سوره نساء آيات 141 – 160

سوره نساء آيات 141 – 160

الَّذِیۡنَ یَتَرَبَّصُوۡنَ بِکُمۡ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ فَتۡحٌ مِّنَ اللّٰہِ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَکُنۡ مَّعَکُمۡ ۫ۖ وَ اِنۡ کَانَ لِلۡکٰفِرِیۡنَ نَصِیۡبٌ ۙ قَالُوۡۤا اَلَمۡ نَسۡتَحۡوِذۡ عَلَیۡکُمۡ وَ نَمۡنَعۡکُمۡ مِّنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ فَاللّٰہُ یَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ وَ لَنۡ یَّجۡعَلَ اللّٰہُ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سَبِیۡلًا﴿۱۴۱﴾٪

۱۴۱۔ یہ (منافق) تمہارے حالات کا انتظار کرتے ہیں کہ اگر اللہ کی طرف سے تمہیں فتح حاصل ہو تو کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے ساتھ نہ تھے؟ اور اگر کافروں کو کچھ کامیابی مل جائے تو (ان سے) کہتے ہیں: کیا ہم تمہارے خلاف لڑنے پر قادر نہ تھے؟ (اس کے باوجود ہم نے تمہارے ساتھ جنگ نہ کی) اور کیا ہم نے تمہیں مومنوں سے بچا نہیں لیا؟ پس اللہ قیامت کے دن تمہارے درمیان فیصلہ کرے گا اور اللہ ہرگز کافروں کو مومنوں پر غالب نہیں آنے دے گا۔

141۔ ایمان کا انسانی مقدرات میں وہی عمل دخل ہے جو دیگر مادی عوامل کا ہے۔ جیساکہ اس کائناتی نظام میں اثر کی کمزوری سے مؤثر کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے، بالکل اسی طرح آثار کی کمزوری سے ایمان کی کمزوری کا پتہ چلتا ہے۔ لہٰذا اگر کبھی کافروں کے مسلمانوں پر غالب آنے کی نوبت آ گئی تو اس سے ایمان کی کمزوری یا فقدان کا پتہ چلتا ہے۔


اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ یُخٰدِعُوۡنَ اللّٰہَ وَ ہُوَ خَادِعُہُمۡ ۚ وَ اِذَا قَامُوۡۤا اِلَی الصَّلٰوۃِ قَامُوۡا کُسَالٰی ۙ یُرَآءُوۡنَ النَّاسَ وَ لَا یَذۡکُرُوۡنَ اللّٰہَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۴۲﴾۫ۙ

۱۴۲۔ یہ منافقین (اپنے زعم میں) اللہ کو دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ درحقیقت اللہ انہیں دھوکہ دے رہا ہے اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو سستی کے ساتھ لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔

142۔ صدرِ اول کے منافقین ریاکاری کے لیے نماز کے محتاج تھے۔ جیسے آج بھی کچھ لوگ سال میں عید کے دن نماز کے محتاج ہوتے ہیں۔


مُّذَبۡذَبِیۡنَ بَیۡنَ ذٰلِکَ ٭ۖ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ وَ لَاۤ اِلٰی ہٰۤؤُلَآءِ ؕ وَ مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَنۡ تَجِدَ لَہٗ سَبِیۡلًا﴿۱۴۳﴾

۱۴۳۔ یہ لوگ نہ ان کی طرف ہیں اور نہ ان کی طرف بلکہ درمیان میں سرگرداں ہیں اور جسے اللہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کے لیے تم کوئی راہ نہیں پا سکتے۔

143۔ منافقین ایمان و یقین کی نعمت سے محروم ہونے کی وجہ سے مضطرب رہتے ہیں۔ کبھی وہ مسلمانوں کی طرف جھکتے ہیں کبھی کافروں کی طرف۔ جس کا تکیہ اللہ پر نہ ہو وہ ہمیشہ سراب کے پیچھے بھاگتا ہے اور ایمان کی نعمت والے ہی امن و سکون کی زندگی بسر کرتے ہیں۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَتَّخِذُوا الۡکٰفِرِیۡنَ اَوۡلِیَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَؕ اَتُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَجۡعَلُوۡا لِلّٰہِ عَلَیۡکُمۡ سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿۱۴۴﴾

۱۴۴۔ اے ایمان والو! تم مومنین کو چھوڑ کر کفار کو اپنا حامی مت بناؤ، کیا تم چاہتے ہو کہ خود اپنے خلاف اللہ کے پاس صریح دلیل فراہم کرو؟


اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ وَ لَنۡ تَجِدَ لَہُمۡ نَصِیۡرًا﴿۱۴۵﴾ۙ

۱۴۵۔منافقین تو یقینا جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے اور آپ کسی کو ان کا مددگار نہیں پائیں گے ۔

145۔ منافق کافر سے زیادہ بدضمیر اور بدباطن ہوتا ہے کیونکہ کافر تو اپنے مؤقف کا برملا اظہار کرتا ہے اور منافق میں اتنی جرات بھی نہیں ہوتی کہ اپنے موقف کا برملا اظہار کرے۔ اسلامی معاشرے میں یہ مارِ آستین، کافر سے زیادہ خطرناک ہے۔


اِلَّا الَّذِیۡنَ تَابُوۡا وَ اَصۡلَحُوۡا وَ اعۡتَصَمُوۡا بِاللّٰہِ وَ اَخۡلَصُوۡا دِیۡنَہُمۡ لِلّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ مَعَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ؕ وَ سَوۡفَ یُؤۡتِ اللّٰہُ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۴۶﴾

۱۴۶۔البتہ ان میں سے جو لوگ توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں اور اللہ سے متمسک رہیں اور اپنے دین کو اللہ کے لیے خالص کریں تو ایسے لوگ مومنوں کے ساتھ ہوں گے اور اللہ عنقریب مومنوں کو اجر عظیم عطا فرمائے گا۔


مَا یَفۡعَلُ اللّٰہُ بِعَذَابِکُمۡ اِنۡ شَکَرۡتُمۡ وَ اٰمَنۡتُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ شَاکِرًا عَلِیۡمًا﴿۱۴۷﴾

۱۴۷۔ اگر تم شکر ادا کرو اور ایمان لے آؤ تو اللہ تمہیں عذاب دے کر کیا کرے گا؟ اور اللہ بڑا قدردان،بڑا جاننے والا ہے۔

147۔ اللہ کسی جذبۂ انتقام کی تشفّی کے لیے بندوں کو عذاب نہیں دیتا، بلکہ عذاب نا شکری اور نافرمانی کاایک قدرتی رد عمل ہے۔ اگر بندوں کی طرف سے خود عذاب کے اسباب پید ا نہ ہوتے تو اللہ کو عذاب دینے کی ضرورت ہی پیش نہ آتی۔


لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الۡجَہۡرَ بِالسُّوۡٓءِ مِنَ الۡقَوۡلِ اِلَّا مَنۡ ظُلِمَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیۡعًا عَلِیۡمًا﴿۱۴۸﴾

۱۴۸۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی (کسی کی) برملا برائی کرے، مگر یہ کہ مظلوم واقع ہوا ہو اور اللہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

148۔ ایک مثالی معاشرے اور خیر امت کی تشکیل کے لیے اس امت کو انسانی و اخلاقی قدروں کی تعلیم دی جا رہی ہے اور انسانیت کی تعمیر کے لیے اس امت کو قیادت و امامت کی منزل پر فائز کرنے کے لیے ایسی فضا ہموار کی جا رہی ہے جس میں پرورش پانے والا انسان اعلیٰ اقدار کا مالک بنے نیز اس کا ضمیر پاک اور بیدار ہو۔ کسی شخص کا وقار مجروح کرنااور اس کا راز فاش کرنا احترام آدمیت کے منافی اور مقام انسانی کے خلاف ہے۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کی برملا برائی کرے۔ البتہ ظالم نے خود احترامِ آدمیت اور کرامت انسانی کی خلاف ورزی کی ہے اور اس نے ظلم کر کے خود اپنے آپ کو فاش کیا ہے لہٰذا ظالم کی برملا برائی کرنا جائز ہے۔


اِنۡ تُبۡدُوۡا خَیۡرًا اَوۡ تُخۡفُوۡہُ اَوۡ تَعۡفُوۡا عَنۡ سُوۡٓءٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیۡرًا﴿۱۴۹﴾

۱۴۹۔ اگر تم کوئی نیک کام علانیہ یا خفیہ کرو یا برائی سے درگزر کرو تو اللہ بڑا معاف کرنے والا، قدرت والا ہے۔

149۔ نیکی کا اظہار کرو یا اسے پوشیدہ رکھو ، دونوں باتوں کی اجازت ہے۔ اظہار اس نیت سے ہو کہ لوگوں میں کارِ خیر کا شعور بڑھے اور اگر الزام آنے کا احتمال ہو تو الزام دور ہو جائے اور پوشیدہ اس لحاظ سے ہو کہ ریاکاری کا شائبہ نہ رہے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ یَکۡفُرُوۡنَ بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یُّفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ یَقُوۡلُوۡنَ نُؤۡمِنُ بِبَعۡضٍ وَّ نَکۡفُرُ بِبَعۡضٍ ۙ وَّ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ یَّتَّخِذُوۡا بَیۡنَ ذٰلِکَ سَبِیۡلًا﴿۱۵۰﴾ۙ

