سوره اعراف آيات 1 – 20

سوره اعراف آيات 1 – 20

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم

سورۂ اعراف

اس سورہ کا نام الاعراف اس لیے ہے کہ آیت 46 ۔ 47 میں اعراف کا ذکر آیا ہے۔ اعراف جنت اور جہنم کے درمیان ایک اونچی جگہ کا نام ہے جہاں کچھ ہستیاں اہل جنت اور اہل جہنم دونوں کا مشاہدہ کریں گی۔

قرآنی سورتوں میں سے ہر سورہ اپنی جگہ جدا تشخص رکھتا ہے اور ہر سورہ ایک اہم خصوصیت کا حامل ہوتا ہے، جب کہ مقصد و منزل ایک ہی ہوتی ہے۔ چنانچہ سورہ انعام اور اعراف دونوں مکی ہیں دونوں ایک جیسے ماحول اور حالت میں نازل ہوئے اور دونوں سورتوں کا موضوع اور رخِ سخن بھی ایک ہے، یعنی توحید۔ اس کے باوجود سورۂ انعام توحید پر منطقی دلائل پیش کرتا ہے جب کہ سورۂ اعراف دعوت توحید کے تاریخی حقائق بیان کرتا ہے۔ شاید طبیعی ترتیب بھی یہی ہے کہ پہلے دعوت کی تاریخی شہادتیں پیش ہوں بعد میں اس کی معقولیت اور حقانیت پردلیل پیش کی جائے۔ چنانچہ یہ سورہ توحید کی تاریخ کا بیان، تخلیق آدم (ع) کے وقت سے شروع کرتا ہے۔ پھر آدم (ع) و ابلیس کا واقعہ بیان ہوتا ہے جو اس توحیدی تاریخ کا اہم ترین واقعہ ہے۔ حضرت آدم (ع) کے بعد اس کاروان کے دیگر اہم ارکان نوح، ہود، صالح، لوط، شعیب، موسیٰ اور ہارون علیہم السلام کا بھی ذکر ہے کہ جنہوں نے اپنے اپنے زمانے کے استعمار کو للکارتے ہوئے بے سرو سامانی کے باوجود ان شیطانی قوتوں کا اس طریقے سے ڈٹ کر مقابلہ کیا کہ آج بھی اگر کوئی ان کی سیرت پر عمل پیرا ہو تو اس زمانے کے استعمار کی ذلت و نابودی کا سبب بن سکتا ہے۔

تاریخ توحید کے بیان کے ساتھ اس کے میرِکاروان حضرت محمد (ص) کو بھی یہ بتایا جا رہا ہے کہ جو سلوک یہ مشرک قوم آپ کے ساتھ کر رہی ہے ایسا ہی سلوک آپؐ سے پہلے کی قومیں اپنے رسولوں کے ساتھ کرتی رہی ہیں اور اپنے برے انجام کو پہنچ چکی ہیں۔


الٓـمّٓصٓ ۚ﴿۱﴾

۱۔ الف لام میم صاد۔


کِتٰبٌ اُنۡزِلَ اِلَیۡکَ فَلَا یَکُنۡ فِیۡ صَدۡرِکَ حَرَجٌ مِّنۡہُ لِتُنۡذِرَ بِہٖ وَ ذِکۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ﴿۲﴾

۲۔ یہ کتاب آپ پر (اس لیے ) نازل کی گئی ہے کہ آپ اس سے لوگوں کو تنبیہ کریں اور اہل ایمان کے لیے نصیحت ہو پس آپ کو اس سے کسی قسم کی دل تنگی محسوس نہیں ہونی چاہیے ۔


اِتَّبِعُوۡا مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَ لَا تَتَّبِعُوۡا مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اَوۡلِیَآءَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ﴿۳﴾

۳۔اس (کتاب) کی پیروی کرو جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور اس کے سوا دوسرے آقاؤں کی اتباع نہ کرو، مگر تم نصیحت کم ہی قبول کرتے ہو۔


وَ کَمۡ مِّنۡ قَرۡیَۃٍ اَہۡلَکۡنٰہَا فَجَآءَہَا بَاۡسُنَا بَیَاتًا اَوۡ ہُمۡ قَآئِلُوۡنَ﴿۴﴾

۴۔ اور کتنی ایسی بستیاں ہیں جنہیں ہم نے تباہ کیا پس ان پر ہمارا عذاب رات کے وقت آیا یا ایسے وقت جب وہ دوپہر کو سو رہے تھے۔


