعلق ہو جاتا ہے کہ وہ اسے کامیابی اور سر بلندی سے سرفراز کرے:

وَمَنْ اَرَادَ الْآخِرَة َوَسَعیٰ لَھَا سَعْیَھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰئِکَ کَانَ سَعْیَھُمْ مَشْکُوراً> (اسراء۔ ۱۹)

اور جو شخص آخرت کا چاہنے والا ہے اور اس کے لئے ویسی ہی سعی بھی کرتا ہے اور صاحب ایمان بھی ہے تو اس کی سعی یقینا مقبول قرار دی جائے گی۔

اس کے مقابلہ میں خدائے متعال کسی سے دشمنی نہیں رکھتا ہے اور بلا وجہ کسی کو جہنم میں نہیں ڈالتا ہے۔ پس اگر کسی نے اپنے غلط انتخاب کی بناپر کفر و عصیان کا راستہ اختیار کیا تو پرور دگار عالم ارادہ تکوینی کے ذریعہ اسے ذلیل و رسوا کرتا ہے اور اسے خیر کی توفیق نہیں ہوتی ہے:

مَنْ کَانَ یُرِیدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَہُ فِیھَا مَا نَشَاءُ لِمَنْ نُرِیدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَہُ جَہَنَّمَ یَصْل-ٰ-ھٰا مَذْمُوماً مَدْحُوراً> (اسراء۔ ۱۸)

جو شخص بھی دنیا کا طلب گا رہے ہم اس کے لئے جلد ہی جو چاہتے ہیں دے دیتے ہیں پھر اس کے بعد اس کے لئے جہنم ہے جس میں وہ ذلت و رسوائی کے ساتھ داخل ہوگا۔

پس خدائے متعال جس کی خیر چاہتا ہے اسے تین چیزوں میں کامیاب قرار دیتا ہے:

اسے علم حاصل کرنے کی توفیق بخشتا ہے اس کے بر عکس اگر خدا کسی کے لئے خیر نہیں چاہتا تو اسے علم حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے، چنانچہ روایت میں آیا ہے:

اِذَا اَرْذَلَ اللهُ عَبْداً حَظَّرَ عَلَیْہِ الْعِلمَ

اگر خدا وند متعال اپنے کسی بندے کو اپنے سے دور کرتا ہے تو اسے علم حاصل کرنے سے محروم کردیتا ہے۔۱#

———————————–

۱۔ بحار الانوار: ج /۱ ، ص/ ۱۹۶

ہم خدا کا شکر بجالا تے ہیں کہ اس نے اپنے بے شمار بندوں میں سے ہمیں علم دین حاصل کرنے کی توفیق عنایت فرمائی ہے۔ ہمیں اس بڑے افتخار کی قدر کرنی چاہیے جو ہمارے نصیب میںہے، کیونکہ اسی بڑی الہٰی توفیق کے نتیجہ میں ہمارے لئے کمال تک پہنچنے کی راہ ہموار ہے۔ ایک روایت میں آیا ہے:

اَلْکَمَالُ کُلُّ الْکَمَالِ‘ اَلتَّفَقُہُ فِی الدِّینِ وَتَقْدِیرِالْمَعٖیشَةِ وَالصَّبْرُ عَلٰی النَّائِبَةِ

تمام کمالات تین چیزوں میں خلاصہ ہوتے ہیں:

۱۔ دین میں تفقہ

۲۔ امور زندگی کی منظم منصوبہ بندی

۳۔ مشکلات پر صبر ۱#

دوسری توفیق الہٰی: دنیا کی نسبت سے بے رغبت ہونا ہے انسان کو چاہئے کہ اس کا دل دنیا کی زرق وبرق چیزوں پر فریفتہ نہ ہو افسوس کہ ہم میں بہت سے لوگوں میں یہ خصوصیت نہیں پائی جاتی بلکہ ہم تقریباً دنیا کی لذتوں سے وابستگی رکھتے ہیں۔ اگر انسان مناسب اور اپنی شان کے مطابق زندگی بسر کرنے کے باوجود، بہتر گاڑی، بہتر سواری اور بہتر لباس کی تلاش میں سر گرداں ہے تو وہ دنیا طلبی کے پیچھے پڑا ہے اوروہ بہشت کی نعمتوں سے محروم ہوگا، جیسا کہ قرآن مجید فرماتا ہے:

