سوره اعراف آيات 81 – 100

سوره اعراف آيات 81 – 100

اِنَّکُمۡ لَتَاۡتُوۡنَ الرِّجَالَ شَہۡوَۃً مِّنۡ دُوۡنِ النِّسَآءِ ؕ بَلۡ اَنۡتُمۡ قَوۡمٌ مُّسۡرِفُوۡنَ﴿۸۱﴾

۸۱۔ تم عورتوں کو چھوڑ کر مردوں سے اپنی خواہش پوری کرتے ہو، بلکہ تم تو تجاوزکار ہو۔


وَ مَا کَانَ جَوَابَ قَوۡمِہٖۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اَخۡرِجُوۡہُمۡ مِّنۡ قَرۡیَتِکُمۡ ۚ اِنَّہُمۡ اُنَاسٌ یَّتَطَہَّرُوۡنَ﴿۸۲﴾

۸۲۔ اور ان کی قوم کے پاس کوئی جواب نہ تھا سوائے اس کے کہ وہ کہیں: انہیں اپنی بستی سے نکال دو، یہ لوگ بڑے پاکیزہ بننے کی کوشش کرتے ہیں۔


فَاَنۡجَیۡنٰہُ وَ اَہۡلَہٗۤ اِلَّا امۡرَاَتَہٗ ۫ۖ کَانَتۡ مِنَ الۡغٰبِرِیۡنَ﴿۸۳﴾

۸۳۔چنانچہ ہم نے لوط اور ان کے گھر والوں کو نجات دی سوائے ان کی بیوی کے جو پیچھے رہ جانے والوں میں سے تھی۔


وَ اَمۡطَرۡنَا عَلَیۡہِمۡ مَّطَرًا ؕ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُجۡرِمِیۡنَ﴿٪۸۴﴾

۸۴۔اور ہم نے اس قوم پر ایک بارش برسائی پھر دیکھو ان مجرموں کا کیا انجام ہوا۔


وَ اِلٰی مَدۡیَنَ اَخَاہُمۡ شُعَیۡبًا ؕ قَالَ یٰقَوۡمِ اعۡبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمۡ مِّنۡ اِلٰہٍ غَیۡرُہٗ ؕ قَدۡ جَآءَتۡکُمۡ بَیِّنَۃٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَوۡفُوا الۡکَیۡلَ وَ الۡمِیۡزَانَ وَ لَا تَبۡخَسُوا النَّاسَ اَشۡیَآءَہُمۡ وَ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ بَعۡدَ اِصۡلَاحِہَا ؕ ذٰلِکُمۡ خَیۡرٌ لَّکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿ۚ۸۵﴾

۸۵۔ اور اہل مدین کی طرف ہم نے انہی کی برادری کے (ایک فرد) شعیب کو بھیجا، انہوں نے کہا: اے میری قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں ہے۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل آ چکی ہے، لہٰذا تم ناپ اور تول پورا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم کر کے نہ دو اور زمین میں اصلاح ہو چکی ہو تو اس میں فساد نہ پھیلاؤ، اگر تم واقعی مومن ہو تو اس میں خود تمہاری بھلائی ہے۔

85۔ مَدۡیَنَ : بحر احمر اور خلیج عقبہ کے جنوب اور حجاز کے شمال مغرب میں واقع ہے۔ یہ علاقہ تجارتی لحاظ سے بڑی اہمیت کا حامل تھا۔ کیونکہ یمن سے مکہ اور شام کا راستہ ، دوسری طرف عراق سے مصر کا راستہ اس علاقے سے گزرتا تھا۔ یہ شہر حضرت ابراہیم(ع)کے ایک صاحبزادے حضرت مدین کے نام سے موسوم ہے۔


وَ لَا تَقۡعُدُوۡا بِکُلِّ صِرَاطٍ تُوۡعِدُوۡنَ وَ تَصُدُّوۡنَ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ مَنۡ اٰمَنَ بِہٖ وَ تَبۡغُوۡنَہَا عِوَجًا ۚ وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ کُنۡتُمۡ قَلِیۡلًا فَکَثَّرَکُمۡ ۪ وَ انۡظُرُوۡا کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۸۶﴾

۸۶۔ اور اللہ پر ایمان رکھنے والوں کو خوفزدہ کرنے،انہیں اللہ کے راستے سے روکنے اور اس میں کجی پیدا کرنے کے لیے ہر راستے پر(راہزن بن کر) مت بیٹھا کرو اور یہ بھی یاد کرو جب تم کم تھے اللہ نے تمہیں زیادہ کر دیا اور دیکھو کہ فساد کرنے والوں کا کیا انجام ہوا۔