فَمَا کَانَ دَعۡوٰىہُمۡ اِذۡ جَآءَہُمۡ بَاۡسُنَاۤ اِلَّاۤ اَنۡ قَالُوۡۤا اِنَّا کُنَّا ظٰلِمِیۡنَ﴿۵﴾

۵۔پس جب ہمارا عذاب ان پر آیا تو وہ صرف یہی کہہ سکے: واقعی ہم ظالم تھے۔


فَلَنَسۡـَٔلَنَّ الَّذِیۡنَ اُرۡسِلَ اِلَیۡہِمۡ وَ لَنَسۡـَٔلَنَّ الۡمُرۡسَلِیۡنَ ۙ﴿۶﴾

۶۔ پس جن کی طرف پیغمبر بھیجے گئے ہم ہر صورت میں ان سے سوال کریں گے اور خود پیغمبروں سے بھی ہم ضرور پوچھیں گے۔


فَلَنَقُصَّنَّ عَلَیۡہِمۡ بِعِلۡمٍ وَّ مَا کُنَّا غَآئِبِیۡنَ﴿۷﴾

۷۔ پھر ہم پورے علم و آگہی سے ان سے سرگزشت بیان کریں گے اور ہم غائب تو نہیں تھے۔


وَ الۡوَزۡنُ یَوۡمَئِذِ ۣالۡحَقُّ ۚ فَمَنۡ ثَقُلَتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ﴿۸﴾

۸۔اور اس دن (اعمال کا) تولنا برحق ہے، پھر جن (کے اعمال) کا پلڑا بھاری ہو گا پس وہی فلاح پائیں گے ۔

8 ۔ 9 آیت سے یہ بات تو ثابت ہو جاتی ہے کہ نیکیوں کا وزن ہوتا ہے اور ا س کے مقابلے میں گناہوں کا وزن نہیں ہوتا۔ لہٰذا اعمال کے وزن کے بارے میں کسی تاویل و توجیہ کی طرف جانے کی بجائے خود قرآن کی تعبیر کے مطابق یہ مؤقف اختیار کرنا درست ہو گا۔ انسان کے اعمال اللہ کے معیار کے مطابق یا مثبت ہوں گے یا منفی۔ مثبت اعمال کا قیامت کے دن وزن اور قیمت ہوگی اور منفی اعمال بے وزن اور بے قدر ہوں گے۔ چنانچہ زیر بحث آیت اور دیگر متعدد آیات میں نیکیوں کے لیے وزن ثابت کیا ہے اور گناہوں کو بے وزن کہا ہے۔ قرآنی تعبیر ثَقُلَتۡ اور خَفَّتۡ میں وہی موازنہ ہے جو مثبت اور منفی میں، قیمتی اور بے قدری میں ہے۔ لہٰذا ثقل سے وزن، قدر اور قیمت کی طرف اشارہ ہے اور خفت سے بے قیمت اور بے قدری کی طرف اشارہ ہے۔ اس طرح اعمال کے وزن کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ جس کی نیکیاں زیادہ ہوں اس کا مثبت پہلو غالب رہے گا اور وہ فلاح پائیں گے اور جس کا منفی پہلو غالب آیا ہو ہلاکت میں ہو گا۔


وَ مَنۡ خَفَّتۡ مَوَازِیۡنُہٗ فَاُولٰٓئِکَ الَّذِیۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡفُسَہُمۡ بِمَا کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۹﴾

۹۔ اور جن کا پلڑا ہلکا ہو گا وہ لوگ ہماری آیات سے زیادتی کے سبب خود گھاٹے میں رہے۔


وَ لَقَدۡ مَکَّنّٰکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ وَ جَعَلۡنَا لَکُمۡ فِیۡہَا مَعَایِشَ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَشۡکُرُوۡنَ﴿٪۱۰﴾

۱۰۔اور ہم ہی نے تمہیں زمین میں بسایا اور اس میں تمہارے لیے سامان زیست فراہم کیا (مگر) تم کم ہی شکر کرتے ہو۔