تِلْکَ الدَّارُالآخِرَةُ نَجْعَلُھَا لِلَّذِینَ لاَ یُرِیدُونَ عُلُوّاًفِی الْاَرْضِ وَلاَ فَسَاداً․․․․> (قصص/ ۸۳)

یہ دار آخرت وہ ہے جسے ہم ان لوگوں کے لئے قرار دیتے ہیں جو زمین میں بلندی اور فساد کے طلبگار نہیں ہوتے ہیں۔

اس آیت کے ذیل میں ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ حتی اگر انسان اپنے جوتے کے تسمہ کو بدل کر بہتر تسمہ کی فکر میں ہو تو یہ زیادہ خواہی اور برتر طلبی کا نمونہ ہے ۲# ۔ پس، انسان کو کوشش کرنا چاہیے کہ اس حد تک بھی دنیا کے پیچھے نہ پڑے۔ اس کا دل خدا اور آخرت کی طرف متوجہ ہونا چاہیے نہ جوتے کے تسمہ، گھر اور

———————————–

۱۔ بحار الانوار ، ج/ ۷۸ ، ص/ ۱۷۲ ، ح/ ۵۔

۲ ۔المیزان ج/۱۶،ص/۸۵

سواری کی فکر میں، کیونکہ دل نو رِخدا کے نازل ہونے کی جگہ ہے:

قَلْبُ الْمُؤْمِنِ عَرْشُ الرَّحْمٰنِ

مومن کا دل خدا کی جگہ ہے۔ ۱#

جس قدر انسان کادل خدائے متعال سے منحرف ہوگا اورامور دنیا میں مشغول ہوگا اسی قدر وہ معنوی اور اخروی معاملات سے محروم ر ہے گا۔

حضرت علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں دنیا کی نسبت انبیاء کے نقطہ نظر کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی پیروی کرناتمھارے لئے کافی ہے اور دنیا کی مذمت اور اسے عیب جاننے کے لئے اس کی بیشمار رسوائیاں اور برائیاں تمھارے لئے دلیل اور رہنما ہے۔ کیونکہ دنیا کی وابستگی آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے لے لی گئی تھی اور دوسروں کااس کی طرف مائل ہونافراہم کیا گیا اس کی لذتوں سے استفادہ کرنے سے پرہیز کیا اور اس کی سجاوٹوں سے اجتناب کیا۔ اگر کسی دوسرے پیغمبر کی اطاعت کرنا چاہتے ہو تو موسیٰ کلیم اللہ کی پیروی کرو کہ جو فرماتے تھے: ”پرور دگارا! مجھے جو خیر و نیکی تونے عنایت کی ہے میں اس کا محتاج ہوں

خداکی !قسم موسیٰ نے خدا سے کھانے کےلئے روٹی کے علاوہ کچھ نہیں مانگاتھا۔ کیونکہ وہ زمین کی گھاس کھاتے تھے۔ اور دبلا پتلا ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ کی کھال اتنی نازک ہوگئی تھی کہ پیٹ میں موجودہ سبز گھاس دکھائی دیتی تھی۔ اگر تیسرے پیغمبر کی پیروی کرنا چاہتے ہو تو داؤد پیغمبر کی پیروی کرو جو صاحب ”مزامیروزبور“ تھے۔ وہ بہشت کے نغمہ خوان ہوں گے۔ وہ اپنے ہاتھ سے کھجور کے پتوں کی زنبیل بناتے تھے اور اپنے دوستوں سے کہتے تھے: ”تم میں سے کون ان کو فروخت کرنے میں میری مدد کرے گا؟ اور وہ اس کی قیمت سے اپنے لئے جو کی ایک روٹی تیار کرتے تھے۔

