سوره اعراف آيات 141 – 160

سوره اعراف آيات 141 – 160

وَ اِذۡ اَنۡجَیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ۚ یُقَتِّلُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَ یَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَ فِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ﴿۱۴۱﴾٪

۱۴۱۔ اور (وہ وقت یاد کرو)جب ہم نے تمہیں آل فرعون سے نجات دی جو تمہیں بدترین عذاب میں مبتلا کرتے تھے، تمہارے بیٹوں کو قتل کرتے اور تمہاری بیٹیوں کو زندہ چھوڑتے تھے اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔


وَ وٰعَدۡنَا مُوۡسٰی ثَلٰثِیۡنَ لَیۡلَۃً وَّ اَتۡمَمۡنٰہَا بِعَشۡرٍ فَتَمَّ مِیۡقَاتُ رَبِّہٖۤ اَرۡبَعِیۡنَ لَیۡلَۃً ۚ وَ قَالَ مُوۡسٰی لِاَخِیۡہِ ہٰرُوۡنَ اخۡلُفۡنِیۡ فِیۡ قَوۡمِیۡ وَ اَصۡلِحۡ وَ لَا تَتَّبِعۡ سَبِیۡلَ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۴۲﴾

۱۴۲۔ اور ہم نے موسیٰ سے تیس(۳۰) راتوں کا وعدہ کیا اور دس(دیگر)راتوں سے اسے پورا کیا اس طرح ان کے رب کی مقررہ میعاد چالیس راتیں پوری ہو گئی اور موسیٰ نے اپنے بھائی ہارون سے کہا: میری قوم میں میری جانشینی کرنا اور اصلاح کرتے رہنا اور مفسدوں کا راستہ اختیار نہ کرنا۔


وَ لَمَّا جَآءَ مُوۡسٰی لِمِیۡقَاتِنَا وَ کَلَّمَہٗ رَبُّہٗ ۙ قَالَ رَبِّ اَرِنِیۡۤ اَنۡظُرۡ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ لَنۡ تَرٰىنِیۡ وَ لٰکِنِ انۡظُرۡ اِلَی الۡجَبَلِ فَاِنِ اسۡتَقَرَّ مَکَانَہٗ فَسَوۡفَ تَرٰىنِیۡ ۚ فَلَمَّا تَجَلّٰی رَبُّہٗ لِلۡجَبَلِ جَعَلَہٗ دَکًّا وَّ خَرَّ مُوۡسٰی صَعِقًا ۚ فَلَمَّاۤ اَفَاقَ قَالَ سُبۡحٰنَکَ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَ اَنَا اَوَّلُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۱۴۳﴾

۱۴۳۔ اور جب موسیٰ ہماری مقررہ میعاد پر آئے اور ان کے رب نے ان سے کلام کیا تو کہنے لگے: میرے رب! مجھے (جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کروں، فرمایا: تم مجھے ہرگز نہ دیکھ سکو گے لیکن اس پہاڑ کی طرف دیکھو پس اگر وہ اپنی جگہ قائم رہا تو تم مجھے دیکھ سکو گے، پھر جب ان کے رب نے پہاڑ پر تجلی فرمائی تو اسے ریزہ ریزہ کر دیا اور موسیٰ غش کھا کر گر پڑے، پھر جب ہوش میں آئے تو عرض کرنے لگے: پاک ہے تیری ذات میں تیری بارگاہ میں توبہ کرتا ہوں اور میں ایمان لانے والوں میں سب سے پہلا ہوں۔

143۔ اگر اللہ طبیعی آنکھوں سے نظر آئے تو وہ لَیۡسَ کَمِثۡلِہٖ نہیں رہتا، چنانچہ روئیت خدا کو ممکن جاننے والے اللہ کو کسی چیز کا مثل قرار دیتے ہیں۔ رویت خداوندی کا مطالبہ شان خداوندی میں گستاخی تھا اس لیے بنی اسرائیل کے اس مطالبے کو اللہ نے ظلم قرار دیا اور ان پر فوری عذاب نازل ہوا: فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۔ (نساء : 153) پس انہوں نے کہا ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، چنانچہ ان کی اس زیادتی پر انہیں بجلی نے گرفت میںلے لیا ۔

