سوره اعراف آيات 181 – 200

سوره اعراف آيات 181 – 200

وَ مِمَّنۡ خَلَقۡنَاۤ اُمَّۃٌ یَّہۡدُوۡنَ بِالۡحَقِّ وَ بِہٖ یَعۡدِلُوۡنَ﴿۱۸۱﴾٪

۱۸۱۔اور جنہیں ہم نے پیدا کیا ہے ان میں ایک جماعت ایسی ہے جو حق کے مطابق ہدایت کرتی ہے اور اسی کے مطابق عدل کرتی ہے۔

181۔ تفسیر المنار میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپؑ نے فرمایا ہے : یہ امت 73 فرقوں میں بٹ جائے گی ۔ سب جہنمی ہوں گے سوائے اس فرقے کے جس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ہے۔ آئمہ اہل البیتؑ کی روایات میں اس فرقے کی نشاندھی کی گئی ہے۔


وَ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا سَنَسۡتَدۡرِجُہُمۡ مِّنۡ حَیۡثُ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۲﴾ۚۖ

۱۸۲۔اور جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں ہم انہیں بتدریج اس طرح گرفت میں لیں گے کہ انہیں خبر تک نہ ہو گی۔


وَ اُمۡلِیۡ لَہُمۡ ؕ۟ اِنَّ کَیۡدِیۡ مَتِیۡنٌ﴿۱۸۳﴾

۱۸۳۔ اور میں انہیں ڈھیل دوں گا، میری تدبیر یقینا نہایت مضبوط ہے۔


اَوَ لَمۡ یَتَفَکَّرُوۡا ٜ مَا بِصَاحِبِہِمۡ مِّنۡ جِنَّۃٍ ؕ اِنۡ ہُوَ اِلَّا نَذِیۡرٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۸۴﴾

۱۸۴۔کیا ان لوگوں نے غور نہیں کیا کہ ان کے ساتھی(محمدؐ) میں کسی قسم کا جنون نہیں ہے؟وہ تو بس صاف صاف تنبیہ کرنے والا ہے۔

184۔عناد و دشمنی ہر قسم کے کمالات اور صحیح ادراک کے لیے مانع ہوتی ہے ورنہ رسول خدا (ص) کی سیرت، اخلاق، فکری صلاحیت،امانت اور صداقت جسے وہ دن رات دیکھتے آئے تھے نیز آسمانوں اور زمین کی وحدت حکومت، انسان سمیت ساری مخلوقات خدا اور خود انسانوں کی موت ان سب پر صاف دل اور کھلے دماغ سے غور و فکر کرتے تو کوئی وجہ نہ تھی کہ وہ رسول ؐ خدا کو جن زدہ سمجھتے اور قرآن پر ایمان نہ لاتے۔

بِصَاحِبِہِمۡ رسولؐ کو ان کاساتھی اس لیے کہا کہ رسول چالیس سال تک انہی کے درمیان رہے ہیں اور سب ان کے اخلاق، سیرت، فکری صلاحیت اور امانت و صداقت سب دیکھ چکے ہیں۔


اَوَ لَمۡ یَنۡظُرُوۡا فِیۡ مَلَکُوۡتِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنۡ شَیۡءٍ ۙ وَّ اَنۡ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنَ قَدِ اقۡتَرَبَ اَجَلُہُمۡ ۚ فَبِاَیِّ حَدِیۡثٍۭ بَعۡدَہٗ یُؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۵﴾

۱۸۵۔ کیا انہوں نے آسمانوں اور زمین کی سلطنت اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں ان میں غور نہیں کیا اور(یہ نہیں سوچا کہ) شاید ان کی موت کا وقت نزدیک ہو رہا ہو؟ آخر اس (قرآن) کے بعد وہ کس بات پر ایمان لائیں گے؟

185۔ یہ لوگ رسول اکرم (ص) کو تو مجنون کہتے ہیں، لیکن خود عقل و فکر سے کام نہیں لیتے ورنہ یہ لوگ اگر اللہ کی اس سلطنت و حکومت پر غور کرتے جو آسمانوں اور زمین پر قائم ہے اور اس کی مخلوقات میں غور و فکر کرتے توا نہیں رسولؐ کی تعلیمات کی حقانیت کا علم ہوتا کہ اللہ کے ساتھ کوئی شریک نہیں ہو سکتا۔ کائنات کی وحدت، سلطنت کی وحدت، نظام کی وحدت، خالق کی وحدت پر دلالت کرتی ہے۔وہ دنیا کی اس ظاہری زندگی کے فریب میں بدمست ہیں، ورنہ یہ لوگ اگر اپنی موت کا تصور کرتے تو بھی از راہ احتیاط رسول (ص) کی تعلیمات کو مسترد نہ کرتے۔ قرآن جیسے معجزے کو یہ نہیں مانتے تو وہ کون سی ایسی بات ہو سکتی ہے جس پر یہ ایمان لائیں۔