۱۵۰۔ جو اللہ اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اللہ اور رسولوں کے درمیان تفریق ڈالنا چاہتے ہیں اور کہتے ہیں: ہم بعض پر ایمان لائیں گے اور بعض کا انکار کریں گے اور وہ اس طرح کفر و ایمان کے درمیان ایک راہ نکالنا چاہتے ہیں۔

150 ۔ یہاں کفار اور منکروں کے تین گروہ قابل تصور ہیں: 1۔ جو اللہ کو مانتے ہیں اور نہ رسولوں کو مانتے ہیں۔ 2۔ جو اللہ کو تو مانتے ہیں، لیکن کسی رسول کو نہیں مانتے۔ 3۔ جو اللہ اور بعض رسولوں کو مانتے ہیں اور بعض دیگر رسولوں کو نہیں مانتے۔ اس آیت میں فرمایا: یہ سب لوگ کافر ہیں اور سب سے آخری گروہ کے بارے میں فرمایا: یہ لوگ ایمان باللہ اور ایمان بالرسل میں تفریق ڈال رہے ہیں، حالانکہ جو اس کے بعض رسولوں کا انکار کرتے ہیں وہ پکے کافر ہیں۔


اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡکٰفِرُوۡنَ حَقًّا ۚ وَ اَعۡتَدۡنَا لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۱۵۱﴾

۱۵۱۔ ایسے لوگ حقیقی کافر ہیں اور ہم نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔


وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَمۡ یُفَرِّقُوۡا بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡہُمۡ اُولٰٓئِکَ سَوۡفَ یُؤۡتِیۡہِمۡ اُجُوۡرَہُمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۵۲﴾٪

۱۵۲۔ اور جو لوگ اللہ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان میں سے کسی ایک کے درمیان کسی تفریق کے بھی قائل نہیں ہیں عنقریب اللہ ان کا اجر انہیں عطا فرمائے گا اور اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

152۔ رسولوں کے درمیان تفریق کرنے والوں کے ذکر کے بعد ان لوگوں کا تقابلی ذکر ہوا جو بلا تفریق اللہ کے تمام رسولوں پر ایمان لاتے ہیں اور تمام ادیان سماویہ کو قبول کرتے ہیں اور اللہ کی طرف سے آنے والے سب نمائندوں کو مانتے ہیں۔ وہی صحیح معنوں میں اہل ایمان ہیں اور انہی کو اجر و ثواب ملے گا ۔


یَسۡـَٔلُکَ اَہۡلُ الۡکِتٰبِ اَنۡ تُنَزِّلَ عَلَیۡہِمۡ کِتٰبًا مِّنَ السَّمَآءِ فَقَدۡ سَاَلُوۡا مُوۡسٰۤی اَکۡبَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَقَالُوۡۤا اَرِنَا اللّٰہَ جَہۡرَۃً فَاَخَذَتۡہُمُ الصّٰعِقَۃُ بِظُلۡمِہِمۡ ۚ ثُمَّ اتَّخَذُوا الۡعِجۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ فَعَفَوۡنَا عَنۡ ذٰلِکَ ۚ وَ اٰتَیۡنَا مُوۡسٰی سُلۡطٰنًا مُّبِیۡنًا﴿۱۵۳﴾

۱۵۳۔ اہل کتاب آپ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ان پر آسمان سے ایک کتاب اتار لائیں، جبکہ یہ لوگ اس سے بڑا مطالبہ موسیٰ سے کر چکے ہیں، چنانچہ انہوں نے کہا: ہمیں علانیہ طور پر اللہ دکھا دو، ان کی اسی زیادتی کی وجہ سے انہیں بجلی نے آ لیا پھر انہوں نے گوسالہ کو (اپنا معبود) بنایا جب کہ ان کے پاس واضح نشانیاں آ چکی تھیں اس پر بھی ہم نے ان سے درگزر کیا اور موسیٰ کو ہم نے واضح غلبہ عطا کیا۔

