سوره نساء آيات 101 – 120

سوره نساء آيات 101 – 120

وَ اِذَا ضَرَبۡتُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَلَیۡسَ عَلَیۡکُمۡ جُنَاحٌ اَنۡ تَقۡصُرُوۡا مِنَ الصَّلٰوۃِ ٭ۖ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَنۡ یَّفۡتِنَکُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا ؕ اِنَّ الۡکٰفِرِیۡنَ کَانُوۡا لَکُمۡ عَدُوًّا مُّبِیۡنًا﴿۱۰۱﴾

۱۰۱۔اور جب تم زمین میں سفر کے لیے نکلو تو اگر تمہیں کافروں کے حملے کا خوف ہو تو تمہارے لیے نماز قصر پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، یہ کافر لوگ یقینا تمہارے صریح دشمن ہیں۔

101۔ فقہ جعفری کے نزدیک سفر میں نماز کو قصر پڑھنا واجب ہے بشرطیکہ سفر حرام نہ ہو، مسافت 44 کلو میٹر پوری ہو اور ایک جگہ دس دن قیام کرنے کا قصد نہ ہو۔ حدیث میں قصر کے بارے میں آیا ہے: صدقۃ تصدق اللّٰہ بھا فاقبلوا صدقۃ ۔ یہ اللہ کا تحفہ ہے اسے قبول کرو۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے: فصار التقصیر فی السفر واجباً کوجوب التمام فی الحضر ۔ (الفقیہ 1: 434 باب الصلوۃ فی السفر) سفر میں قصر پڑھنا اسی طرح واجب ہوا جس طرح غیر سفر میں پوری نماز پڑھنا واجب ہے۔


وَ اِذَا کُنۡتَ فِیۡہِمۡ فَاَقَمۡتَ لَہُمُ الصَّلٰوۃَ فَلۡتَقُمۡ طَآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ مَّعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡۤا اَسۡلِحَتَہُمۡ ۟ فَاِذَا سَجَدُوۡا فَلۡیَکُوۡنُوۡا مِنۡ وَّرَآئِکُمۡ ۪ وَ لۡتَاۡتِ طَآئِفَۃٌ اُخۡرٰی لَمۡ یُصَلُّوۡا فَلۡیُصَلُّوۡا مَعَکَ وَ لۡیَاۡخُذُوۡا حِذۡرَہُمۡ وَ اَسۡلِحَتَہُمۡ ۚ وَدَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا لَوۡ تَغۡفُلُوۡنَ عَنۡ اَسۡلِحَتِکُمۡ وَ اَمۡتِعَتِکُمۡ فَیَمِیۡلُوۡنَ عَلَیۡکُمۡ مَّیۡلَۃً وَّاحِدَۃً ؕ وَ لَا جُنَاحَ عَلَیۡکُمۡ اِنۡ کَانَ بِکُمۡ اَذًی مِّنۡ مَّطَرٍ اَوۡ کُنۡتُمۡ مَّرۡضٰۤی اَنۡ تَضَعُوۡۤا اَسۡلِحَتَکُمۡ ۚ وَ خُذُوۡا حِذۡرَکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلۡکٰفِرِیۡنَ عَذَابًا مُّہِیۡنًا﴿۱۰۲﴾

۱۰۲۔ اور (اے رسول) جب آپ خود ان کے درمیان موجود ہوں اور آپ خود ان کے لیے نماز قائم کریں تو ان میں سے ایک گروہ آپ کے ساتھ مسلح ہو کر نماز پڑھے پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو ان کو تمہارے پیچھے ہونا چاہیے اور دوسرا گروہ جس نے نماز نہیں پڑھی ان کی جگہ آئے اور آپ کے ساتھ نماز پڑھے اور اپنے بچاؤ کا سامان اور اسلحہ لیے رہیں، کیونکہ کفار اس تاک میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامان سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یکبارگی حملہ کر دیں اور اگر تم بارش کی وجہ سے تکلیف میں ہو یا تم بیمار ہو تو اسلحہ اتار رکھنے میں کوئی مضائقہ نہیں، مگر اپنے بچاؤ کا سامان لیے رہو،بے شک اللہ نے تو کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔

102۔ نماز خوف کا طریقہ یہ ہے کہ لشکر کا ایک حصہ امام کی اقتداء میں ایک رکعت پڑھے اور دوسری رکعت میں انفرادی طور پر پڑھ کر نماز پوری کرے اور جنگ کا محاذ سنبھالے اور امام دوسری رکعت کو اس قدر طول دے کہ لشکر کا دوسرا حصہ اپنی نماز کی پہلی رکعت امام کی دوسری رکعت کے ساتھ پڑھ سکے۔ امام دوسری رکعت میں سلام پھیر دے تو مقتدی اپنی دوسری رکعت انفرادی طور پر بجا لائے۔ امام شافعی اور امام مالک نے تھوڑے اختلاف کے ساتھ یہی طریقہ اختیار کیا ہے۔


فَاِذَا قَضَیۡتُمُ الصَّلٰوۃَ فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ قِیٰمًا وَّ قُعُوۡدًا وَّ عَلٰی جُنُوۡبِکُمۡ ۚ فَاِذَا اطۡمَاۡنَنۡتُمۡ فَاَقِیۡمُوا الصَّلٰوۃَ ۚ اِنَّ الصَّلٰوۃَ کَانَتۡ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا﴿۱۰۳﴾

۱۰۳۔ پھر جب تم نماز پڑھ چکو تو کھڑے، بیٹھے اور لیٹے (ہر حال میں) اللہ کو یاد کرو، پھر جب اطمینان حاصل ہو جائے تو (معمول کی) نماز قائم کرو، بے شک وقت کی پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا مومنین پر فرض ہے۔

103۔ انسان تین حالتوں سے خالی نہیں رہ سکتا کھڑے، بیٹھے اور لیٹے ہوئے۔ ان حالات میں ذکر خدا کا مطلب یہ ہوا کہ ذکر خدا ہمیشہ اور ہر حالت میں ہونا چاہیے۔ حضرت علی علیہ السلام مؤمن کی علامات میں فرماتے ہیں: قلبہ بذکر اللّٰہ معمور اس کا دل ذکر خدا سے سرشار رہتا ہے۔ (بحار الانوار 75: 73)

کِتٰبًا مَّوۡقُوۡتًا میں دو چیزوں کا ذکر ہے: ایک نماز، دوسرے اس کو وقت پر پڑھنا۔ اگر کسی وجہ سے وقت پر نماز نہیں پڑھی جا سکی تو نماز بطور قضا بھی بہرحال پڑھنی ہے۔


وَ لَا تَہِنُوۡا فِی ابۡتِغَآءِ الۡقَوۡمِ ؕ اِنۡ تَکُوۡنُوۡا تَاۡلَمُوۡنَ فَاِنَّہُمۡ یَاۡلَمُوۡنَ کَمَا تَاۡلَمُوۡنَ ۚ وَ تَرۡجُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرۡجُوۡنَ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۰۴﴾٪

۱۰۴۔ اور تم ان کافروں کے تعاقب میں تساہل سے کام نہ لینا اگر تمہیں کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو انہیں بھی ایسی ہی تکلیف پہنچتی ہے جیسے تمہیں تکلیف پہنچتی ہے اور اللہ سے جیسی امید تم رکھتے ہو ویسی امید وہ نہیں رکھتے اور اللہ جاننے والا، حکمت والا ہے۔


اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِتَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ بِمَاۤ اَرٰىکَ اللّٰہُ ؕ وَ لَا تَکُنۡ لِّلۡخَآئِنِیۡنَ خَصِیۡمًا﴿۱۰۵﴾ۙ