86۔ اس آیت سے حضرت شعیب (ع) کو اپنی قوم کی طرف سے پیش آنے والی مشکلات کا اندازہ ہوتا۔ہے کہ وہ رہزن بن کر اہل ایمان کو امن و سکون سے ایمان کی راہ پر چلنے نہ دیتے تھے۔ اس بارے میں وہ تین طریقوں سے اہل ایمان پر حملہ کرتے تھے۔ پہلا یہ کہ انہیں خوفزدہ کرتے تھے ۔ دوسرا یہ کہ ایمان لانے کی راہ میں رکاوٹ ڈالتے تھے۔ تیسرا یہ کہ دلوں میں شبہ پیدا کر کے کجی پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔


وَ اِنۡ کَانَ طَآئِفَۃٌ مِّنۡکُمۡ اٰمَنُوۡا بِالَّذِیۡۤ اُرۡسِلۡتُ بِہٖ وَ طَآئِفَۃٌ لَّمۡ یُؤۡمِنُوۡا فَاصۡبِرُوۡا حَتّٰی یَحۡکُمَ اللّٰہُ بَیۡنَنَا ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ الۡحٰکِمِیۡنَ﴿۸۷﴾

۸۷۔ اور اگر تم میں سے ایک گروہ میری رسالت پر ایمان لاتا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لاتا تو ٹھہر جاؤ یہاں تک کہ اللہ ہمارے درمیان فیصلہ کر دے اور وہی سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

87۔ ہر نبی کی قوم کا یہی حال رہا ہے کہ ایک گروہ ایمان لے آتا ہے اور دوسرا گروہ ایمان نہیں لاتا۔ اہل ایمان ہمیشہ کافروں کی طرف سے اذیت و مصائب کا شکار رہتے ہیں۔ یہاں فَاصۡبِرُوۡ صبر کرو بیک لہجہ اہل ایمان کے لیے نوید فتح و نصرت ہے اور کافروں کے لیے دھمکی اور انجام بد کی خبر ہے۔


قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَنُخۡرِجَنَّکَ یٰشُعَیۡبُ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مَعَکَ مِنۡ قَرۡیَتِنَاۤ اَوۡ لَتَعُوۡدُنَّ فِیۡ مِلَّتِنَا ؕ قَالَ اَوَ لَوۡ کُنَّا کٰرِہِیۡنَ ﴿۟۸۸﴾

۸۸۔ ان کی قوم کے متکبر سرداروں نے کہا: اے شعیب!ہم تجھے اور تیرے مومن ساتھیوں کو اپنی بستی سے ضرور نکال دیں گے یا تمہیں ہمارے مذہب میں واپس آنا ہو گا،شعیب نے کہا:اگر ہم بیزار ہوں تو بھی ؟

88۔ حضرت شعیب (ع) کا نسب نامہ: شعیبؑ بن میکیل بن یشجر بن مدین بن ابراہیمؑ ۔

حضرت شعیب(ع) کو متکبر سرداروں نے عقل و استدلال کی جگہ طاقت کے استعمال کی دھمکی دی کہ آپ(ع) یا تو ملک چھوڑ دیں یا ہمارا مذہب قبول کریں۔ جواب میں حضرت شعیب (ع) نے عقلی اور منطقی طرز استدلال اختیار کرتے ہوئے فرمایا: کیا کراہت و بیزاری کے ساتھ کسی مذہب کو اختیار کیا جاتا ہے؟ کیونکہ کسی مذہب کو قبول کرنے اور مسترد کرنے میں جبر کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔


قَدِ افۡتَرَیۡنَا عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اِنۡ عُدۡنَا فِیۡ مِلَّتِکُمۡ بَعۡدَ اِذۡ نَجّٰنَا اللّٰہُ مِنۡہَا ؕ وَ مَا یَکُوۡنُ لَنَاۤ اَنۡ نَّعُوۡدَ فِیۡہَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ یَّشَآءَ اللّٰہُ رَبُّنَا ؕ وَسِعَ رَبُّنَا کُلَّ شَیۡءٍ عِلۡمًا ؕ عَلَی اللّٰہِ تَوَکَّلۡنَا ؕ رَبَّنَا افۡتَحۡ بَیۡنَنَا وَ بَیۡنَ قَوۡمِنَا بِالۡحَقِّ وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡفٰتِحِیۡنَ﴿۸۹﴾

