سوره نساء آيات 161 – 176

سوره نساء آيات 161 – 176

وَّ اَخۡذِہِمُ الرِّبٰوا وَ قَدۡ نُہُوۡا عَنۡہُ وَ اَکۡلِہِمۡ اَمۡوَالَ النَّاسِ بِالۡبَاطِلِ ؕ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ مِنۡہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔ اور اس سبب سے بھی کہ وہ سود خوری کرتے تھے جبکہ اس سے انہیں منع کیا گیا تھا اور لوگوں کا مال ناحق کھانے کے سبب سے بھی اور ان میں سے جو کافر ہیں ان کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔

155تا161۔ان آیات کا وسط کلام جملہ ہائے معترضہ کو نکالنے کے بعد اس طرح بنتا ہے: ’’ اس سبب سے کہ یہود نے عہد شکنی کی، آیات کا انکار کیا اور کہا کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں کہ ان پر غیر یہودی تعلیمات کا اثر نہیں ہوتا۔ حضرت مریمؑ پر عظیم بہتان باندھا اور کہا ہم نے مسیح کو قتل کیا، ظلم کا ارتکاب کیا، اکثر لوگوں کو راہ راست سے روکا، منع کے باوجود سود خوری کی، لوگوں کا مال ناحق کھایا۔ ان تمام باتوں کے سبب سے ہم نے ان پر بہت سی پاک چیزیں حرام کر دیں اور ان کے لیے ایک دردناک عذاب تیار کیا۔


لٰکِنِ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ مِنۡہُمۡ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ یُؤۡمِنُوۡنَ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ مِنۡ قَبۡلِکَ وَ الۡمُقِیۡمِیۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ الۡمُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ الۡیَوۡمِ الۡاٰخِرِ ؕ اُولٰٓئِکَ سَنُؤۡتِیۡہِمۡ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۶۲﴾٪

۱۶۲۔لیکن ان میں سے جو علم میں راسخ ہیں اور اہل ایمان ہیں وہ اس پر ایمان لاتے ہیں جو آپ پر نازل کیا گیا اور جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا اور نماز قائم کرنے والے ہیں اور زکوٰۃ دینے والے ہیں اور اللہ اور روز آخرت پر ایمان لانے والے ہیں، یہ وہ لوگ ہیں جن کو عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔

162۔ اہل کتاب کا حضور (ص) سے یہ مطالبہ کہ آپ (ص) ان کے لیے آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، ایک جاہلانہ اورمعاندانہ مطالبہ ہے۔ ورنہ جو علم میں پختہ ہیں اور ایماندار ہیں وہ ایسے نامعقول مطالبے نہیں کرتے، بلکہ وہ آپ (ص) اور سابقہ انبیاء کی تعلیمات پر ایمان لاتے ہیں۔ چونکہ انہیں معلوم ہے کہ رسالت مآب (ص) کی تعلیمات میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جو انبیائے سلف کی تعلیمات و معجزات سے متصادم ہو۔


اِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّ النَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَ اِسۡمٰعِیۡلَ وَ اِسۡحٰقَ وَ یَعۡقُوۡبَ وَ الۡاَسۡبَاطِ وَ عِیۡسٰی وَ اَیُّوۡبَ وَ یُوۡنُسَ وَ ہٰرُوۡنَ وَ سُلَیۡمٰنَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا﴿۱۶۳﴾ۚ

۱۶۳۔(اے رسول)ہم نے آپ کی طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان کے بعد کے نبیوں کی طرف بھیجی، اور جس طرح ہم نے ابراہیم، اسماعیل، اسحاق، یعقوب، اولاد یعقوب، عیسیٰ، ایوب، یونس، ہارون اور سلیمان کی طرف (وحی بھیجی) اور داؤد کو ہم نے زبور دی۔

163۔اہل کتاب کے نامعقول مطالبے کا جواب جاری ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ محمد (ص) پر وحی کا نزول سابقہ انبیاء کا تسلسل ہے۔ یہ کوئی انوکھی چیز نہیں ہے، جو کبھی پہلے دیکھنے میں نہ آئی ہو بلکہ یہ سنت الہٰی ہے کہ اس نے یکے بعد دیگرے انبیاء بھیجے۔