10۔ کائنات کی فضا، حیات اور زندگی کے لیے سازگار نہیں ہے۔ کائناتی رکاوٹوں سے کہیں زیادہ طاقتور کوئی شعور و ارادہ اگر موجود نہ ہو تو یہاں زندگی کی نشو و نما ممکن نہیں ہے۔ ہمارے نظام شمسی کو لیجیے کہ اس میں صرف ایک ہی کرہ (زمین) اس وقت حیات کے لیے سازگار ہے اور یہ کرہ بھی ایک زمانے میں آگ کے شعلوں سے عبارت تھا۔ زمین نہ اتنی سخت بنائی کہ دانہ نہ نکل سکے اور نہ اتنی نرم بنائی کہ کوئی چیز اس پر ٹھہر نہ سکے، نہ اتنی بڑی کہ فضا سے آکسیجن زمین میں دھنس جائے نہ اتنی چھوٹی کہ فضا سے ہوا منتشر ہو جائے۔ سورج نہ چنداں دور ہے کہ سردی سے زندگی ممکن نہ ہو اور نہ چنداں نزدیک کہ گرمی سے حیات ممکن نہ ہو ۔ علاوہ ازیں دیگر ہزاروں خصوصیات ہیں جن کی وجہ سے زمین حیات کے لیے سازگار بن گئی۔


وَ لَقَدۡ خَلَقۡنٰکُمۡ ثُمَّ صَوَّرۡنٰکُمۡ ثُمَّ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ ٭ۖ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ لَمۡ یَکُنۡ مِّنَ السّٰجِدِیۡنَ﴿۱۱﴾

۱۱۔ بتحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا پھر تمہیں شکل و صورت دی پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کرو پس سب نے سجدہ کیا صرف ابلیس سجدہ کرنے والوں میں شامل نہ تھا۔


قَالَ مَا مَنَعَکَ اَلَّا تَسۡجُدَ اِذۡ اَمَرۡتُکَ ؕ قَالَ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ ۚ خَلَقۡتَنِیۡ مِنۡ نَّارٍ وَّ خَلَقۡتَہٗ مِنۡ طِیۡنٍ﴿۱۲﴾

۱۲۔ فرمایا: تجھے کس چیز نے سجدہ کرنے سے باز رکھا جب کہ میں نے تجھے حکم دیا تھا؟ بولا: میں اس سے بہتر ہوں، مجھے تو نے آگ سے پیدا کیا ہے اور اسے تو نے مٹی سے پیدا کیا ہے۔


قَالَ فَاہۡبِطۡ مِنۡہَا فَمَا یَکُوۡنُ لَکَ اَنۡ تَتَکَبَّرَ فِیۡہَا فَاخۡرُجۡ اِنَّکَ مِنَ الصّٰغِرِیۡنَ﴿۱۳﴾

۱۳۔ فرمایا: یہاں سے اتر جا! تجھے حق نہیں کہ یہاں تکبر کرے، پس نکل جا! تیرا شمار ذلیلوں میں ہے۔


قَالَ اَنۡظِرۡنِیۡۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ﴿۱۴﴾

۱۴۔بولا:مجھے روز قیامت تک مہلت دے۔


قَالَ اِنَّکَ مِنَ الۡمُنۡظَرِیۡنَ﴿۱۵﴾

۱۵۔ فرمایا:بے شک تجھے مہلت دی گئی۔


قَالَ فَبِمَاۤ اَغۡوَیۡتَنِیۡ لَاَقۡعُدَنَّ لَہُمۡ صِرَاطَکَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ ﴿ۙ۱۶﴾

۱۶۔بولا: جس طرح تو نے مجھے گمراہ کیا ہے میں بھی تیرے سیدھے راستے پر ان کی گھات میں ضرور بیٹھا رہوں گا ۔


ثُمَّ لَاٰتِیَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَیۡنِ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مِنۡ خَلۡفِہِمۡ وَ عَنۡ اَیۡمَانِہِمۡ وَ عَنۡ شَمَآئِلِہِمۡ ؕ وَ لَا تَجِدُ اَکۡثَرَہُمۡ شٰکِرِیۡنَ﴿۱۷﴾

۱۷۔ پھر ان کے آگے، پیچھے، دائیں اور بائیں (ہر طرف) سے انہیں ضرور گھیر لوں گا اور تو ان میں سے اکثر کو شکر گزار نہیں پائے گا۔


قَالَ اخۡرُجۡ مِنۡہَا مَذۡءُوۡمًا مَّدۡحُوۡرًا ؕ لَمَنۡ تَبِعَکَ مِنۡہُمۡ لَاَمۡلَـَٔنَّ جَہَنَّمَ مِنۡکُمۡ اَجۡمَعِیۡنَ﴿۱۸﴾

