سیدہ زینب علیھا السلام کی زندگی پر ایک مختصر نظر

حضرت زینب علیھا السلام کی ولادت کے بارے میں دو قول مشھور ہیں :

۱۔ ۵ جمادی الاول اور ۵ ھجری ۔[1]
۲۔ ۵ جمادی الاول اور۶ ھجری ۔[2]

آپ کی ماں کا نام حضرت فاطمۃ الزھراء  اور والد گرامی کا نام امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیھم السلام ہے ۔
آپ کی ولادت مبارک شھر مدینہ میں ہوئی ،آپ کی مدت زندگی اپنی ماں کے ساتھ تقریباً ۵ یا ۶ سال لکھی گئی ہے ۔
۳ جمادی الثانی ۱۱ھجری کو اپنی مظلومہ ماں کی جدائی کا سامنا کرنا پڑا۔[3]
آپ کے شوھر کا نام عبداللہ بن جعفر تھا جو کہ آپ کے چچا کے بیٹے تھے ۔عبد اللہ بن جعفر تاریخ اسلام کے سخاوتمند اورمشھور انسان تھے ۔[4]
حضرت زینب سلام اللہ علیھا کے بہت سے القاب اور کنیہ ہیں :
ان میں سے ایک عقیلہ بنی ھاشم ہے ، (یعنی اپنے خاندان میں بلند مرتبہ والی )[5] اسی طرح روایات میں یہ بھی نقل ہیں ،صدیقہ صغری ، عارفہ ، عالمہ، فاضلہ ، کاملہ،عابدہ آل علی۔[6] حضرت زینب  سلام الله علیها جب تک امیر المؤمنین مدینہ میں تھے آپ بھی مدینہ میں رہیں اور جب امیرالمؤمنین کوفہ منتقل ہوئے تو آپ بھی کوفہ چلیں گئی ۔ آپ کوفہ میں کوفہ کی خواتین کو دینی تعلیم دیتی تھیں ۔[7]
حضرت علی علیہ السلام ۴۰ ھجری کو شھر کوفہ میں شھید ہو گئے تب حضرت زینب علیھا السلام  کا سن تقریباً۳۵سال تھا  اور ۱۰ سال بعد ۵۰ھجری   میں امام حسن علیہ السلام شھید ہوگئے ۔[8]
امام حسن علیہ السلام کی شھادت کے بعد ۱۰ سال ہی گزرے تھے کہ امام حسین علیہ السلام کے ساتھ کربلا پہنچی اور اس غمناک اور مظلومانہ واقعہ کو دیکھنا پڑا ، بلکہ یوں کہوں کہ حضرت زینب علیھا السلام کی زندگی میں مصائب ہی مصائب تھے ۔بالخصوص واقعہ کربلا نے تو شہزادی کو ایک دو پہر میں  بوڑھاکردیا  اپنی آنکھوں کے سامنے بھائی بھتیجے اور بیٹوں کے لاشوں کو خوں میں غلطاں دیکھا،[9]تب آپ کا سن ۵۵ سال تھا ۔

شھیدمطھری فرماتے ہیں کہ صبروتحمل وبردباری کا بہترین نمونہ اگر تاریخ اسلامی میں دیکھا جائے تو وہ سیدہ زینب علیھا السلام کی شخصیت ہے ۔  [10]تایخ میں کوئی بھی خاتون ایسی نہیں گزری جو(سیدہ زھراء علیھا السلام کے بعد) جناب زینب سلام اللہ علیھا  سے حلم اور بردباری میں بڑھ کر ہو ۔[11]
آپ کی عبادت کی مثال یوں دی جاتی ہے کہ ساری زندگی حتی قید میں بھی آپ کی نماز شب قضا نہیں ہوئی ۔ [12]
ریاحین الشریعہ میں لکھا ہے کہ آپ کی عبادت اور شب زندہ داری ایسی تھی حتی ۱۱ محرم کی رات بھی آپ نے نماز شب قضا نہیں کی ۔[13]

شھید مطھر فرماتے ہیں کہ شھزادی فصاحت اور بلاغت میں اس اعلا  درجے پر فائز تھیں کہ جو خطبہ یزید کے دربار میں دیا دنیا کا بے نظیر خطبہ تھا ۔ [14]

جو خطبہ کوفہ کے بازار میں دیا اس کے بارے میں امام سجاد علیہ السلام فرماتے ہیں آپ عالمہ غیر معلمہ ہیں ۔[15]

ابن اثیر لکھتا ہے : حضرت زینب فصاحت و بلاغت و زهد و عبادت و فضیلت و شجاعت و سخاوت میں اپنے بابا  علی  اور ماں فاطمہ علیہما لسلام  پر تھی  ۔[16]
سید هاشم رسولی محلاتی کہتےہیں حضرت زینب علیھاالسلام اتوارکی رات ۱۴ رجب ۶۲ھجری اس دارفانی کو الودع  کہہ گئیں۔ [17]

منابع

[1] علی محمد علی دخیل، زینب بنت الامام امیرالمؤمنین، بیروت، موسسه اهل البیت ـ علیهم السّلام ـ ، 1399 هـ ، ص 10.

[2] بنت الشافی، زینب بانوی قهرمان كربلا، مترجم حبیب چایچیان، تهران، نشر امیركبیر، چاپ 16، 1373، ص 16.

[3] مجلسی، محمدباقر، بحار الانوار، بیروت، دار احیاء التراث العربی، چ دوم، 1403ه‍ ق، 1983 م، ج43، ص215.

[4] رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی حضرت زهرا و دختران آن حضرت، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه، چاپ اول، ص 273.

[5] رسولی محلاتی، سید هاشم، زندگانی حضرت زهرا و دختران آن حضرت، تهران، انتشارات علمیه اسلامیه، چاپ اول، ص 270.

[6] علی محمد علی دخیل، پیشین، ص 11.

[7] رسولی محلاتی، سید هاشم ، ص 285۔

[8] مفید، ارشاد، ترجمه محمد باقر ساعدی، تهران، انتشارات كتابفروشی اسلامیه، 1376 ش، ص 192.

[9] بنت الشاطی ، ص172.

[10] مطهری، مرتضی، حماسه حسینی، تهران، انتشارات صدرا، سال 1375، ج 2، ص 225.

[11] خان سپهر، عباسقلی، ناسخ التواریخ، جزء اول، كتابفروشی اسلامیه، ص 73.

[12] مطهری، مرتضی، تفسیر سوره مزمل، تهران، انتشارات صدرا، 1364، ص 68.

[13] محلاتی، ذبیح الله، ریاحین الشریعه، تهران، دار الكتب الاسلامیه، ج 3، ص 61.

[14] مطهری، مرتضی، فلسفه اخلاق، تهران، انتشارات صدرا، 1375، ص 59.

[15] محلاتی، ذبیح الله، پیشین، ج3، ص 75.

[16] صادقی اردستانی، احمد، زینب قهرمان، تهران، نشر مطهر، چاپ اول، 1372، ص 392، ص432.

[17] رسولی محلاتی، سید هاشم، ص 285.

تبصرے
Loading...