سوره اعراف آيات 201 – 206

سوره اعراف آيات 201 – 206

اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّقَوۡا اِذَا مَسَّہُمۡ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیۡطٰنِ تَذَکَّرُوۡا فَاِذَا ہُمۡ مُّبۡصِرُوۡنَ﴿۲۰۱﴾ۚ

۲۰۱۔بے شک جو لوگ اہل تقویٰ ہیں انہیں جب کبھی شیطان کی طرف سے کسی خطرے کا احساس ہوتا ہے تو وہ چوکنے ہو جاتے ہیں اور انہیں اسی وقت سوجھ آجاتی ہے۔


وَ اِخۡوَانُہُمۡ یَمُدُّوۡنَہُمۡ فِی الۡغَیِّ ثُمَّ لَا یُقۡصِرُوۡنَ﴿۲۰۲﴾

۲۰۲۔اور ان کے (شیطانی) بھائی انہیں گمراہی میں کھینچتے لیے جاتے ہیں پھر وہ (انہیں گمراہ کرنے میں) کوتاہی بھی نہیں کرتے ۔


وَ اِذَا لَمۡ تَاۡتِہِمۡ بِاٰیَۃٍ قَالُوۡا لَوۡ لَا اجۡتَبَیۡتَہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَاۤ اَتَّبِعُ مَا یُوۡحٰۤی اِلَیَّ مِنۡ رَّبِّیۡ ۚ ہٰذَا بَصَآئِرُ مِنۡ رَّبِّکُمۡ وَ ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۲۰۳﴾

۲۰۳۔ اور جب آپ ان کے سامنے کوئی معجزہ نہیں لاتے تو کہتے ہیں: تم نے خود اپنے لیے کسی نشانی کا انتخاب کیوں نہ کیا؟ کہدیجئے: میں یقینا اس وحی کا پابند ہوں جو میرے رب کی جانب سے میری طرف بھیجی جاتی ہے، یہ (قرآن) تمہارے رب کی طرف سے تمہارے لیے باعث بصیرت اور مومنوں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔

203۔ کفار نے طنزو استہزاء کے لہجے میں کہا کہ اگر آپ نے نبی کا دعو یٰ کرنا تھا تو ادھر ادھر سے کوئی معجزہ بھی گھڑ کر بنا لاتے۔ عرب جاہل حضورؐ سے بھی اسی طرح کا معجزہ طلب کرتے تھے جو قرون وسطیٰ کے لوگوں کے لیے دکھایا گیا تھا اور جو محدود شریعت کے حامل انبیاء کے لیے دیا گیا تھا۔ اسلام اس وقت آیا جب انسانیت تمدن و تہذیب کے قابل ہو گئی۔اس کی عقل و شعور بلوغ کو پہنچنے والا تھا اور یہ ایک ابدی دستور اور دائمی نظام حیات ہے۔ اس لیے کل عہد طفولیت کے محسوس پرست لوگوں کے لیے محسوس معجزہ دیا گیا تھا تو آج عہد تمدن و روشنی کے لیے معقول معجزہ دیا گیا ہے، وہ قرآن ہے اس کے اندر بصیرت اور روشنیاں ہیں اور ہدایت و رحمت سے پر ایک جامع نظام حیات ہے۔


وَ اِذَا قُرِیٴَ الۡقُرۡاٰنُ فَاسۡتَمِعُوۡا لَہٗ وَ اَنۡصِتُوۡا لَعَلَّکُمۡ تُرۡحَمُوۡنَ﴿۲۰۴﴾

۲۰۴۔ اور جب قرآن پڑھا جائے تو پوری توجہ کے ساتھ اسے سنا کرو اور خاموش رہا کرو ، شاید تم پر رحم کیا جائے ۔

204۔ قرآن کی تلاوت کی آواز سنائی دے رہی ہو تو اس وقت خاموشی کے ساتھ سننا واجب ہے۔ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے: یجب الانصات للقران فی الصلوۃ و غیرھا ۔ (وسائل الشیعۃ 6: 214)تلاوت قرآن کا سننا واجب ہے، خواہ قرآن نماز کی حالت میں ہو یا اس کے علاوہ۔


وَ اذۡکُرۡ رَّبَّکَ فِیۡ نَفۡسِکَ تَضَرُّعًا وَّ خِیۡفَۃً وَّ دُوۡنَ الۡجَہۡرِ مِنَ الۡقَوۡلِ بِالۡغُدُوِّ وَ الۡاٰصَالِ وَ لَا تَکُنۡ مِّنَ الۡغٰفِلِیۡنَ﴿۲۰۵﴾

۲۰۵۔(اے رسول) اپنے رب کو تضرع اور خوف کے ساتھ دل ہی دل میں اور دھیمی آواز میں صبح و شام یاد کیا کریں اور غافل لوگوں میں سے نہ ہوں۔

205۔ ذکر کی دو قسمیں بیان ہوئی ہیں: ایک ذکر قلبی، تضرع و تذلل کے ساتھ اور دوسرا ذکر لسانی ہلکی آواز کے ساتھ جیساکہ حدیث میں آیا ہے: اللہ تمہارے نہایت ہی قریب ہے اس کو آہستہ آواز میں پکارو۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ عِنۡدَ رَبِّکَ لَا یَسۡتَکۡبِرُوۡنَ عَنۡ عِبَادَتِہٖ وَ یُسَبِّحُوۡنَہٗ وَ لَہٗ یَسۡجُدُوۡنَ﴿۲۰۶﴾٪ٛ

۲۰۶۔ جو لوگ آپ کے رب کے حضور میں ہوتے ہیں وہ یقینا اس کی عبادت کرنے سے نہیں اکڑتے اور اس کی تسبیح کرتے ہیں اور اس کے آگے سجدہ ریز رہتے ہیں۔


تبصرے
Loading...