امام حسين اُسوہ انسانيت

 

قديم حکمائ اور فلسفيوں ميں سے کسي سے کيلئے منسوب ہے کہ اُس نے اسکندر رومي_ مقدوني_ سے کہا کہ ’’تم ہمارے غلاموں کے غلام ہو۔‘‘ اسکندر اعظم يہ بات سن کر برہم ہوگيا۔ اُس حکيم نے کہا کہ ’’غصہ نہ کرو، تم اپنے غصے اور شہوت کے غلام ہو۔ تم جب بھي کسي چيز کو حاصل کرتے ہوتو اُس وقت بھي بے تاب اور مضطرب ہوتے ہو اور جب غصہ کرتے ہو تو اُس وقت بھي پريشاني و بے کلي کي کيفيت تم پر سوار رہتي ہے اور يہ شہوت و غضب کے مقابلے ميں تمہاري غلامي کي علامت ہے جبکہ ميري شہوت و غضب ميرے غلام ہيں‘‘۔

 

امام حسين اُسوہ انسانيت

ميرے عزيز دوستو! حسين ابن علي کا نام گرامي بہت ہي دلکش نام ہے ؛ جب ہم احساسات کي نگاہ سے ديکھتے ہيں تو پتہ چلتا ہے کہ مسلمانوں ميں امام حسين کے نام کي خاصيت اورحقيقت و معرفت يہ ہے کہ يہ نام دلربائے قلوب ہے اور مقناطيس کي مانند دلوں کو اپني طرف کھينچتا ہے۔ البتہ مسلمانوں ميں بہت سے ايسے افراد بھي ہيں جو ايسے نہيں ہيں اور امام حسين کي معرفت و شناخت سے بے بہرہ ہيں، دوسري طرف ايسے افراد بھي پائے جاتے ہيں کہ جن کا شمار اہل بيت کے شيعوں ميں نہيں ہوتا ليکن اُن کے درميان بہت سے ايسے افراد ہيںکہ حسين ابن علي کا مظلوم نام سنتے ہي اُن کي آنکھوں سے اشکوں کا سيلاب جاري ہو جاتاہے ور اُن کے دل منقلب ہوجاتے ہيں۔ خداوند عالم نے امام حسين کے نام ميں ايسي تاثير رکھي ہے کہ جب اُن کا نام ليا جاتا ہے تو ہماري قوم سميت ديگر ممالک کے شيعوں کے دل و جان پر ايک روحاني کيفيت طاري ہوجاتي ہے ۔ يہ ہے حضرت امام حسين کي مقدس ذات سے احساساتي لگاو کي تفسير۔

اہل بصيرت کے درميان ہميشہ سے يہي ہوتا رہا ہے جيسا کہ روايات اور تاريخ سے بھي معلوم ہوتا ہے ، حضرت ختمي مرتبت ۰ اور امير المومنين کے گھر اور اِن بزرگوار ہستيوں کي زندگي ميں بھي اِس عظيم ذات کو مر کزيت حاصل تھي اور يہ ہميشہ اِن عظيم المرتبت ہستيوں کے عشق و محبت کا محور رہا ہے اور آج بھي ايسا ہي ہے۔

امام حسين کي تعليمات اور دعائيں

تعليمات اور دعاوں کے لحاظ سے بھي يہ عظيم المرتبت ہستي اور اُن کا اسم شريف بھي کہ جو اُن کے عظيم القدر مسمّيٰ(ذات) کي طرف اشارہ کرتا ہے، اِسي طرح ہے۔ آپ کے کلمات و ارشادات ، معرفت الٰہي کے گرانبہا گوہروں سے لبريز ہيں۔ آپ روز عرفہ ، امام حسين کي اِسي دعائے عرفہ کو ملاحظہ کيجئے تو آپ ديکھيں گے کہ يہ بھي زبور آل محمد ۰ (صحيفہ سجاديہ)کي مانند عشق و معرفت الٰہي کے خزانوں اور اُس کے حسن و جمال کے حَسِين نغموں سے مالا مال ہے ۔ يہاں تک کہ انسان جب امام سجاد کي بعض دعاؤں کا دعائے عرفہ سے موازنہ کرتا ہے تو وہ محسوس کرتا ہے کہ امام سجاد کي دعائيں در حقيقت امام حسين کي دعائے عرفہ کي ہي تشريح و توضيح ہيں، يعني دعائے عرفہ ’’اصل ‘‘ ہے اور صحيفہ سجاديہ کي دعائيں اُس کي ’’فرع‘‘۔ عجيب و غريب دعائے عرفہ، واقعہ کربلا اور زندگي کے ديگر مواقع پر آپٴ کے ارشادات ،کلمات اور خطبات ايک عجيب معاني اور روح رکھتے ہيں اور عالم ملکوت کے حقائق اور عالي ترين معارف الہٰيّہ کاايسا بحر بيکراں ہيں کہ آثار اہل بيت ميں جن کي نظير بہت کم ہے۔