وَ رُسُلًا قَدۡ قَصَصۡنٰہُمۡ عَلَیۡکَ مِنۡ قَبۡلُ وَ رُسُلًا لَّمۡ نَقۡصُصۡہُمۡ عَلَیۡکَ ؕ وَ کَلَّمَ اللّٰہُ مُوۡسٰی تَکۡلِیۡمًا﴿۱۶۴﴾ۚ

۱۶۴۔ ان رسولوں پر (وحی بھیجی) جن کے حالات کا ذکر ہم پہلے آپ سے کر چکے ہیں اور ان رسولوں پر بھی جن کے حالات کا ذکر ہم نے آپ سے نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے تو خوب باتیں کی ہیں۔

164۔ یعنی اس سورے سے پہلے نازل ہونے والی مکی سورتوں میں جن انبیاء کا ذکرآیا ہے، ان کے علاوہ وہ انبیاء جن کا ذکر باقی سورتوں میں آیا ہے اور وہ انبیاء جن کا ذکر قرآن میں نہیں آیا۔ جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہر قوم کی طرف ایک نبی بھیجا ہے۔ قرآن میں تقریباً 26 انبیاء کا صریحاً ذکر ہے اور بعض انبیاء کا نام لیے بغیر اشارۃً ذکر فرمایا ہے۔ اکثر روایات کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے، جن میں سے تین سو تیرہ مرسل اور پانچ اولوالعزم ہیں۔ حضرت نوح، حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ۔


رُسُلًا مُّبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ لِئَلَّا یَکُوۡنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌۢ بَعۡدَ الرُّسُلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔ (یہ سب) بشارت دینے والے اور تنبیہ کرنے والے رسول بنا کر بھیجے گئے تھے تاکہ ان رسولوں کے بعد لوگوں کے لیے اللہ کے سامنے کسی حجت کی گنجائش نہ رہے اور اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

165۔ اللہ تعالیٰ حجت پوری کرنے سے پہلے کسی سے مؤاخذہ نہیں کرتا اور یہ ایک عقلی قاعدہ ہے کہ کسی بات کا حکم جاری کیے بغیر اس کے بارے میں بازپرس نہیں ہو سکتی۔ اگر خادم سے یہ نہ کہا جائے کہ پانی دے دو تو پانی نہ دینے پر اس سے بازپرس نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ نبوت کی ضرورت اسی اصول اور قاعدے کے تحت ہے۔ اگر انبیاء کے ذریعے حجت پوری نہ ہوئی ہوتی تو لوگوں کو یہ بات کرنے کا حق حاصل ہو جاتا: رَبَّنَا لَوْ لَآ اَرْسَلْتَ اِلَيْنَا رَسُوْلًا فَنَتَّبِعَ اٰيٰتِكَ ۔ (طٰہٰ: 134) ہمارے پروردگار! تو نے ہماری طرف رسول کیوں نہیں بھیجا کہ ہم تیرے احکام کی پیروی کرتے؟


لٰکِنِ اللّٰہُ یَشۡہَدُ بِمَاۤ اَنۡزَلَ اِلَیۡکَ اَنۡزَلَہٗ بِعِلۡمِہٖ ۚ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ یَشۡہَدُوۡنَ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیۡدًا﴿۱۶۶﴾ؕ

۱۶۶۔ لیکن اللہ گواہی دیتا ہے کہ جو کچھ اس نے آپ پر نازل کیا ہے وہ اپنے علم سے نازل کیا ہے اور ساتھ فرشتے بھی گواہی دیتے ہیں اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے۔

166۔ اللہ نے اس وقت کے تاریک معاشرے میں ایک ایسے شخص کو اپنے علم سے مالا مال کیا جس نے کسی انسانی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ اس نے اللہ کی طرف سے ایک ایسا دستور حیات پیش کیا جس کی مثال پیش کرنے سے تمام انسان عاجز ہیں۔ لہٰذا یہ علم یہ قرآن اور یہ جامع نظام حیات اللہ کی جانب سے گواہی ہے کہ یہ رسول برحق ہیں۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ قَدۡ ضَلُّوۡا ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۶۷﴾

۱۶۷۔ بے شک جنہوں نے کفر اختیار کیا اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روگردان کیا یقینا وہ گمراہی میں دور تک نکل گئے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ ظَلَمُوۡا لَمۡ یَکُنِ اللّٰہُ لِیَغۡفِرَ لَہُمۡ وَ لَا لِیَہۡدِیَہُمۡ طَرِیۡقًا﴿۱۶۸﴾ۙ