۱۰۵۔(اے رسول)ہم نے یہ کتاب حق کے ساتھ آپ کی طرف نازل کی ہے تاکہ جیسے اللہ نے آپ کو بتایا ہے اسی کے مطابق لوگوں میں فیصلے کریں اور خیانت کاروں کے طرفدار نہ بنیں۔

105۔ یہ آیت اور بعد کی چند آیات اسلام کے عادلانہ مؤقف کے بارے میں ہیں۔ واقعہ یہ پیش آیا کہ انصار کے ایک فرد نے چوری کا ارتکاب کیا اور تحقیقات کے موقع پر اس مسروقہ مال کو ایک یہودی کے ہاں رکھ دیا اور یہودی پر چوری کا الزام عائدکیا۔ چنانچہ ظاہری علامات کے تحت یہ تاثر قائم ہو رہا تھا کہ چوری یہودی نے کی ہے۔ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی اور یہودی کو بری الذمہ اور انصار کے فرد کو جو مسلمان تھا ملزم قرار دیا گیا ۔

اسلام کے نزدیک عدل و انصاف کرنے کے لیے یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فریقین کا تعلق کس مذہب سے ہے۔ عدل و انصاف خالصتاً انسانی مسئلہ ہے۔

ان آیات میں سرزنش کے لہجے میں اگرچہ روئے سخن رسول اللہؐ کی طرف ہے مگر قرآن کا اسلوب کلام یہ ہے کہ خطاب اپنے حبیب سے ہوتا ہے اور دوسروں کو سنانامقصود ہوتا ہے۔ چنانچہ محاورہ ہے:سر دلبران در حدیث دیگران۔ اس آیت سے یہ استدلال درست نہیں ہے کہ رسول اللہؐ کو نص صریح نہ ہونے کی صورت میں اجتہاد کرنے کا حق حاصل ہے اور کبھی ان سے اجتہادی غلطی ہو سکتی ہے۔ (معارف القرآن 2:542، آمدی : احکام القرآن) کیونکہ یہ بات خود قرآن کی نص صریح وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْہَوٰى (53: 3) کے خلاف ہے۔


وَّ اسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۰۶﴾ۚ

۱۰۶۔اور اللہ سے طلب مغفرت کریں یقینا اللہ بڑا درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔


وَ لَا تُجَادِلۡ عَنِ الَّذِیۡنَ یَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ خَوَّانًا اَثِیۡمًا﴿۱۰۷﴾ۚۙ

۱۰۷۔ اور جو لوگ اپنی ذات سے خیانت کرتے ہیں، آپ ان کی طرف سے ان کا دفاع نہ کریں، بے شک اللہ خیانت کار اور گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

107۔ مجادلۃ: جدال ۔ مناظرہ کرنا۔ ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کرنا۔مجادلہ حق پر مبنی ہو سکتا ہے۔

یہاں خطاب آنحضرت (ص) سے ہے اور ان لوگوں کوتنبیہ کرنا مقصود ہے جو اس جرم کا ارتکاب کرتے ہیں ـ۔ یہ آیت سوفیصد ان پیشہ ور وکلاء کی ہدایت کے لیے ہے جو مجرموں اور خیانت کاروں کی طرف سے چند روپیوں کے عوض مقدمہ لڑتے ہیں۔


یَّسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ النَّاسِ وَ لَا یَسۡتَخۡفُوۡنَ مِنَ اللّٰہِ وَ ہُوَ مَعَہُمۡ اِذۡ یُبَیِّتُوۡنَ مَا لَا یَرۡضٰی مِنَ الۡقَوۡلِ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا یَعۡمَلُوۡنَ مُحِیۡطًا﴿۱۰۸﴾