۸۹۔اگر ہم تمہارے مذہب میں واپس آ گئے تو ہم اللہ پر بہتان باندھنے والے ہوں گے جبکہ اللہ نے ہمیں اس (باطل) سے نجات دے دی ہے اور ہمارے لیے اس مذہب کی طرف پلٹنا کسی طرح ممکن نہیں مگر یہ کہ ہمارا رب اللہ چاہے، ہمارے رب کا علم ہر چیز پر محیط ہے، ہم نے اللہ (ہی) پر توکل کیا ہے، اے ہمارے رب! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان برحق فیصلہ کر اور تو بہترین فیصلہ کرنے والا ہے۔

89۔ کفر اختیار کرنے اور نہ کرنے کے مسئلے کو مشیت خداوندی سے مربوط کرنے کا مطلب یہ نہیں کہ خدا کفر کو بھی چاہتا ہے اور جب چاہتا ہے کہ کوئی بندہ کافر ہو جائے توہ اسے کافر بنا دیتا ہو،بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اللہ سے ہٹ کر قطعی بات کرنا انبیاءؑ کے ہاں خلاف ادب سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے وہ اپنے قول و فعل کو مشیت خداوندی سے مربوط کرتے ہیں۔


وَ قَالَ الۡمَلَاُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ قَوۡمِہٖ لَئِنِ اتَّبَعۡتُمۡ شُعَیۡبًا اِنَّکُمۡ اِذًا لَّخٰسِرُوۡنَ﴿۹۰﴾

۹۰۔ اور قوم شعیب کے کافر سرداروں نے کہا: اگر تم لوگوں نے شعیب کی پیروی کی تو یقینا بڑا نقصان اٹھاؤ گے ۔

90۔ ایمان کی منزل پر فائزہونے والا نہ شک کرتا ہے نہ مرتد ہوتا ہے۔جبکہ مادی سوچ رکھنے والوں کا ہمیشہ یہ خیال رہا ہے کہ شریعت کی پابندی میں خسارہ ہے۔


فَاَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ فَاَصۡبَحُوۡا فِیۡ دَارِہِمۡ جٰثِمِیۡنَ ﴿ۚۖۛ۹۱﴾

۹۱۔ چنانچہ انہیں زلزلے نے آ لیا پس وہ اپنے گھروں میں اوندھے پڑے رہ گئے۔

91۔ مدین کی تباہی کی داستانیں بعد کی قوموں میں ایک مدت تک ضرب المثل بنی رہیں اور توریت کی گنتی 31 تا 35 میں مدین کی تباہی کا ذکر ملتا ہے۔


الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا شُعَیۡبًا کَاَنۡ لَّمۡ یَغۡنَوۡا فِیۡہَا ۚۛ اَلَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا شُعَیۡبًا کَانُوۡا ہُمُ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۹۲﴾

۹۲۔جنہوں نے شعیب کی تکذیب کی (ایسے تباہ ہوئے) گویا وہ کبھی آباد ہی نہیں ہوئے تھے، شعیب کی تکذیب کرنے والے خود خسارے میں رہے۔


فَتَوَلّٰی عَنۡہُمۡ وَ قَالَ یٰقَوۡمِ لَقَدۡ اَبۡلَغۡتُکُمۡ رِسٰلٰتِ رَبِّیۡ وَ نَصَحۡتُ لَکُمۡ ۚ فَکَیۡفَ اٰسٰی عَلٰی قَوۡمٍ کٰفِرِیۡنَ﴿٪۹۳﴾

۹۳۔ شعیب ان سے نکل آئے اور کہنے لگے: اے میری قوم!میں نے اپنے رب کے پیغامات تمہیں پہنچائے اور تمہیں نصیحت کی، تو (آج) میں کافروں پر رنج و غم کیوں کروں؟

93۔ اللہ ارحم الراحمین ہے۔ اس کی رحمت ہر شے پرمحیط ہے۔ اس کی عظیم اور وسیع رحمت کے شامل حال ہونے کے لیے اہلیت شرط ہے۔ حضرت شعیبؑ کا یہ فرمانا کہ کافر قوم کی حالت پر رنج و الم کیوں کروں، اس بات کا اظہار ہے کہ جو لوگ رحمت الٰہی کی اہلیت نہیں رکھتے وہ قابل رحم بھی نہیں ہوتے۔


وَ مَاۤ اَرۡسَلۡنَا فِیۡ قَرۡیَۃٍ مِّنۡ نَّبِیٍّ اِلَّاۤ اَخَذۡنَاۤ اَہۡلَہَا بِالۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ لَعَلَّہُمۡ یَضَّرَّعُوۡنَ﴿۹۴﴾

