مختلف ادیان میں چہلم

 امام حسین علیہ السلام اور ان کے باوفا ساتھیوں اور اولاد کی 10محرم کو شہادت کے چالیس دن بعد آتا ہے۔[1] اسی دن کربلا کے شہدا خصوصا امام حسین علیہ السلام کے سرمبارک کو امام زین العابدین علیہ السلام کے توسط سے ان کے جسم اطہر کے ساتھ ملحق کیا گیا ۔[2]جابر بن عبداللہ انصاری بعض دوسرے افراد کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے پہلے زائر شمار کیے جاتے ہیں اور چہلم کی روایت کو جو صرف امام حسین علیہ السلام کے لیے بیان ہوئی ہے قرائت کیا بعض دوسری روایات میں مسلم طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اھل بیت  اور حضرت زینب کا قافلہ بھی اس دن کربلا پہنچا ۔[3]

شہدا کی یاد کو زندہ رکھنا صرف دین اسلام یا مذھب شیعہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسانی مکاتب اور ادیان ایثار اور فداکاری کو انسان کی سعادت کےلیے مھم شمار کرتے ہیں اسی لیے دوسرے ادیان میں بھی یہ رسمیں پائی جاتی ہیں جیسے سالگرہ یا برسی یا چہلم منانا ۔ کہ جس کے ذریعے وہ اپنے بزرگ اور مقدس افراد کے احترام کا اظہار کرتے ہیں اور ان کی قربانی کے مقاصد اور فلسفے پر بحث کرتےہیں ۔[4]

اس تحریر میں صرف چہلم امام حسین علیہ السلام کے حوالے سے جو دوسرے ادیان کے ساتھ مربوط ہے، بیان کیا جائے گا ۔ اس لحاظ سے  چہلم امام حسین علیہ السلام اور دوسرے ادیان کا اس سے رابطہ کے حوالے سے دو طرح سے بحث کی جا سکتی ہے۔ ایک تو چہلم کا منانا اور چہلم کا فلسفہ ان کی نگاہ میں اہمیت رکھتا ہے اور دوسری طرف مختلف ادیان کے پیروکاروں کا امام حسین علیہ السلام کا چہلم منانا اور چہلم کی مناسبت سے برپا مجالس میں حاضر ہونے پر بھی بحث کی جائے گی ۔ مختلف ادیان کے لوگوں کی چہلم امام حسین علیہ السلام کی طرف یہ توجہ اور کشش اس حال میں ہے کہ امام حسین علیہ السلام کے شیعیان دہشت گردوں اور تکفیریوں کی تمام تر دھمکیوں کے باوجود ہر سال چہلم امام حسین علیہ السلام منا رہے ہیں ۔[5]

چہلم غیر مسلموں کی نگاہ میں

سادات اور شیعہ علماء کا محبت بھرے کردار نے غیر مسلموں  کو امام حسین علیہ السلام کی محبت کی طرف جذب کیا جیسا کہ عراق میں ڈکٹیٹر کی حکومت کے دور میں عیسائیوں نے حکومتی ظلم و ستم سے تنگ آکر سید محسن حکیم کی پناہ لی اور کہا کہ حکومتی ظلم وستم کے سامنے آپ قیام کریں اور سید محسن حکیم نے عیسائیوں کو اذیت دینے کو حرام قرار دیا ۔ سید محسن حکیم کا یہ فتوی باعث بنا کہ شیعی مجالس اور عبادات جیسے چہلم ہے عیسائیوں کی طرف سے نہ صرف منایا جاتا ہے بلکہ آج تو اور بھی شایان شان طریقے سے وہ اس میں حصہ لیتے ہیں ۔اس قسم کا طرز عمل یھودیوں کے بارے میں بھی بیان کیا گیا ہے ۔[6]