۱۰۸۔ یہ لوگ(اپنی حرکتوں کو) لوگوں سے تو چھپا سکتے ہیں لیکن اللہ سے نہیں چھپا سکتے اور اللہ تو اس وقت بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے جب یہ لوگ اللہ کی ناپسندیدہ باتوں میں رات کو تدبیریں سوچتے ہیں اور اللہ ان کی تمام حرکات پر احاطہ رکھتا ہے۔

108۔ استخفاء یعنی پوشیدہ رکھنا اس صورت میں صادق آتاہے جب کسی دوسرے انسان کے خلاف کوئی سازش کی جا رہی ہو اور اسے لوگوں سے پوشیدہ رکھا جائے۔ کسی چیزکو لوگوں سے تو پوشیدہ رکھا جا سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ سے کسی چیز کو پوشیدہ رکھنا کسی کے بس میں نہیں، اگر چہ وہ انسانوں سے پوشیدہ رکھنے کے لیے رات بھر تدبیریں سوچتے رہیں۔

گناہ کرتے وقت انسان اگر یہ خیال ذہن میں زندہ رکھے کہ میں اس جرم کا ارتکاب اس منصف اور اس قاضی کے سامنے کر رہا ہوں جس کے سامنے کل مجھے پیش ہونا ہے توا نسان کبھی گناہ نہیں کرے گا۔


ہٰۤاَنۡتُمۡ ہٰۤؤُلَآءِ جٰدَلۡتُمۡ عَنۡہُمۡ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۟ فَمَنۡ یُّجَادِلُ اللّٰہَ عَنۡہُمۡ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اَمۡ مَّنۡ یَّکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ وَکِیۡلًا﴿۱۰۹﴾

۱۰۹۔ دیکھو! تم نے دنیاوی زندگی میں تو ان کا دفاع کیا مگر بروز قیامت اللہ سے ان کا دفاع کون کرے گا یا ان کا وکیل کون ہو گا؟


وَ مَنۡ یَّعۡمَلۡ سُوۡٓءًا اَوۡ یَظۡلِمۡ نَفۡسَہٗ ثُمَّ یَسۡتَغۡفِرِ اللّٰہَ یَجِدِ اللّٰہَ غَفُوۡرًا رَّحِیۡمًا﴿۱۱۰﴾

۱۱۰۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرے یا اپنے نفس پر ظلم کرے پھر اللہ سے مغفرت طلب کرے تو وہ اللہ کو درگزر کرنے والا، رحم کرنے والا پائے گا۔

110۔ راہ حق سے بھٹکنے والوں کے لیے باب رحمت کھلا ہے۔ گناہوں کا ارتکاب کرنے والوں اور اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں کے لیے وسیلۂ استغفار ہر وقت موجود ہے۔


وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ اِثۡمًا فَاِنَّمَا یَکۡسِبُہٗ عَلٰی نَفۡسِہٖ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۱۱﴾

۱۱۱۔ اور جو برائی کا ارتکاب کرتا ہے وہ اپنے لیے وبال کسب کرتا ہے اور اللہ تو بڑا علم والا، حکمت والا ہے۔


وَ مَنۡ یَّکۡسِبۡ خَطِیۡٓىـَٔۃً اَوۡ اِثۡمًا ثُمَّ یَرۡمِ بِہٖ بَرِیۡٓــًٔا فَقَدِ احۡتَمَلَ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿۱۱۲﴾٪

۱۱۲۔ اور جس نے خطا یا گناہ کر کے اسے کسی بے گناہ کے سر تھوپ دیا تو یقینا اس نے ایک بڑے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھایا۔

112۔ خواہ وہ بے گناہ جس کے سر پر گناہ تھوپ دیا جائے یہودی ہی کیوں نہ ہو۔ یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام انسانی اقدار کے حوالے سے تمام انسانوں کو مساوی حقوق دیتا ہے اور تمام انسان اسلام کے نزدیک محترم ہیں بشرطیکہ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کسی جارحیت میں ملوث نہ ہوں۔