سيد الشہدا ، انسانوں کے آئيڈيل

بزرگ ہستيوں کي تآسّي وپيروي اور اوليائے خدا سے انتساب و نسبت، اہل عقل و خرد ہي کا شيوہ رہا ہے۔ دنيا کا ہر ذي حيات موجود، آئيڈيل کي تلاش اور اُسوہ و مثالي نمونے کي جستجو ميں ہے ،ليکن يہ سب اپنے آئيڈيل کي تلاش ميں صحيح راستے پر قدم نہيں اٹھاتے ہيں۔ اِس دنيا ميں بعض افراد ايسے بھي ہيں کہ اگر اُن سے دريافت کيا جائے کہ وہ کون سي شخصيت ہے کہ جو آپ کے ذہن و قلب پر چھائي ہوئي ہے تو آپ ديکھيں گے کہ اُن حقير اور پست انسانوں کا پتہ بتائيں گے کہ جنہوں نے اپني زندگي خواہشات نفساني کي بندگي و غلامي ميں گزاري ہے۔ اِن آئيڈيل بننے والے افراد کي عادات و صفات ،غافل انسانوں کے سِوا کسي اورکو اچھي نہيں لگتيں اور يہ معمولي اور غافل انسانوں کو ہي صرف چند لمحوں کيلئے سرگرم کرتے ہيں اور دنيا کے معمولي انسانوں کے ايک گروہ کيلئے تصوّراتي شخصيت بن جاتے ہيں۔ بعض افراد اپنے آئيڈيل کي تلاش ميں بڑے بڑے سياستدانوں اور تاريخي ہيرووں کے پيچھے چل پڑتے ہيں اور اُنہيں اپنے ليے مثالي نمونہ اور اُسوہ قرار ديتے ہيں ليکن عقلمند ترين انسان وہ ہيں جو اوليائے خدا کو اپنا اُسوہ اور آئيڈيل بناتے ہيںکيونکہ اوليائے الٰہي کي سب سے بڑي خصوصيت يہ ہے کہ وہ اِ س حد تک شجاع ، قدرت مند اور صاحب ارادہ واختيار ہوتے ہيں کہ اپنے نفس اور جان و دل کے خود حاکم و امير ہوتے ہيں يعني اپنے نفس اور نفساني خواہشات کے غلام اور اسير نہيں بنتے۔

ايک حکيم (دانا)کا بے مثال جواب

قديم حکمائ اور فلسفيوں ميں سے کسي سے کيلئے منسوب ہے کہ اُس نے اسکندر رومي_ مقدوني_ سے کہا کہ ’’تم ہمارے غلاموں کے غلام ہو۔‘‘ اسکندر اعظم يہ بات سن کر برہم ہوگيا۔ اُس حکيم نے کہا کہ ’’غصہ نہ کرو، تم اپنے غصے اور شہوت کے غلام ہو۔ تم جب بھي کسي چيز کو حاصل کرتے ہوتو اُس وقت بھي بے تاب اور مضطرب ہوتے ہو اور جب غصہ کرتے ہو تو اُس وقت بھي پريشاني و بے کلي کي کيفيت تم پر سوار رہتي ہے اور يہ شہوت و غضب کے مقابلے ميں تمہاري غلامي کي علامت ہے جبکہ ميري شہوت و غضب ميرے غلام ہيں‘‘۔

ممکن ہے کہ يہ قصہ صحيح ہو اور ممکن ہے کہ يہ بالکل حقيقت نہ رکھتا ہو ليکن اوليائے خدا ، پيغمبروں اور بشريت کيلئے خدائي ہدايت کي شاہراہ کے راہنماوں کيلئے يہ بات بالکل صادق آتي ہے۔ اِس کي زندہ مثاليں حضرت يوسف ، حضرت ابراہيم اور حضرت موسيٰ ہيں اور اِ س کي متعدد مثاليں ہميں اوليائے الٰہي کي زندگي ميں نظر آتي ہيں۔ اہل عقل و خرد وہ انسان ہيں کہ جو اِن بزرگ ہستيوںاور اِن شجاع اور صاحب ارادہ و اختيار انسانوں کو اپنا آئيديل قرار ديتے ہيں اور اِس راستے پر گامزن ہو کر اپنے باطن ميں اپنے ارادے و اختيار کے مالک بن جاتے ہيں۔

