سوره نساء آيات 1 – 20

سوره نساء آيات 1 – 20

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ

بنام خدائے رحمن رحیم


یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اتَّقُوۡا رَبَّکُمُ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا وَ بَثَّ مِنۡہُمَا رِجَالًا کَثِیۡرًا وَّ نِسَآءً ۚ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیۡ تَسَآءَلُوۡنَ بِہٖ وَ الۡاَرۡحَامَ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیۡکُمۡ رَقِیۡبًا﴿۱﴾

۱۔ اے لوگو!اپنے رب سے ڈرو جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد و عورت (روئے زمین پر) پھیلا دیے اور اس اللہ کا خوف کرو جس کا نام لے کر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہو اور قرابتداروں کے بارے میں بھی (پرہیز کرو)، بے شک تم پر اللہ نگران ہے۔

خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ : تمام انسانوں کاتعلق ایک ہی اصل اور ایک ہی حقیقت سے ہے۔ یہ تصور ان تمام المیوں کا حل پیش کرتا ہے جو طبقاتی، نژادی، علاقائی، لسانی، اور رنگ و نسل کی تفریق سے انسانیت کو درپیش ہیں۔


وَ اٰتُوا الۡیَتٰمٰۤی اَمۡوَالَہُمۡ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الۡخَبِیۡثَ بِالطَّیِّبِ ۪ وَ لَا تَاۡکُلُوۡۤا اَمۡوَالَہُمۡ اِلٰۤی اَمۡوَالِکُمۡ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حُوۡبًا کَبِیۡرًا﴿۲﴾

۲۔ اور یتیموں کا مال ان کے حوالے کرو، پاکیزہ مال کو برے مال سے نہ بدلو اور ان کا مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھایا کرو، ایسا کرنا یقینا بہت بڑا گناہ ہے۔


وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تُقۡسِطُوۡا فِی الۡیَتٰمٰی فَانۡکِحُوۡا مَا طَابَ لَکُمۡ مِّنَ النِّسَآءِ مَثۡنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ ۚ فَاِنۡ خِفۡتُمۡ اَلَّا تَعۡدِلُوۡا فَوَاحِدَۃً اَوۡ مَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ ذٰلِکَ اَدۡنٰۤی اَلَّا تَعُوۡلُوۡا ؕ﴿۳﴾

۳۔ اور اگر تم لوگ اس بات سے خائف ہو کہ یتیم (لڑکیوں) کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو جو دوسری عورتیں تمہیں پسند آئیں ان میں سے دو دو، تین تین یا چار چار سے نکاح کر لو، اگر تمہیں خوف ہو کہ ان میں عدل نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت یا لونڈی جس کے تم مالک ہو (کافی ہے)، یہ ناانصافی سے بچنے کی قریب ترین صورت ہے۔

3۔ خواہ مرد ہو یا عورت، ازدواجی زندگی ایک انسانی حق ہے۔ لیکن عورت اس حق کی زیادہ محتاج ہے۔ کیونکہ ازدواجی زندگی میں مرد کے مادی اور جنسی تقاضے زیادہ اور انسانی تقاضے کم ہوتے ہیں۔ جب کہ عورت کے انسانی تقاضے زیادہ اور مادی تقاضے کم ہوتے ہیں۔ مرد ازدواجی زندگی سے محروم ہونے کی صورت میں بھی اپنے نصف تقاضے ناجائز ذرائع سے پورے کر سکتا ہے، جب کہ عورت ازدواجی زندگی سے محروم ہونے کی صورت میں اپنے فطری اور انسانی تقاضے ناجائز ذرائع سے پورے نہیں کر سکتی۔ لہٰذا شوہر داری کرنا، مرد کے زیر سایہ رہنا، جائز اور قانونی بچوں کی ماں بننا اور ایک عائلی نظام سے منسلک رہنا، عورت کے انسانی حقوق میں سے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اعداد و شمار کے مطابق اگرچہ پیدائش کے اعتبار سے مرد و زن برابر ہوتے ہیں، لیکن جب یہی مرد و زن سن بلوغت کو پہنچتے ہیں، یعنی ازدواجی زندگی کے قابل ہوتے ہیں تو ازدواج کے قابل مردوں سے ازدواج کے قابل عورتیں کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ ازدواج کے قابل عورتوں کو، جو تعداد میں ازداج کے قابل مردوں سے زیادہ ہیں، ان کے انسانی حقوق تعدد زوجات کے علاوہ کس طرح مل سکتے ہیں؟ برٹرینڈرسل یہاں ایک عجیب تجویز دیتا ہے: تعدد زوجات ممنوع ہونے کی صورت میں بہت سی عورتیں بے شوہر اور بے اولاد رہ جاتی ہیں، ان کے لیے تجویز یہ ہے کہ وہ مردوں کو شکار کریں اور اپنے لیے اولاد پیدا کریں۔ اس صورت میں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان بے سرپرست ماؤں اور بے پدر بچوں کی سرپرستی کون کرے گا؟ برٹرنڈررسل تجویز دیتا ہے:حکومت شوہر اور باپ کی جگہ پر کرے۔ (نظام حقوق زن ص 381) دیکھا آپ نے مغربی ذہن، صف اول کا مفکر ایک نہایت ہی اہم انسانی حق کے لیے کیا حل پیش کرتا ہے۔ کیا مغربی انسان، مہر پدر اور امن و سکون شوہر سے آشنا ہی نہیں ہے؟