مَنۡ یُّضۡلِلِ اللّٰہُ فَلَا ہَادِیَ لَہٗ ؕ وَ یَذَرُہُمۡ فِیۡ طُغۡیَانِہِمۡ یَعۡمَہُوۡنَ﴿۱۸۶﴾

۱۸۶۔جسے اللہ گمراہ کرے کوئی اس کی ہدایت کرنے والا نہیں اور اللہ ایسے لوگوں کو ان کی اپنی سرکشی میں بھٹکتا ہوا چھوڑ دیتا ہے۔


یَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ السَّاعَۃِ اَیَّانَ مُرۡسٰہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ رَبِّیۡ ۚ لَا یُجَلِّیۡہَا لِوَقۡتِہَاۤ اِلَّا ہُوَ ؕۘؔ ثَقُلَتۡ فِی السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ ؕ لَا تَاۡتِیۡکُمۡ اِلَّا بَغۡتَۃً ؕ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ کَاَنَّکَ حَفِیٌّ عَنۡہَا ؕ قُلۡ اِنَّمَا عِلۡمُہَا عِنۡدَ اللّٰہِ وَ لٰکِنَّ اَکۡثَرَ النَّاسِ لَا یَعۡلَمُوۡنَ﴿۱۸۷﴾

۱۸۷۔یہ لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ قیامت واقع ہونے کا وقت کب ہے؟ کہدیجئے: اس کا علم صرف میرے رب کے پاس ہے، قیامت کے وقت کو اللہ کے سوا کوئی ظاہر نہیں کر سکتا، (قیامت کا واقع ہونا) آسمانوں اور زمین کا بڑا بھاری حادثہ ہو گا جو ناگہاں تم پر آ جائے گا، یہ آپ سے اس طرح پوچھتے ہیں گویا آپ اس کی کھوج میں ہوں، کہدیجئے: اس کا علم صرف اللہ کے پاس ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

187۔ تمام انبیاء اور تمام ادیان میں یہ بات مسلمہ ہے کہ قیامت برپا ہونے کے وقت کا علم صرف اللہ تعالی کے پاس ہے۔ چنانچہ انجیل متی 24 : 36 میں آیا ہے: اس دن اور اس گھڑی کی بات کوئی نہیں جانتا، نہ آسمان کے فرشتے اور نہ بیٹا، مگر صرف باپ۔

مشرکین مکہ یہود سے مل کر اسی لیے رسول کریمؐ سے قیامت کے بارے میں پوچھنے آئے کہ کیا جواب دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔


قُلۡ لَّاۤ اَمۡلِکُ لِنَفۡسِیۡ نَفۡعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ کُنۡتُ اَعۡلَمُ الۡغَیۡبَ لَاسۡتَکۡثَرۡتُ مِنَ الۡخَیۡرِۚۖۛ وَ مَا مَسَّنِیَ السُّوۡٓءُ ۚۛ اِنۡ اَنَا اِلَّا نَذِیۡرٌ وَّ بَشِیۡرٌ لِّقَوۡمٍ یُّؤۡمِنُوۡنَ﴿۱۸۸﴾٪

۱۸۸۔کہدیجئے:میں خود بھی اپنے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں مگر اللہ جو چاہتا ہے (وہ ہوتا ہے) اور اگر میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو بہت سے فائدے حاصل کر لیتا اور مجھے کوئی تکلیف بھی نہ پہنچتی، میں تو بس ایمان والوں کو تنبیہ کرنے اور بشارت دینے والا ہوں۔

188۔ مشیت و ارادہ خداوندی سب پر حاکم ہے تو نبی اور عام بشر میں کیا فرق ہے؟ جواب یہ ہے کہ نبی اور بشر میں فرق کا دار و مدار اسی مشیت و منشاء الٰہی پر موقوف ہے۔ مشیت کی بنیاد ظرفیت اور اہلیت پر ہے۔ یہی مشیت و ارادۂ خداوندی رسول اللہؐ کو قاب قوسین تک لے جاتا ہے اور ابولہب کو اسفل سافلین تک۔