۱۶۸۔جنہوں نے کفر اختیار کیا اور ظلم کرتے رہے اللہ انہیں ہرگز نہیں بخشے گا اور نہ ہی ان کی راہنمائی کرے گا۔


اِلَّا طَرِیۡقَ جَہَنَّمَ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیۡرًا﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ سوائے راہ جہنم کے جس میں وہ ابد تک ہمیشہ رہیں گے اور یہ کام اللہ کے لیے نہایت سہل ہے۔


یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمُ الرَّسُوۡلُ بِالۡحَقِّ مِنۡ رَّبِّکُمۡ فَاٰمِنُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ وَ اِنۡ تَکۡفُرُوۡا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔ اے لوگو! یہ رسول تمہارے رب کی طرف سے حق لے کر تمہارے پاس آئے ہیں پس تمہارے حق میں بہتر ہے کہ تم (ان پر) ایمان لے آؤ اور اگر تم کفر اختیار کرو تو (جان لو کہ) آسمانوں اور زمین کی موجودات کا مالک اللہ ہے اور اللہ بڑا علم رکھنے والا، حکمت والا ہے۔

170۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی حقانیت پر دلیل دینے کے بعد روئے سخن اہل کتاب سے عامۃ الناس کی طرف ہو گئی کہ اس رسول برحق پر ایمان لانے میں خود تمہاری بھلائی ہے اگر کفر کرو تو خود تمہارا نقصان ہے تم کفر کر کے اللہ کی حکومت سے فرار نہیں کر سکتے تم چاہو یا نہ چاہو اللہ کی مملکت میں ہو۔


یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَا تَغۡلُوۡا فِیۡ دِیۡنِکُمۡ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ اِنَّمَا الۡمَسِیۡحُ عِیۡسَی ابۡنُ مَرۡیَمَ رَسُوۡلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ ۚ اَلۡقٰہَاۤ اِلٰی مَرۡیَمَ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ۫ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ ۚ۟ وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ ؕ اِنۡتَہُوۡا خَیۡرًا لَّکُمۡ ؕ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ؕ سُبۡحٰنَہٗۤ اَنۡ یَّکُوۡنَ لَہٗ وَلَدٌ ۘ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیۡلًا﴿۱۷۱﴾٪

۱۷۱۔ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں غلو سے کام نہ لو اور اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ نہ کہو،بے شک مسیح عیسیٰ بن مریم تو اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ ہیں جو اللہ نے مریم تک پہنچا دیا اور اس کی طرف سے وہ ایک روح ہیں، لہٰذا اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لے آؤ اور یہ نہ کہو کہ تین ہیں، اس سے باز آ جاؤ اس میں تمہاری بہتری ہے، یقینا اللہ تو بس ایک ہی معبود ہے، اس کی ذات اس سے پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو، آسمانوں اور زمین میں موجود ساری چیزیں اسی کی ہیں اور کارسازی کے لیے اللہ کافی ہے۔

171۔ حضرت مسیح کے بار ے میں قرآن کا مؤقف یہ ہے کہ حضرت مسیح اللہ کا کلمہ اور روح ہیں۔ جب اللہ ظاہری علل و اسباب سے ہٹ کر ایک تخلیقی عمل صرف اپنے ارادے سے انجام دیتا ہے تو اسے کلمہ کہتے ہیں۔ مثلًا ًحضرت عیسیٰ (ع) کی خلقت کے لیے باپ کی جگہ کلمہ کُن علت ہے اس لیے انہیں کلمہ کہتے ہیں۔ وَ رُوۡحٌ مِّنۡہُ ، اللہ کی روح یعنی یہ نسبت صرف شرف کے لیے ہے، جیسے بیت اللّہ، ناقۃ اللّہ وغیرہ۔

