بی بی ام البنین(علیھا السلام) کی مختصر سوانح حیات

خلاصہ:تاریخ نے ہمیشہ ان شخصیات کا قصیدہ پڑھا ہے کہ جنہوں نے اپنے کردار سے دین اسلام کی خدمت کی ہے اور ان میں سے ایک با عظمت اور با کردار خاتون کا نام بی بی ام البنین (علیھا السلام ) ہے۔ 

بی بی ام البنین(علیھا السلام) کی مختصر سوانح حیات

 تاریخ میں کچھ ہستیاں ایسی ہیں کہ جن کے بارے میں گفتگو کرنا آسان کام نہیں ہے اور دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے ہم لوگوں تک ان کی حقیقت نہیں پہنچی ، ان میں ایک ہستی کا نام بی بی ام البنین (علیھا السلام ) ہے تاریخ نے اتنا تو بتا دیا کہ ان کا خاندان بہت عظیم اور شجاع خاندان تھا اگر اتنا ہی سوچیں کہ اگر ایک عظیم اور بڑے گھر کی لڑکی جب کسی گھر میں جاتی ہے تو اس کا رویہ کیا ہوتا ہے؟ اور اسی طرح وہ اپنے شوہر کے پہلی بیوی سے جو بچے ہیں ان کے ساتھ کیسا سلوک کرتی ہے ؟
یہ سب باتیں تب سمجھ میں آتی ہیں جب ہم ان کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں کہ بی بی ام البنین (علیھا السلام) معرفت کے کن درجات پر فائز تھیں ، یعنی شوہر اور اسکی پہلی بیوی کی کتنی معرفت رکھتی تھیں، یعنی شوہر کی معرفت اور اس کی اولاد کی معرفت کہ یہ لوگ کوئی عام لوگ نہیں ہیں، اور ان کا خدا اور اس کے رسول کے نزدیک کیا مقام ہے، اسی لیے ماننا پڑے گا کہ خود بی بی ام البنین (علیھا السلام) بھی معرفت کے اعلی درجہ پر فائز تھیں۔ اور بی بی کی معرفت ان کی اولاد کی تربیت سے ہمارے سامنے واضح اور روشن ہے ۔
زین‏ الدین عاملی کہ جو معروف ہیں شهید ثانی کے نام سے وہ بی بی ام ‏البنین(علیھا السلام) کے بارے میں فرماتے ہیں : بی بی ام ‏البنین(علیھا السلام) معرفت و فضیلت کا سمندر تھیں. خاندان نبوت سے ان کی خاص اور شدید محبت تھی جنہوں نے خود کو اس خاندان کے لیے وقف کر رکھا تھا. اور اسی طرح خاندان نبوت نے بھی انہیں خاص احترام دے رکھا تھا جب بھی کوئی عید آتی تو سب ان کے پاس جاتے اور خاص احترام کرتے ۔[1]
بی بی ام البنین کے والد گرامی کا نام ابوالمجل حزام ابن خالد  تھا اور ان کا تعلق قبیلہ بنی کلاب سے تھا ۔[2]‌
اور ان کی والدہ کا نام ثمامہ تھا جو کہ سہیل ابن عامر ابن مالک  کی بیٹی تھیں۔[3]
ان کی ولادت کی تاریخ معلوم نہیں ہے کیونکہ تاریخ میں بہت اختلاف کے ساتھ ذکر ہوئی ہے اسی لیے ہم بھی یہاں ذکر کرنا مناسب نہیں سمجھتے ۔
مولائے کائنات حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام ) نے حضرت فاطمہ زہراء (سلام اللہ علیھا ) کی شھادت کے بعد بی بی امّ البنین  سے شادی کی۔ [4] 
آپ کا اصل نام مبارک «فاطمه بنت حزام»تھا۔[5] 
آپ ایک شریف، نیک کردار،شجاع،مہربان خاتون تھیں  مولائے کائنات سے شادی کے بعد آپ کی اولاد میں چار بیٹے لکھے گئے ہیں کہ جن کے نام: عباس، جعفر، عبد اللّه اور عثما ن ہیں۔[6] 
اور ان چاروں فرزندوں نے  روز عاشورا خود کو سید الشھداء امام حسین (علیہ السلام ) پر قربان کر دیا ۔[7]
تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بی بی ام ‏البنین(علیھا السلام) واقعہکربلا کے بعد بقیع جا کر شھداء کربلا پر نوحہ پڑھا کرتی تھیں اور گریہ و زاری کیا کرتی تھی اور لوگ آ کے ان کا نوحہ سنتے تھے حتی مروان ابن حکم جیسا ظالم بھی ان کا نوحہ سنتا تھا اور ان کی اولاد پر گریہ کرتا تھا ۔[8]
بی بی ام ‏البنین(علیھا السلام) نے کربلا کے مظالم پر اتنا گریہ کیا کہ آخر کار شدید مریض ہو گئیں اور اسی وجہ سے اس دنیا سے چل بسیں ، بی بی کو قبرستان بقیع میں دفن کیا گیا ، بعض مؤرخین نے ان کی وفات کو 13جمادی الثانی سن 64 ہجری قمری لکھا ہے ۔[9] 

