دو دوست يا دوبرادر

 

قرآن ميں دو دوست يا دو بھائي كى داستان مثال كے طور پر بيان كى گئي ہے_ ان ميں سے ہر ايك مستكبرين اور، مستضعفين كا ايك نمونہ تھا_ان كى طرز فكر اور ان كى گفتار و كردار ان دونوں گروہوں كے موقف كا ترجمان تھے_ پہلے فرمايا گيا ہے:”اے رسولان سے دو شخصوں كى مثال بيان كرو كہ جن ميں سے ايك كو ہم نے انگوروں كے دوباغ ديئے تھے_جو طرح طرح كے انگور تھے_ان كے گرد اگرد كھجور كے درخت آسمان سے باتيں كررہے تھے_ان دونوں باغوں كے درميان ہرى بھرى كھيتى تھي”_(1)

ايسے باغ اور كھيتياں جن ميں ہر چيز خوب تھي_ انگور بھى تھے،كھجوريں بھى تھيں،گندم اور دوسرا اناج بھى تھا_خود كفيل كھيتياں تھيں_ يہ دونوں باغ پيداوار كے لحاظ سے بھرے پڑے تھے_درخت پھلوں سے لدے ہوئے تھے اور كھيتيوں كے پودے خوب خوشہ دار تھے_ان دونوں باغوں ميں كسى چيز كى كمى نہ تھي_(2)

سب سے اہم بات يہ ہے كہ پانى جو ہر چيز كے لئے مايہ حيات ہے،خصوصاً باغات و زراعت كے لئے،انہيں فراہم تھا:” كيونكہ دونوں باغوں كے درميان ہم نے ايك نہر جارى كى تھي”_(3)

”اس طرح سے ان باغات اور كھيتيوں كے مالك كو خوب پيداروار ملتى تھي”_(4)

دنيا كا مقصد پورا ہورہا ہو اور تو كم ظرف اور بے وقعت انسان اپنى دنياوى مراد پاكر غرورو تكبر ميں مبتلا ہوجاتا ہے اور سركشى كرنے لگتا ہے_ پہلے وہ دوسروں كے مقابلے ميں اپنے آپ كو بڑا سمجھنے لگتا ہے_ باغات كے اس مالك نے بھى اپنے دوست سے بات كرتے ہوئے كہا:”ميں دولت اور سرمائے كے لحاظ سے تجھ سے برترہوں،ميرى آبرو، عزت اور حيثيت تجھ سے زيادہ ہے”_(5)

اور افرادى قوت بھى ميرے پاس بہت زيادہ ہے_ مال و دولت اور اثر و رسوخ ميرا زيادہ ہے_ معاشرے ميں ميرى حيثيت زيادہ ہے_ تو ميرے مقابلے ميں كيا ہے اور تو كس كھاتے ميں ہے؟

آہستہ آہستہ اس كے خيالات بڑھتے چلے گئے اور بات يہاں تك پہنچ گئي كہ وہ دنيا كو جاوداں،مال و دولت كو ابدى اور مقام وحشمت كو دائمى خيال كرنے لگا_”وہ مغرور تھا حالانكہ وہ خود اپنے آپ پر ظلم كررہا تھا_ايسے ميں اپنے باغ ميں داخل ہوا اس نے ايك نگاہ سر سبز درختوں پر ڈالى جن كى شاخيں پھلوں كے بوجھ سے خم ہوگئي تھيں_اس نے اناج كى ڈاليوں كو ديكھا،نہر كے آب رواں كى لہروں پر نظر كى كہ جو چلتے چلتے درختوں كو سيراب كررہا تھا_ ايسے ميں وہ سب كچھ بھول گيا اور كہنے لگا”ميرا خيال نہيں ہے كہ ميرا باغ بھى كبھى اجڑے گا”_(6)

پھر اس نے اس سے بھى آگے كى بات كي_اس جہان كا دائمى ہونا چونكہ عقيدہ قيامت كے منافى ہے لہذا وہ انكار قيامت كا سوچنے لگا_اس نے كہا:ميرا ہر گز نہيں خيال كہ كوئي قيامت بھى ہے_(7)

پھر مزيد كہنے لگا:فرض كياجائے كہ قيامت ہو بھي” اور ميں اپنى اس حيثيت اور مقام كے ساتھ اپنے رب كے پاس جائوں بھى تو يقينا اس سے بہتر جگہ پائوں گا”_(8)