عیسٰی کو بتاؤ جو سوتے وقت تکیہ کے بجائے اپنے سرہانے پتھر رکھتے تھے اور کھدر کپڑے پہنتے تھے اور سخت غذا کھاتے تھے۔ رات میں ان کا چراغ چاند ہوتا تھا۔ سردیوں میں ان کا مکان وہ جگہ ہوتی تھی۔ جہاں سورج چمکتا تھا یا وہ جگہ دھنس جاتی تھی (ان کا گھر نہیں تھا) ان کا میوہ اور خوشبو دار سبزی وہ گھاس تھی جو مویشیوں کےلئے زمین پر اگتی ہے۔ نہ ان کی بیوی تھی جو اسے فتنہ و تباہی کی طرف کھینچتی اور نہ ان کا کوئی فرزند تھا

——————————————

۱۔ بحار الانوار ، ج ۸۵ ، ص ۳۹

جو انھیں غمگین کرتا نہ ان کے پاس پراپرٹی اور دولت تھی جو انھیں خدا کی یاد سے روکتی اور نہ کوئی طمع و لالچ تھی جو انھیں خوار کرتی۔ خداند متعال اپنے اولیا سے دشمنی رکھتا ہے کہ انہیں دنیا کی لذتوں سے محروم کرے؟ یا یہ کہ دنیا کی سختی اور مشکلات ان کے تکامل وترقی کا وسیلہ اور خدا کی محبت کی علامت ہے۔ اس نکتہ کی تاکید کرنا ضروری ہے کہ ان بیانات سے ایسا تصور نہیں کرنا چاہیے ہم بیکاری اور بے عملی کا مظاہرہ کریں اور گوشہ نشینی اختیار کر کے فرائض سے ہاتھ کھینچ لیں اور کسب حلال کےلئے کوشش نہ کریں یا اسلام و مسلمین کے تحفظ کےلئے کوشش نہ کریں! دراصل بات یہ ہے کہ دنیوی امور کا فریفتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اگر تمام دنیا کے خزانے اور دولت بھی کسی کے اختیار میں دے دی جائے اور وہ تمام لذتوں سے استفادہ کرے لیکن اس پر فریفتہ نہ ہو تو اسے کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔ جیسے سلیمان بن داؤد کہ اتنی دولت‘ عظیم سلطنت مقام نبوت و ولایت کے ہوتے ہوئے بھی انھیں کوئی نقصان نہ پہنچاکیونکہ وہ دنیا کے فریفتہ نہیں ہوئے تھے۔ خود جو کی روٹی کھاتے تھے اور دولت و قدرت کو دین خدا کو عزت بخشنے کےلئے استعمال کرتے تھے۔ اگر ملکہ سبا سے جنگ کی یا‘ جنگ کی دھمکی دی تو‘ وہ صرف حکومت الہٰی کی وسعت کےلئے تھی اور اس لئے تھی کہ زمین سے شرک کا خاتمہ ہو جائے نہ اس لئے کہ خود دنیا کی لذتوں سے استفادہ کریں۔

معصومین علیہم السلام کی زاہدانہ زندگی کے بارے میں نقل کی گئی تمام روایتوں سے اس طرح کا شک و شبہ بر طرف ہو جاتا ہے کہ وہ دنیا میں سختی سے زندگی بسر کرتے تھے اور دنیا میں عیش و آرام کے خواہاں نہیں نہیں تھے۔ ان کا طریقہٴ کار یہ تھا کہ لوگوں کو دنیا پرستی سے روکتے تھے‘ جس طرح ائمہ اطہار کے اصل وجود میں کوئی شک نہیں ہے‘ اسی طرح ان کی زندگی کے شیوہ میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ ان کی واضح خصوصیات میں خدا کی عبادت سحر خیزی‘ مناجات‘ دعا اور گڑ گڑانا تھا۔ دوست و دشمن اور شیعہ و سنی اس کااعتراف کرتے ہیں اور اس بارے میں کتابیں لکھی گئی ہیں۔