غیب کی جو نفی کی گئی ہے وہ ذاتی علم غیب کی نفی ہے، مگر وہ علم غیب جو اللہ کی طرف سے عنایت ہوتا ہے اس کی نفی نہیں کی گئی، بلکہ دوسری آیات اسے ثابت کرتی ہیں۔


ہُوَ الَّذِیۡ خَلَقَکُمۡ مِّنۡ نَّفۡسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ جَعَلَ مِنۡہَا زَوۡجَہَا لِیَسۡکُنَ اِلَیۡہَا ۚ فَلَمَّا تَغَشّٰہَا حَمَلَتۡ حَمۡلًا خَفِیۡفًا فَمَرَّتۡ بِہٖ ۚ فَلَمَّاۤ اَثۡقَلَتۡ دَّعَوَا اللّٰہَ رَبَّہُمَا لَئِنۡ اٰتَیۡتَنَا صَالِحًا لَّنَکُوۡنَنَّ مِنَ الشّٰکِرِیۡنَ﴿۱۸۹﴾

۱۸۹۔وہی تو ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اسی سے اس کا جوڑا بنایا تاکہ(انسان) اس سے سکون حاصل کرے پھر اس کے بعد جب مرد نے عورت کو ڈھانپ لیا (مقاربت کی) تو عورت کو ہلکا سا حمل ہو گیا جس کے ساتھ وہ چلتی پھرتی رہی، پھر جب وہ حمل بھاری ہوا تو دونوں (میاں بیوی) نے اپنے رب اللہ سے دعا کی کہ اگر تو نے ہمیں سالم بچہ دیا تو ہم ضرور تیرے شکر گزار ہوں گے۔


فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَہٗ شُرَکَآءَ فِیۡمَاۤ اٰتٰہُمَا ۚ فَتَعٰلَی اللّٰہُ عَمَّا یُشۡرِکُوۡنَ﴿۱۹۰﴾

۱۹۰۔پس جب اللہ نے انہیں سالم بچہ عطا کیا تو وہ دونوں اللہ کی اس عطا میں (دوسروں کو) اللہ کے شریک ٹھہرانے لگے، اللہ ان کی مشرکانہ باتوں سے بالاتر ہے۔

189۔ 190۔ پہلے انسان کی تخلیق کا ذکر فرمایاکہ اللہ ہی نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر اللہ ہی نے تمہارے سکون کے لیے اور نسل آدم کو آگے بڑھانے کے لیے جوڑا بھی بنایا، اس کے بعد جب نسل آدم آگے چلی تو انسان کی تخلیق میں مشرکانہ نظریات وجود میں آنے لگے۔

چنانچہ اس آیت میں مشرکین کی ایک جاہلانہ سوچ کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ والدین زمانہ حمل میں تو ساری امیدیں اللہ سے وابستہ کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اے اللہ ہم کو صحیح سالم بچہ عنایت فرما۔ جب اللہ ان کو صحیح و سالم بچہ عنایت فرماتا ہے تو اس بچے کو عطائے خداوندی تصور کرکے اس کی بارگاہ میں شکر گزار ہونے کی بجائے وہ اسے غیر اللہ کی عنایت گرداننے لگتے ہیں۔ مثلا فلاں پیر نے یہ اولاد دی ہے یا فلاں دیوی اوتار یا فلاں بت یا ستارے کا عطیہ ہے۔

واضح رہے اگر یہ تصور کیا جائے کہ فلاں بزرگ کی دعا سے اللہ نے یہ بچہ عنایت فرمایا ہے تو یہ شرک نہیں ہے۔ کیونکہ اللہ سے دعا تو عین توحید ہے یا کسی برگزیدہ ہستی کو وسیلہ بنا کر دعا کی جائے تو یہ عقیدہ بھی درست ہے کہ اس وسیلے کی وجہ سے میری دعا قبول ہوئی اور اللہ نے بچہ عنایت فرمایا۔


اَیُشۡرِکُوۡنَ مَا لَا یَخۡلُقُ شَیۡئًا وَّ ہُمۡ یُخۡلَقُوۡنَ﴿۱۹۱﴾۫ۖ

۱۹۱۔کیا یہ لوگ ایسوں کو اللہ کا شریک بناتے ہیں جو کوئی چیز خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہوتے ہیں؟