۹۴۔ اور ہم نے جس بستی میں بھی نبی بھیجا وہاں کے رہنے والوں کو تنگی اور سختی میں مبتلا کیا کہ شاید وہ تضرع کریں ۔


ثُمَّ بَدَّلۡنَا مَکَانَ السَّیِّئَۃِ الۡحَسَنَۃَ حَتّٰی عَفَوۡا وَّ قَالُوۡا قَدۡ مَسَّ اٰبَآءَنَا الضَّرَّآءُ وَ السَّرَّآءُ فَاَخَذۡنٰہُمۡ بَغۡتَۃً وَّ ہُمۡ لَا یَشۡعُرُوۡنَ﴿۹۵﴾

۹۵۔پھر ہم نے تکلیف کو آسودگی میں بدل دیا یہاں تک کہ وہ خوشحال ہو گئے اور کہنے لگے: ہمارے باپ دادا پر بھی برے اور اچھے دن آتے رہے ہیں، پھر ہم نے اچانک انہیں گرفت میں لے لیا اور انہیں خبر تک نہ ہوئی۔

94۔95۔ بعض اقوام و امم کے حالات اور ان کے انجام کے ذکر کے بعد اللہ اپنی اس لایتغیر سنت اور ثابت نظام کو بیان فرماتا ہے جس سے اس نے ہر قوم کو گزارا۔

پہلے اس قوم کو مصائب و آفات میں ڈالا اور طرح طرح کی تکلیفوں میں مبتلا کیا تاکہ لوگوں کے غرور و تکبر کا نشہ ٹوٹ جائے اور اپنی طاقت و قوت اور مال و دولت قوم و قبیلہ کے بھروسے پر اس کی نخوت کا طلسم بھی ٹوٹ جائے۔ وَ اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ فَذُوۡ دُعَآءٍ عَرِیۡضٍ ۔ (حم سجدہ: 51) جب اس کو تکلیف پہنچتی ہے تو لمبی لمبی دعائیں کرنے لگتا ہے۔ ایسے حالات میں انبیاء علیہم السلام مبعوث ہوتے ہیں اور دعوت الی اللہ کے لیے فضا سازگار اور زمین ہموار مل جاتی ہے۔

چنانچہ ماہرین نفسیات کا بھی یہی نظریہ ہے کہ مصائب و آفات انسان کی تربیت و اصلاح کے لیے نہایت ممد و معاون ثابت ہوتے ہیں۔ چنانچہ عالمی جنگوں کے دوران یہ بات سب کے مشاہدے میں آئی ہے کہ عبادت گاہیں ہر وقت سے زیادہ آباد رہتیں تھیں اور یہ بات بھی تجربے میں آئی ہے کہ شدائد و مصائب سے صلاحیتیں نکھرتی ہیں۔ اسی سے ہے کہ اکثر نابعۂ روزگار غریب اور نادار خاندانوں سے ابھرتے ہیں۔

اس سازگار فضا میں بھی ان کا تکبر و نخوت فرو نہیں ہوتا تو ان کو آسودگی اور دولت کی فراوانی میں مبتلا کر دیا جاتا ہے۔اس وقت وہ اپنے برے دن بھول جاتے ہیں اور اسے اللہ کی طرف سے آزمائش و امتحان کے طور پر قبول کرنے کو بھی تیار نہیں ہوتے، بلکہ اسے طبیعت کا کھیل تصور کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے آبا و اجداد بھی اس نشیب و فراز سے دوچار رہے ہیں۔ اس کے پیچھے کسی قصد و ارادہ اور کسی شعور و مصلحت کا کوئی دخل نہیں ہے۔جیسے ہمارے برے دن بے مقصد آئے تھے ایسے یہ اچھے دن بھی اتفاقیہ ہیں۔ اسی لغو اور طغیانی اور غفلت و نادا نی کے عین عالم میں ان کو اچانک گرفت میں لے لیا گیا اور نابود ہو گئے۔


وَ لَوۡ اَنَّ اَہۡلَ الۡقُرٰۤی اٰمَنُوۡا وَ اتَّقَوۡا لَفَتَحۡنَا عَلَیۡہِمۡ بَرَکٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الۡاَرۡضِ وَ لٰکِنۡ کَذَّبُوۡا فَاَخَذۡنٰہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَکۡسِبُوۡنَ﴿۹۶﴾

۹۶۔اور اگر ان بستیوں کے لوگ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انہوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کے اعمال کے سبب جو وہ کیا کرتے تھے انہیں گرفت میں لے لیا۔