رہا یہ سوال کہ اگر ایسا ہے تو حضرت موسیٰ (ع) نے کیسے رویت کا سوال کیا؟ جواب یہ ہے کہ یہ حضرت موسیٰ (ع) کا اپنا مطالبہ نہ تھا، ورنہ یہ مطالبہ زیادہ قابل سرزنش ہوتا، جبکہ نہ حضرت موسیٰ (ع) کو سرزنش کی گئی اور نہ ہی ان پرعذاب نازل ہوا۔ البتہ جب پہاڑ پر تجلی ہوئی تو موسیٰ (ع) غش کھا گئے اور بنی اسرائیل کے مطالبے کو پیش کرنے پر توبہ و انابت کا اظہار فرمایا اور کہا: میں سب سے پہلے ایمان لانے والا ہوں۔ یہ ایمان روئیت کے بارے میں ہے کہ میرا سب سے پہلے یہ ایمان ہے کہ تیری ذات اس سے بالاتر ہے کہ حاسۂ بصر کی محدودیت میں سما جائے ۔


قَالَ یٰمُوۡسٰۤی اِنِّی اصۡطَفَیۡتُکَ عَلَی النَّاسِ بِرِسٰلٰتِیۡ وَ بِکَلَامِیۡ ۫ۖ فَخُذۡ مَاۤ اٰتَیۡتُکَ وَ کُنۡ مِّنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔فرمایا: اے موسیٰ! میں نے لوگوں میں سے آپ کو اپنے پیغامات اور ہمکلامی کے لیے منتخب کیا ہے لہٰذا جو کچھ میں نے آپ کو عطا کیا ہے اسے اخذ کریں اور شکرگزاروں میں سے ہو جائیں۔


وَ کَتَبۡنَا لَہٗ فِی الۡاَلۡوَاحِ مِنۡ کُلِّ شَیۡءٍ مَّوۡعِظَۃً وَّ تَفۡصِیۡلًا لِّکُلِّ شَیۡءٍ ۚ فَخُذۡہَا بِقُوَّۃٍ وَّ اۡمُرۡ قَوۡمَکَ یَاۡخُذُوۡا بِاَحۡسَنِہَا ؕ سَاُورِیۡکُمۡ دَارَ الۡفٰسِقِیۡنَ﴿۱۴۵﴾

۱۴۵۔ اور ہم نے موسیٰ کے لیے (توریت کی) تختیوں پر ہر قسم کی نصیحت اور ہر چیز کی تفصیل لکھی (اور حکم دیا کہ) اسے پوری قوت سے سنبھالیں اور اپنی قوم کو حکم دیں کہ اس میں سے شائستہ ترین باتوں کو اپنا لو، عنقریب میں تمہیں نافرمانوں کا ٹھکانا دکھا دوں گا۔

145۔ان تختیوں کا نام توریت ہے۔ ان تختیوں کی مقدار کے بارے میں سوائے لفظ الۡاَلۡوَاحِ کے ہمارے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور ان تختیوں پر جو لکھا تھا وہ فعل خدا تھا۔ ہمارے پاس سوائے کَتَبۡنَا کے کوئی دلیل نہیں ہے۔ البتہ توریت میں آیا ہے کہ یہ خدا کا لکھا ہوا اور ان پر کندہ کیا ہوا تھا۔ (خروج 32: 15)۔


سَاَصۡرِفُ عَنۡ اٰیٰتِیَ الَّذِیۡنَ یَتَکَبَّرُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ بِغَیۡرِ الۡحَقِّ ؕ وَ اِنۡ یَّرَوۡا کُلَّ اٰیَۃٍ لَّا یُؤۡمِنُوۡا بِہَا ۚ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الرُّشۡدِ لَا یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا ۚ وَ اِنۡ یَّرَوۡا سَبِیۡلَ الۡغَیِّ یَتَّخِذُوۡہُ سَبِیۡلًا ؕ ذٰلِکَ بِاَنَّہُمۡ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ کَانُوۡا عَنۡہَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۴۶﴾

۱۴۶۔ میں انہیں اپنی آیات سے دور رکھوں گا جو زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اور تمام نشانیاں دیکھ کر بھی ان پر ایمان نہیں لاتے اور اگر یہ راہ راست دیکھ بھی لیں تو اس راستے کو اختیار نہیں کرتے اور اگر انحراف کا راستہ دیکھ لیں تو اس راستے کو اپنا لیتے ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ ان لوگوں نے ہماری نشانیوں کی تکذیب کی اور ان سے غفلت برتتے رہے۔

