اتحاد و یگانگت سے سرشار دنیا

اتحاد و یگانگت سے سرشار دنیا

اتحاد و یگانگت سے سرشار دنیا

مرحوم علامہ مجلسی ”بحارالانوار ” میں روایت نقل کرتے ہیں کہ حضرت امام محمد باقر  علیہ السلام سے کہا گیا:

”انّ اصحابنا بالکوفة جماعة کثیرة فلو أمرتھم لأطاعوک واتّبعوک فقال:یجیٔ احدھم الی کیس اخیہ فیأخذ منہ حاجتة؟”فقال:لا .

قال: فھم بدمائھم أبخل

ثم قال: انّ النّاس فی ھدنة نناکحھم و نوراثھم و نقیم علیھم الحدود ونؤدّی اماناتھم حتی اذا قام القائم جائت المزاملة و یأتی الرجل الی کیس اخیہ فیاخذ حاجتہ لا یمنعہ “([1])

کوفہ میں ہمارے بہت سے اصحاب ہیں۔اگر انہیں حکم کریں تو وہ آپ کی اطاعت کریں گے  اور آپ کی پیروی کے لئے اٹھ کھڑے ہوں گے۔

امام باقر  علیہ السلام نے فرمایا:کیا ان میں سے کوئی بھی اپنے بھائی کی جیب سے ضرورت کے مطابق لیتا ہے؟

میں نے کہا!نہیں۔

امام  نے فرمایا:(جب وہ اپنے مال کے لئے اتنے بخیل ہیں) وہ اپنوں کی بہ نسبت بہت زیادہ بخیل ہوں گے۔

پھر امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:اب لوگ میل و ملاپ اور امن و امان میں ہیں ان سے نکاح کرتے ہیں ، ارث لیتے ہیں،ان پر حد جاری کرتے ہیں اور ان کی امانتیں انہیں لوٹا دیتے ہیں کہ جب قائم  علیہ السلام قیا م کریں گے تولوگوں کے مابین مخلصانہ و صادقانہ رفاقت پیدا ہوگی اور مرد اپنے بھائی کی جیب کی طرف بڑھے گا اور اس میں سے ضرورت کے مطابق لے لے گا اور صاحبِ مال بھی اسے اس کام سے نہیں روکے گا۔

عقل  کے تکامل سے معاشرے میں خلوص و محبت کی ایسی فضا قائم ہوجائے گی کہ سب عقل کامل ہونے کی وجہ سے پیار،محبت،یگانگت اور اتحاد ایجاد کرنے کی کوشش کریں گے۔

اس زمانے میں اجتماعی زندگی میں مہر و محبت ہوگی کہ سب اپنے مال میں دوسروں اور دوسروںکے مال میں خود کو شریک سمجھ کر اس سے استفادہ کریں گے اور یہ سب امام عصر علیہ السلام کے عادلانہ نظام اور حکومت الہٰی کے حاکم ہونے کی وجہ سے ہوگا۔پھر انسان تکامل عقل سے بہرہ مند ہوکر پیار،محبت،اخوت اور بھائی چارے کی دنیا کی طرف گامزن ہوجائیں  گے۔

اب ہم جو روایت پیش کر رہے ہیں۔اس پر توجہ کریں: 

امام محمد باقر  علیہ السلام نے سعید بن حسن سے فرمایا: 

” أیجیء احدکم الی اخیہ فیدخل یدہ فی کیسہ ،فیأخذ حاجتة فلا یدفعہ؟فقلت:ما أعرف ذلک فینا

فقال ابو جعفر:فلا شیء اذاً

قلت:فالھلاک اذاً،فقال:ان القوم لم یعطوا احلامھم بعد”([2])

 

کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو اپنے دینی بھائی کی جیب میں ہاتھ ڈال کر اس سے حسبِ ضرورت لے لے اور صاحبِ مال بھی اسے منع نہ کرے؟

میں نے جواب میں کہا!ہم نے اپنوں میں ایسا نہیں دیکھا۔

امام  نے فرمایا:اس بناء پر ایسی کوئی چیز وجود نہیں رکھتی۔

میں نے کہا!پس کیا اب ہم ہلاک و گمراہ ہوجائیں گے؟

امام نے اس احتمال کی نفی کرتے ہوئے فرمایا!ابھی تک لوگوں کو ان کی عقلیں عطا نہیں ہوئیں۔

 

اس روایت کی بناء پر جب تک معاشرہ ایسی اعلیٰ صفات کا مالک نہ بن جائے،تب تک وہ کامل عقل سے بہرہ مند نہیں ہے۔امام محمد باقر  علیہ السلام کے فرمان کے مطابق ابھی تک ان کو عقلیںنہیں دی گئی ہیں۔

گویا معاشرے کے لئے تمام عقلی قوّتوں سے استفادہ کرنا ممکن نہیں ہے۔جس طرح لوگ سونے کے خزانوں کو خاک تلے پنہاں کردیتے ہیں،اسی طرح لوگوں نے اپنی فکری قدرت و طاقت کو بھی زیرِ خاک دفن کر رکھا ہے۔

لیکن اس وقت انسان کی عقلیں کامل ہوجائیں گی ۔جس کے نتیجے میں نہ صرف بخل بلکہ تمام صفات رذیلہ بھی زائل ہوجائیں گی،بری اور نا پسندیدہ عادات ختم ہوجائیں گی۔پھر سب اعلیٰ انسانی خصوصیات و صفات سے سرشار ہوں گے۔کیونکہ یہ کامل عقل کا لازمہ ہے۔

 


[1]۔ بحارالانوار:ج ٥٢ص ٣٧٢

[2]۔ اصول کافی :ج۱ص۱۷۳،بحارالانوار: ج٧٤ص ٢٥٤ 

 

تبصرے
Loading...