antoine bara مسیحی رائٹر اپنی کتاب عیسائی نظریہ میں امام حسین علیہ السلام (Imam Hussein in Christian Ideology) میں لکھتا ہے “میں ایک مسیحی ہوں اور تمام انسانوں کو امام حسین علیہ السلام کی پیروی کی دعوت دیتا ہوں کیونکہ وہ تمام ادیان کا باطن اور ضمیر ہے ۔”[7] آنٹوین بارا  دورحاضر کا شامی نژاد عیسائی اسکالر ہے جو کویت میں مقیم ہے اور اس کی کتاب عیسائی نظریہ میں امام حسین علیہ السلام کا دنیا کی سترہ زبانوں میں ترجمہ ہو چکا ہے اور بعضی یونیورسٹیوں میں اس کتاب کو نصاب میں بھی شامل کیا جا چکا ہے ۔ اس نے اپنی تقاریر میں ان کرامات کو بیان کیا ہے جو اس کتاب کے لکھنے کی وجہ سے پیش آئی ہیں , چہلم پر پیدل جانے اور اس میں شرکت کو مقدس شمار کرتا ہے ۔ [8]

یوحنا بورو Yohanna Boro جو  ان عیسائیوں کا روحانی لیڈر ہے جو افریقا سے کربلا آتے ہیں وہ کہتا ہے : ظلم اور ظالم کے خلاف جھاد اور عدالت کو زندہ کرنا ہی امام حسین علیہ السلام کا حقیقی پیغام ہے اور یہ وہ عظیم پیغام ہے جس نے عیسائیوں کو شیعوں کے ساتھ متحد کر دیا ہے ۔[9]

ان دانشوروں کے علاوہ پوری دنیا اور مختلف ادیان کے دانشوروں نے بھی عاشورا اور امام حسین علیہ السلام کے قیام کی تعریف اور تمجید کی ہے جن میں سے مھم ترین یہ ہیں : اڈوارڈ گیبنEdward Gibbon؛اڈوارڈ براون Edward bron؛ تھامس کارلایل Thomas Carlyle؛چارلز ڈیکنز Charles Dickens؛ جواھر لعل نھرو اور ماھاتما گاندھی ۔۔۔۔

در حقیقت ظلم کے خلاف جھاد اور عدالت خواھی پر مشتمل امام حسین علیہ السلام کا قیام کسی دین اور مذھب کے ساتھ محدود نہیں ہے اسی لیے تو مخلتف عیسائی ،یھودی ، ہندو ،بدھ مت دانشوروں نے اور ایشیائی ، آمریکائی ، آفریقائی اسکالروں نے امام حسین علیہ السلام کے قیام کی تعریف کی ہے اور اسی وجہ سے موجود دانشوروں نے چہلم امام حسین علیہ السلام کو امام حسین علیہ السلام کے مقاصد کے ساتھ تجدید بیعت سے تعبیر کیا ہے ۔

چہلم پر غیر مسلموں کی شرکت

چہلم امام حسین علیہ السلام کی عظمت غیرمسلموں کی نگاہ میں اتنی زیادہ ہے کہ یورپ کا سکولر اور لبرل میڈیا جیسے اینڈیپنڈنٹ بھی مختلف سالوں میں چہلم امام حسین علیہ السلام کے بارے میں بحث کرتا  اورلکھتا ہے [10]اور چہلم سے متعلق خبریں دیتا ہے چہلم میں چالیس ملکوں سے زیادہ لوگوں کی شرکت کو خبروں میں بیان کرتا ہے ۔[11]

حالانکہ چہلم امام دین اور مذھب کے اعتبار سے صرف شیعوں کے ساتھ مختص ہے کہ جو حسین بن علی علیھماالسلام کو تیسرا امام مانتے ہیں چہلم میں نہ صرف آپ غیر شیعہ کو دیکھیں گے جو اخلاص کے ساتھ اس عظیم عبادت میں شریک ہوتے ہیں بلکہ غیر مسلم جیسے عیسائی ،زرتشتی ، یزیدی اور صائبی بھی اس قافلے میں شامل ہوتے ہیں تاکہ محبت حسین علیہ السلام کا وصال پا سکیں مختلف ممالک جیسے سویڈن ،روس اور یہاں تک واٹیکان بھی ہر سال زائرین کو چہلم کے موقع پر امام حسین علیہ السلام کی زیارت کےلیے بھیجتے ہیں۔[12] اس کے علاوہ بہت سارے افریقی ممالک کے نمایندے بھی چہلم میں شرکت کےلیے آتے ہیں جیسے غانا،نیجریہ،تنزانیا،سنیگال ، اور دوسرے افریقی ممالک۔[13]