146۔ یہ سنت الہٰی ہے کہ جو لوگ از روئے عناد اللہ کی نشانیوں کی تکذیب کرتے ہیں، اللہ ان سے ہر قسم کی توفیق سلب فرماتاہے اورا ن کو اپنے حال پر چھوڑ دیتا ہے، جس کے نتیجے میں وہ ہر برے راستے کو اختیار اور ہر نیک راستے سے انحراف کرتے ہیں۔ ترتیب امر اس طرح ہے کہ جو لوگ زمین میں ناحق تکبر کرتے ہیں اللہ ان کی رہنمائی اور ہدایت کا سامان فراہم نہیں کرتا۔ جس کی وجہ سے وہ ایمان نہیں لاتے، راہ راست پر نہیں چلتے، ہر برے راستے پر چلتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہوا کہ انہوں نے جان بوجھ کر از روئے عناد اللہ کی آیتوں کی تکذیب کی۔


وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الۡاٰخِرَۃِ حَبِطَتۡ اَعۡمَالُہُمۡ ؕ ہَلۡ یُجۡزَوۡنَ اِلَّا مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۴۷﴾٪

۱۴۷۔ اور جنہوں نے ہماری آیات اور آخرت کی پیشی کی تکذیب کی ان کے اعمال ضائع ہو گئے، کیا ان لوگوں کو اس کے سوا کوئی بدلہ مل سکتا ہے جو کچھ وہ کرتے رہے ہیں؟


وَ اتَّخَذَ قَوۡمُ مُوۡسٰی مِنۡۢ بَعۡدِہٖ مِنۡ حُلِیِّہِمۡ عِجۡلًا جَسَدًا لَّہٗ خُوَارٌ ؕ اَلَمۡ یَرَوۡا اَنَّہٗ لَا یُکَلِّمُہُمۡ وَ لَا یَہۡدِیۡہِمۡ سَبِیۡلًا ۘ اِتَّخَذُوۡہُ وَ کَانُوۡا ظٰلِمِیۡنَ﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔اور موسیٰ کے (کوہ طور پر جانے کے) بعد ان کی قوم نے اپنے زیورات سے ایک بچھڑا بنا لیا (یعنی) ایسا جسم جس میں بیل کی آواز تھی، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ یہ نہ تو ان سے بات کر سکتا ہے اور نہ ان کی رہنمائی کر سکتا ہے، ایسے کو انہوں نے معبود بنا لیا اور وہ زیادتی کے مرتکب تھے۔

148۔ جب حضرت موسیٰ (ع) کو اللہ نے کوہ طور پر بلایا اور انہوں نے چالیس دن کوہ طور پر گزارے تو اس اثنا میں بنی اسرائیل نے بچھڑے کی سنہری مورت بنائی جس کے اندر سے بیل کی آواز نکلتی تھی، بنی اسرائیل مصریوں کی گوسالہ پرستی سے خاصے متاثر تھے اور ان کے گوسالہ سے تو آواز بھی نکلتی تھی اس لیے قوم موسیٰ کے جمہور (اکثریت) نے اس گوسالہ کے حق میں فیصلہ دیا کہ یہی موسیٰ (ع) کا خدا ہے جس نے ہمیں فرعون سے نجات دلائی، حضرت ہارون (ع) کی سربراہی میں صرف ایک چھوٹی سی جماعت نے استقامت دکھائی اور حق پر قائم رہی۔


وَ لَمَّا سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ رَاَوۡا اَنَّہُمۡ قَدۡ ضَلُّوۡا ۙ قَالُوۡا لَئِنۡ لَّمۡ یَرۡحَمۡنَا رَبُّنَا وَ یَغۡفِرۡ لَنَا لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الۡخٰسِرِیۡنَ﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔اور جب وہ سخت نادم ہوئے اور دیکھ لیا کہ گمراہ ہو گئے ہیں تو کہنے لگے: اگر ہمارا رب ہم پر رحم نہ کرے اور ہمیں معاف نہ فرمائے تو ہم حتمی طور پر خسارے میں رہ جائیں گے۔

