جناب محسن بن علی بن ابی طالب(علیہ السلام) کا مختصر تعارف

چکیده: اس مقالے میں جناب محسن (علیہ السلام) کا  مختصر تعارف پیش کیا گیا ہے۔

جناب محسن بن علی بن ابی طالب(علیہ السلام) کا مختصر تعارف

بسم اللہ الرحمن الرحیم

جنابِ محسن، حضرت امیرکائنات علی بن ابی طالب (علیہ السلام) اور جناب فاطمہ الزہراء (سلام اللہ علیھا) کے پانچویں  فرزند تھے جنکی ولادت سے پہلے ہی شہادت  ہو گئی ، روایات کی بنا پر آپ کا نام خود رسول اکرم (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم) نے تجویز فرمایا تھا۔[1]
آپ کی شہادت کا دن واضح نہیں ہے لیکن جو بات قطعی ہے وہ یہ کہ  رسول اکرم  (صلی اللہ علیہ آلہ وسلم)کی شہادت کے بعد جناب حضرت امیر (علیہ السلام)  سے بیعت لینے کے لئے  گھر پر حملہ کیا گیا اور جناب زہراء (سلام اللہ علیھا) کو شدید  زخمی کیا گیا اور اسی  وجہ سے جناب محسن (علیہ السلام) کی  شہادت واقع ہوئی۔
جناب محسن (علیہ السلام) کی  شہادت کےبارے میں سنی  علماء کے درمیان  دو الگ نظریات ہیں۔ پہلا گروہ (جنکی تعداد بہت کم ہے) اس بات پر متفق ہے کہ  جناب محسن (علیہ السلام) کی  ولادت اور وفات رسول اکرم(صلی اللہ علیہ آلہ وسلم) کے زمانہ میں ہو چکی تھی،لیکن دوسرے گروہ کا ماننا ہے کہ آپ کی شھادت بچپن میں ہو گئی تھی  لیکن یہ گروہ  آپ کی ولادت پر کچھ نہیں کہتے۔[2]
تاریخی اور روایتوں کی  کتابوں میں جناب محسن (علیہ السلام)پر بہت گفتگو کی گئی ہے، اگر چہ آپ کی ولادت اور کیفیت ِشہادت پر بہت سوال و جواب ہوئے ہیں لیکن اتنی کثیر تعداد میں روایات کا ہونا یہ بتا تا ہے کہ جناب محسن (علیہالسلام) کا  و جود ثابت ہے۔   
کسی بھی دست اول کے تاریخی یا مقتل کی کتابوں میں جناب محسن کی قبر اور جائے دفن کا تذکرہ نہیں ملتا، لیکن ایک  روایت ملتی ہے جس میں گھر  ہی میں دفن ہونے کی طرف اشارہ ہوا ہے۔
روایت اس طرح  ہے کہ جس وقت جناب سیدہ (سلام اللہ علیھا) در و دیوار کے بیچ دب گئیں اور ظالم نے دروازے پر لات ماری اور ایک  کیل جناب سیدہ (سلام اللہ علیھا) کے چبھ گئی، اس وقت مدد کے لئے پکارا ،جیسے ہی شہزادی کی آواز مولا ؑ نے سنی تو فورا  جناب فضہ سے کہا کہ زہراء (سلام اللہ علیھا) کی مدد کو جائیں ،کچھ دیر بعد  جناب فضہ ہاتھوں کچھ لئے ہوئے آئیں ،جناب امیر ؑ نے پوچھا کہ یہ کیا ہے؟تو جواب دیا کہ یہ  محسن  کا بے جان بدن ہے اور وہ شھید ہو چکے ہیں۔ تب حضرتؑ نے فرمایا کہ میں تو گھر  کے باہر نہیں جا سکتا ، آپ  ہی اسکو  گھر میں دفنا  دیں۔[3]

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
[1] کلینی، کافی، ج۶، ۱۸
[2] ابن حزم، ج۱۶، ص۳۷؛ابن حجر، الاصابه، ج۲، ص۲۴۴؛ ابو الفداء، ج۱ ص۲۵۲؛ قندوزی، ج۲، ص۶۷
[3] ملااسماعیل سبزواری، جامع النورین، تهران، علمیه اسلامیه، بی‌تا، ص ۲۰۶.

تبصرے
Loading...