واقعہ کربلا سے قبل امام حسين کي شخصيت و فعاليت

اِن بزرگ ہستيوں کے درميان بھي بہت سي عظيم شخصيات پائي جاتي ہيں کہ جن ميں سے ايک شخصيت حضرت امام حسين کي ہے۔ حق تو يہ ہے کہ يہ کہنا چاہيے کہ ہم خاکي ، حقير اور ناقابل انسان بلکہ تمام عوالم وجود ، بزرگان و اوليائ کي ارواح اور تمام ملائکہ مقربين اور اِن عوالم ميں موجود تمام چيزوں کيلئے جو ہمارے ليے واضح و آشکار نہيں ہيں، امام حسين کا نورِ مبارک، آفتاب کي مانند تابناک و درخشاں ہے۔ اگر انسان اِس نورِ آفتاب کے زير سايہ زندگي بسر کرے تو اُس کا يہ قدم بہت سود مند ہوگا۔

توجہ کيجئے کہ امام حسين نہ صرف يہ کہ فرزند پيغمبر ۰ تھے بلکہ علي ابن ابي طالب و فاطمہ زہرا ٭ کے بھي نور چشم تھے اور يہ وہ چيزيں ہيں کہ جو ايک انسان کو عظمت عطا کرتي ہيں۔ سيد الشہدا عظيم خاندان نبوت، دامن ولايت و عصمت اور جنتي اور معنوي فضاو ماحول کے تربيت يافتہ تھے ليکن اُنہوں نے صرف اسي پر ہي اکتفا نہيں کيا۔ جب حضرت ختمي مرتبت ۰ کا وصال ہوا تو آپ کي عمر مبارک آٹھ ، نو برس کي تھي اور جب امير المومنين نے جام شہادت نوش کيا تو آپ سينتيس يا اڑتيس سال کے نوجوان تھے۔ امير المومنين کے زمانہ خلافت ميں کہ جو امتحان و آزمايش اور محنت و جدوجہد کا زمانہ تھا، آپ نے اپنے پدر بزرگوار کے زير سايہ اپني صلاحيتوں اور استعداد کو پروان چڑھانے ميں بھرپور محنت کي اور ايک مضبوط و مستحکم اور درخشاں و تابناک شخصيت کي حيثيت سے اُبھرے۔

اگر ايک انسان کا حوصلہ اور ہمت ہمارے جيسے انسانوں کي مانند ہو تو وہ کہے گا کہ بس اتني ہمت و حوصلہ کافي ہے، بس اتنا ہي اچھا ہے اور خدا کي عبادت اور دين کي خدمت کيلئے ہمت و حوصلے کي اتني مقدار ہمارے ليے کافي ہو گي ليکن يہ حسيني ہمت و حوصلہ نہيں ہے۔ امام حسين نے اپنے برادر بزگوار کے زمانہ امامت ميں کہ آپ ماموم اور امام حسن امام تھے، اپني پوري طاقت و توانائي کو اُن کيلئے وقف کرديا تاکہ اسلامي تحريک کو آگے بڑھايا جاسکے ؛ يہ دراصل اپنے برادر بزرگوار کے شانہ بشانہ وظائف کي انجام دہي ، پيشرفت اور اپنے امامِ زمانہ کي مطلق اطاعت ہے اور يہ سب ايک انسان کيلئے عظمت و فضيلت کا باعث ہے۔ آپ امام حسين کي زندگي ميں ايک ايک لمحے پر غور کيجئے۔ شہادت امام حسن کے وقت اور اُس کے بعد جو ناگوار حالات پيش آئے ، آپ نے اُن سب کا ثابت قدمي سے مقابلہ کيا اور تمام مشکلات کو برداشت کيا۔ امام حسن کي شہادت کے بعد آپ تقريباً دس سال اور چند ماہ زندہ رہے؛ لہٰذا آپ توجہ کيجئے کہ امام حسين نے واقعہ کربلا سے دس سال قبل کيا کام انجام ديئے۔

