سوره اعراف آيات 161 – 180

سوره اعراف آيات 161 – 180

وَ اِذۡ قِیۡلَ لَہُمُ اسۡکُنُوۡا ہٰذِہِ الۡقَرۡیَۃَ وَ کُلُوۡا مِنۡہَا حَیۡثُ شِئۡتُمۡ وَ قُوۡلُوۡا حِطَّۃٌ وَّ ادۡخُلُوا الۡبَابَ سُجَّدًا نَّغۡفِرۡ لَکُمۡ خَطِیۡٓـٰٔتِکُمۡ ؕ سَنَزِیۡدُ الۡمُحۡسِنِیۡنَ﴿۱۶۱﴾

۱۶۱۔اور جب ان سے کہا گیا کہ اس بستی میں سکونت اختیار کرو اور اس میں جہاں سے چاہو کھاؤ اور حطہ کہتے ہوئے اور دروازے سے سجدہ کرتے ہوئے داخل ہو جاؤ ہم تمہاری خطائیں معاف کر دیں گے، نیکی کرنے والوں کو ہم عنقریب مزید عطا کریں گے۔


فَبَدَّلَ الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا مِنۡہُمۡ قَوۡلًا غَیۡرَ الَّذِیۡ قِیۡلَ لَہُمۡ فَاَرۡسَلۡنَا عَلَیۡہِمۡ رِجۡزًا مِّنَ السَّمَآءِ بِمَا کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۶۲﴾٪

۱۶۲۔مگر ان میں سے ظالم لوگوں نے وہ لفظ بدل ڈالا جو خلاف تھا اس کلمہ کے جو انہیں کہا گیا تھا، پھر ان کے اس ظلم کی وجہ سے ہم نے ان پر آسمان سے عذاب بھیجا۔

161۔162۔ انسانی تاریخ کا جو باب بنی اسرائیل نے رقم کیا ہے اس کے سیاہ صفحہ کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ اس قوم نے اللہ کے بے شمار احسانات کے جواب میں کیا کیا مجرمانہ حرکتیں کیں ۔


وَ سۡـَٔلۡہُمۡ عَنِ الۡقَرۡیَۃِ الَّتِیۡ کَانَتۡ حَاضِرَۃَ الۡبَحۡرِ ۘ اِذۡ یَعۡدُوۡنَ فِی السَّبۡتِ اِذۡ تَاۡتِیۡہِمۡ حِیۡتَانُہُمۡ یَوۡمَ سَبۡتِہِمۡ شُرَّعًا وَّ یَوۡمَ لَا یَسۡبِتُوۡنَ ۙ لَا تَاۡتِیۡہِمۡ ۚۛ کَذٰلِکَ ۚۛ نَبۡلُوۡہُمۡ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۳﴾

۱۶۳۔اور ان سے اس بستی (والوں) کے بارے میں پوچھو جو سمندر کے کنارے واقع تھی، جب یہ لوگ ہفتہ کے دن خلاف ورزی کرتے تھے اور مچھلیاں ہفتہ کے دن ان کے سامنے سطح آب پر ابھر آتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں نہیں آتی تھیں، اس طرح ان کی نافرمانی کی وجہ سے ہم انہیں آزماتے تھے۔

163۔حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ یہ قریہ (بستی) ایلہ تھا۔

سبت (ہفتہ) کے دن مچھلیوں کا پانی کی سطح پر ابھر آنا حکمت امتحان کے مطابق ایک اصلاحی عمل تھا جس سے کامیاب و ناکام لوگ چھن کر الگ ہو گئے۔ سبت عبرانی لفظ شبت کی تعریب شدہ شکل ہے۔ اس کا لغوی معنی ختم کرنا اور آرام کرنا ہے۔ یہ دن یہودیوں کا ہفتہ وار آرام اور پرستش کا دن ہے۔اس کی تاریخ آغازِ آفرینش جتنی ہی پرانی ہے۔ اس سلسلے میں تورات کا بیان یہ ہے: سو آسمان اور زمین اور ان کے کل لشکر کا بنانا ختم ہوا اور خدا نے اپنے کام کو جسے وہ کرتا تھا ساتویں دن ختم کیا اور خدا نے ساتویں دن کو برکت دی اور اسے مقدس ٹھہرایا، کیونکہ اس میں خدا ساری کائنات سے، جسے اس نے پیدا کیا اور بنایا، فارغ ہوا۔ (تورات پیدائش باب 2 آیات 1۔3)


وَ اِذۡ قَالَتۡ اُمَّۃٌ مِّنۡہُمۡ لِمَ تَعِظُوۡنَ قَوۡمَۨا ۙ اللّٰہُ مُہۡلِکُہُمۡ اَوۡ مُعَذِّبُہُمۡ عَذَابًا شَدِیۡدًا ؕ قَالُوۡا مَعۡذِرَۃً اِلٰی رَبِّکُمۡ وَ لَعَلَّہُمۡ یَتَّقُوۡنَ﴿۱۶۴﴾