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالے جات:
[1].ستاره درخشان مدینه حضرت ام البنین، ص۷.
[2].ابن سعد کاتب واقدی، محمد بن سعد‏، الطبقات الکبرى، ج ‏3، ص 14، بیروت، دار الکتب العلمیة، چاپ دوم، 1418ق.
[3]. سماوی، محمد بن طاهر، إبصار العین فی أنصار الحسین(ع)‏، ص 56، قم، دانشگاه شهید محلاتى‏، چاپ اول، 1419ق.‏
[4]. بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الاشراف، ج ‏2، ص 192، دار الفکر، چاپ اول، 1417ق؛ سبط بن جوزی‏، تذکرة الخواص من الأمة فی ذکر خصائص الأئمة، ص 168، قم، منشورات الشریف الرضی‏، چاپ اول، 1418ق؛ امین، ‏سید حسن، مستدرکات ‏اعیان ‏الشیعة، ج ‏1، ص 326، بیروت، دار التعارف للمطبوعات‏، 1403ق. 
[5]. ابن عنبه‏ حسنى‏، سید احمد بن على‏، عمدة الطالب فی أنساب آل أبى طالب‏، ص 327، قم، انصاریان، ‏1417ق‏؛ عاملى‏، سید محسن امین، لواعج الأشجان فی مقتل الحسین(ع)‏، ص 136، بیروت، دار الأمیر للثقافة و العلوم‏، چاپ اول،  1996م‏.
[6]. أنساب الأشراف، ج ‏2، ص 192؛ الطبقات الکبری‏، ج ‏3، ص 14.
[7]. الطبقات الکبری‏، ج ‏3، ص 14؛ شیخ مفید، الارشاد فی معرفة حجج الله علی العباد، ج ‏1، ص 354، قم، کنگره شیخ مفید، چاپ اول، 1413ق؛ لواعج الأشجان، ص 136. 
[8]. ابوالفرج اصفهانى،‏ على بن حسین‏، مقاتل الطالبیین‏، ص 90، بیروت، دار المعرفة، بی‌تا؛ مجلسی، محمدباقر، جلاء العیون‏، ص 678، قم، سرور، چاپ نهم، 1382ش؛ لواعج الأشجان، ص 139.
[9]. کتاب «کنز المطالب» علّامه سیّد محمّد باقر قره­باقی همدانی نے: «13 جمادی الثّانی لکھا ہے اور فضل ابن عباس سے روایت نقل کی ہے جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا تو امام سجاد (علیہ السلام ) کو زارو قطار روتے ہوئے دیکھا اور جب رونے کی وجہ پوچھی تو امام نے فرمایا :میری دادی ام  البنین اس دنیا سے جا چکی ہیں اوروہ  دن 13 جمادی الثانی کا دن تھا »

تبصرے
Loading...