191 تا 193۔ انسانی عقل و شعور کے لیے دعوت فکر ہے کہ ایسی ذات کے سامنے جھکنا چاہیے جو مؤثر فی الوجود ہو، یعنی جو خالق ہے اس کی پرستش ہو۔ جن کو یہ لوگ شریک مانتے ہیں وہ نہ صرف یہ کہ مؤثر فی الوجود نہیں ہیں بلکہ وہ خود متأثر اور مخلوق ہیں۔

دوسری آیت میں بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے فرمایا: وہ تو نہ صرف اپنے پرستاروں کی مدد نہیں کرتے بلکہ خود اپنی مدد بھی نہیں کرسکتے۔

تیسری آیت میں مشرکین کی مزید حماقت کی طرف اشارہ فرمایا کہ جن کو تم شریک خدا بناتے ہو وہ تمہاری راہنمائی کرنا تو درکنار بلکہ اگر تم ان شریکوں کی راہنمائی کرنا چاہو تو وہ کسی کی راہنمائی قبول کرنے کے بھی اہل نہیں ہیں۔ تمہاری پکار کا جواب تک دینے کے قابل نہیں ہیں۔


وَ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ لَہُمۡ نَصۡرًا وَّ لَاۤ اَنۡفُسَہُمۡ یَنۡصُرُوۡنَ ﴿۱۹۲﴾

۱۹۲۔ اور جو نہ تو ان کی مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی مدد کرنے پر قادر ہیں۔


وَ اِنۡ تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی لَا یَتَّبِعُوۡکُمۡ ؕ سَوَآءٌ عَلَیۡکُمۡ اَدَعَوۡتُمُوۡہُمۡ اَمۡ اَنۡتُمۡ صَامِتُوۡنَ﴿۱۹۳﴾

۱۹۳۔ اور اگر تم انہیں راہ راست کی طرف بلاؤ تو وہ تمہاری اطاعت نہیں کریں گے، تمہارے لیے یکساں ہے خواہ تم انہیں دعوت دو یا تم خاموشی اختیار کرو۔


اِنَّ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ عِبَادٌ اَمۡثَالُکُمۡ فَادۡعُوۡہُمۡ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ﴿۱۹۴﴾

۱۹۴۔اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ تمہاری طرح کے بندے ہیں، پس اگر تم سچے ہو تو تم انہیں ذرا پکار کر تو دیکھو انہیں چاہیے کہ تمہیں (تمہاری دعاؤں کا) جواب دیں۔


اَلَہُمۡ اَرۡجُلٌ یَّمۡشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمۡ لَہُمۡ اَیۡدٍ یَّبۡطِشُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمۡ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ یُّبۡصِرُوۡنَ بِہَاۤ ۫ اَمۡ لَہُمۡ اٰذَانٌ یَّسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ قُلِ ادۡعُوۡا شُرَکَآءَکُمۡ ثُمَّ کِیۡدُوۡنِ فَلَا تُنۡظِرُوۡنِ﴿۱۹۵﴾

۱۹۵۔کیا ان کے پیر ہیں جن سے وہ چلتے ہیں؟ کیا ان کے ہاتھ ہیں جن سے وہ پکڑتے ہیں؟ کیا ان کی آنکھیں ہیں جن سے وہ دیکھتے ہیں؟ کیا ان کے کان ہیں جن سے وہ سنتے ہیں؟ کہدیجئے: تم اپنے شریکوں کو بلاؤ پھر میرے خلاف (جو) تدبیریں (کر سکتے ہو) کرو اور مجھے مہلت تک نہ دو۔


اِنَّ وَلِیِّ ۦَ اللّٰہُ الَّذِیۡ نَزَّلَ الۡکِتٰبَ ۫ۖ وَ ہُوَ یَتَوَلَّی الصّٰلِحِیۡنَ﴿۱۹۶﴾

۱۹۶۔ بے شک میرا آقا تو وہ اللہ ہے جس نے کتاب نازل کی اور جو صالحین کا کارساز ہے۔

194 تا 196۔ جن غیر اللہ کو تم پکارتے ہو وہ تمہاری طرح مخلوق اور محتاج ہیں۔ ان معبودوں میں سے کچھ تو تمہاری پکار تک سننے کے اہل نہیں ہیں بلکہ جو اعضاء و جوارح خود تمہارے پاس ہیں وہ بھی تمہارے ان شریکوں کے پاس نہیں ہیں۔ لہذا یہ شریک خود تم سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔ نہایت حیرت کی بات ہے کہ ایسی بے بس چیزوں کو معبود مانتے ہو۔