۱۶۴۔اور جب ان میں سے ایک فرقے نے کہا:ان لوگوں کو کیوں نصیحت کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاکت یا شدید عذاب میں ڈالنے والا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: (ہم یہ نصیحت) تمہارے رب کی بارگاہ میں عذر پیش کرنے کے لیے کرتے ہیں اور(اس لیے بھی کہ) شاید وہ تقویٰ اختیار کریں۔

164۔ اس آیت میں تین گروہوں کا ذکر ہے: ایک گروہ وہ جس نے یوم سبت کے جرم کا ارتکاب کیا۔ دوسرا گروہ وہ جو اس گروہ کو ایسا نہ کرنے کی نصیحت کرتا تھا۔ تیسرا گروہ وہ جو ان کی اصلاح سے مایوس تھا اور نصیحت کے حق میں نہ تھا۔


فَلَمَّا نَسُوۡا مَا ذُکِّرُوۡا بِہٖۤ اَنۡجَیۡنَا الَّذِیۡنَ یَنۡہَوۡنَ عَنِ السُّوۡٓءِ وَ اَخَذۡنَا الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡا بِعَذَابٍۭ بَئِیۡسٍۭ بِمَا کَانُوۡا یَفۡسُقُوۡنَ﴿۱۶۵﴾

۱۶۵۔پس جب انہوں نے وہ باتیں فراموش کر دیں جن کی انہیں نصیحت کی گئی تھی تو ہم نے برائی سے روکنے والوں کو نجات دی اور ظالموں کو ان کی نافرمانی کی وجہ سے برے عذاب میں مبتلا کر دیا۔

165۔ اس آیت میں دو گروہوں کا ذکر صریح لفظوں میں ہے: ایک وہ جنہوں نے وعظ و نصیحت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے سلسلے میں اپنی ذمہ داری پوری کی اور نجات پائی۔ دوسرا وہ جس نے عدم تأثیر کا بہانہ کرکے اس ذمہ داری سے پہلوتہی کی۔


فَلَمَّا عَتَوۡا عَنۡ مَّا نُہُوۡا عَنۡہُ قُلۡنَا لَہُمۡ کُوۡنُوۡا قِرَدَۃً خٰسِئِیۡنَ﴿۱۶۶﴾

۱۶۶۔پس جب انہوں نے اس امر میں سرکشی کی جس سے انہیں روکا گیا تھا تو ہم نے کہا: خوار ہو کر بندر بن جاؤ۔


وَ اِذۡ تَاَذَّنَ رَبُّکَ لَیَبۡعَثَنَّ عَلَیۡہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ مَنۡ یَّسُوۡمُہُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ ؕ اِنَّ رَبَّکَ لَسَرِیۡعُ الۡعِقَابِ ۚۖ وَ اِنَّہٗ لَغَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ﴿۱۶۷﴾

۱۶۷۔اور (یاد کریں) جب آپ کے رب نے اعلان کیا کہ وہ ان (یہودیوں) پر قیامت تک ایسے لوگوں کو ضرور مسلط کرتا رہے گا جو انہیں بدترین عذاب دیں گے آپ کا رب یقینا جلد سزا دینے والا ہے اور بلا شبہ وہ غفور، رحیم بھی ہے۔

167۔ سیاق آیت وَ اِذۡ تَاَذَّنَ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں کو یہ تنبیہ قدیم زمانے سے کی جا رہی تھی۔ چنانچہ توریت میں آیا ہے کہ تم اپنے دشمنوں کے سامنے قتل کیے جاؤ گے اور جو لوگ تمہارے ساتھ کینہ رکھتے ہیں تم پر حکومت کریں گے۔

قرآن میں یہی تنبیہ متعدد مقامات پر مذکور ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت8 میں اس تنبیہ کے بعد فرمایا: عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یَّرۡحَمَکُمۡ ۚ وَ اِنۡ عُدۡتُّمۡ عُدۡنَا ۔ ہو سکتا ہے تمہارا رب تم پر رحم کرے اور اگر تم نے پھر وہی حرکت کی تو ہم بھی وہی سلوک کریں گے۔


وَ قَطَّعۡنٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اُمَمًا ۚ مِنۡہُمُ الصّٰلِحُوۡنَ وَ مِنۡہُمۡ دُوۡنَ ذٰلِکَ ۫ وَ بَلَوۡنٰہُمۡ بِالۡحَسَنٰتِ وَ السَّیِّاٰتِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۱۶۸﴾

۱۶۸۔ اور ہم نے انہیں زمین میں مختلف گروہوں میں تقسیم کیا، ان میں کچھ لوگ نیک اور کچھ لوگ دوسری طرح کے تھے اور ہم نے آسائشوں اور تکلیفوں کے ذریعے انہیں آزمایا کہ شاید وہ باز آ جائیں۔