ان کی تربیت کی روش لوگوں کو دنیا پرستی سے روکنا اور مادی لذتوں سے وابستگی کے بارے میں ان کی طبیعت میں نفرت پیدا کرنی تھی۔ اس کے باوجود دوسروں کو مسلسل کام‘ فعالیت اور کسب حلال کی تلقین کرتے تھے تاکہ دوسروں کے محتاج نہ رہیں۔ حقیقت میں یہ دنیا اور خدا کی مرضی کو جمع کرنے کے معنی میں ہے

————————————————-

۱۔ نہج البلاغہ ترجمہ فیض الاسلام ،خ/ ۱۵۹، ص/ ۵۰۸

جو عام لوگوں کےلئے ممکن نہیں ہے۔

جو روایتیں دنیا کی مذمت یا کسب معاش کی ستائش میں نقل کی گئی ہیں۔ ان کے بارے میں صدر اسلام سے ہی غلط مطالب نکالے جاتے رہے ہیں، جب دنیا کی مذمت کی جاتی تھی تو وہ تصور کرتے تھے کہ دنیا سے استفادہ نہیں کرنا چاہیے اور غاروں میں زندگی بسر کرنی چاہیے اور درختوں کے پتوں سے لباس بنایا جانا چاہیے: دوسری طرف سے جب دیکھتے تھے بعض روایتوں میںتلاش معاش کی ستائش ہوئی ہے‘ تو خیال کرتے تھے کہ تمام چیزوں کو پیٹ کےلئے قربان کرنا چاہیے!

مکتب اہل بیت کے تربیت یافتہ بخوبی جانتے ہیں کہ تلاش معاش اور دنیا کی نعمتوں سے استفادہ کرنے اور آخرت طلبی کے درمیان کوئی منافات نہیں ہے لیکن دنیا کی محبت اور آخرت کی محبت میں منافات ہے اور ان دوکا جمع ہونا ممکن نہیں ہے۔ ممکن نہیں ہے انسان خدا سے بھی محبت رکھے اور اس چیز سے بھی جس پر اس نے غضب کیا ہے۔ جو دنیا آخرت تک پہنچنے کا وسیلہ اور کسب معاش خدا کی مرضی کے مطابق ہو ممنوع اور مبغوض نہیں ہے۔

دنیا سے محبت اور اس سے دوری کا اندازہ لگانے کےلئے انسان کا ظاہری عمل معیار نہیں ہے بلکہ اس کا معیار انسان کی نیت اور اندرونی محرک ہے۔ لیکن بعض اوقات نیت عمل میں ظاہر ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر کوئی دعویٰ کرتا ہے کہ دنیا سے اس کی کوئی دلچسپی نہیں ہے لیکن عملاً دنیا کےلئے ہاتھ پاؤں مارتا ہے اور حرام سے بھی پرہیز نہیں کرتا ہے۔ بے شک ایسے شخص کی نیت دنیا پرستی ہے۔ لہذا کام دعویٰ سے حل نہیں ہوتا‘اصل میں نیت اور دل پر نظر ڈالنی چاہیے۔ کچھ ایسے درویش اور صوفی بھی پائے جاتے ہیں جو دنیا سے بے اعتنائی اور بے رغبےی کےلئے زبان پر اشعار جاری کرتے ہیں لیکن عملاً ایک پیسہ بھی چھوڑنے کےلئے تیار نہیں ہیں۔

پندرہواں سبق:

حکمت‘ بصیرت اور پیغمبر اسلام کی

عملی سیرت کی ایک جھلک

rحکمت و بصیرت زہد کا عطیہ

rزاہد ترین لوگوں کی نشانیاں

rطولانی آرزو اور فرائض سے غفلت‘ تقویٰ و توکل کے ضعیف

ہونے کی علامت ہے۔

rپیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی عملی سیرت کی ایک جھلک

اٹھار ہواں سبق

پرور دگار کی عظمت و جلالت کا احترام

rقرآن مجید اور احادیث میں ذکر الٰہی کی اہمیت

rذکر کی کمیت و کیفیت

rلفظی و قلبی ذکر کے درمیان رابطہ

rلفظی ذکر کے دو فائدے

پروردگار کی عظمت و جلالت کا احترام

یَا اَبَاذَرٍ! لِیَعْظُمْ جَلاَلَ اللهِ فِی صَدْرِکَ فَلا تَذْکُرُہُ کَمٰایَذْکُرُہُ الْجَاھِلُ عِنْدَ الْکَلْبِ َاللَّھُمَّ اخْزِہِ وَعِنْدَ الْخَنْزِیرِ اَللَّھُمَّ اخْزِہِ

اے ابوذر! پرور دگار کی عظمت و جلالت تمھارے دل میں بڑھ جائے اسے ہلکا نہ سمجھنا، جیسے جاہل اور نادان لوگ جب کتے اور سور کو دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں: خدا وندا! ان کا گلا گھونٹ دے۔

قرآن مجید اور احادیث میں ذکر الٰہی کی اہمیت:

حدیث کے اس حصہ میں موضوع سخن خدا کی یاد اور اس کی عظمت کی تجلیل و احترام ہے۔ قرآن مجید اور روایتوں میں خدا کی یاد کو فراوان اہمیت دی گئی ہے، یہاں تک بعض موضوع جیسے ذکر الہٰی کی تشویق، ذکر کے دنیوی و اخروی فائدے، ذکرکی کمیت و کیفیت، ذکر کے لئے زمان ومکان جیسے عناوین سے روایات میں تفصیل سے بحث کی گئی ہے۔ اسی طرح زبانی اور قلبی ذکر کے بارے میں، یہ کہ ان میں سے کون اہم و برتر ہے یا یہ کہ ذکر خلوت و تنہائی میں بہتر ہے یا ملاء(مجمع) عام میں، ان سب کے بارے میں بھی اہل بیت علیہم السلام اور علمائے دین کی طرف سے بیان ہوا ہے۔

حضرت امام جعفرصادق علیہ السلام نے ایک روایت میں فرمایا ہے:

ما اجتمع قوم فی مجلس لم یذکروااللّٰہ ولم یذکرونا الاکان ذٰلک المجلس حسرة علیہم یوم القیامة

کوئی قوم یا افراد کسی مجلس میں جمع نہیں ہوںگے کہ جس میں خدا کی یاد اور ہمارا تذکرہ زبانوں پر جاری نہ ہو، مگر یہ کہ وہ مجلس قیامت کے دن ان کے لئے حسرت و اندوہ کا باعث ہوگی۔

نیز فرمایا:

اِنَّ ذکر نامن ذکر الله“ ۱#

ہماری یاد بھی خدا کی یاد ہے۔

ذکر اور خد کی طرف توجہ کی اہمیت کے پیش نظر امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

جب کسی مجلس سے اٹھو تو ان آیات کی تلاوت کرنا:

سُبْحَانَ رَبِّکَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا یَصِفُونَ وَسَلاَمٌ عَلَی الْمُرسَلِینَ وَالْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالَمِینَ> (صافات/ ۱۸۰، ۱۸۲)

آپ کا پرور دگار جو مالک عزت بھی ہے ان کے بیانات (توصیف) سے پاک و پاکیزہ ہے۔

اور ہمارا سلام تمام مرسلین پر ہے۔ اور ساری تعریف اس اللہ کے لئے ہے جو عالمین کا پروردگار ہے۔ ۲#

