روزہ رکھنا، عالم ملکوت کے مشاہدہ اور معاشرتی توازن کا باعث

خلاصہ: چونکہ کھانا پینا انسان کے کمال میں رکاوٹ ہے لہذا روزہ رکھنے سے انسان کو زیادہ فرصت مل جاتی ہے کہ کائنات کے اسرار کے بارے میں غور کرتا ہوا کائنات کی حقیقت اور ملکوت کا مشاہدہ کرے، نیز روزہ رکھنے کا معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ معاشرہ میں مالدار اور غریب لوگوں کے درمیان توازن برقرار ہوجاتا ہے اور مالدار غریب کی بھوک پیاس کو محسوس کرتا  ہوا غریب کا حق ادا کرتا ہے۔

روزہ رکھنا، عالم ملکوت کے مشاہدہ اور معاشرتی توازن کا باعث

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کی ترقی کی سب سے بڑی رکاوٹ، کھانے پینے اور جسمانی لذتوں میں مصروفیت ہے اور اس کے روحانی کمال کا بہترین طریقہ ان چیزوں سے پرہیز کرنا ہے۔ روزہ انسان کو مادی کاموں میں مصروف ہونے سے روکتا ہے اور باعث بنتا ہے کہ زیادہ فارغ وقت فراہم ہو تاکہ انسان، خلقت کے اسرار و رموز کے سلسلے میں غور کرے اور اپنا زاد راہ فراہم کرے۔ لہذا روزہ دار آدمی کے لیے بھوک، پیاس اور دیگر خواہشات کے مقابلہ میں صبر کرنا عالم ملکوت کے مشاہدہ کے لئے بہترین راستہ ہے۔
تھوڑا کھانا اور اعتدال پسندی، کمال کے راستوں پر سفر کرنے کے لئے بہترین ذرائع میں سے ہے اور اس کے مدمقابل زیادہ کھانا کمال تک رسائی کی سب سے بڑی رکاوٹوں میں سے ہے۔ اسی لیے بعض بزرگوں نے فرمایا ہے: روزہ کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ روزہ دار آدمی فرشتوں کی طرح بن جاتا ہے اور اس کی خوراک فرشتوں کی طرح، اللہ کی تسبیح اور تحمید ہے۔
یہ بات قابل غور ہے کہ اللہ کی بارگاہ میں جو خشوع اور ذلت ہونی چاہیے، شکم سیر آدمی میں وہ خشوع نہیں پایا جاتا۔ ظلم کی جڑ، شہوت اور غضب و غصہ ہے اور قوت غضبیہ بھی شہوت کے ماتحت ہے، اکثر ظاہر پسند لوگ شہوات کے اعتبار سے حیوان ہیں اور ان میں قوت غضبیہ، نفسانی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے ہے، جبکہ روزہ دار آدمی کو نصیحت کرنے والا اس کے وجود کے اندر موجود ہے جو اسے آخرت کے بارے میں نصیحت کرتا ہے۔
معاشرتی طور پر بھی روزہ، معاشرے کے افراد کے درمیان برابری کا درس دیتا ہے۔ مالدار لوگ اس دینی حکم کو بجالانے کے ذریعے، بھوکے اور ضرورتمند افراد کی صورتحال کے چشم دید گواہ بنتے ہیں۔ لہذا ہشام بن حکم، روزہ کے حکم کی وجہ کے بارے میں سوال کرتا ہے تو امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: “انما فرض اللّه عزّ و جلّ الصیام لیستوی به الغنی و الفقیر و ذلک ان الغنی لم یکن لیجد مسّ الجوع فیرحم الفقیر، لانّ الغنی کلما اراد شیئاً قدر علیه فاراداللّه عزّ و جلّ ان یستوی بین خلقه و ان یذیق الغنی مسّ الجوع و الالم لیرقّ علی الضعیف و یرحم الجائع”[1]، “اللہ عزوجل نے روزہ کو اس لیے واجب کیا ہے کہ مالدار اور فقیر کے درمیان برابری برقرار کرے اور یہ اس لیے ہے کہ مالدار بھوک کا مزا چکھے تاکہ فقیر پر رحم کرے، کیونکہ مالدار جو چاہے وہ اس کے لئے فراہم ہے، پس اللہ عزوجل چاہتا ہے کہ اس کی مخلوق کے درمیان برابری ہو اور مالدار بھوک اور مشقت کا مزا چکھے تاکہ کمزور پر نرمی کرے اور بھوکے پر رحم کرے۔

نتیجہ: چونکہ زیادہ کھانا پینا انسان کے کمال میں رکاوٹ کا باعث ہے لہذا روزہ رکھنا اور بھوک پیاس برداشت کرنا کمال کا باعث ہے اور کائنات کے باطن اور عالم ملکوت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے، نیز روزہ رکھنے کا معاشرتی فائدہ یہ ہے کہ مالدار آدمی جب روزہ رکھے گا تو بھوک، فقر اور تنگدستی کی تکلیف کو سمجھ پائے گا، ایسی صورتحال میں وہ غریبوں کا تعاون کرنے پر آسانی سے تیار ہوجائے گا اور جب مالدار طبقہ، غریب طبقہ کی مدد کرے گا تو یقیناً معاشرے کے مالی حالات میں تعادل اور توازن برقرار ہوگا اور درجاتی فاصلے کم ہوجائیں گے اور معاشرہ مل کر کمال کی طرف بڑھے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ:
حجة الاسلام و المسلمین محمد رضا مصطفی پور کے مقالہ سے ماخوذ۔
[1] وسائل الشیعه، ج ۷، ص ۳.

تبصرے
Loading...