168۔ آزمائشوں میں کامیابی کا واحد راستہ یہ ہے کہ انسان آسائشوں میں شاکر اور تکلیفوں میں صابر رہے۔


فَخَلَفَ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ خَلۡفٌ وَّرِثُوا الۡکِتٰبَ یَاۡخُذُوۡنَ عَرَضَ ہٰذَا الۡاَدۡنٰی وَ یَقُوۡلُوۡنَ سَیُغۡفَرُ لَنَا ۚ وَ اِنۡ یَّاۡتِہِمۡ عَرَضٌ مِّثۡلُہٗ یَاۡخُذُوۡہُ ؕ اَلَمۡ یُؤۡخَذۡ عَلَیۡہِمۡ مِّیۡثَاقُ الۡکِتٰبِ اَنۡ لَّا یَقُوۡلُوۡا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الۡحَقَّ وَ دَرَسُوۡا مَا فِیۡہِ ؕ وَ الدَّارُ الۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لِّلَّذِیۡنَ یَتَّقُوۡنَ ؕ اَفَلَا تَعۡقِلُوۡنَ﴿۱۶۹﴾

۱۶۹۔ پھر ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب اللہ کے وارث بن کر اس ادنیٰ زندگی کا مال و متاع سمیٹتے تھے اور کہتے تھے: ہم جلد ہی بخش دیے جائیں گے اور اگر ایسی ہی اور متاع ان کے سامنے آ جائے تو اسے بھی اچک لیتے، کیا ان سے کتاب کا میثاق نہیں لیا گیا تھا کہ وہ اللہ کے بارے میں حق بات کے سوا کچھ بھی نہ کہیں گے اور جو کچھ کتاب کے اندر ہے اسے یہ لوگ پڑھ چکے ہیں اور اہل تقویٰ کے لیے آخرت کی زندگی ہی بہترین زندگی ہے، کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟

169۔ بنی اسرائیل میں ایک زمانہ تک کچھ لوگ نیک اور صالح رہے ہیں،لیکن بعد میں ان کی جگہ ایسے ناخلف لوگوں نے لی جنہوں نے کتاب خدا کو پڑھ لیا حلال و حرام سے واقف ہوئے، لیکن ان سے مثبت اثر لینے کی بجائے ان لوگوں نے ناجائز ذرائع سے دنیاوی مال و متاع سمیٹنا شروع کیا۔

اور یہ کہ ان گناہوں کے ارتکاب پر نالاں ہونے کی بجائے وہ نازاں تھے اور کہتے تھے: سَیُغۡفَرُ لَنَا ہم بخشے جائیں گے۔ کیونکہ ہم اللہ کی برگزیدہ قوم ہیں ہم کو اللہ عذاب نہیں دے گا لَنۡ تَمَسَّنَا النَّارُ (آل عمران: 24) آتش جہنم ہمارے نزدیک نہیں آئے گی۔ یہ بات اللہ پر بہتان و افتراء پردازی ہے۔ حالانکہ ان سے عہد و میثاق لیا گیا تھا کہ وہ اس قسم کی ناحق نسبت اللہ کی طرف نہ دیں۔


وَ الَّذِیۡنَ یُمَسِّکُوۡنَ بِالۡکِتٰبِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ ؕ اِنَّا لَا نُضِیۡعُ اَجۡرَ الۡمُصۡلِحِیۡنَ﴿۱۷۰﴾

۱۷۰۔ اور جو لوگ کتاب اللہ سے متمسک رہتے اور نماز قائم کرتے ہیں ہم (ایسے) مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے ۔


وَ اِذۡ نَتَقۡنَا الۡجَبَلَ فَوۡقَہُمۡ کَاَنَّہٗ ظُلَّۃٌ وَّ ظَنُّوۡۤا اَنَّہٗ وَاقِعٌۢ بِہِمۡ ۚ خُذُوۡا مَاۤ اٰتَیۡنٰکُمۡ بِقُوَّۃٍ وَّ اذۡکُرُوۡا مَا فِیۡہِ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ﴿۱۷۱﴾٪

۱۷۱۔اور (یہ بات بھی یاد کرو) جب ہم نے پہاڑ کو ان کے اوپر اس طرح اٹھایا گویا وہ سائبان ہو اور انہیں یہ گمان تھا کہ وہ ان پر گرنے ہی والا ہے (ہم نے ان سے کہا) جو کچھ ہم نے تمہیں دے رکھا ہے پوری قوت کے ساتھ اس سے متمسک رہو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو شاید کہ تم تقویٰ والے بن جاؤ۔


وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚۛ شَہِدۡنَا ۚۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ﴿۱۷۲﴾ۙ