وہ ان خام خيالوں ميں غرق تھا اور ايك كے بعد دوسر ى فضول بات كرتا جاتا تھا _

مستضعفين كا جواب

قرآن ميں اس مغرور،بے ايمان،خود غرض دولت مند كى بے بنياد باتوں كا جواب اس كے مومن دوست كى زبانى ديا گيا ہے_ پہلے وہ خاموشى سے اس كوتاہ فكر انسان كى باتيں سنتا رہا تاكہ جو كچھ اس كے اندر ہے باہر آجائے اور پھر ايك ہى بار اسے جواب ديا جائے_”اس نے كہا:كيا تو اس خدا سے كافر ہوگيا ہے جس نے تجھے مٹى سے اور پھر نطفے سے پيدا كيا اور پھر تجھے پورا شخص بنايا_(9)(10)

اس كے بعد اس باايمان شخص نے اس كے كفر اورغرور كو توڑنے كے لئے كہا:”ليكن ميرا تو ايمان ہے كہ اللہ ميرا پروردگار ہے ،(3)اور مجھے اس عقيدے پر فخر ہے”_

تو اس بات پر نازاں ہے كہ تيرے پا س باغات،كھيتياں،پھل اور پانى فراواں ہيں ليكن مجھے اس پر فخر ہے كہ ميرا پروردگار اللہ ہے،ميرا خالق و رازق وہ ہے،تجھے اپنى دنيا پر فخر ہے اور مجھے اپنے عقيدہ توحيد و ايمان پر،”اور ميں كسى كو اپنے رب كا شريك قرار نہيں ديتا”_(11)

توحيد اور شرك كا مسئلہ انسان كى سرنوشت ميں اہم ترين كردار ادا كرتاہے_پھر اس كے بارے ميں گفتگو اگے بڑھائي اور اس كى ملامت كرتے ہوئے كہا:”جب تو اپنے باغ ميں داخل ہوا تو تو نے يہ كيوں نہيں كہا كہ يہ نعمت اللہ كى منشا سے ہے”_(12)تو نے اسے اللہ كى جانب سے كيوں نہيں جانا اور اس كا شكر كيوں نہيں بجالايا _ ”تو نے كيوں نہيں كہا كہ اللہ كے سوا كسى كى كچھ طاقت نہيں”_(13)

اگر تو نے زمين ميں ہل چلايا ہے،بيج بويا ہے،درخت لگائے ہيں،قلميں لگا ئي ہيں اور تجھے ہر موقع پر سب كچھ ميسر آيا ہے يہاں تك كہ تو اس مقام پر پہنچا ہے تو سب اللہ كى قدرت سے استفادہ كرنے كى وجہ سے ہے_ يہ تمام وسائل اور صلاحتيں تجھے اللہ نے بخشى ہيں،اپنى طرف سے تو كچھ بھى تيرے پاس نہيں ہے اور اس كے بغير تو كچھ بھى نہيں ہے_ اس كے بعد اس نے مزيدكہا:”يہ جو تجھے نظر آتا ہے كہ ميں مال و اولاد كے لحاظ سے تجھ سے كم ہوں (يہ كوئي اہم بات نہيں ہے)_اللہ تيرے باغ كى نسبت مجھے بہتر عطا كر سكتا ہے”_(14)

”بلكہ يہ بھى ہو سكتا ہے كہ خداآسمان سے تيرے باغ پر بجلى گرائے اور ديكھتے ہى ديكھتے يہ سر سبز و شاداب زمين ايسے چٹيل ميدان ميں بدل جائے كہ جہاں پائوں پھسلتے ہوں”_(15)

يا زمين كو حكم دے كہ وہ ہل جائيں اور”يہ چشمے اور نہريں اس كى تہہ ميں ايسى چلى جائيں كہ پھر تو انہيں پا نہ سكے”_(16)

در اصل وہ كہتا ہے كہ تو نے اپنى آنكھوں سے ديكھا ہے يا كم از كم سنا ہے كہ كبھى ايسا بھى ہوتا ہے كہ آسمان سے بجلى لمحہ بھر ميں باغوں،گھروں اور كھيتوں كو مٹى كے ٹيلوں يا بے آب و گيا ہ زمين ميں بدل كے ركھ ديتى ہے_نيز تو نے سنا ہے يا ديكھا ہے كبھى زمين پر ايسا زلزلہ آتا ہے كہ چشمے خشك ہوجاتے ہيں اور نہريں نيچے چلى جاتى ہيں اسطرح سے كہ وہ قابل اصلاح بھى نہيں رہتيں_جب تو ان چيزوں كو جانتا ہے تو پھر يہ غرور و غفلت كس بناء پر؟ تو نے يہ منظر ديكھے ہيں تو پھر يہ دلبستگى آخر كيوں؟تو يہ كہتا ہے كہ ميں نہيں سمجھتا كہ يہ نعمتيں كبھى فنا ہوں گى اور تو يہ سمجھتا ہے كہ يہ ہميشہ رہيں گي_يہ كيسى نادانى اور حماقت ہے؟