وَ اٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحۡلَۃً ؕ فَاِنۡ طِبۡنَ لَکُمۡ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنۡہُ نَفۡسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔا﴿۴﴾

۴۔ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو، ہاں! اگر وہ کچھ حصہ اپنی خوشی سے معاف کر دیں تو اسے خوشگواری سے بلا کراہت کھا سکتے ہو۔

نِحۡلَۃً : اس عطیہ کو کہتے ہیں جو قیمت اور معاوضہ نہ ہو۔ حکم یہ ہے کہ مہر کو عطیہ کے طور پر دے دو تاکہ مرد کی طرف سے خواستگاری اور خواہش کی سچائی کی ایک علامت اور دلیل بنے۔ چونکہ عورت عشق و محبت کی منزل پر ہوتی ہے اور مرد خواہش و تمنا کی منزل پر۔


وَ لَا تُؤۡتُوا السُّفَہَآءَ اَمۡوَالَکُمُ الَّتِیۡ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمۡ قِیٰمًا وَّ ارۡزُقُوۡہُمۡ فِیۡہَا وَ اکۡسُوۡہُمۡ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۵﴾

۵۔ اور اپنے وہ مال جن پر اللہ نے تمہارا نظام زندگی قائم کر رکھا ہے بیوقوفوں کے حوالے نہ کرو (البتہ) ان میں سے انہیں کھلاؤ اور پہناؤ اور ان سے اچھے پیرائے میں گفتگو کرو۔


وَ ابۡتَلُوا الۡیَتٰمٰی حَتّٰۤی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ ۚ فَاِنۡ اٰنَسۡتُمۡ مِّنۡہُمۡ رُشۡدًا فَادۡفَعُوۡۤا اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ ۚ وَ لَا تَاۡکُلُوۡہَاۤ اِسۡرَافًا وَّ بِدَارًا اَنۡ یَّکۡبَرُوۡا ؕ وَ مَنۡ کَانَ غَنِیًّا فَلۡیَسۡتَعۡفِفۡ ۚ وَ مَنۡ کَانَ فَقِیۡرًا فَلۡیَاۡکُلۡ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ؕ فَاِذَا دَفَعۡتُمۡ اِلَیۡہِمۡ اَمۡوَالَہُمۡ فَاَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیۡبًا﴿۶﴾

۶۔ اور یتیموں کو آزماتے رہو یہاں تک کہ یہ نکاح کی عمر کو پہنچ جائیں پھر اگر تم ان میں رشد عقلی پاؤ تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور مال کا مطالبہ کریں گے) فضول اور جلدی میں ان کا مال کھا نہ جانا، اگر (یتیم کا سرپرست ) مالدار ہے تو وہ (کچھ کھانے سے) اجتناب کرے اور اگر غریب ہے تو معمول کے مطابق کھا سکتا ہے، پھر جب تم ان کے اموال ان کے حوالے کرو تو ان پر گواہ ٹھہرایا کرو اور حقیقت میں حساب لینے کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔

