سوره اعراف آيات 101 – 120
تِلۡکَ الۡقُرٰی نَقُصُّ عَلَیۡکَ مِنۡ اَنۡۢبَآئِہَا ۚ وَ لَقَدۡ جَآءَتۡہُمۡ رُسُلُہُمۡ بِالۡبَیِّنٰتِ ۚ فَمَا کَانُوۡا لِیُؤۡمِنُوۡا بِمَا کَذَّبُوۡا مِنۡ قَبۡلُ ؕ کَذٰلِکَ یَطۡبَعُ اللّٰہُ عَلٰی قُلُوۡبِ الۡکٰفِرِیۡنَ﴿۱۰۱﴾
۱۰۱۔ یہ وہ بستیاں ہیں جن کے حالات ہم آپ کو سنا رہے ہیں اور ان کے پیغمبر واضح دلائل لے کر ان کے پاس آئے لیکن جس چیز کو وہ پہلے جھٹلا چکے تھے وہ اس پر ایمان لانے کے لیے آمادہ نہ تھے، اللہ اس طرح کافروں کے دلوں پر مہر لگا دیتا ہے۔
وَ مَا وَجَدۡنَا لِاَکۡثَرِہِمۡ مِّنۡ عَہۡدٍ ۚ وَ اِنۡ وَّجَدۡنَاۤ اَکۡثَرَہُمۡ لَفٰسِقِیۡنَ﴿۱۰۲﴾
۱۰۲۔اور ہم نے ان میں سے اکثر کو بدعہد پایا اور اکثر کو ان میں فاسق پایا۔
ثُمَّ بَعَثۡنَا مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ مُّوۡسٰی بِاٰیٰتِنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ وَ مَلَا۠ئِہٖ فَظَلَمُوۡا بِہَا ۚ فَانۡظُرۡ کَیۡفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الۡمُفۡسِدِیۡنَ﴿۱۰۳﴾
۱۰۳۔پھر ان رسولوں کے بعد ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیوں کے ساتھ فرعون اور اس کے سرکردہ لوگوں کی طرف بھیجا تو انہوں نے ان نشانیوں (کے انکار) کے سبب (اپنے اوپر) ظلم کیا پھر دیکھ لو مفسدوں کا کیا انجام ہوا۔
103۔ موجودہ ترتیب کے مطابق یہ پہلا مکی سورہ ہے جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا خصوصیت کے ساتھ ذکر ہوا ہے۔ قرآن مجید میں 130 مرتبہ سے زیادہ حضرت موسیٰ ؑ کا ذکر آیا ہے۔ اس خصوصیت کے چند اسباب ہیں:
٭ قدیم انسانی تاریخ کے اہم ابواب حضرت ابراہیم علیہ السلام سے لے کر حضرت مسیح علیہ السلام تک کے زمانے میں رقم ہوئے۔ حق و باطل کا سب سے طولانی جہاد بنی اسرائیل کے دورمیں ہوا اور اس صبر آزما جہاد کے میر کارواں حضرت موسیٰ علیہ السلام تھے۔ ٭ حضرت موسیٰ (ع) کے دور میں جہاں تمدن و ترقی کا ایک اہم مرحلہ طے ہوا تھا وہاں کفر و شرک نے بھی ایک مستحکم نظام بنا لیا تھا جو اَنَا رَبُّکُمُ الۡاَعۡلٰی ﴿۫﴾ کا دعویدار تھا۔ اس کے مقابلے میں توحید پرست لوگ مظلوم و محروم ہو گئے تھے۔ ٭ حضرت موسیٰ(ع) کا تعلق ایک محروم اور ضعیف طبقے سے تھا جس کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہ تھا۔ ان کی نسل کشی ہوتی تھی۔ ایسے مظلوم طبقے کا ایک فرد اپنے زمانے کی بڑی طاقت کا مقابلہ کرتا ہے۔