اس بنا پر انسان کو ہمیشہ دل و زبان پر ذکر خدا کو جاری رکھنا چاہئے اور اس ذکر کے لئے زمان و مکان یا کوئی خاص مجلس مخصوص نہیں ہے۔ حدیث قدسی میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا:

خدا وندا! بعضمواقع اور حالات میں شرماتا ہوں کہ تیرے ذکر کو زبان پر جاری کروں اور تجھے یاد کروں۔ خدائے متعال نے فرمایا: میرا ذکر ہر حالت میں اچھا ہے۔

یاد اور ذکر الہٰی کے لئے یہ سب نصیحت اور تاکید انسان کو رذائل اور اخلاقی کو تاہیوں سے بچانے اور اسے سعادت و خوشبختی کی منزل تک پہنچانے کے پیش نظر کی گئی ہے، کیونکہ اگر انسان ہمیشہ خدا کی یاد میںڈوبا ہوا اور ہمہ وقت خود کو خدا کے حضورمیں تصورت کرے، تو ایسے امور سے پرہیز کرے گا جو خداکو پسند نہیں ہیں اور اپنے نفس کو سرکشی سے روکے گا۔

———————————–

۱۔ بحار الانوار ، ج/۷۲طبع بیروت ص/۴۶۸

۲۔ اصول کافی (ترجمہ) ج/۴،ص/ ۲۵۴،ح/۳

تمام مشکلات اور خطائیں جو نفس امارہ اور شیطان کی وجہ سے پیدا ہوتی ہیں‘ خدا کی یاد اور اس کے عذاب سے غفلت کی وجہ سے ہیں۔ اس کے علاوہ خدا سے غفلت اور بے توجہی دل کو تاریک بنا دیتی ہے‘ جس کے نتیجہ میں نفسانی خواہشات کا انسان پر غلبہ ہو جاتا ہے۔ اس کے مقابلہ میں خدا کی یاد اور اس کا ذکر دل کو پاکیزگی بخشتا ہے اور روح کی پاطہارت اور رزائل سے دور ہونے کا ذریعہ ہے اور انسان کو نفس کی قید سے آزاد کرتاہے۔ اس صورت میںانسان کا دل پروردگار کی جلوہ گاہ بن جاتا ہے اور دنیا پرستی۔ جو تمام خطاؤں اور انحرافات کا سرچشمہ ہے۔ دل سے رخصت ہو جاتی ہے۔

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ایک روایت میں فرماتے ہیں:

وَ اعْلَمُو اَنَّ خَیْرَ اَعْمَالِکُمْ ]عِندَ مَلِیکِکُمْ[ وَاَزْکَاھَا وَ اَرْفَعَھَا فِی دَرَجَاتِکُمْ وَ خَیْرَمَا طَلَعَتْ عَلَیْہِ الشَّمْسُ ذِکْرُ اللهِ سُبحٰانَہ وَ تَعٰالیٰ فَاِنَّہ اَخْبَرَ عَنْ نَفْسِہِ فَقَالَ: اَنَا جَلیسُ مَنْ ذَکَرَ نِی“ ۱#

جان لو خدا کے نزدیک تمہارے بہترین اعمال‘ ان میں سے پاکیزہ ترین اور بلند ترین تمھارے درجات اور بہترین چیز جس پر سورج کی روشنی پڑتی ہے خدا وند سبحان کا ذکر ہے۔ کیونکہ خدائے متعال اپنے بارے میں خبر رکھتا ہے۔ اور فرماتا ہے: میں اس کا ہمنشیں ہوں جو مجھے یاد کرتا ہے۔

ایک دوسرے روایت میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

اِنَّ اللهَ عَزَّوَجَلَّ یَقُولُ: مَنْ شُغِلَ بِذِکْرِی عَنْ مَسْاٴَلَتِی اَعْطَیتُہُ اَفْضَلَ مَا اُعْطِیَ مَنْ سَاٴَلَنٖی۲#