چہلم صرف نجف ،بصرہ یا بغداد سے کربلا پیدل چلنے میں محدود نہیں ہے بلکہ دنیا کے بہت سے ممالک میں مسلم اور غیر مسلم اس دن کی یاد مناتے ہیں جیسا کہ دیربورن Dearborn میں آج بھی چہلم سرعام منایا جاتا ہے اور بہت سے غیر مسلم بھی اس میں شریک ہوتےہیں ۔[14] بہت سے یورپی ممالک، آمریکا ،وسطی ایشیا اور آفریقا میں بھی چہلم امام حسین علیہ السلام کی یاد منائی جاتی ہے جس میں مختلف ادیان اور مذاھب کے لوگ شرکت کرتے ہیں ۔

عرب کے عیسائی پادری، تکفیری اور انتہاپسند یھودیوں کی خواہش کے  برخلاف چہلم امام حسین علیہ السلام میں شرکت کر کے بتا رہے ہوتےہیں کہ امام حسین اور کربلا کے پیغام کو صحیح سمجھے ہیں اور اس طرح وہ اسلام اور عیسائیت کے درمیان وحدت کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں ۔ [15]

نیجریہ کے عیسائی ان عیسائیوں میں سے ہیں جو کئی سال سے چہلم منانے کےلیے کربلا جاتے ہیں ۔ یہ عیسائی مختلف کلیساوں سے آتے ہیں لیکن اپنے آنے کی وجہ یہ بتاتےہیں کہ امام حسین علیہ السلام نے عدالت کے قیام اور ظلم کے خلاف جھاد کیا ہے ۔ان عیسائیوں کی نگاہ میں امام حسین علیہ السلام نے اس راہ میں بہت سی مشکلات برداشت کی ہیں جو امام حسین علیہ السلام  کے حق پر ہونے کی واضح دلیل ہے ۔[16]

 

[1] :قاضی طباطبایی ،محمد علی ،تحقیق دربارہ اول اربعین سید الشھدا ،تھران ، وزارت فرھنگ و ارشاد اسلامی ، 1383،2۔
[2] :قمی،عباس،ترجمہ نفس المہموم ،در کربلا چہ گذشت،ترجمہ محمد باقر کمرہ ای ، قم ، انتشارات مسجد مقدس جمکران ، چاپ چھاردھم ، 1381،ص 595اور596۔
[3] :سید بن طاووس ،علی بن موسی ،اللھوف علی قتلی الطفوف ، ترجمہ با عنوان “آھی سوزان برمزار شھیدان “سید احمد فھری زنجانی ، تھران ، نشر جھان ، بی تا، 196۔
[4]: see: Blanchard, Amos,Book of Martyrs,Cincinnati: Robinson, 1831,p.14.
[5] : Andew Rathmell,Amos,book fo Martyrs,Cincinnati: Robinson,1831,p.14.
[6] : al-Bayati ,Hamid , from Dictatorship to Democracy: An Insider’s Account of the Iraqi Opposition to Saddam, University of Pennsylvania Press 2011.
[7] : Rizvi, s. Manzoor, Unique Sacrifice of Imam Hussain for Humanity,2014,p.303
[8] : www.farsnews.com/newstext.php?nn=13930828001067
[9] : en.abna24.com/service/Africa/archive/2014/12/17/658824/stor.html.
[10] :www.independent.co.uk/news/world/middle-east/pilgrims-celebrate-one-of-h….
[11] : www.independent.co.uk/news/world/middle-east/pilgrims-celebrate-one-of-w….
[12] :www.huffingtonpost.co.uk/syed-mahdi-almodarresi/arbaeen-pilgrimage-b-620….
[13] : www.independent.co.uk/news/world/middle-east/pilgrims-celebrate-one-of-w….
[14] :Sadig Al-Ali, Nadje, Iraqi Women: Untold Stories From 1948 to the Present ,New York: Zed Books,2007,P.35.
[15] :mouqawamahmusic.net/Islamic-christian-unity-priests-march-for-imam-hussien-on-arbaeen.
[16] : en.abna24.com/service/Africa/archive/2014/12/17/658824/stor.html.

تبصرے
Loading...