149۔ سُقِطَ فِیۡۤ اَیۡدِیۡہِمۡ : انتہائی ندامت کی طرف اشارہ ہے۔ بنی اسرائیل کی گمراہی کا یہ عالم تھا کہ حضرت موسیٰ (ع) کی صرف دس دن کی تاخیر کی وجہ سے یہ قوم گمراہ ہو گئی جبکہ حجت خدا حضرت ہارون (ع) ان کے درمیان موجود تھے۔

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کی وفات کے بعد ان کی گمراہی کا کیا عالم ہوا ہو گا۔یکے بعددیگرے انبیاء مبعوث ہونے کے باوجود چشم جہاں نے بنی اسرائیل کی بغاوت، سرکشی، ارتداد اور تحریف کا منظر دیکھ لیا۔


وَ لَمَّا رَجَعَ مُوۡسٰۤی اِلٰی قَوۡمِہٖ غَضۡبَانَ اَسِفًا ۙ قَالَ بِئۡسَمَا خَلَفۡتُمُوۡنِیۡ مِنۡۢ بَعۡدِیۡ ۚ اَعَجِلۡتُمۡ اَمۡرَ رَبِّکُمۡ ۚ وَ اَلۡقَی الۡاَلۡوَاحَ وَ اَخَذَ بِرَاۡسِ اَخِیۡہِ یَجُرُّہٗۤ اِلَیۡہِ ؕ قَالَ ابۡنَ اُمَّ اِنَّ الۡقَوۡمَ اسۡتَضۡعَفُوۡنِیۡ وَ کَادُوۡا یَقۡتُلُوۡنَنِیۡ ۫ۖ فَلَا تُشۡمِتۡ بِیَ الۡاَعۡدَآءَ وَ لَا تَجۡعَلۡنِیۡ مَعَ الۡقَوۡمِ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۵۰﴾

۱۵۰۔اور جب موسیٰ نہایت غصے اور رنج کی حالت میں اپنی قوم کی طرف واپس آئے تو کہنے لگے: تم نے میرے بعد بہت بری جانشینی کی، تم نے اپنے رب کے حکم سے عجلت کیوں کی؟ اور (یہ کہہ کر) تختیاں پھینک دیں اور اپنے بھائی کو سر کے بالوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ہارون نے کہا: اے ماں جائے! یقینا قوم نے مجھے کمزور بنا دیا تھا اور وہ مجھے قتل کرنے والے تھے لہٰذا آپ دشمنوں کو مجھ پر ہنسنے کا موقع نہ دیں اور مجھے ان ظالموں میں شمار نہ کریں۔

150۔ حضرت موسیٰ (ع) کو اللہ نے کوہ طور پر قوم کی گمراہی کی خبر دی تھی۔یہ سن کر حضرت موسیٰ (ع) غضبناک ہوئے اور حضرت ہارون (ع) کو سر کے بالوں سے پکڑ کر کھینچ لیا تاکہ قوم کو اس بات پر تنبیہ کریں کہ گوسالہ پرستی کا جرم کتنا بڑا ہے۔ اس جرم کا ارتکاب حضرت ہارون (ع) کے سامنے ہوا لیکن وہ بے بس تھے اور اقلیت میں ہونے کی وجہ سے نہ صرف لوگ ان کی نہیں سنتے تھے بلکہ ان کو جان کا خطرہ بھی لاحق تھا۔

یہ عمل حضرت موسیٰ (ع) کی اجتہادی غلطی نہیں تھا جیساکہ تھانوی صاحب کا خیال ہے اور نہ ہی حضرت ہارون (ع) گوسالہ پرستی کے جرم میں شریک تھے، جیساکہ توریت میں آیا ہے، بلکہ ہارون (ع) کے ساتھ سختی سے پیش آنے اور توریت کی تختیوں کو زمین پر پھینکنے سے قوم کو یہ بتانا مقصود تھا کہ انہوں نے کتنے بڑ ے جرم کا ارتکاب کیا ہے۔


قَالَ رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَ لِاَخِیۡ وَ اَدۡخِلۡنَا فِیۡ رَحۡمَتِکَ ۫ۖ وَ اَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ﴿۱۵۱﴾٪

۱۵۱۔موسیٰ نے کہا: اے میرے رب! مجھے اور میرے بھائی کو معاف فرما اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما اور تو سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے ۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ سَیَنَالُہُمۡ غَضَبٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ ذِلَّۃٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ؕ وَ کَذٰلِکَ نَجۡزِی الۡمُفۡتَرِیۡنَ﴿۱۵۲﴾