5۔ 6۔ مال کے بارے میں اسلام کا تصور اس طرح ہے کہ مالک حقیقی اللہ ہے اور پوری امت کو اللہ کی طرف سے اس مال پر نظارت کا حق حاصل ہے۔ وَ اَنۡفِقُوۡا مِمَّا جَعَلَکُمۡ مُّسۡتَخۡلَفِیۡنَ (57: 7) یعنی اس کو انفرادی تصرف میں دینے کے لیے فرد کی صلاحیت دیکھیں گے۔ اگر فرد میںعقل و رشد کے اعتبار سے معقول تصرف کرنے کی صلاحیت نہیں تو اس مال کی پوری امت امین ہے۔ ایسے فرد کے تصرف میں مال نہیں دیا جائے گا۔


لِلرِّجَالِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ ۪ وَ لِلنِّسَآءِ نَصِیۡبٌ مِّمَّا تَرَکَ الۡوَالِدٰنِ وَ الۡاَقۡرَبُوۡنَ مِمَّا قَلَّ مِنۡہُ اَوۡ کَثُرَ ؕ نَصِیۡبًا مَّفۡرُوۡضًا﴿۷﴾

۷۔اور جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں مردوں کا ایک حصہ ہے اور (ایسا ہی) جو مال ماں باپ اور قریبی رشتے دار چھوڑ جائیں اس میں تھوڑا ہو یا بہت عورتوں کا بھی ایک حصہ ہے، یہ حصہ ایک طے شدہ امر ہے ۔

7۔ اس آیت میں درج ذیل قوانین موجود ہیں:

1۔ والدین اور قرابتداروں میں سے کوئی بھی ارث سے محروم نہ رہے گا، جیساکہ دور جاہلیت میں یہ فلسفہ پیش کیا جاتا تھا کہ بچے چونکہ دشمن کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور دفاع میں بھی حصہ نہیں لے سکتے اس لیے چھوٹے بچوں کو ارث نہیں دیا جاتا۔ مگر اسلام بچوںکی دفاعی اعتبار سے قیمت نہیں لگاتا بلکہ ان کے انسانی مقام کے اعتبار سے انہیں وقعت دیتا ہے۔ 2۔ میراث صرف مردوں کا حق نہیں بلکہ میراث میں عورتوں کا بھی حصہ ہے۔ لہٰذا اگر کوئی عورت مرد کے ساتھ ایک ہی طبقے میں ہو تو وہ ارث سے محروم نہیں رہتی ہے۔ مثلاً بیٹے کے ساتھ بیٹی کو بھائی کے ساتھ بہن کو چچا کے ساتھ پھوپھی کو حسب مراتب ارث ملے گا۔ 3۔ میراث کتنی ہی کم ہو، تقسیم ہونی چاہیے۔ مال متروکہ تھوڑا ہونے کی وجہ سے جواز نہیں بنتا کہ اسے تقسیم نہ کیا جائے۔ میراث کے یہ قوانین عرب جاہلیت کے اعتبار سے بالکل غیرمانوس تھے اور قرابتداروں میں سے کئی ایک کو میراث سے محروم رکھنا ان کے ہاں ایک عام سی بات تھی۔ ا سلام نے یکسر ان غیرانسانی قوانین کو بدل دیا۔ 4۔ اس آیہ شریفہ کی عمومیت میں رسالتمآب (ص) کا ترکہ بھی شامل ہے۔


وَ اِذَا حَضَرَ الۡقِسۡمَۃَ اُولُوا الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنُ فَارۡزُقُوۡہُمۡ مِّنۡہُ وَ قُوۡلُوۡا لَہُمۡ قَوۡلًا مَّعۡرُوۡفًا﴿۸﴾

۸۔ اور جب (میراث کی) تقسیم کے وقت قریب ترین رشتے دار یتیم اور مسکین موجود ہوں تو اس (میراث) میں سے انہیں بھی کچھ دیا کرو اور ان سے اچھے انداز میں بات کرو ۔

8۔ یہاں خطاب میت کے ولی اور ورثاء سے ہے کہ میراث کی تقسیم کے وقت جو رشتہ دار اور غریب و مسکین اور یتیم بچے موجود ہوں تو اگرچہ از روئے قانون میراث میں ان کا کوئی حصہ نہیں ہے، لیکن از روئے شفقت تم خود اپنی طرف سے انہیں کچھ دے دیا کرو۔