اس آیت کا سبب نزول گرچہ خاص واقعہ ہے لیکن اس کا اطلاق عام اور کلی ہے جو تمام لوگوں کے لیے ہے، لہٰذا اس آیت سے بہتان کے عظیم گناہ ہونے کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں بہتان کو گناہ تصور ہی نہیں کیا جاتا، خصوصاً سیاست میں تو بہتان کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔


وَ لَوۡ لَا فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ وَ رَحۡمَتُہٗ لَہَمَّتۡ طَّآئِفَۃٌ مِّنۡہُمۡ اَنۡ یُّضِلُّوۡکَ ؕ وَ مَا یُضِلُّوۡنَ اِلَّاۤ اَنۡفُسَہُمۡ وَ مَا یَضُرُّوۡنَکَ مِنۡ شَیۡءٍ ؕ وَ اَنۡزَلَ اللّٰہُ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ وَ الۡحِکۡمَۃَ وَ عَلَّمَکَ مَا لَمۡ تَکُنۡ تَعۡلَمُ ؕ وَ کَانَ فَضۡلُ اللّٰہِ عَلَیۡکَ عَظِیۡمًا﴿۱۱۳﴾

۱۱۳۔ اور (اے رسول) اگر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت آپ کے شامل حال نہ ہوتی تو ان میں سے ایک گروہ نے تو آپ کو غلطی میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا تھا حالانکہ وہ خود کو ہی غلطی میں ڈالتے ہیں اور وہ آپ کا تو کوئی نقصان نہیں کر سکتے اور اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی اور آپ کو ان باتوں کی تعلیم دی جنہیں آپ نہیں جانتے تھے اور آپ پر اللہ کا بڑا فضل ہے۔

113۔ وَ عَلَّمَکَ : اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ کی طرف سے کتاب و حکمت کے علاوہ بھی تعلیم کے لیے رسول اللہ (ص) کے پاس خصوصی ذرائع موجود تھے، جن کی وجہ سے رسول خدا (ص) علم و معرفت اور کشف حقائق کی اس منزل پر فائز تھے جن کے بعد خلاف عصمت کسی غلطی کے سرزد ہونے کا امکان نہیں رہتا۔ چنانچہ علم و یقین کا نتیجہ عصمت ہے۔ البتہ علم و یقین حاصل ہونے کے بعد عصمت قائم رکھنے پر مجبور بھی نہیں ہوتے، بلکہ یہاں عزم و ارادہ، نفس کی پاکیزگی اور محبت الٰہی کی وجہ سے اپنے اختیار سے عصمت پر قائم رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے معصوم کی عصمت و فضیلت ثابت ہوتی ہے۔


لَا خَیۡرَ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنۡ نَّجۡوٰىہُمۡ اِلَّا مَنۡ اَمَرَ بِصَدَقَۃٍ اَوۡ مَعۡرُوۡفٍ اَوۡ اِصۡلَاحٍۭ بَیۡنَ النَّاسِ ؕ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ ابۡتِغَآءَ مَرۡضَاتِ اللّٰہِ فَسَوۡفَ نُؤۡتِیۡـہِ اَجۡرًا عَظِیۡمًا﴿۱۱۴﴾

۱۱۴۔ ان لوگوں کی بیشتر سرگوشیوں میں کوئی خیر نہیں ہے مگر یہ کہ کوئی صدقہ، نیکی یا لوگوں میں اصلاح کی تلقین کرے اور جو شخص اللہ کی خوشنودی کے لیے ایسا کرے تو اسے عنقریب ہم اجر عظیم عطا کریں گے۔