۱۵۲۔جنہوں نے گوسالہ کو(معبود)بنایا بیشک ان پر عنقریب ان کے رب کا غضب واقع ہو گا اور دنیاوی زندگی میں ذلت اٹھانا پڑے گی اور بہتان پردازوں کو ہم ایسا ہی بدلہ دیتے ہیں۔

152۔ روایات کے مطابق سامری اور گوسالہ پرستی کے تین ہزار مجرموں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ تورات میں اصل واقعہ ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: تو موسیٰ (ع) نے لشکر گاہ کے دروازے پر کھڑے ہو کر کہا: جو خدواند کی طرف ہے وہ میرے پاس آئے۔ تب سب بنی لاوی (بنی اسرائیل کا ایک قبیلہ) اس کے پاس جمع ہو گئے اور بنی لاوی نے موسیٰ (ع) کے کہنے کے موافق عمل کیا۔ چنانچہ اس دن لوگوں میں سے تقریباً تین ہزار مرد کھیت آئے۔ (تورات ۔خروج باب 32 آیات 26، 28)


وَ الَّذِیۡنَ عَمِلُوا السَّیِّاٰتِ ثُمَّ تَابُوۡا مِنۡۢ بَعۡدِہَا وَ اٰمَنُوۡۤا ۫ اِنَّ رَبَّکَ مِنۡۢ بَعۡدِہَا لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔اور جنہوں نے گناہ کا ارتکاب کیا پھر اس کے بعد توبہ کر لی اور ایمان لے آئے تو اس (توبہ) کے بعد آپ کا رب یقینا بڑا معاف کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

153۔ آیت کا اطلاق عام ہے تاہم اس جگہ مراد گوسالہ پرستوں میں سے وہ گروہ ہے جو صحیح معنوں میں اپنے اس عمل پر نادم ہوا اور صحیح معنوں میں ایمان پر قائم رہا۔ اسی طرح ہر ایماندار تائب کے لیے اللہ کی رحمت اس گناہ سے عظیم ہے جس کا ارتکاب ہوا ہے۔


وَ لَمَّا سَکَتَ عَنۡ مُّوۡسَی الۡغَضَبُ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ ۚۖ وَ فِیۡ نُسۡخَتِہَا ہُدًی وَّ رَحۡمَۃٌ لِّلَّذِیۡنَ ہُمۡ لِرَبِّہِمۡ یَرۡہَبُوۡنَ﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔اور جب موسیٰ کا غصہ فرو ہو گیا تو انہوں نے(توریت کی)وہ تختیاں اٹھائیں جن کی تحریر میں ان لوگوں کے لیے ہدایت اور رحمت تھی جو اپنے رب سے خائف رہتے ہیں۔

154۔ اَخَذَ الۡاَلۡوَاحَ سے ظاہر ہوتا ہے کہ تختیاں سالم تھیں۔ اس میں توریت کی اس بات کی رد ہے کہ تختیاں ٹوٹ گئی تھیں۔


وَ اخۡتَارَ مُوۡسٰی قَوۡمَہٗ سَبۡعِیۡنَ رَجُلًا لِّمِیۡقَاتِنَا ۚ فَلَمَّاۤ اَخَذَتۡہُمُ الرَّجۡفَۃُ قَالَ رَبِّ لَوۡ شِئۡتَ اَہۡلَکۡتَہُمۡ مِّنۡ قَبۡلُ وَ اِیَّایَ ؕ اَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ السُّفَہَآءُ مِنَّا ۚ اِنۡ ہِیَ اِلَّا فِتۡنَتُکَ ؕ تُضِلُّ بِہَا مَنۡ تَشَآءُ وَ تَہۡدِیۡ مَنۡ تَشَآءُ ؕ اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَ ارۡحَمۡنَا وَ اَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ﴿۱۵۵﴾

۱۵۵۔ اور موسیٰ نے ہماری مقررہ میعاد کے لیے اپنی قوم سے ستر افراد منتخب کیے، پھر جب انہیں زلزلے نے گرفت میں لیا (تو) موسیٰ نے عرض کیا: میرے رب! اگر تو چاہتا تو انہیں اور مجھے پہلے ہی ہلاک کر دیتا، کیا تو ہمارے کم عقل لوگوں کے اعمال کی سزا میں ہمیں ہلاک کر دے گا؟ یہ تو تیری ایک آزمائش تھی جس سے جسے تو چاہتا ہے گمراہ کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے، تو ہی ہمارا آقا ہے، پس ہمیں معاف فرما اور ہم پر رحم فرما اور تو معاف کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے ۔