وَ لۡیَخۡشَ الَّذِیۡنَ لَوۡ تَرَکُوۡا مِنۡ خَلۡفِہِمۡ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوۡا عَلَیۡہِمۡ ۪ فَلۡیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا﴿۹﴾

۹۔ اور لوگوں کو اس بات پر خوف لاحق رہنا چاہیے کہ اگر وہ خود اپنے پیچھے بے بس اولاد چھوڑ جاتے جن کے بارے میں فکر لاحق ہوتی (کہ ان کا کیا بنے گا) تو انہیں چاہیے کہ اللہ سے ڈریں اور سنجیدہ باتیں کریں ۔

وَ لۡیَقُوۡلُوۡا قَوۡلًا سَدِیۡدًا : اور مال و میراث سے محرومی کے ساتھ تم ان سے دل شکنی کی باتیں نہ کیا کرو۔ مال سے محرومیت کی صورت میں معمولی سی بدکلامی دل میں کینہ اور عداوت پیدا کرنے کے لیے کافی ہوتی ہے۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ یَاۡکُلُوۡنَ اَمۡوَالَ الۡیَتٰمٰی ظُلۡمًا اِنَّمَا یَاۡکُلُوۡنَ فِیۡ بُطُوۡنِہِمۡ نَارًا ؕ وَ سَیَصۡلَوۡنَ سَعِیۡرًا﴿٪۱۰﴾

۱۰۔ جو لوگ ناحق یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں بس آگ بھرتے ہیں اور وہ جلد ہی جہنم کی بھڑکتی آگ میں تپائے جائیں گے۔


یُوۡصِیۡکُمُ اللّٰہُ فِیۡۤ اَوۡلَادِکُمۡ ٭ لِلذَّکَرِ مِثۡلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوۡقَ اثۡنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتۡ وَاحِدَۃً فَلَہَا النِّصۡفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗۤ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخۡوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ اٰبَآؤُکُمۡ وَ اَبۡنَآؤُکُمۡ لَا تَدۡرُوۡنَ اَیُّہُمۡ اَقۡرَبُ لَکُمۡ نَفۡعًا ؕ فَرِیۡضَۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۱﴾

۱۱۔ اللہ تمہاری اولاد کے بارے میں تمہیں ہدایت فرماتا ہے، ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے، پس اگر لڑکیاں دو سے زائد ہوں تو ترکے کا دو تہائی ان کا حق ہے اور اگر صرف ایک لڑکی ہے تو نصف (ترکہ) اس کا ہے اور میت کی اولاد ہونے کی صورت میں والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملے گا اور اگر میت کی اولاد نہ ہو بلکہ صرف ماں باپ اس کے وارث ہوں تو اس کی ماں کو تیسرا حصہ ملے گا، پس اگر میت کے بھائی ہوں تو ماں کو چھٹا حصہ ملے گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور اس کے قرض کی ادائیگی کے بعد ہو گی، تمہیں نہیں معلوم تمہارے والدین اور تمہاری اولاد میں فائدے کے حوالے سے کون تمہارے زیادہ قریب ہے، یہ حصے اللہ کے مقرر کردہ ہیں، یقینا اللہ بڑا جاننے والا، باحکمت ہے۔

11۔ اسلام نے میراث کے لیے بنیادی طو رپر دو سبب متعین کیے ہیں : نسب و سبب۔ سبب کی دو قسمیں ہیں: زوجیت اور ولاء ۔ نسب کے تین طبقے ہیں: پہلا طبقہ اولاد اور والدین، دوسرا طبقہ اجداد اور بہن بھائی یا ان کی اولاد، تیسرا طبقہ چچا ، پھوپی، ماموں، خالہ اور ان کی اولاد ہیں۔