رسول کریمؐ کا تعلق بھی ایسے ہی خاندان سے تھا۔ لوگ آپؐ کو عبد اللہ کا یتیم کہ کر پکارتے تھے۔ ٭حضرت موسیٰ (ع) کو ایک جامع نظام حیات اور ایک کامل شریعت عنایت ہوئی، اور ایک عظیم امت کی تشکیل عمل میں آئی جس نے روئے زمین کا نقشہ بدل کر رکھ دیا۔ جیساکہ رسول کریمؐ کو ایک جامع نظام حیات اور ایک ابدی شریعت عنایت ہوئی اور ایک عظیم امت کی تشکیل عمل میں آئی، جس نے نہ صرف زمین کا نقشہ بدل دیا بلکہ انسانیت کو تہذیب و تمدن سکھایا اور تسخیر کائنات کا راستہ کھول دیا۔٭ انسانی تاریخ کے اس دور میں لکھے گئے اوراق میں ایسے اسباق ملتے ہیں جو آنے والی تمام توحیدی تحریکوں اور مظلوم قوموں کے لیے مشعل راہ ہیں۔ بنی اسرائیل کو مختلف آزمائشوں سے گزارنے کے بعد اللہ نے امامت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا۔مگر بنی اسرائیل نے کس احساس ذمہ داری کا ثبوت دیا؟ انہیں تاریخ انبیاءؑ میں سب سے زیادہ معجزات دیے گئے۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے پیغمبر کی آواز پر کہاں تک لبیک کہا؟ آخر میں ان سے امامت عظمیٰ کا منصب کیسے سلب ہوا؟ وغیرہ۔
فرعون: قدیم مصری اپنے رب اعلیٰ سورج کو رَّعُ کہتے تھے اور حکمرانوں کو رَّعُ کا مظہر سمجھتے تھے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ جس فرعون کے گھرمیں حضرت موسیٰ(ع) نے پرورش پائی وہ رعمیس دوم تھا اور جس فرعون کی طرف حضرت موسیٰ(ع) کو بھیجا گیا وہ رعمیس دوم کا بیٹا منفتاح تھا۔
وَ قَالَ مُوۡسٰی یٰفِرۡعَوۡنُ اِنِّیۡ رَسُوۡلٌ مِّنۡ رَّبِّ الۡعٰلَمِیۡنَ﴿۱۰۴﴾ۙ
۱۰۴۔ اور موسیٰ نے کہا: اے فرعون! میں رب العالمین کا رسول ہوں۔
حَقِیۡقٌ عَلٰۤی اَنۡ لَّاۤ اَقُوۡلَ عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ ؕ قَدۡ جِئۡتُکُمۡ بِبَیِّنَۃٍ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ فَاَرۡسِلۡ مَعِیَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ﴿۱۰۵﴾ؕ
۱۰۵۔(مجھ پر) لازم ہے کہ میں اللہ کے بارے میں صرف حق بات کروں، میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے واضح دلیل لے کر آیا ہوں، لہٰذا تو بنی اسرائیل کو میرے ساتھ جانے دے۔
قَالَ اِنۡ کُنۡتَ جِئۡتَ بِاٰیَۃٍ فَاۡتِ بِہَاۤ اِنۡ کُنۡتَ مِنَ الصّٰدِقِیۡنَ﴿۱۰۶﴾
۱۰۶۔ فرعون نے کہا: اگر تم سچے ہو اور کوئی نشانی لے کر آئے ہو تو اسے پیش کرو۔
فَاَلۡقٰی عَصَاہُ فَاِذَا ہِیَ ثُعۡبَانٌ مُّبِیۡنٌ﴿۱۰۷﴾ۚۖ
۱۰۷۔ موسیٰ نے اپنا عصا پھینکا تو وہ دفعتاً سچ مچ کا ایک اژدھا بن گیا۔
وَّ نَزَعَ یَدَہٗ فَاِذَا ہِیَ بَیۡضَآءُ لِلنّٰظِرِیۡنَ﴿۱۰۸﴾٪
۱۰۸۔اور موسیٰ نے اپنا ہاتھ نکالا تو وہ ناظرین کے سامنے یکایک چمکنے لگا۔
قَالَ الۡمَلَاُ مِنۡ قَوۡمِ فِرۡعَوۡنَ اِنَّ ہٰذَا لَسٰحِرٌ عَلِیۡمٌ﴿۱۰۹﴾ۙ
۱۰۹۔قوم فرعون کے سرداروں نے کہا: یہ یقینا بڑا ماہر جادوگر ہے۔
یُّرِیۡدُ اَنۡ یُّخۡرِجَکُمۡ مِّنۡ اَرۡضِکُمۡ ۚ فَمَا ذَا تَاۡمُرُوۡنَ﴿۱۱۰﴾
۱۱۰۔ یہ تمہیں تمہاری سر زمین سے نکالنا چاہتا ہے، بتاؤ اب تمہاری کیا صلاح ہے؟
قَالُوۡۤا اَرۡجِہۡ وَ اَخَاہُ وَ اَرۡسِلۡ فِی الۡمَدَآئِنِ حٰشِرِیۡنَ﴿۱۱۱﴾ۙ
۱۱۱۔ انہوں نے کہا: موسیٰ اور اس کے بھائی کو کچھ مہلت دو اور لوگوں کو جمع کرنے والے( ہرکاروں) کو شہروں میں روانہ کر دو۔