153۔ اس سورہ سے قبل نازل ہونے والے سورہ ہائے بقرہ ، ہود، یونس وغیرہ میں قرآن کی اس دعوت: ’’اس قرآن کے برابر ایک سورہ بنا لاؤ ‘‘ کے بعد مدینہ کے یہودیوں کایہ مطالبہ صرف عناد اور ہٹ دھرمی پر مبنی تھا۔ اس لیے اس آیت میں یہود کی ہٹ دھرمی اور باطل پرستی کی ایک مثال پیش فرمائی۔

یہ لوگ صرف آپ (ص) سے نامعقول مطالبہ نہیں کر رہے ہیں بلکہ یہ لوگ موسیٰ (ع) سے اس سے بڑا مجرمانہ مطالبہ کر چکے ہیں۔ وہ یہ کہ ہمیں اللہ علانیہ دکھا دو۔ ظاہر ہے کہ اللہ کو انسانی نگاہوں کی محدودیت میں لانے کا مطالبہ شان الٰہی میں گستاخی تھا، جس کی فوری سزا انہیں مل گئی اور ان پر بجلی ٹوٹ پڑی۔ اگر قیامت کے دن اللہ کا دکھائی دینا ممکن ہوتا تو دنیا میں اولوالعزم پیغمبروں کو نظر آنا چاہیے۔ کیونکہ آخرت میں لوگ پیغمبروں سے زیادہ شفافیت کے مالک نہ ہوں گے۔

ان کے پاس حضرت موسیٰ (ع) کے ذریعے واضح معجزات آنے کے باوجودیہ لوگ گوسالہ پرستی جیسی ضلالت کی طرف چلے گئے، لہٰذا قرآن جیسا معجزہ آنے کے باوجود اس قسم کا مطالبہ کرنا یہودی مزاج کے لیے کوئی نئی بات نہیں ہے۔ یہ ان کی پرانی عادت ہے۔

فَعَفَوۡنَا عَنۡ ذٰلِکَ : گوسالہ پرستی پر جو دنیاوی سزا دی جا رہی تھی وہ معاف ہو گئی۔ سزا یہ تھی: فَاقْتُلُوْٓا اَنْفُسَكُمْ (2: 54)۔ گوسالہ پرستوں کو قتل کرو۔


وَ رَفَعۡنَا فَوۡقَہُمُ الطُّوۡرَ بِمِیۡثَاقِہِمۡ وَ قُلۡنَا لَہُمُ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا وَّ قُلۡنَا لَہُمۡ لَا تَعۡدُوۡا فِی السَّبۡتِ وَ اَخَذۡنَا مِنۡہُمۡ مِّیۡثَاقًا غَلِیۡظًا﴿۱۵۴﴾

۱۵۴۔اور ہم نے ان کے میثاق کے مطابق کوہ طور کو ان کے اوپر اٹھایا اور ہم نے انہیں حکم دیا : دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ اور ہم نے ان سے کہا: ہفتہ کے دن تجاوز نہ کرو اور (اس طرح) ہم نے ان سے ایک پختہ عہد لیا۔


فَبِمَا نَقۡضِہِمۡ مِّیۡثَاقَہُمۡ وَ کُفۡرِہِمۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ قَتۡلِہِمُ الۡاَنۡۢبِیَآءَ بِغَیۡرِ حَقٍّ وَّ قَوۡلِہِمۡ قُلُوۡبُنَا غُلۡفٌ ؕ بَلۡ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَیۡہَا بِکُفۡرِہِمۡ فَلَا یُؤۡمِنُوۡنَ اِلَّا قَلِیۡلًا﴿۱۵۵﴾۪

۱۵۵۔ پھر ان کے اپنے میثاق کی خلاف ورزی، اللہ کی آیات کا انکار کرنے اور انبیاء کو ناحق قتل کرنے اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہمارے دل غلاف میں محفوظ ہیں (اللہ نے انہیں سزا دی، ان کے دل غلاف میں محفوظ نہیں) بلکہ ان کے کفر کے سبب اللہ نے ان پر مہر لگا دی ہے اسی وجہ سے یہ کم ہی ایمان لاتے ہیں۔


وَّ بِکُفۡرِہِمۡ وَ قَوۡلِہِمۡ عَلٰی مَرۡیَمَ بُہۡتَانًا عَظِیۡمًا﴿۱۵۶﴾ۙ

۱۵۶۔ نیز ان کے کفر کے سبب اور مریم پر عظیم بہتان باندھنے کے سبب۔


وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا﴿۱۵۷﴾ۙ

۱۵۷۔ اور ان کے اس قول کے سبب کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح بن مریم کو قتل کیا ہے، جبکہ فی الحقیقت انہوں نے نہ انہیں قتل کیا اور نہ سولی چڑھایا بلکہ( دوسرے کو) ان کے لیے شبیہ بنا دیا گیا تھا اور جن لوگوں نے اس میں اختلاف کیا وہ اس میں شک میں مبتلا ہیں،ظن کی پیروی کے علاوہ انہیں اس بارے میں کوئی علم نہیں اور انہوں نے یقینا مسیح کو قتل نہیں کیا۔


بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَزِیۡزًا حَکِیۡمًا﴿۱۵۸﴾

۱۵۸۔ بلکہ اللہ نے انہیں اپنی طرف اٹھایا اور بے شک اللہ بڑا غالب آنے والا، حکمت والا ہے۔

158۔موجودہ مسیحیت کا بنیادی عقیدہ ’’ نظریۂ کفارہ‘‘ ہے کہ ابن اللہ نے یا خود اللہ نے سولی چڑھ کر اپنی جان کا نذرانہ پیش کر کے سب گنہگاروں کے گناہوں کا کفارہ ادا کر دیا۔ یعنی بجائے اس کے کہ گناہ کا ارتکا ب کرنے والے کفارہ ادا کرتے خود اللہ نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر کفارہ ادا کیا (البتہ اپنے بیٹے کی شکل میں آ کر جو نظریہ وحدت در تثلیث کے تحت خود اللہ ہے) یہودی اور مسیحی دونوں اتفاق کرتے ہیں کہ مسیح (ع) قتل ہو گئے۔ اسلام کا مؤقف یہ ہے کہ مسیح (ع) قتل نہیں ہوئے: ٭خود مسیحیوں کے ایک قدیم فرقے ’’ سلیدیہ‘‘ کا بھی یہی نظریہ ہے کہ یسوع کی جگہ اشتباہاً ’’ شمعون کرینی ‘‘ کو سولی چڑھا دیا گیا اور حضرت عیسیٰ(ع) کو جسم و روح سمیت آسمان پر اٹھالیاگیا۔٭ حضرت مسیح (ع) کو سزائے موت سلطنت روم کی عدالت سے ملی۔رومی اجنبی سپاہی مسیح (ع) کو پہچانتے نہیں تھے، اس لیے ایک منافق ’’ یہودا ‘‘ کا سہارا لیا گیا۔(انجیل 18:3) جب یہ پلٹن اور پیادے وہاں پہنچے تو یسوع نے ان سے پھر پوچھا: تم کسے ڈھونڈ رہے ہو؟ وہ بولے: یسوع ناصری کو۔ یسوع نے جواب دیا: میں تم سے کہ چکا ہوں کہ میں ہی یسوع ہوں ۔ اس عبارت سے معلوم ہوتا ہے کہ رومی سپاہیوں کو مسیح(ع) کی شناخت نہیں تھی۔ ٭انجیل برنابا میں حضرت عیسیٰ (ع) کو آسمان کی طرف زندہ اٹھانے کا واقعہ پوری صراحت کے ساتھ درج ہے۔


وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا﴿۱۵۹﴾ۚ

۱۵۹۔ اور اہل کتاب میں کوئی ایسا نہیں جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ (مسیح) ان پر گواہ ہوں گے۔

159۔ یعنی حضرت عیسی (ع) کی موت سے پہلے یہود بھی ان کی نبوت پر ایمان لائیں گے اور نصاریٰ بھی ان کے نبی ہونے، ابن نہ ہونے پر ایمان لائیں گے۔ جو اہل کتاب نزول عیسیٰ (ع) سے پہلے مر جائیں گے، وہ مرنے کے بعد ایمان لائیں گے اور نزول عیسیٰ (ع) کے وقت کے لوگ بھی ان پر ایمان لائیں گے۔ صحیح بخاری باب نزول عیسیٰ میں آیا ہے: کیف انتم اذا نزل بن مریم فیکم و امامکم منکم۔ تمہارا اس وقت کیا حال ہو گا جب ابن مریم نزول کریں گے تو تمہارا امام تم میں سے ہو گا۔ امام مہدی علیہ السلام کی طرف اشارہ ہے۔


فَبِظُلۡمٍ مِّنَ الَّذِیۡنَ ہَادُوۡا حَرَّمۡنَا عَلَیۡہِمۡ طَیِّبٰتٍ اُحِلَّتۡ لَہُمۡ وَ بِصَدِّہِمۡ عَنۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ کَثِیۡرًا﴿۱۶۰﴾ۙ

۱۶۰۔یہود کے ظلم اور راہ خدا سے بہت روکنے کے سبب بہت سی پاک چیزیں جو (پہلے) ان پر حلال تھیں ہم نے ان پر حرام کر دیں۔


تبصرے
Loading...