وَ لَا تَقُوۡلُوۡا ثَلٰثَۃٌ : مسیحی، اناجیل کی صریح تعلیمات کی بنا پر خدائے واحد کو مانتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خدا ایک ہے۔ دوسری طرف وہ روح القدس اور مسیح (ع) کو بھی خدا مانتے ہیں۔ اس طرح وہ تین خداؤں کے بھی قائل ہیں۔ وہ توحید کے ساتھ تثلیث اور تثلیث کے ساتھ توحید کا عقیدہ رکھتے ہیں اورلاینحل تضادات کے ایک سلسلے میں مبتلا ہو جاتے ہیں کہ خدا تین بھی ہیں اور ایک بھی اور اس کی تشریح میں ان میں فرقہ بندیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ کہتے ہیں اللہ جوہر ہونے کے اعتبار سے ایک ہے اوراقانیم ہونے کے اعتبار سے تین۔وہ ’’ وجود‘‘ ،’’حیات‘‘ اور ’’علم‘‘ کو اقانیم کہتے ہیں اور وجود کو باپ، علم کو بیٹا اور حیا ت کو روح القدس کہتے ہیں۔آگے وہ جوہر اور اقانیم کے درمیان تعلق کی نوعیت میں اختلاف کرتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے ہیں۔


لَنۡ یَّسۡتَنۡکِفَ الۡمَسِیۡحُ اَنۡ یَّکُوۡنَ عَبۡدًا لِّلّٰہِ وَ لَا الۡمَلٰٓئِکَۃُ الۡمُقَرَّبُوۡنَ ؕ وَ مَنۡ یَّسۡتَنۡکِفۡ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ یَسۡتَکۡبِرۡ فَسَیَحۡشُرُہُمۡ اِلَیۡہِ جَمِیۡعًا﴿۱۷۲﴾

۱۷۲۔ مسیح نے کبھی بھی اللہ کی بندگی کو عار نہیں سمجھا اور نہ ہی مقرب فرشتے (اسے عار سمجھتے ہیں) اور جو اللہ کی بندگی کو عار سمجھتا ہے اور تکبر کرتا ہے اللہ ان سب کو(ایک دن) اپنے سامنے جمع کرے گا۔

172۔ مسیحی تعلیما ت اور اناجیل کی آیات سے یہ بات واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کی عبادت کرتے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام خود خدا نہیں ہیں اور نہ خدا کا حصہ ہیں۔ کیونکہ خدا یا خدا کا کوئی حصہ خود اپنی عبادت نہیں کر سکتا۔ بعض مشرکین کا یہ خیال تھا کہ فرشتے اللہ کی بیٹیاں ہیں، اس لیے ضمناً یہاں اس مشرکانہ نظریے کی رد کے طور پر فرشتوں کی عبادت کا بھی ذکر کیا گیا۔


فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَیُوَفِّیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ وَ یَزِیۡدُہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ ۚ وَ اَمَّا الَّذِیۡنَ اسۡتَنۡکَفُوۡا وَ اسۡتَکۡبَرُوۡا فَیُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا ۬ۙ وَّ لَا یَجِدُوۡنَ لَہُمۡ مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیۡرًا﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔پھر ایمان لانے والوں اور نیک اعمال بجا لانے والوں کو اللہ ان کا پورا اجر دے گا اور انہیں اپنے فضل سے مزید عطا کرے گا اور جن لوگوں نے (عبادت کو) عار سمجھا اور تکبر کیا انہیں اللہ دردناک عذاب دے گا اور وہ اپنے لیے اللہ کے سوا نہ کوئی سرپرست اور نہ کوئی مددگار پائیں گے۔

173۔اس آیت میں ایک نکتہ قابل توجہ ہے۔ وہ یہ کہ ایمان و عمل صالح کے پورے پورے اجر و ثواب کے علاوہ یہ خوشخبری اور نوید رحمانی سنائی گئی: وَ یَزِیۡدُہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ اپنے فضل سے ان کو مزید اجر و ثواب عنایت فرمائے گا۔ مزید کس قدر اجر عطا فرمائے گا؟ اس کی کوئی حد بیان نہیں فرمائی۔


یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ قَدۡ جَآءَکُمۡ بُرۡہَانٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ نُوۡرًا مُّبِیۡنًا﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔ اے لوگو! تمہارے رب کی طرف سے تمہارے پاس واضح دلیل آگئی ہے اور ہم نے تمہاری طرف روشن نور نازل کیا ہے۔

174۔ بُرۡہَانٌ : دلیل و حجت میں سے اس دلیل کو برہان کہتے ہیں جو ناقابل تردید ہو ۔