یَاۡتُوۡکَ بِکُلِّ سٰحِرٍ عَلِیۡمٍ﴿۱۱۲﴾
۱۱۲۔وہ تمام ماہر جادوگروں کو تمہارے پاس لائیں،
وَ جَآءَ السَّحَرَۃُ فِرۡعَوۡنَ قَالُوۡۤا اِنَّ لَنَا لَاَجۡرًا اِنۡ کُنَّا نَحۡنُ الۡغٰلِبِیۡنَ﴿۱۱۳﴾
۱۱۳۔ اور جادوگر فرعون کے پاس آئے (اور) کہنے لگے:اگر ہم غالب رہے تو ہمیں صلہ ملے گا؟
قَالَ نَعَمۡ وَ اِنَّکُمۡ لَمِنَ الۡمُقَرَّبِیۡنَ﴿۱۱۴﴾
۱۱۴۔فرعون نے کہا:ہاں یقینا تم مقرب بارگاہ ہو جاؤ گے۔
قَالُوۡا یٰمُوۡسٰۤی اِمَّاۤ اَنۡ تُلۡقِیَ وَ اِمَّاۤ اَنۡ نَّکُوۡنَ نَحۡنُ الۡمُلۡقِیۡنَ﴿۱۱۵﴾
۱۱۵۔انہوں نے کہا: اے موسیٰ! پہلے تم پھینکتے ہو یا ہم پھینکیں ؟
قَالَ اَلۡقُوۡا ۚ فَلَمَّاۤ اَلۡقَوۡا سَحَرُوۡۤا اَعۡیُنَ النَّاسِ وَ اسۡتَرۡہَبُوۡہُمۡ وَ جَآءُوۡ بِسِحۡرٍ عَظِیۡمٍ﴿۱۱۶﴾
۱۱۶۔موسیٰ نے کہا: تم پھینکو، پس جب انہوں نے پھینکا تو لوگوں کی نگاہوں کو مسحور اور انہیں خوفزدہ کر دیا اور انہوں نے بہت بڑا جادو پیش کیا۔
وَ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰۤی اَنۡ اَلۡقِ عَصَاکَ ۚ فَاِذَا ہِیَ تَلۡقَفُ مَا یَاۡفِکُوۡنَ﴿۱۱۷﴾ۚ
۱۱۷۔ اور ہم نے موسیٰ کی طرف وحی کی کہ اپنا عصا پھینک دیں، چنانچہ اس نے یکایک ان کے خود ساختہ جادو کو نگلنا شروع کیا۔
117۔ ہم نے پہلے بھی بتایا ہے کہ معجزہ قانون طبیعت کی عام دفعات سے ہٹ کر ہو تاہے البتہ معجزات کے اپنے ناقابل تسخیر علل و اسباب ضرور ہوتے ہیں۔ جو لوگ معجزات کو خارق عادت نہیں بلکہ قانون طبیعت کی عام دفعات کے دائرے میں داخل سمجھتے ہیں وہ دراصل اللہ کو نہ صرف فاعل مختار نہیں مانتے بلکہ ان کے نزدیک اللہ سے امور اس طرح سرزد ہوتے ہیں جس طرح آگ سے حرارت اور پانی سے رطوبت صادر ہوتی ہے۔
جو لوگ معجزات کو قانون طبیعت سے بالاتر نہیں سمجھتے وہ فاعل مختار اللہ کو نہیں بلکہ ایک غیر شعوری فاعل طبیعیت کو خدا مانتے ہیں۔
اگر اللہ بے جان مادے سے عام طریقے سے اژدھا بنا سکتا ہے تو فوراً بھی بنا سکتا ہے کیونکہ عام طریقے کا خالق بھی اللہ ہے اور وہ اپنے کسی عمل میں عادت اور زمانے کا محتاج نہیں ہے۔
فَوَقَعَ الۡحَقُّ وَ بَطَلَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۱۸﴾ۚ
۱۱۸۔ اس طرح حق ثابت ہوا اور ان لوگوں کا کیا دھرا باطل ہو کر رہ گیا۔
فَغُلِبُوۡا ہُنَالِکَ وَ انۡقَلَبُوۡا صٰغِرِیۡنَ﴿۱۱۹﴾ۚ
۱۱۹۔ پس وہ وہاں شکست کھا گئے اور ذلیل ہو کر لوٹ گئے۔
وَ اُلۡقِیَ السَّحَرَۃُ سٰجِدِیۡنَ﴿۱۲۰﴾ۚۖ
۱۲۰۔اور سب جادوگر سجدے میں گر پڑے۔
120۔ حضرت موسیٰ(ع) کا معجزہ دیکھ کر جادوگر ایمان و یقین کی اس منزل پر پہنچ گئے کہ اس ایمان نے انہیں سجدے میں گرا دیا، جو لوگ جادو کی حقیقت سے واقف ہوتے ہیں ان پر معجزے کی حقانیت بہتر طور پر عیاں ہو جاتی ہے۔ اسی لیے جادوگر چیلنج کے مقام سے تسلیم و رضا کی منزل، غرور و تکبر سے سجدہ کی منزل اور کفر و عناد سے ایمان و ایقان کی منزل پر فائز ہو گئے۔