۱۸۔ فرمایا: تو یہاں سے ذلیل و مردود ہو کر نکل جا، ان میں سے جو بھی تیری اتباع کرے گا تو میں تم سب سے جہنم کو ضرور بھر دوں گا ۔

12تا18۔ اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ : ابلیس نے صریح نص کے مقابلے میں ذاتی رائے، امر الٰہی کے خلاف اپنا اجتہاد، حکمت الٰہیہ کے مقابلے میں اپنا فلسفہ اور خالق کے دستور کے مقابلے میں اپنی منطق پیش کی اور اَنَا خَیۡرٌ مِّنۡہُ کا نعرہ بلند کر کے ایک باطل قیاس کو رواج دیا اور غیر منطقی استدلال کی روش کی ابتدا کی۔

ابو نعیم نے حلیۃ الاولیاء میں، دیلمی نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے، انہوں نے اپنے پدر بزرگوار سے اور انہوں نے اپنے جد بزرگوار سے روایت کی کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: اول من قاس برأیہ ابلیس قال اللّٰہ تعالیٰ لہ اسجد لآدم فقال: انا خیرمنہ قال جعفر: فمن قاس امر الدین برأیہ قرنہ اللّٰہ تعالی یوم القیمۃ ابلیس (المنار8:331، تفسیر مراغی 8:112) ’’دینی معاملہ میں سب سے پہلے ابلیس نے قیاس کو اپنایا۔ اللہ نے اسے حکم دیا کہ آدم کو سجدہ کر۔ اس نے کہا: میں اس سے بہتر ہوں۔ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا جو دینی امر میں قیاس کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن ابلیس کے ساتھ کر دے گا۔‘‘ اسی عبارت کے قریب ایک روایت حضرت ابن عباس سے بھی مروی ہے۔ ملاحظہ ہوتفسیر قرطبی 7 :171، تفسیر ابو حیان 5:18۔

سود کے بارے میں منکرین کا قیاس قرآن نے نقل کیا ہے جو کہتے تھے اور کہتے ہیں: اِنَّمَا الۡبَیۡعُ مِثۡلُ الرِّبٰوا (بقرۃ :275) ’’خرید و فروخت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔‘‘ ذبیحہ کے بارے میں مشرکین مکہ قیاس کرتے تھے کہ کیا وجہ ہے کہ جسے تم لوگوں نے مارا ہے (ذبیحہ) وہ تو حلال ہو اور جسے اللہ نے مارا ہے (مردار) وہ حرام ہو؟


وَ یٰۤاٰدَمُ اسۡکُنۡ اَنۡتَ وَ زَوۡجُکَ الۡجَنَّۃَ فَکُلَا مِنۡ حَیۡثُ شِئۡتُمَا وَ لَا تَقۡرَبَا ہٰذِہِ الشَّجَرَۃَ فَتَکُوۡنَا مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ﴿۱۹﴾

۱۹۔ اور اے آدم !آپ اور آپ کی زوجہ اس جنت میں سکونت اختیار کریں اور دونوں جہاں سے چاہیں کھائیں، مگر اس درخت کے نزدیک نہ جانا ورنہ آپ دونوں ظالموں میں سے ہو جائیں گے۔


فَوَسۡوَسَ لَہُمَا الشَّیۡطٰنُ لِیُبۡدِیَ لَہُمَا مَا وٗرِیَ عَنۡہُمَا مِنۡ سَوۡاٰتِہِمَا وَ قَالَ مَا نَہٰکُمَا رَبُّکُمَا عَنۡ ہٰذِہِ الشَّجَرَۃِ اِلَّاۤ اَنۡ تَکُوۡنَا مَلَکَیۡنِ اَوۡ تَکُوۡنَا مِنَ الۡخٰلِدِیۡنَ﴿۲۰﴾

۲۰۔ پھر شیطان نے انہیں بہکایا تاکہ اس طرح ان دونوں کے شرم کے مقامات جو ان سے چھپائے رکھے گئے تھے ان کے لیے نمایاں ہو جائیں اور کہا: تمہارے رب نے اس درخت سے تمہیں صرف اس لیے منع کیا ہے کہ مبادا تم فرشتے بن جاؤ یا زندہ جاوید بن جاؤ۔


تبصرے
Loading...