اس آیت میں طبقۂ اول کی میراث کا حکم بیان ہوا ہے اور ان میں سے یہاں دو اختلافی مسائل کا مختصر بیان مناسب ہے۔ عول: کبھی میراث کے کل حصے ترکے سے زیادہ ہو جاتے ہیں، مثلاً مرنے والے کے پسماندگان میں دو لڑکیاں والدین اور شوہر ہوں تو حصے 6؍2، 3؍2، 4؍1 بنتے ہیں جو اصل ترکے سے زیادہ ہیں۔ اہل سنت میں مشہور یہ ہے کہ سب کے حصوں سے کم کیا جائے۔ اسے عول کہتے ہیں جو حضرت عمر نے اپنے ایام خلافت میں رائج کیا۔ (مستدرک حاکم 340) امامیہ کے نزدیک یہ کمی بہنوں اور بیٹیوں پر آئے گی۔ تعصیب: کبھی میراث کے کل حصے اصل ترکے سے کم ہو جاتے ہیں اور ترکہ زیادہ ہو جاتا ہے۔ مثلاً مرنے والے کے پسماندگان میں ایک لڑکی ماں اور چچا ہیں تو نصف لڑکی کا، 6؍1 حصہ ماں کا ۔ امامیہ کے نزدیک یہ زیادہ ان کی طرف رد کیا جائے گا جن پر پہلی صورت میں کمی آئی تھی۔ یعنی بہنوں اوربیٹیوں کو دیا جائے گا۔ جبکہ اہل سنت اس زیادہ کو طبقہ دوم کے وارثین میں تقسیم کرتے ہیں۔ فقہی اصطلاح میں اسے تعصیب کہتے ہیں۔

اس آیت کی عمومیت میں نبی، غیر نبی سب شامل ہیں۔ یہاں دو باتیں قابل توجہ ہیں۔ پہلی بات بالاجماع ثابت ہے کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا نے اپنے پدر بزرگوار کی میراث کا مطالبہ کیا اور اس مطالبے کے مسترد ہونے پر ناراض رہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ وَاَنْذِرْ عَشِيْرَتَكَ الْاَقْرَبِيْنَ (26: 214) کے تحت رسول کریمؐ پر واجب ہے کہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو احکام کی تبلیغ و انذار کریں۔ لہٰذا اگر حضرت زہراء (س) کو وراثت میں کچھ بھی نہیں ملنا تھا تو رسول اللہ ؐنے یہ حکم حضرت زہراء (س) کو بتایا ہو گا۔ اس کے باوجود حضرت زہراء (س) نے میراث کا مطالبہ کیا ہے تو اس سے حکم رسولؐ کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ چونکہ حضرت زہراء سے حکم رسولؐ کی خلاف ورزی ممکن نہیں ہے لہٰذا جناب سیدہ کا مطالبہ حق بجانب ثابت ہوتا ہے۔

میراث کی تقسیم مرد و زن کی قدر و قیمت کے مطابق نہیں، بلکہ عائلی نظام میں حاصل مقام کے مطابق ہوتی ہے۔ چنانچہ اگر مرنے والے نے اپنے پیچھے ایک بیٹی اور باپ چھوڑا ہے تو بیٹی (عورت) کو باپ (مرد) سے زیادہ حصہ ملے گا۔ اگر مرنے والے کے پسماندگان میں بیٹا اور والدین ہیں تو باپ (مرد ) اور ماں (عورت ) کو برابر حصہ ملے گا ۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اگرچہ مرد کو دگنا حصہ ملتا ہے لیکن عورت کے اخراجات مرد کے ذمے ہیں ۔ مثلاً اگر مرد کو دو ہزار اور عورت کو ایک ہزار ملا ہے تو مرد ایک ہزار خود پر اور ایک ہزار عورت پر خرچ کرے گا تو عورت کے پاس ایک ہزار مرد کی طرف سے اور ایک ہزار وراثت کی طرف سے دو ہزار آ گئے، جبکہ مرد کے پاس صرف ایک ہزار رہ گیا ۔ اس طرح سرپرستی کے اعتبار سے مرد کو دگنا ملتا ہے لیکن خرچ کے اعتبار سے عورت کو دگنا مل جاتا ہے۔


وَ لَکُمۡ نِصۡفُ مَا تَرَکَ اَزۡوَاجُکُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّہُنَّ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡنَ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ لَہُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ اِنۡ لَّمۡ یَکُنۡ لَّکُمۡ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَکُمۡ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ تُوۡصُوۡنَ بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ؕ وَ اِنۡ کَانَ رَجُلٌ یُّوۡرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امۡرَاَۃٌ وَّ لَہٗۤ اَخٌ اَوۡ اُخۡتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنۡہُمَا السُّدُسُ ۚ فَاِنۡ کَانُوۡۤا اَکۡثَرَ مِنۡ ذٰلِکَ فَہُمۡ شُرَکَآءُ فِی الثُّلُثِ مِنۡۢ بَعۡدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصٰی بِہَاۤ اَوۡ دَیۡنٍ ۙ غَیۡرَ مُضَآرٍّ ۚ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ ؕ وَ اللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَلِیۡمٌ ﴿ؕ۱۲﴾