114۔ جو کام اللہ کی خوشنودی کے لیے انجام دیا جائے اس کا ثواب ہے۔ یعنی عمل کا نیک ہونا کافی نہیں ہے۔عمل کرنے والے کا نیک ہونا بھی ضروری ہے۔ ایک چور مال حرام سے صدقہ دیتا ہے اور ایک ڈاکو رفاہی کام کرتا ہے تو ان اعمال کو نیک تصور نہیں کیا جا سکتا ہے۔ یہا ں سے اس سوال کا، جو اکثر لوگ اٹھاتے ہیں، جواب بھی مل جاتا ہے کہ کیا ان سائنسدانوں کو کوئی ثواب ملے گا جنہوں نے انسانیت کے لیے بہت سی خدمات انجام دی ہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگروہ انکار خدا کے جرم میں مبتلا ہیں تو ان کی نیکی کا کوئی ثواب نہیں ہو گا۔


وَ مَنۡ یُّشَاقِقِ الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُ الۡہُدٰی وَ یَتَّبِعۡ غَیۡرَ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ نُوَلِّہٖ مَا تَوَلّٰی وَ نُصۡلِہٖ جَہَنَّمَ ؕ وَ سَآءَتۡ مَصِیۡرًا﴿۱۱۵﴾٪

۱۱۵۔ اور جو شخص ہدایت کے واضح ہونے کے بعد رسول کی مخالفت کرے اور مومنین کا راستہ چھوڑ کر کسی اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور ہم اسے جہنم میں جھلسا دیں گے جو بدترین ٹھکانا ہے۔

115۔ سَبِیۡلِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ سے کچھ حضرات نے حجیت اجماع ثابت کرنے کی کوشش کی ہے جو کسی صورت بھی درست نہیں ہے، کیونکہ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عدم مخالفت اور اتباع میں مؤمنین نے جو روش بنائی ہے اس سے ہٹ کر کوئی اور روش بنانے والا جہنمی ہے جب کہ اجماع خود مؤمنین کی اپنی روش سے متعلق ہے۔ صاحب تفسیر المنار اس جگہ فرماتے ہیں: آیت عصرِ رسولؐ میں مؤمنین کے راستے کے بارے میں بحث کرتی ہے، جبکہ اجماع عصرِ رسالتؐ کے بعد کسی مسئلے پر امت کے مجتہدین کے اتفاق کا نام ہے۔

نُصۡلِہٖ : اَلصَّلْوُ ۔ آگ میں جھلسانے کو کہتے ہیں۔ صلی اللحم فی النار کے معنی القاہ للاحراق آگ میں تپانے کے معنوں میں ہیں ۔ اکثر نے اس کا ترجمہ داخل کرنے سے کیا ہے جو اشتباہ ہے۔


اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ؕ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدۡ ضَلَّ ضَلٰلًۢا بَعِیۡدًا﴿۱۱۶﴾

۱۱۶۔ اللہ صرف شرک سے درگزر نہیں کرتا اس کے علاوہ جس کو چاہے معاف کر دیتا ہے اور جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرایا وہ گمراہی میں دور تک چلا گیا۔


اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖۤ اِلَّاۤ اِنٰثًا ۚ وَ اِنۡ یَّدۡعُوۡنَ اِلَّا شَیۡطٰنًا مَّرِیۡدًا﴿۱۱۷﴾ۙ

۱۱۷۔ وہ اللہ کے سوا صرف مؤنث صفت چیزوں کو پکارتے ہیں اور وہ تو بس باغی شیطان ہی کو پکارتے ہیں۔

117۔ تمام حیوانات میں مادہ بہ نسبت نر کے کمزور ہوتی ہے اس لیے کمزور کو اُناث کہتے ہیں۔ چنانچہ کمزور لوہے کو حدید انیث کہتے ہیں۔اس اعتبار سے اس آیت کا یہ مفہوم بنتا ہے کہ یہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر دوسری کمزور، بے طاقت چیزوں کو پکارتے ہیں نیز مشرکین اپنے معبود فرشتوں کو لڑکیوں کے نام سے موسوم کرتے تھے: لَيُسَمُّوْنَ الْمَلٰۗىِٕكَۃَ تَسْمِيَۃَ الْاُنْثٰى ۔ (نجم: 27)