96۔ ایمان باللہ انسانی زندگی سے الگ کسی اور چیز کا نام نہیں ہے۔ ایمان باللہ کا حامل معاشرہ ظلم و استحصال سے پاک ہو گا اور ہر ایک کو قدرتی وسائل و ذرائع اور ذخائر سے استفادہ کرنے کا مساویانہ حق اور موقع ملے گا۔ اس طرح نعمتوں کی فراوانی ہو جائے گی۔ البتہ مادی وسائل کے لیے نظریات کافی نہیں ہوتے، بلکہ نظریات مادی وسائل سے مساویانہ استفادہ کرنے کا حق دلانے میں بنیادی کردار ادا کر سکتے ہیں۔


اَفَاَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا بَیَاتًا وَّ ہُمۡ نَآئِمُوۡنَ ﴿ؕ۹۷﴾

۹۷۔کیا ان بستیوں کے لوگ بے فکر ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آ جائے جب وہ سو رہے ہوں ؟

97 تا 99۔ سرکش اقوام کا انجام اور سنت الٰہی بیان کرنے کے بعد دوسری قوموں کے ضمیر کو بیدار کرنے کے لیے پروردگار عالم فرماتا ہے: عذاب خداوندی میں آزمائشی وقفے سے کسی قوم کو دھوکہ نہیں کھانا چاہیے کیونکہ مجرموں کو مکافات عمل اس وقت اپنی گرفت میں لے گا جب وہ فحشا اور خواب غفلت میں مگن ہوں گے۔ مَکۡرَ اللّٰہِ سے مراد اللہ کا وہ عذاب ہے جو مجرموں پر اس وقت آ پڑتا ہے جب وہ اپنی بد مستیوں اور بے شعوری کی حالت میں ہوتے ہیں۔ ہوتا یوں ہے کہ ان کی اپنی بے حسی کی وجہ سے اللہ انہیں ایسی راہ پر لگا دیتا ہے جس سے وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہمارے حق میں یہ بہتر ہے حالانکہ وہ عذاب الٰہی کا پش خیمہ ہوتا ہے۔


اَوَ اَمِنَ اَہۡلُ الۡقُرٰۤی اَنۡ یَّاۡتِیَہُمۡ بَاۡسُنَا ضُحًی وَّ ہُمۡ یَلۡعَبُوۡنَ﴿۹۸﴾

۹۸۔یا کیا ان بستیوں کے لوگ بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب دن کو آجائے جب وہ کھیل رہے ہوں؟


اَفَاَمِنُوۡا مَکۡرَ اللّٰہِ ۚ فَلَا یَاۡمَنُ مَکۡرَ اللّٰہِ اِلَّا الۡقَوۡمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿٪۹۹﴾

۹۹۔کیا یہ لوگ اللہ کی تدبیر سے خوف نہیں کرتے اللہ کی تدبیر سے تو فقط خسارے میں پڑنے والے لوگ بے خوف ہوتے ہیں۔


اَوَ لَمۡ یَہۡدِ لِلَّذِیۡنَ یَرِثُوۡنَ الۡاَرۡضَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَہۡلِہَاۤ اَنۡ لَّوۡ نَشَآءُ اَصَبۡنٰہُمۡ بِذُنُوۡبِہِمۡ ۚ وَ نَطۡبَعُ عَلٰی قُلُوۡبِہِمۡ فَہُمۡ لَا یَسۡمَعُوۡنَ﴿۱۰۰﴾

۱۰۰۔ جو لوگ اہل زمین (کی ہلاکت) کے بعد زمین کے وارث ہوئے ہیں،کیا ان پر یہ بات عیاں نہیں ہوئی کہ ہم چاہیں تو ان کے جرائم پر انہیں گرفت میں لے سکتے ہیں؟ اور ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں پھر وہ کچھ نہیں سنتے ۔

100۔ ہر آنے والی قوم کے لیے اپنے پیشرؤں کا انجام بد سبق آموز ہوتا ہے۔ ان کے عروج و زوال میں عبرتیں ہوتی ہیں کہ ان کو کس قسم کی غلطیوں نے تباہ کر دیا۔ اللہ کی سنت میں تبدیلی نہیں آتی، انہی حالات سے ہر سرکش قوم دوچار ہو گی۔ اس فقرے

سے اللہ یہ نہیں چاہتا کہ لوگ مضطرب الحال رہیں بلکہ مقصد یہ ہے کہ لوگ بیدار رہیں، کیونکہ غفلت میں تباہی اور ہوشیاری میں نجات ہے۔


تبصرے
Loading...