۱۲ ۔اور تمہیں اپنی بیویوں کے ترکے میں سے اگر ان کی اولاد نہ ہو نصف حصہ ملے گا اور اگر ان کی اولاد ہو تو ان کے ترکے میں سے چوتھائی تمہارا ہو گا، یہ تقسیم میت کی وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اگر تمہاری اولاد نہ ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے چوتھائی ملے گا اور اگر تمہاری اولاد ہو تو انہیں تمہارے ترکے میں سے آٹھواں حصہ ملے گا، یہ تقسیم تمہاری وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی اور اگر کوئی مرد یا عورت بے اولاد ہو اور والدین بھی زندہ نہ ہوں اور اس کا ایک بھائی یا ایک بہن ہو تو بھائی اور بہن میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، پس اگر بہن بھائی ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے، یہ تقسیم وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد ہو گی، بشرطیکہ ضرر رساں نہ ہو، یہ نصیحت اللہ کی طرف سے ہے اور اللہ بڑا دانا، بردبار ہے۔

12۔ زوجین تمام طبقات کے ساتھ میراث لیتے ہیں:

الف: زوجہ کی اولاد نہ ہو تو شوہر کو نصف حصہ ملے گا۔ اولاد ہونے کی صورت میں شوہر کو ایک چوتھائی حصہ ملے گا۔ ب: شوہر کی اولاد نہ ہو تو بیوی شوہر کے ترکہ کا چوتھائی حصہ لے گی۔ اگر اولاد ہے تو آٹھواں حصہ ملے گا۔ ج: شوہر بیوی کے ترکہ میں سے منقولات و غیر منقولات سب سے حصہ لے گا، جب کہ بیوی شوہر کے ترکہ میں منقولات میں سے حصہ لے گی۔ غیر منقولات اگر زمین ہے تو زمین سے کوئی حصہ نہیں ملے گا اور اگر زمین میں نصب شدہ چیزیں، مثلاً عمارت اور درخت ہیں تو ان کی قیمت میں سے حصہ لے گی۔ واضح رہے کہ اگر میت کے ذمے قرض ہے یا وصیت کی ہے تو پہلے قرض کی ادائیگی ہو گی اور وصیت پر عمل کیا جائے گا بعد میں میراث تقسیم ہو گی۔


تِلۡکَ حُدُوۡدُ اللّٰہِ ؕ وَ مَنۡ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ یُدۡخِلۡہُ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَا ؕ وَ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ﴿۱۳﴾

۱۳۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں اور جو شخص اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے گا اللہ اسے ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہ رہی ہوں گی جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور یہی تو بڑی کامیابی ہے۔


وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ﴿٪۱۴﴾

۱۴۔اور جو اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرتا ہے اور اس کی حدود سے تجاوز کرتا ہے اللہ اسے داخل جہنم کرے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کے لیے ذلت آمیز سزا ہے۔


وَ الّٰتِیۡ یَاۡتِیۡنَ الۡفَاحِشَۃَ مِنۡ نِّسَآئِکُمۡ فَاسۡتَشۡہِدُوۡا عَلَیۡہِنَّ اَرۡبَعَۃً مِّنۡکُمۡ ۚ فَاِنۡ شَہِدُوۡا فَاَمۡسِکُوۡ ہُنَّ فِی الۡبُیُوۡتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰہُنَّ الۡمَوۡتُ اَوۡ یَجۡعَلَ اللّٰہُ لَہُنَّ سَبِیۡلًا﴿۱۵﴾

۱۵۔اور تمہاری عورتوں میں جو بدکاری کی مرتکب ہو جاتی ہیں ان پر اپنے (مسلمانوں) میں سے چار افراد کی گواہی لو، پھر اگر وہ گواہی دیں تو ان عورتوں کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت انہیں انجام تک پہنچا دے یا اللہ ان کے لیے کوئی اور سبیل پیدا کر دے۔

