٢۔ گناہ

٢۔ گناہ

٢۔ گناہ

گناہوں کا مرتکب ہونا،اہل بیت عصمت و طہارت  کے دستورات کے منافی ہے۔یہ شرم آور اور تباہی کا باعث ہے۔ممکن ہے کہ یہ مردانِ خدا کے بہترین حالات کو ختم کردے۔اس بناء پر گناہ کو انجام دینا نہ صرف معنوی حالات کو ایجاد کرنے کے لئے مانع ہے۔بلکہ یہ اس ایجاد شدہ حالات کو درہم برہم کرنے کی قدرت رکھتا ہے۔امام صادق (ع)فرماتے ہیں: 

” قَالَ سَمِعتُ اَبَا عَبدِاللہ ۔یَقُولُ۔اِتَّقُوااللہ ،وَ لَا یحسُد بَعضُکُم بَعضاً۔اِنَّ عیسیٰ بنَ مَریَمَ کَانَ مِن شَرِیعِہ السَّیحُ فِی البِلَادِ،فَخَرَجَ فِی بَعضِ سَیحِہ وَ مَعَہ رَجُل مِن الصَّحابَةِقَصِیر وَ کَانَ کَثِیرُاللُّزُوم ِ لِعِیسی بنِ مَریمَ،فَلَمَّا اِنتَہیٰ عِیسیٰ اِلی البَحرِقَالَ بِسمِ اللہ بِصِحِّةِیَقِینٍ مِنہُ،فَمَشیٰ علیٰ ظَہرِالمَائِ فَقَالَ الرَّجُلُ القَصِیرُ حِینَ نَظَرَ اِلیٰ عِیسیٰ جَازَہ،بِسمِ اللہ بِصِحَّةِیَقِینٍ مِنہُ فَمَشیٰ عَلیٰ المَائِ وَ لَحِقَ بِعِیسیٰ،فَدَخَلَہ العَجبُ بِنَفسِہ “

”فَقَالَ ھٰذا عِیسیٰ رُوحُ اللہ یَمشِی عَلی المَائِ وَ اَنَا اَمشِی عَلی المَائِ فَمَا فَضلُہ عَلَیَّ ؟قَالَ فَرُمِسَ فِی المَائِ فَااستَغَاثَ بِعِیسیٰ فَتَنَاوَلہُ مِنَ المَائِ فَاَخرَجَہ، ثُمَّ قَالَ لَہ،مَا قُلتَ ےَا قَصِیرُ؟قَالَ  قُلتُ ھٰذا رُوحُ اللہ یَمشِی عَلی المَائِ وَ اَنَا اَمشِی ،فَدَخَلَنِی مِن ذَالِکَ عُجب ”

” فَقَالَ لَہ عِیسیٰ:لَقَد وَضَعتُ نَفسَکَ فِی غَیرِالمَوضِعِ الَّذی وَضَعَکَ اللہ فِیہ فَمَقَّتَکَ اللہُ علیٰ مَا قُلتُ فَتُب اِلی اللہ عَزَّوَجَلَّ مِمَّا قُلتَ، قَالَ فَتَابَ الرَّجُلُ وَعَادَ اِلیٰ المَرتَبَةِ الَّتی وَضَعَہ اللہُ فِیہا،فَاتَّقُوا اللہ وَلَا ےَحسُدَنَّ بَعضُکُم بَعضاً” ([1])

داؤد رقّی کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (ع) سے سنا کہ آپ نے فرمایا خدا سے ڈرو اور ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔

حضر ت عیسیٰ ابن مریم کی شریعت میں شہروں کی سیاحت تھی،ان سیاحتوں میں سے ایک دفعہ چھوٹے قد کا  ایک مرد بھی ان کے ہمراہ تھا ، وہ حضرت عیسیٰ  بن مر یم کے ساتھ بہت نزدیک تھا ۔

وہ چلتے ہوئے ایک دریا کے پاس پہنچے حضرت عیسیٰ  نے اپنے صحیح و کامل یقین سے بسم اللہ کہا اور پانی پر چلنے لگے . جب اس مرد نے یہ واقعہ دیکھاتو اس نے بھی صحیح یقین کے ساتھ بسم اللہ کہی اور پانی پر چلتاہوا حضرت عیسیٰ  تک پہنچ گیا ۔

اسے اس وقت ایک عجیب حالت کا سامنا ہوا اور اس نے اپنے آپ سے کہا کہ یہ عیسیٰ  روح اللہ ہے کہ جو پانی پر چلتا ہے . میں بھی پانی پر چل سکتا ہوں پس وہ کس بات میں مجھ سے بر تر ہے ؟ اسی وقت وہ پانی میں ڈوبنے لگا ۔ پھر اس نے حضرت عیسٰی  (ع)سے مدد طلب کی حضرت عیسٰی  نے اسے پکڑ کر پانی سے نکالا ، اور اس سے فرمایا تم نے اپنے آپ سے کیا کہا تھا؟ اس نے اپنے آپ سے جو کچھ کہا تھا وہ حضرت عیسیٰ  سے عرض کیا اور کہا کہ اسی وجہ سے میں پانی میں ڈوبنے لگا تھا ۔ 

حضرت عیسٰی(ع)  نے اس سے فرمایا : خدا نے تمہیں جس جگہ قرار دیا تھا تم نے  اپنے آپ کو اس کے علاو ہ کہیں اور قرار دیا اور تم نے حسدکی وجہ سے خدا سے دشمنی کی پس خدا کی طرف واپس لوٹ جاؤ اور تم نے جو کچھ کہا اس سے توبہ کرو ۔ اس مرد نے اسی وقت تو بہ کی اور خدا نے اسے جو رتبہ دیا تھا ، اسے دوبارہ لاٹا دیا . پس خدا سے ڈرو اور تم ایک دوسرے سے حسد نہ کرو ۔

یہ روایت اس واقعیت و حقیقت کی واضح دلیل ہے کہ گناہ  اولیاء خدا سے ان کے بہترین معنوی حالات سلب کرسکتا ہے اور انہیں معنویت کی اوج سے گرا سکتا ہے

 


[1]۔بحار  الانوار:ج۷۳ ص۲۴۴، اصول کافی:ج۲ص۳۰٦
 

 

 

 

تبصرے
Loading...