155۔ان ستر افراد کوا للہ تعالی نے کوہ طور پر کس غرض سے بلایا تھا اور وہ کون سا جرم تھا جس کی سزا میں ان کو زلزلے نے گرفت میں لیا اور سب کو ہلاک بھی کر دیا؟ اور وہ کون سا سفیہانہ عمل تھا جس کی طرف حضرت موسیٰ (ع) نے اشارہ فرمایا؟ اس آیت میں ان باتوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے۔ بعض مفسرین لکھتے ہیں کہ قوم موسیٰ (ع) کے یہ نمائندہ افراد گوسالہ پرستی کی معافی طلب کرنے کے لیے آئے تھے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ معافی و توبہ کے لیے آنے پر ہلاکت کی سزا کیوں؟

درحقیقت ان سوالات کا جواب سورۂ بقرہ میں موجود ہے جہاں اس واقعے کو اس ترتیب سے بیان کیا ہے: قوم موسیٰ کے لیے پہلے دریا شگافتہ ہوا پھر حضرت موسیٰ کو چالیس دنوں کے لیے کوہ طور پر بلایا گیا۔ اس دوران گوسالہ پرستی کا واقعہ پیش آیا۔

اس کے بعد قوم موسیٰ نے اللہ کو عیاناً دکھانے کا مطالبہ کیا اورمطالبہ کی صورت یہ تھی: لَنۡ نُّؤۡمِنَ لَکَ حَتّٰی نَرَی اللّٰہَ جَہۡرَۃً ۔ (بقرۃ: 55) جب تک ہم اللہ کو علانیہ دیکھ نہ لیں ہم آپ پر ایمان نہیں لائیں گے۔ اس پر قوم کے ستر افراد کو زلزلے نے گرفت میں لے لیا اور ہلاک ہوگئے۔


وَ اکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ ؕ قَالَ عَذَابِیۡۤ اُصِیۡبُ بِہٖ مَنۡ اَشَآءُ ۚ وَ رَحۡمَتِیۡ وَسِعَتۡ کُلَّ شَیۡءٍ ؕ فَسَاَکۡتُبُہَا لِلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ وَ یُؤۡتُوۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ الَّذِیۡنَ ہُمۡ بِاٰیٰتِنَا یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۵۶﴾ۚ

۱۵۶۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی بھلائی مقرر فرما ہم نے تیری طرف رجوع کر لیا ہے،ارشاد فرمایا: عذاب تو جسے میں چاہتا ہوں دیتا ہوں اور میری رحمت ہر چیز کو شامل ہے، پس اسے میں ان لوگوں کے لیے مقرر کر دوں گا جو تقویٰ رکھتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور جو ہماری آیات پر ایمان لاتے ہیں۔


اَلَّذِیۡنَ یَتَّبِعُوۡنَ الرَّسُوۡلَ النَّبِیَّ الۡاُمِّیَّ الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ مَکۡتُوۡبًا عِنۡدَہُمۡ فِی التَّوۡرٰىۃِ وَ الۡاِنۡجِیۡلِ ۫ یَاۡمُرُہُمۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ یَنۡہٰہُمۡ عَنِ الۡمُنۡکَرِ وَ یُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَ یُحَرِّمُ عَلَیۡہِمُ الۡخَبٰٓئِثَ وَ یَضَعُ عَنۡہُمۡ اِصۡرَہُمۡ وَ الۡاَغۡلٰلَ الَّتِیۡ کَانَتۡ عَلَیۡہِمۡ ؕ فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۱۵۷﴾٪

۱۵۷۔(یہ رحمت ان مومنین کے شامل حال ہو گی)جو لوگ اس رسول کی پیروی کرتے ہیں جو نبی امی کہلاتے ہیں جن کا ذکر وہ اپنے ہاں توریت اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ انہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں اور پاکیزہ چیزیں ان کے لیے حلال اور ناپاک چیزیں ان پر حرام کرتے ہیں اور ان پر لدے ہوئے بوجھ اور (گلے کے) طوق اتارتے ہیں، پس جو ان پر ایمان لاتے ہیں ان کی حمایت اور ان کی مدد اور اس نور کی پیروی کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل کیا گیا ہے، وہی فلاح پانے والے ہیں۔