15۔ چار مردوں کی گواہی سے زنا ثابت ہونے کی صورت میں عورت کو عمر قید کی سزا دی جائے گی۔ یہ حکم بعدمیں مرد اور عورت دونوں کے لیے سو سو کوڑوں کی سزا سے منسوخ ہو گیا۔ اسی طرح بعد والی آیت کاحکم بھی کوڑوں کی سزا سے منسوخ ہو گیا ہے۔


وَ الَّذٰنِ یَاۡتِیٰنِہَا مِنۡکُمۡ فَاٰذُوۡہُمَا ۚ فَاِنۡ تَابَا وَ اَصۡلَحَا فَاَعۡرِضُوۡا عَنۡہُمَا ؕ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیۡمًا﴿۱۶﴾

۱۶۔ اور اگر تم میں سے دو اشخاص بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان دونوں کو اذیت دو پھر اگر وہ دونوں توبہ کریں اور اپنی اصلاح کر لیں تو ان کا پیچھا چھوڑ دو، بے شک اللہ بڑا توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے۔

16۔اگرمرد اور عورت دونوں بدکاری کے مرتکب ہو جائیں تو اس وقت ان دونوں کے لیے ابتداء میں یہ سزا تجویز کی گئی کہ ان دونوں کو اذیت دی جائے۔ اس آیت میں زنا کی سزا پہلی صورت سے مختلف ہے ۔ اس لیے لازمی طور پر اس زنا کی نوعیت بھی مختلف ہونی چاہیے۔ اسی وجہ سے بعض مفسرین اس آیت کو غیر شادی شدہ مرد و عورت کے زنا پر محمول کرتے ہیں۔ بہرحال یہ آیت بھی منسوخ ہے اور سورہ نور میں زنا کی سزا سو (100) کوڑے مارنا معین ہوئی ہے۔


اِنَّمَا التَّوۡبَۃُ عَلَی اللّٰہِ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السُّوۡٓءَ بِجَہَالَۃٍ ثُمَّ یَتُوۡبُوۡنَ مِنۡ قَرِیۡبٍ فَاُولٰٓئِکَ یَتُوۡبُ اللّٰہُ عَلَیۡہِمۡ ؕ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیۡمًا حَکِیۡمًا﴿۱۷﴾

۱۷۔ اللہ کے ذمے صرف ان لوگوں کی توبہ (قبول کرنا) ہے جو نادانی میں گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتے ہیں پھر جلد ہی توبہ کر لیتے ہیں، اللہ ایسے لوگوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور اللہ بڑا دانا، حکمت والا ہے۔

17۔ تو بہ دو باتوں پرمشتمل ہے، ایک اپنے کیے پر نادم ہونا اور دوسرا عدم ارتکاب کا عہد کرنا یعنی توبہ،بیداریٔ ضمیر اور تجدید عہد کا نام ہے۔ عَلَی اللّٰہِ سے مراد ہے کہ توبہ قبول کرنا اللہ کے ذمے ہے اور کسی نے اللہ کے ذمے نہیں لگایا بلکہ خود اللہ کا وعدہ ہے اور اللہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔ بِجَہَالَۃٍ یعنی گناہ نادانی میں سرزد ہوا ہو یا نہ جاننے کی وجہ سے یا شہوت کے غلبے سے یا غفلت کی وجہ سے ہو۔ یعنی یہ گناہ اللہ سے عناد کے ساتھ سرزد نہ ہوا ہو تو توبہ قبول ہے۔

مِنۡ قَرِیۡبٍ یعنی جہالت یا غفلت سے نکلتے ہی پشیمانی آ جائے تو توبہ قبول ہے۔ بعد والی آیت میں فرمایا ان لوگوں کی توبہ قبول نہیں ہے جو موت سامنے آنے پر توبہ کرتے ہیں : حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان موت سامنے آنے سے پہلے جب بھی توبہ کرے، مورد قبول ہو سکتی ہے ۔ جیساکہ احادیث میں بھی وارد ہے۔


وَ لَیۡسَتِ التَّوۡبَۃُ لِلَّذِیۡنَ یَعۡمَلُوۡنَ السَّیِّاٰتِ ۚ حَتّٰۤی اِذَا حَضَرَ اَحَدَہُمُ الۡمَوۡتُ قَالَ اِنِّیۡ تُبۡتُ الۡـٰٔنَ وَ لَا الَّذِیۡنَ یَمُوۡتُوۡنَ وَ ہُمۡ کُفَّارٌ ؕ اُولٰٓئِکَ اَعۡتَدۡنَا لَہُمۡ عَذَابًا اَلِیۡمًا﴿۱۸﴾