دين ميں ہونے والي تحريفات سے مقابلہ

امام حسين کي عبادت اورتضرّع وزاري، توسُّل ، حرم پيغمبر ۰ ميں آپ کا اعتکاف اور آپ کي معنوي رياضت اور سير و سلوک؛ سب امام حسين کي حيات مبارک کا ايک رُخ ہے۔ آپ کي زندگي کا دوسرا رُخ علم اور تعليمات اسلامي کے فروغ ميںآپ کي خدمات اور تحريفات سے مقابلہ کيے جانے سے عبارت ہے۔ اُس زمانے ميں ہونے والي تحريف دين درحقيقت اسلام کيلئے ايک بہت بڑي آفت و بلا تھي کہ جس نے برائيوں کے سيلاب کي مانند پورے اسلامي معاشرے کو اپني لپيٹ ميں لے ليا تھا۔ يہ وہ زمانہ تھا کہ جب اسلامي سلطنت کے شہروں، ممالک اور مسلمان قوموں کے درميان اِس بات کي تاکيد کي جاتي تھي کہ اسلام کي سب سے عظيم ترين شخصيت پر لعن اور سبّ و شتم کريں۔ اگر کسي پر الزام ہوتا کہ يہ امير المومنين کي ولايت و امامت کا طرفدار اور حمايتي ہے تو اُس کے خلاف قانوني کاروائي کي جاتي، ’’اَلقَتلُ بِالظَنَّۃِ وَالآَخذُ بِالتُّھمَۃِ‘‘،(صرف اِس گمان و خيال کي بنا پر کہ يہ اميرالمو منين کا حمايتي ہے ، قتل کرديا جاتا اور صرف الزام کي وجہ سے اُس کا مال و دولت لوٹ ليا جاتا اور بيت المال سے اُس کاوظيفہ بند کرديا جاتا)۔

اِن دشوار حالات ميں امام حسين ايک مضبوط چٹان کي مانند جمے رہے اور آپ نے تيز اور برندہ تلوار کي مانند دين پر پڑے ہوئے تحريفات کے تمام پردوں کو چاک کرديا، (ميدان منيٰ ميں) آپ کا وہ مشہور و معروف خطبہ اور علما سے آپ کے ارشادات يہ سب تاريخ ميںمحفوظ ہيں اور اِس بات کي عکاسي کرتے ہيں کہ امام حسين اِس سلسلے ميں کتني بڑي تحريک کے روح رواں تھے۔

امر بالمعروف و نہي عن المنکر

آپ ٴنے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر بھي وسيع پيمانے پر انجام ديا اور يہ امر و نہي، معاويہ کے نام آپ کے خط کي صورت ميں تاريخ کے اوراق کي ايک ناقابل انکار حقيقت اور قابل ديد حصّہ ہيں۔ اتفاق کي بات تو يہ ہے کہ اِ س خط کو کہ جہاں تک ميرے ذہن ميں ہے، اہل سنت مورخين نے نقل کيا ہے، يعني ميں نے نہيں ديکھا کہ شيعہ مورخين نے اُسے نقل کيا ہويا اگر نقل بھي کيا ہے تو سني مورخين سے نقل کيا ہے۔ آپ کا وہ عظيم الشّان خط اور آپ کا مجاہدانہ اور دليرانہ انداز سے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر انجام دينا دراصل يزيد کے سلطنت پر قابض ہونے سے لے کر مدينے سے کربلا کيلئے آپ ٴکي روانگي تک کے عرصے پر مشتمل ہے۔ اِس دوران آپٴ کے تمام اقدامات، امر بالمعروف اور نہي عن المنکر تھے۔ آپ ٴخود فرماتے ہيں کہ ’’اُرِيدُ اَن آمُرَ باِلمَعرُوفِ و اَنہٰي عَنِ المُنکَرِ‘‘، ’’ميں نيکي کا حکم دينا اور برائي سے منع کرنا چاہتا ہوں۔‘‘

زندگي کے تين ميدانوں ميں امام حسين کي جدوجہد

توجہ فرمائيے کہ ايک انسان مثلا امام حسين اپني انفرادي زندگي _ تہذيب نفس اور تقويٰ_ ميں بھي اتني بڑي تحريک کے روح رواں ہیں اورساتھ ساتھ ثقافتي ميدان ميں بھي تحريفات سے مقابلہ، احکام الہي کي ترويج و اشاعت ، شاگردوں اور عظيم الشان انسانوں کي تربيت کو بھي انجام ديتے ہیںنيز سياسي ميدان ميں بھي کہ جو اُن کے امر بالمعروف اور نہي عن المنکر سے عبارت ہے، عظيم جدوجہد اور تحريک کے پرچم کو بھي خود بلند کرتے ہیں۔ يہ عظيم انسان انفرادي ، ثقافتي اور سياسي زندگي ميں بھي اپني خود سازي ميں مصروف عمل ہے۔

تبصرے
Loading...