157۔ اہل کتاب عربوں کو امی کہتے تھے اور انہیں اپنے برابر حقوق کے اہل نہ سمجھتے تھے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس لفظ امی کو اہل کتاب خاص کر یہودی تحقیر کے طور پر استعمال کرتے تھے۔ لیکن قرآن نے اس لفظ کو رسول کریمؐ کی شناخت کے طو رپر بیان فرمایا۔ اس میں یہ نکتہ ہے کہ وہ رسولؐ جن کے بارے میں تم خود تسلیم کرتے ہو کہ وہ امی ہیں، ایک ایسا کامل نظام حیات پیش کرتے ہیں جس کی نظیر پیش کرنے سے انسانی درسگاہوں کے پڑھے ہوئے دانشور قاصر ہیں۔ وہ تمہارے پڑھے لکھوں سے کہیں زیادہ پڑھے لکھے ہیں، البتہ وہ بشری درسگاہوں کے فارغ التحصیل نہیں، یہ ملکوتی درس گاہ کے پڑھے لکھے ہیں۔ انہوں نے ان سیاہ لکیروں والی تحریروں کو نہیں پڑھا۔ وہ لوح کائنات پر قلم قدرت سے لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھ کر آئے ہیں۔

الَّذِیۡ یَجِدُوۡنَہٗ : تغیر و تحریف کے باوجود موجودہ توریت و انجیل میں رسول کریمؐ کی آمد کے بارے میں تصریحات موجود ہیں۔ توریت استثناء 18،15 میں مذکور ہے:خداوند تیرا خدا، تیرے لیے، تیرے ہی درمیان سے، تیرے ہی بھائیوں میں میری مانند ایک نبی برپا کرے گا تم اس کی طرف کان دھریو۔ بنی اسرائیل کے بھائیوں سے مراد اولاد اسماعیل ہی ہو سکتی ہیں۔ انجیل یوحنا 14:1 میں آیا ہے: اور میں باپ سے درخواست کروں گا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار فارقلیط بخشے گا جو ابد تک تمہارے ساتھ رہے گا۔ فارقلیط یونانی لفظ ہے اس کا تلفظ Paraclete ہے۔ اس سے مراد ہے عزت یا مدد دینے والا ۔ اس کا دوسرا تلفظ فیرقلیط ہے اور یونانی تلفظ Periclite ہے۔ جس سے مراد ہے عزت دینے والا، بلند مرتبہ اور بزرگوار۔ یہ محمد اور محمود کے قریب المعنی ہے۔

واضح رہے کہ یہ لوگ توریت اور انجیل کا جب کسی زبان میں ترجمہ کرتے ہیں تو ان کی یہ عادت عام ہے کہ اصل نام کی جگہ اس کا ترجمہ کر دیتے ہیں۔ یہاں بھی فیرقلیط کی جگہ’مددگار‘ رکھ دیا ہے۔ مزید معلومات کے لیے سورۂ صف آیت 6 ملاحظہ فرمائیں۔

اس رسول کے اہم اوصاف جو توریت و انجیل میں بیان ہوئے ہیں یہ ہیں کہ وہ :٭ اچھی باتوں کی دعوت دے گا اور بری باتوں سے روکے گا۔ یاد رہے کہ اسلامی تعلیمات کو زندہ رکھنے اور امت میں اخلاقی اور اجتماعی اقدار کا شعور بیدار کرنے کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ایک انسان ساز نظام ہے۔ ٭ وہ پاکیزہ چیزوں کو حلال اور ناپاک چیزوں کو حرام قرار دے گا۔ ٭ وہ انسانوں کو ناروا قید و بند سے آزادی دلائے گا۔


قُلۡ یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنِّیۡ رَسُوۡلُ اللّٰہِ اِلَیۡکُمۡ جَمِیۡعَۨا الَّذِیۡ لَہٗ مُلۡکُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ یُحۡیٖ وَ یُمِیۡتُ ۪ فَاٰمِنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رَسُوۡلِہِ النَّبِیِّ الۡاُمِّیِّ الَّذِیۡ یُؤۡمِنُ بِاللّٰہِ وَ کَلِمٰتِہٖ وَ اتَّبِعُوۡہُ لَعَلَّکُمۡ تَہۡتَدُوۡنَ﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ کہدیجئے: اے لوگو! میں تم سب کی طرف اس اللہ کا (بھیجا ہوا) رسول ہوں جو آسمانوں اور زمین کا مالک ہے، اس کے سوا کوئی معبود نہیں، وہی زندگی اور وہی موت دیتا ہے، لہٰذا تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لے آؤ، اس امی نبی پر جو اللہ اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کی پیروی کرو شاید تم ہدایت حاصل کر لو۔