۱۸۔ اور ایسے لوگوں کی توبہ (حقیقت میں توبہ ہی) نہیں جو برے کاموں کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے کسی کی موت کا وقت آ پہنچتا ہے تو وہ کہ اٹھتا ہے :اب میں نے توبہ کی اور نہ ہی ان لوگوں کی (توبہ قبول ہے ) جو مرتے دم تک کافر رہتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے ہم نے دردناک عذاب تیار کر رکھا ہے ۔

18۔یہاں ندامت کا محرک ضمیر کی بیداری، احساس گناہ اور تجدید عہد کا عزم و ارادہ نہیں ہے کہ اللہ اس پر مہربانی فرمائے بلکہ یہاں ندامت کا محرک زندگی سے ناامیدی اور عذاب آخرت کا مشاہدہ ہے۔ لہٰذا دراصل یہ توبہ ہے ہی نہیں۔ یعنی رجوع اختیاری نہیں، بلکہ یہ ندامت اضطراری ہے ۔


یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَحِلُّ لَکُمۡ اَنۡ تَرِثُوا النِّسَآءَ کَرۡہًا ؕ وَ لَا تَعۡضُلُوۡہُنَّ لِتَذۡہَبُوۡا بِبَعۡضِ مَاۤ اٰتَیۡتُمُوۡہُنَّ اِلَّاۤ اَنۡ یَّاۡتِیۡنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ ۚ وَ عَاشِرُوۡہُنَّ بِالۡمَعۡرُوۡفِ ۚ فَاِنۡ کَرِہۡتُمُوۡہُنَّ فَعَسٰۤی اَنۡ تَکۡرَہُوۡا شَیۡئًا وَّ یَجۡعَلَ اللّٰہُ فِیۡہِ خَیۡرًا کَثِیۡرًا﴿۱۹﴾

۱۹۔ اے ایمان والو! تمہارے لیے جائز نہیں کہ تم اپنی عورتوں کے جبراً وارث بنو اور اس نیت سے انہیں قید نہ رکھو کہ تم نے جو کچھ انہیں دیا ہے اس میں سے کچھ حصہ واپس لے لو مگر یہ کہ وہ مبینہ بدکاری کی مرتکب ہوں اور ان کے ساتھ اچھے انداز میں زندگی بسر کرو، اگر وہ تمہیں ناپسند ہے تو ہو سکتا ہے کہ ایک چیز تمہیں تو ناپسند ہو مگر اللہ اس میں بہت سی خوبیاں پیدا کر دے۔

19۔ زمان جاہلیت میں سوتیلی اولاد باپ کے مرنے کی صورت میں باپ کی منکوحہ کے سر پر چادر ڈال کر اسے اپنی میراث بنا لیتی۔ ان عورتوں کو عقد ثانی کی اجازت بھی نہ تھی اور ان عورتوں کے ساتھ اس غرض سے زیادتی کی جاتی تھی کہ وہ پورا حق مہر یا اس کا کچھ حصہ واپس کر دیں۔ اسلام نے ان تمام غیر انسانی مراسم کو ختم کر کے عورت کو اس کی انسانی حیثیت واپس دلائی ۔


وَ اِنۡ اَرَدۡتُّمُ اسۡتِبۡدَالَ زَوۡجٍ مَّکَانَ زَوۡجٍ ۙ وَّ اٰتَیۡتُمۡ اِحۡدٰہُنَّ قِنۡطَارًا فَلَا تَاۡخُذُوۡا مِنۡہُ شَیۡئًا ؕ اَتَاۡخُذُوۡنَہٗ بُہۡتَانًا وَّ اِثۡمًا مُّبِیۡنًا﴿۲۰﴾

۲۰۔ اور اگر تم لوگ ایک زوجہ کی جگہ دوسری زوجہ لینا چاہو اور ایک کو بہت سا مال بھی دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ بھی واپس نہ لینا، کیا تم بہتان اور صریح گناہ کے ذریعے مال لینا چاہتے ہو؟


تبصرے
Loading...