قرآن کی عبارت میں (فبشرھم بعذاب الیم) ، کیوں آیا ہے جب کہ بشارت کے مثبت معنی ہوتی ہیں؟

قرآن اور لغت میں لفظ (بشارت) اچھی اور بری دونوں خبروں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔[1] لیکن قرائن کے مطابق ان دونوں میں سے ایک خبر مشخص ہوتی ہے۔

لفظ ’’بشارت‘‘ قرآن میں نہیں آیا ہے لیکن اس کے مشتقات ذکر ہوئے ہیں جیسے’’بشری‘‘:’’ و ’’ما جعلہ اللہ الا بشری لکم‘‘[2] خداوند عالم نے اسے (فرشتوں کی نصرت کو) تمہارے لئے بشارت اور خوش خبری قرار دیا ہے۔ لفظ’’بشری‘‘ اس آیت اور اس جیسی آیات میں خوش خبری کے معنی میں آیا ہے۔ لیکن لفظ ’’بشر‘‘ قرآن کریم میں ۔۔۔ اچھی اور بری دونوں خبروں کے معنی میں آیا ہے مثلا :(بشر الذین آمنوا و عملوا الصالحات ان لھم جنات تجری من تحت الانھار)[3] جو لوگ ایمان لائے ہیں اور انہوں نے اچھے اعمال کئے ہیں انھیں جنت کے ان باغوں کی بشارت دے دیجئے۔۔۔۔ جن کے درختوں کے نیچے نہریں جاری ہیں ۔ لفظ ’’بشّر‘‘ اس آیت میں خوش خبری کے معنی میں آیا ہے۔

’’بشّر المنافقین بان لھم عذاباً الیما‘‘[4] منافقون کو بشارت دے دیجئے کہ دردناک عذاب ان کے انتظار میں ہے۔ اور’’و بشرھم بعذاب الیم‘‘[5] ان آیات میں لفظ ’’بشّر‘‘ بری اور اندوہ ناک خبر کے معنی میں استعمال ہوا ہے جو ایک طرح کا استعارہ اور تحکم ہے، یعنی عذاب کے علاوہ ان کے لئے کوئی اور چیز نہیں ہے۔[6] کیونکہ کفار اور بت پرستوں کے دل پر کسی موعظہ اور نصیحت کا اثر نہیں ہوتا لہذا خداوندعالم نے پیغمبرؐ سے فرمایا کہ انھیں دردناک عذاب کی خبر دے دیجئے اور یہ ایک طرح کا لعن اور سرزنش ہے۔[7]

 


[1] – قریشی، سید علی اکبر، قاموس قرآن ج۱، ص۱۹۴، دار الکتب الإسلامیۃ، تہران، چاپ ششم، ۱۳۷۱ ش؛ طریحی، فخر الدین، مجمع البحرین، تحقیق: حسینی، سید احمد، ج۳، ص۲۲۱، کتابفروشی مرتضوی، تہران، چاپ سوم، ۱۳۷۵ش۔

[2] – آل عمران، ۱۲۶۔

[4] – نساء، ۱۳۸۔

[5] – انشقاق، ۲۴۔

[6] – قاموس قرآن، ج۱، ص۱۹۴؛ مجمع البحرین، ج۳، ص۲۲۱۔

[7] – حسینی ھمدانی، سید محمد حسین، انوار درخشان، تحقیق: بہبودی، محمد باقر، ج۱۸، ص۶۲و ۶۳، کتابفروشی لطفی، تہران، چاپ اول، ۱۴۰۴ق؛ مکارم شیرازی، ناصر، تفسیر نمونہ، ۲۶، ص۳۱۹، دار الکتب الاسلامیۃ، تہران، چاپ اول، ۱۳۷۴ش۔

 

تبصرے
Loading...