اس کے بعد ان ناداں کم عقل اورجاہل لوگوں کو ایک چیلنج کے ذریعے اس پر حماقت مسئلے کو سمجھانے کی کوشش کی جاتی ہے کہ اے رسول ان سے کہدیجیے:تم اپنے معبودوں سے مل کر میرے خلاف جو کچھ کر سکتے ہو کرو اور اپنے معبود کی قدرت و طاقت کا مظاہرہ میرے خلاف کر کے دکھاؤ۔ چیلنج میں اتنا اعتماد ظاہر کریں کہ ان سے کہیں کہ میرے خلاف پورا زور لگائیں اور مہلت بھی نہ دیں، میرا والی اور میرا کارساز میری مددکرے گا۔


وَ الَّذِیۡنَ تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِہٖ لَا یَسۡتَطِیۡعُوۡنَ نَصۡرَکُمۡ وَ لَاۤ اَنۡفُسَہُمۡ یَنۡصُرُوۡنَ﴿۱۹۷﴾

۱۹۷۔ اور اللہ کے سوا جنہیں تم پکارتے ہو وہ نہ تو تمہاری مدد کر سکتے ہیں اور نہ ہی خود اپنی مدد کر سکتے ہیں۔

197۔198 اللہ تعالی نے اپنے رسول کو حکم دیا کہ ان کے معبودوں کی ناتوانی اور بے بسی کو ظاہر کرتے ہوئے ان کو چیلنج کرو کہ وہ نہ صرف یہ کہ تمہاری ہدایت نہیں کرتے، بلکہ تم ان کی ہدایت کرنا چاہو تو وہ تمہاری بات تک سننے کی اہلیت نہیں رکھتے، نہ وہ تمہیں دیکھ سکتے ہیں۔


وَ اِنۡ تَدۡعُوۡہُمۡ اِلَی الۡہُدٰی لَا یَسۡمَعُوۡا ؕ وَ تَرٰىہُمۡ یَنۡظُرُوۡنَ اِلَیۡکَ وَ ہُمۡ لَا یُبۡصِرُوۡنَ﴿۱۹۸﴾

۱۹۸۔اور اگر ہدایت کے لیے تم انہیں بلاؤ تو وہ تمہاری بات بھی سن نہیں سکتے اور تم انہیں دیکھتے ہو کہ بظاہر وہ تمہاری طرف دیکھ رہے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی دیکھ نہیں سکتے۔


خُذِ الۡعَفۡوَ وَ اۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَ اَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰہِلِیۡنَ﴿۱۹۹﴾

۱۹۹۔(اے رسول) درگزر سے کام لیں، نیک کاموں کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جائیں۔

199۔ رسول اللہؐ کو یہ حکم اس وقت مل رہا ہے جب آپؐ مکے میں ہر طرف سے دشمنوں کے نرغے میں تھے۔ اس آیت میں دعوت و تبلیغ کے یہ اہم عناصر بیان ہوئے ہیں: ٭ اس دعوت کی راہ میں عوام کے منفی رد عمل کے نتیجے میں جو مظالم توڑے جائیں گے ان کا مقابلہ عفو و درگزر سے کیا جائے۔ ٭ شدائد و تکالیف کی پروا ہ کیے بغیر بھلائی کی دعوت جاری رکھی جائے۔ ٭ جاہلوں سے الجھنے سے گریز کیا جائے ۔


وَ اِمَّا یَنۡزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیۡطٰنِ نَزۡغٌ فَاسۡتَعِذۡ بِاللّٰہِ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ عَلِیۡمٌ﴿۲۰۰﴾

۲۰۰۔ اور اگر شیطان آپ کو کسی طرح اکسائے تو اللہ کی پناہ مانگیں، یقینا وہ بڑا سننے والا، جاننے والا ہے۔

200۔ شیطان کو اکسانے کا موقع اس وقت ملتا ہے جب لوگ صاحب دعوت کی اہانت کرتے ہیں اور انسان میں جذبہ انتقام ابھر آتا ہے۔ حضورؐ کے لیے ایسی نوبت تونہیں آتی لیکن رسولؐ سے خطاب کر کے امت کو سمجھانا مقصود ہے ۔

{خوشترآن باشد کہ سر دلبران}

{گفتہ آید در حدیث دیگران}


تبصرے
Loading...