لَّعَنَہُ اللّٰہُ ۘ وَ قَالَ لَاَتَّخِذَنَّ مِنۡ عِبَادِکَ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا﴿۱۱۸﴾ۙ

۱۱۸۔ اللہ نے اس پر لعنت کی اور اس نے اللہ سے کہا: میں تیرے بندوں میں سے ایک مقررہ حصہ ضرور لے کر رہوں گا۔

118۔ شیطان بندوں سے تمام چیزوں میں حصہ لیتا ہے۔ مال و اولاد میں، حتیٰ عبادت میں۔ جس قدر خلوص کم ہو گا، اسی مقدار میں شیطان کا حصہ زیادہ ہو گا ۔


وَّ لَاُضِلَّنَّہُمۡ وَ لَاُمَنِّیَنَّہُمۡ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُبَتِّکُنَّ اٰذَانَ الۡاَنۡعَامِ وَ لَاٰمُرَنَّہُمۡ فَلَیُغَیِّرُنَّ خَلۡقَ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یَّتَّخِذِ الشَّیۡطٰنَ وَلِیًّا مِّنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ فَقَدۡ خَسِرَ خُسۡرَانًا مُّبِیۡنًا ﴿۱۱۹﴾ؕ

۱۱۹۔ اور میں انہیں ضرور گمراہ کروں گا اور انہیں آرزوؤں میں ضرور مبتلا رکھوں گا اور انہیں حکم دوں گا تو وہ ضرور جانوروں کے کان پھاڑیں گے اور میں انہیں حکم دوں گا تو وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت میں ضرور رد و بدل کریں گے اور جس نے اللہ کے سوا شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا پس یقینا وہ صریح نقصان میں رہے گا۔

119۔ اس آیت میں شیطان کے گمراہ کن حربوں کا ذکر ہے: 1۔ شیطان بندوں کو آرزوؤں میں الجھا کر یاد خدا سے غافل کر دیتاہے۔2۔ وہ توہمات میں ڈال کر اللہ کی انسان ساز دستور حیات شریعت سے لوگوں کو دور کرتاہے کہ اونٹنی جب پانچ یا دس بچے جنم لیتی تو اس کے کان پھاڑ کر دیوتا کے نام کر دیتے اور اس سے کام لینے کو حرام سمجھتے تھے۔ 3۔ وہ اللہ کی بنائی ہوئی صورت اور خدائی ساخت میں تبدیلی کر دیتا ہے۔ اس آیت سے کلوننگ کی حرمت پر استدلال کیا جاتا ہے: کلوننگ خلق اللہ میں تغیر ہے۔ کیونکہ اللہ تو جرثومۂ پدر اور تخم مادر نُّطْفَۃٍ اَمْشَاجٍ (مخلوط نطفہ) سے انسان کی تخلیق فرماتا ہے۔ جبکہ کلوننگ میں ماں باپ کے اشتراک کے بغیر یکطرفہ طور پر کسی ایک کے سیل سے انسانی تخلیق کا عمل انجام پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں کلوننگ میں جنسی سیل (cell) کی جگہ جسمانی سیل سے کام لیا جاتا ہے۔ کیا یہ عمل جائز ہے یا نہیں؟ تفصیل کے لیے ہماری تفسیر الکوثر جلد دوم صفحہ 372 کا مطالعہ کیجیے۔


یَعِدُہُمۡ وَ یُمَنِّیۡہِمۡ ؕ وَ مَا یَعِدُہُمُ الشَّیۡطٰنُ اِلَّا غُرُوۡرًا﴿۱۲۰﴾

۱۲۰۔وہ انہیں وعدوں اور امیدوں میں الجھاتا ہے اور ان کے ساتھ شیطان کے وعدے بس فریب پر مبنی ہوتے ہیں۔


تبصرے
Loading...