اور يہ ان كا انجام

ان دونوں كى آپس كى گفتگو ختم ہوگئي_ ا س خدا پرست شخص كى باتوں كا اس مغرور و بے ايمان دولت مند كے دل پر كوئي اثر نہ ہوا_وہ اپنے انہى جذبات اور طمرز فكر كے ساتھ اپنے گھر لوٹ گيا_اسے اس بات كى خبر نہ تھى كہ اس كے باغوں اور سر سبز كھيتوں كى تباہى كے لئے اللہ كا حكم صادر ہوچكا ہے_اسے خيال نہ تھاكہ وہ اپنے تكبر اور شرك كى سزا اسى جہان ميں پالے گا اور اس كا انجام دوسروں كے لئے باعث عبرت بن جائے گا_

شايد ا س وقت كہ جب رات كى تاريكى ہر چيز پر چھائي ہوئي تھي،عذاب الہى نازل ہوا تباہ كن بجلى كى صورت ميں يا وحشتناك طوفان كى شكل ميں يا ہولناك زلزلے كى صورت ميں اللہ كا عذاب نازل ہوا_ بہر حال جو كچھ بھى تھا اس نے چند لمحوں ميں تروتازہ باغات،سر بفلك درخت اور خوشوں سے لدى كھيتياں درہم برہم اور تباہ كرديں_”اور عذاب الہى حكم خدا سے ہر طرف سے اس كے ثمرہ پر محيط ہوگيا اور اسے نابود كرديا”_(17)

دن چڑھا_ باغ كا مالك باغ كى طرف چلا_سركشى ا سكے ذہن ميں تھي_وہ اپنے باغات كى پيداوار سے زيادہ سے زيادہ فائدہ اٹھانے كى فكر ميںتھا،جب وہ باغ كے قريب پہنچا تواچانك اس نے وحشت ناك منظر ديكھا_حيرت سے اس كا منہ كھلے كا كھلا رہ گيا_ اس كى آنكھوں كے سامنے تاريكى چھاگئي اور وہ وہاں بے حس و حركت كھڑا ہوگيا_

اسے سمجھ نہيں آرہى تھى كہ وہ يہ خواب ديكھ رہا ہے يا حقيقت _ سب درخت اوندھے پڑے تھے، كھيتياں زيرو زبر ہوچكى تھيں_زندگى كے كوئي آثار وہاں دكھائي نہ ديتے تھے_گويا وہاں كبھى بھى شاداب و سر سبز باغ اور كھيتياں نہ تھيں_اس كا دل دھڑكنے لگا_ چہرے كا رنگ اڑگيا_ حلق خشك ہوگيا_اس كے دل و دماغ سے سب غرور و نخوت جاتى رہى ،اسے ايسے لگا جيسے وہ ايك طويل اور گہرى نيند سے بيدار ہوا ہے ،”وہ مسلسل اپنے ہاتھ مل رہا تھا ،اسے ان اخراجات كا خيال ارہا تھا جو اس نے پورى زندگى ميں ان پر صرف كئے تھے ،اب وہ سب برباد ہو چكے تھے اور درخت اوندھے گرے پڑے تھے ”_(18)

اس وقت وہ اپنى فضول باتوں اور بيہودہ سوچوں پر پشيمان ہوا،”وہ كہتا تھا :كاش ميں نے كسى كواپنے پروردگار كا شريك نہ قرار ديا ہوتا ،اے كاش ميں نے شرك كى راہ پر قدم نہ ركھا ہوتا” _(19)

زيادہ المناك پہلو يہ تھا كہ ان تمام مصائب و الام كے سامنے وہ تن تنہا كھڑا تھا ”خدا كے علاوہ كوئي نہ تھا كہ جو اس مصيبت عظيم اور اتنے بڑے نقصان پر اس كى مدد كرتا _”(20)اور چونكہ اس كا سارا سرمايہ تو يہى تھاجو برباد ہوگيا ،اب اس كے پاس كچھ بھى نہ تھا _لہذا ”وہ خود بھى اپنى كوئي مدد نہيں كرسكتا تھا_”(21)