خدائے متعال فرماتا ہے: جو میری یاد اور میرے ذکر میں مصروف رہنے کی وجہ سے مجھ سے سوال نہ کر سکے‘میں اسے اس سے بہتر عطا کروں گا جس کو میں سوال کے ذریعہ عطاکرتا ہوں۔

خدائے عزوجل نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے فرمایا:

یا عیسیٰ اذکرنی فی نفسک اذکرک فی نفسی واذکرنی فی ملاک اذکرک فی ملا خیر من ملا الادمیین یا عیسیٰ الِنْ لی

———————————–

۱۔عدہ الداعی،ص/۲۳۸

۲۔اصول کافی ( با ترجمہ) ج/۴ص/۲۶۱،ح/۱

قلبک و اکثر ذکری فی الخلواٰت واعلم ان سروری ان تبصبص الیَّ وکن فی ذٰلک حیا ولا تکن میتا“ ۱#

اے عیسیٰ! تم مجھے اپنے پاس یاد کرو تاکہ میں تمھیں اپنے نزدیک یاد کروں اورتم مجھے لوگوں کے درمیان یاد کرو‘ تاکہ میں بھی تجھے انسانوں سے بہتر جماعت (فرشتوں) میں یاد کروں ۔ اے عیسیٰ: اپنے دل کو میرے لئے نرم کرو اور تنہائیوں میں مجھے زیادہ یاد کرو اور جان لو کہ میری خوشی اس میں ہے کہ میرے لئے تواضع کرو اس کام کےلئے اپنے دل کو زندہ رکھو اور مردہ (افسردہ) نہ رہو

خدا کی یاد کے بارے میں قرآن مجید کی تاکید اور توجہ اس حد تک ہے کہ اس میں نماز کے مقصد کو خدا کی یاد کے عنوان سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں نماز کی منزلت بلند ہے اور اسے دین کے ستون کی حیثیت سے پہچانا گیا ہے۔

․․․وَاَقِمْ الصَّلوٰةَ لِذِکرِی> (طہ/۱۴)

اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو“۔

چونکہ مقصدوہدف وسیلہ سے زیادہ اہم ہوتا ہے‘ اس آیہ شریفہ سے استفادہ ہوتا ہے کہ خدا کی یاداور اس کا ذکر نماز سے زیادہ اہم ہے اور حقیقت میں نماز‘ خدا کی یاد کا ایک وسیلہ ہے۔ (بیشک قرآن کی نظر میں ذکر کا ایک مفہوم اور اس کی ایک حقیقت ہے نماز تمام اہمیتوں کے باوجود اس کے لئے ایک وسیلہ سے زیادہ نہیں ہے)۔ قابل غور بات یہ ہے کہ باوجود اس کے کہ نماز کے بعض اذکار قرآن کی آیات سے اخذ کئے گئے ہیں اور اس کی ایک خاص ہیئت و شکل ہے پھر کس طرح یہ خدا کی یاد کے لئے وسیلہ ہے؟

اس مطلب کی وضاحت میں کہنا چاہئے: نماز ایک خاص شکل و صورت‘حرکات و سکنات اور اس میں پڑھے جانے والے اذکار کے باوجود ذکر شمار نہیں ہوتی بلکہ ذکر ایک قلبی کیفیت اور خاص توجہ کی حالت اور انسان کے دل کا اللہ تعالیٰ سے رابطہ کا نام ہے۔ لہذا نسان نماز پڑھتا ہے تاکہ اس کے اور خدا کے درمیان وہ خاص توجہ ا ور رابطہٴ قلبی پیدا ہو جائے۔ اس بنا پر‘ نماز خود ایک وسیلہ ہے اور مقصد وہی توجہ اور قلبی ارتباط ہے جو بے شک نماز سے زیادہ محترم ہے۔

———————————————

۱۔اصول کافی ( با ترجمہ) ج/۴ص/۲۶۴،ح/۳.

source : http://www.taghrib.ir

تبصرے
Loading...