یہود و نصاریٰ اور مشرکین پر رسالتمآب (ص) کی رسالت کی حقانیت پر روشنی ڈالنے کے بعد پوری انسانیت سے خطاب فرمایا: تمہاری طرف اللہ کی جانب سے ایک ناقابل تردید دلیل آ گئی ہے۔ برہان سے مراد رسول کریم (ص) کی ذات گرامی ہی ہو سکتی ہے۔کیونکہ محمد (ص) نے ایک ایسے معاشرے میں آنکھ کھولی جو علم و تمدن سے بالکل بے بہرہ تھا۔ اس زمانے میں یونان، مصر، عراق، ایران اور ہندوستان میں علمی مراکز موجود تھے اور تمدن بھی تھا، لیکن حجاز تو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس معاشرے میں ایک شخص، ایک ایسا انسان ساز دستور حیات لے کر آتا ہے جس کی مثال پیش کرنے سے تمام انسان قاصر ہیں۔ یہ ذات خود اپنی جگہ ایک برہان ہے۔ اور نور مبین سے مراد قرآن مجید ہے۔ جس نے انسانیت کو جہالت کی تاریکی سے نکال کر علم و تمدن کی روشن دنیا سے متعارف کرایا اور ساتھ روحانی امن و سکون کے عوامل سے روشناس کرایا۔


فَاَمَّا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ اعۡتَصَمُوۡا بِہٖ فَسَیُدۡخِلُہُمۡ فِیۡ رَحۡمَۃٍ مِّنۡہُ وَ فَضۡلٍ ۙ وَّ یَہۡدِیۡہِمۡ اِلَیۡہِ صِرَاطًا مُّسۡتَقِیۡمًا﴿۱۷۵﴾ؕ

۱۷۵۔لہٰذا جو اللہ پر ایمان لے آئیں اور اس سے متمسک رہیں تو وہ جلد ہی انہیں اپنی رحمت اور فضل میں داخل کرے گا اور انہیں اپنی طرف آنے کا سیدھا راستہ دکھائے گا ۔


یَسۡتَفۡتُوۡنَکَ ؕ قُلِ اللّٰہُ یُفۡتِیۡکُمۡ فِی الۡکَلٰلَۃِ ؕ اِنِ امۡرُؤٌا ہَلَکَ لَیۡسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗۤ اُخۡتٌ فَلَہَا نِصۡفُ مَا تَرَکَ ۚ وَ ہُوَ یَرِثُہَاۤ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہَا وَلَدٌ ؕ فَاِنۡ کَانَتَا اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ؕ وَ اِنۡ کَانُوۡۤا اِخۡوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ؕ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اَنۡ تَضِلُّوۡا ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ﴿۱۷۶﴾٪

۱۷۶۔لوگ آپ سے(کلالہ کے بارے میں) دریافت کرتے ہیں، ان سے کہدیجئے : اللہ کلالہ کے بارے میں تمہیں یہ حکم دیتا ہے: اگر کوئی مرد مر جائے اور اس کی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو اسے (بھائی کے) ترکے سے نصف حصہ ملے گا اور اگر بہن (مر جائے اور اس) کی کوئی اولاد نہ ہو تو بھائی کو بہن کا پورا ترکہ ملے گا اور اگر بہنیں دو ہوں تو دونوں کو (بھائی کے) ترکے سے دو تہائی ملے گا اور اگر بھائی بہن دونوں ہیں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہو گا، اللہ تمہارے لیے (احکام) بیان فرماتا ہے تاکہ تم گمراہ نہ ہو جاؤ اور اللہ ہر چیز کا پورا علم رکھتا ہے۔

176۔ الۡکَلٰلَۃِ : باپ اور اولاد کے علاوہ جو وارث ہو وہ کلالہ ہے۔ مرنے والے کے پسماندگان میں صرف ایک بہن ہو تو جو باپ کی طرف سے یا ماں باپ دونوں کی طرف سے ہو تو اس بہن کو نصف حصہ فرضاً ملے گا، باقی حصہ فقہ جعفری کے مطابق اسی بہن کو رداً ملے گا۔ بعض اہل سنت کے مطابق باقی حصہ بیت المال میں جمع کیا جائے گا۔ تعصیب یعنی قریب کی موجودگی میں بعید کو وارث بنانا۔ ظاہر قرآن کے خلاف ہے۔ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر کا مطالعہ کریں۔


تبصرے
Loading...