وَ مِنۡ قَوۡمِ مُوۡسٰۤی اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ﴿۱۵۹﴾

۱۵۹۔اور قوم موسیٰ میں ایک جماعت ایسی تھی جو حق کے مطابق رہنمائی اور اسی کے مطابق عدل کرتی تھی۔

159۔ بنی اسرائیل کی تاریخ اور ان کی سیرت و کردار کے بیان سے ایسا لگتا تھا کہ پوری کی پوری قوم سراپا جرائم سے ڈھکی ہوئی ہے۔ قرآن انصاف کا حق ادا کرتے ہوئے اس بات کو واضح کرتا ہے، ایسا بھی نہیں کہ پوری قوم بدکردار ہو بلکہ ان میں ایک جماعت حق پر قائم تھی اور دوسروں کو حق کی طرف بلاتی رہی اور حق کے مطابق انصاف پر بھی قائم رہی۔ سلسلہ کلام اور سیاق آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ عصر موسی (ع) کے بنی اسرائیل کے بارے میں ہے نہ کہ نزول قرآن کے زمانے کے۔


وَ قَطَّعۡنٰہُمُ اثۡنَتَیۡ عَشۡرَۃَ اَسۡبَاطًا اُمَمًا ؕ وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اِذِ اسۡتَسۡقٰىہُ قَوۡمُہٗۤ اَنِ اضۡرِبۡ بِّعَصَاکَ الۡحَجَرَ ۚ فَانۡۢبَجَسَتۡ مِنۡہُ اثۡنَتَا عَشۡرَۃَ عَیۡنًا ؕ قَدۡ عَلِمَ کُلُّ اُنَاسٍ مَّشۡرَبَہُمۡ ؕ وَ ظَلَّلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡغَمَامَ وَ اَنۡزَلۡنَا عَلَیۡہِمُ الۡمَنَّ وَ السَّلۡوٰی ؕ کُلُوۡا مِنۡ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقۡنٰکُمۡ ؕ وَ مَا ظَلَمُوۡنَا وَ لٰکِنۡ کَانُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۶۰﴾

۱۶۰۔ اور ہم نے بنی اسرائیل کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کر کے جدا جدا جماعتیں بنائیں اور جب ان کی قوم نے ان سے پانی طلب کیا تو ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پتھر پر مارو، چنانچہ اس سے بارہ چشمے پھوٹ نکلے، ہر جماعت نے اپنا اپنا گھاٹ معلوم کر لیا اور ہم نے ان کے سروں پر بادل کا سائبان بنایا اور ان پر من و سلویٰ نازل کیا، جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمہیں عنایت کی ہیں انہیں کھاؤ اور (بعد میں نافرمانی کی وجہ سے) یہ لوگ ہم پر نہیں بلکہ خود اپنے اوپر ظلم کرتے تھے۔

160۔ بنی اسرائیل کی سرکشیوں کا ذکر کرنے کے بعد ان انعامات و احسانات کا ذکر ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو نوازا ہے۔ توریت میں آیا ہے کہ بنی اسرائیل نے جب صحرائے سینا میں نزول کیا تو ان میں بیس سال سے زائد عمر کے افراد کی تعداد جو جنگ میں شرکت کرنے کے قابل تھے چھ لاکھ سے زائد تھی۔ اس طرح کل تعداد پندرہ سے بیس لاکھ تک ہو سکتی ہے۔ ان میں نظم و ضبط قائم رکھنے کے لیے ان کو بارہ قبیلوں میں تقسیم کیا۔ اس خشک بیابان میں پانی فراہم کیا۔ تپتی دھوپ سے بچانے کے لیے بادلوں کا سائباں، کھانے کے لیے من و سلویٰ۔ ان تمام نعمتوں کے باوجود یہ قوم مسلسل غداریوں کا ارتکاب کرتی رہی۔


تبصرے
Loading...