درحقيقت اس واقعے نے اس كے تمام غرورآميز تصورات و خيالات كو زمين بوس اور باطل كرديا ،كبھى تو وہ كہتا تھا كہ ميں نہ ںسمجھتا كہ يہ عظيم دولت و سرمايہ كبھى فنا ہوگا ليكن اج وہ اپنى انكھوں سے اس كى تباہى ديكھ رہا تھا _ دوسرى طرف وہ اپنے خد ا پرست اور باايمان دوست كے سامنے غرور و تكبر كا مظاہرہ كرتا تھا اور كہتا تھا كہ ميں تجھ سے زيادہ قوى ہوں ،ميرے پروردگار زيادہ ہيں ليكن اس واقعے كے بعد اس نے ديكھا كہ كوئي بھى اس كا مدد گار نہيں ہے _ اسے كبھى اپنى طاقت پر بڑا گھمنڈ تھا وہ سمجھتا تھا كہ اس كى بہت قوت ہے ليكن جب يہ واقعہ رونما ہوا اور اس نے ديكھا كہ كچھ بھى اس كے بس ميں نہيں تو اسے اپنى غلطى كا احساس ہوا كيونكہ اب وہ ديكھ رہا تھا كہ اس كے بس ميں اتنا بھى نہيں كہ وہ اس نقصان كے كچھ حصے كى بھى تلافى كر سكے _

حوالاجات

(1)سورہ كہف آيت 32

(2)سورہ كہف آيت 33

(3)سورہ كہف آيت33

(4)سورہ كہف آيت34

(۵)سورہ كہف آيت34

(۶)سورہ كہف آيت35

(۷)سورہ كہف آيت36

(۸)سورہ كہف آيت36

(۹)سورہ كہف آيت37

(۱۰)يہاں ايك سوال سامنے آتا ہے كہ گزشتہ ميں مغرور شخص كى جو باتيں ہم نے پڑھى ہيں ان ميں وجود خدا كا صريح انكا رتو موجود نہيں ہے جبكہ ايك توحيد پرست شخص اسے جو جواب دے رہا ہے ظاہراًسب سے پہلے اسے انكار خدا پر سرزنش كررہا ہے اور اسے تخليق انسان كے حوالے سے خدائے عالم و قادر كى طرف متوجہ كررہا ہے كيونكہ تخليق انسان دلائل توحيد ميں سے بہت واضح دليل ہے_

مفسرين نے مذكورہ سوال كے جواب ميں مختلف تفسيريں پيش كى ہيں،مثلاً:

1_بعض كا كہنا ہے كہ اس مغرور شخص نے صراحت كے ساتھ معاد اور قيامت كا انكا ركيا ہے يا پھر اسے شك كى نظر سے ديكھا ہے جس كا لازمى نتيجہ انكار خدا ہے كيونكہ معاد جسمانى كے منكر در حقيقت قدرت خدا كے منكر ہيں_انہيں اس بات پر يقين نہيں كہ منتشر ہوجانے كے بعد مٹى پھر سے لباس حيات پہن سكے گي_

2_بعض نے كہا ہے كہ اس كے شرك اور كفر كى وجہ يہ تھى كہ وہ سمجھتا تھا كہ يہ مالكيت خود اس كى اپنى طرف سے ہے_ يعنى وہ اپنے لئے مالكيت كا قائل تھا اور اپنى مالكيت كو جاودانى خيال كرتا تھا_

3_تيسرا احتمال بھى بعيد نظر نہيں آتا ،وہ يہ كہ اس نے اپنى كچھ باتوں ميں خدا كا انكار كيا تھا اور اللہ تعالى نے اس كى سارى باتيں بيان نہيں كيں_اس كا اندازہ اس باايمان شخص كى باتوں سے كيا جاسكتا ہے_

(۱۱)سورہ كہف آيت38

(۱۲)سورہ كہف آيت38

(۱۳)سورہ كہف 39

 

(۱۴)سورہ كہف آيت 39

(ٍ۱۵)سورہ كہف آيت 39تا40

(۱۶)سورہ كہف آيت40

(۱۷)سورہ كہف آيت41

(۱۸)سورہ كہف آيت 42

(۱۹)سورہ كہف ايت 42،

(2۰)سورہ كہف ايت 42

(۲۱)سورہ كہف ايت 43

(۲۲)سورہ كہف ايت 43

تبصرے
Loading...