۱۷۲۔ اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور ان پر خود انہیں گواہ بنا کر (پوچھا تھا:) کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے کہا تھا: ہاں! (تو ہمارا رب ہے) ہم اس کی گواہی دیتے ہیں، (یہ اس لیے ہوا تھا کہ) قیامت کے دن تم یہ نہ کہ سکو کہ ہم تو اس بات سے بے خبر تھے۔

172۔ آیت سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ تخلیق انسان کے موقع پر اللہ نے اولاد آدم سے اپنی ربوبیت کا اقرار لیا تھا۔ ہمارے نزدیک اس کی صورت یہ ہو سکتی ہے کہ خالق نے تخلیق انسان کے موقع پر ان کی فطرت اور سرشت میں معرفت رب ودیعت فرمائی جیساکہ انسان کی تخلیق میں کام آنے والے اربوں خلیوں کی پیدائش ایک خلیے سے ہوئی اور جو سبق ابتدائی خلیے میںموجود جین (gene) کو پڑھایا گیا ہے وہ آنے والے تمام خلیات میں بطور وراثت منتقل ہو جاتا ہے۔ انسان نے اب تک جس حدتک عالم خلیات کے اندر جھانک کر دیکھا ہے اور تخلیق و تعمیر پر مامور اس محیر العقول لشکر کی حیرت انگیز کرشمہ سازیوں کا مشاہدہ کیا ہے، اس سے یہ بات بعید از قیاس معلوم نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ نے آدم (ع) کی پشت سے ان کی نسل کو نکالا تھا تو نسل انسانی کی جبلت کے ابتدائی خلیے کو اپنی ربوبیت کا درس پڑھایا ہو اور پھر اس سے اس کا اقرار لیا ہو۔ چنانچہ انبیاء کی بعثت کے بارے میں حضرت علی علیہ السلام سے روایت ہے: لِیَسْتَادُوھُم مِیثَاقَ فِطْرَتِہِ انہیں اس لیے بھیجا تاکہ لوگوں کو اللہ کی فطرت کا عہد و میثاق یاد دلائیں۔ (نہج البلاغۃ)

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے اس بارے میں منقول ہے: ثبتت المعرفۃ فی قلوبہم ونسوا الموقف ۔(المحاسن1 :241) یعنی لوگ واقعہ بھول گئے مگر معرفت دلوں میں نقش ہو گئی۔ ہم اپنے الفاظ میں یوں کہ سکتے ہیں: کلاس بھول گئے مگر سبق یاد ہے۔


اَوۡ تَقُوۡلُوۡۤا اِنَّمَاۤ اَشۡرَکَ اٰبَآؤُنَا مِنۡ قَبۡلُ وَ کُنَّا ذُرِّیَّۃً مِّنۡۢ بَعۡدِہِمۡ ۚ اَفَتُہۡلِکُنَا بِمَا فَعَلَ الۡمُبۡطِلُوۡنَ﴿۱۷۳﴾

۱۷۳۔یا یہ کہو کہ شرک تو ہم سے پہلے ہمارے باپ دادا نے کیا تھا اور ہم تو ان کے بعد کی اولاد ہیں، تو کیا اہل باطل کے قصور کے بدلے میں ہمیں ہلاکت میں ڈالو گے؟


وَ کَذٰلِکَ نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ وَ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ﴿۱۷۴﴾

۱۷۴۔اور اس طرح ہم آیات کو کھول کر بیان کرتے ہیں شاید کہ یہ لوٹ آئیں۔


وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ﴿۱۷۵﴾

۱۷۵۔اور انہیں اس شخص کا حال سنا دیجئے جسے ہم نے اپنی آیات دیں مگر وہ انہیں چھوڑ نکلا پھر شیطان نے اس کا پیچھا کیا تو وہ گمراہوں میں سے ہو گیا۔


وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ﴿۱۷۶﴾

۱۷۶۔اور اگر ہم چاہتے تو ان( آیات) کے طفیل اس کا رتبہ بلند کرتے لیکن اس نے تو اپنے آپ کو زمین بوس کر دیا اور اپنی نفسانی خواہش کا تابعدار بن گیا تھا، لہٰذا اس کی مثال اس کتے کی سی ہو گئی کہ اگر تم اس پر حملہ کرو تو بھی زبان لٹکائے رہے اور چھوڑ دو تو بھی زبان لٹکائے رکھے، یہ ان لوگوں کی مثال ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں، پس آپ انہیں یہ حکایتیں سنا دیجئے کہ شاید وہ فکر کریں۔

176۔ حضرت امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ یہ آیت بلعم باعور کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ اسے اسم اعظم کا علم دیا گیا تھا جس سے اس کی دعائیں قبول ہوتی تھیں۔ جب فرعون حضرت موسیٰ (ع) اور ان کے ساتھیوں کی طلب میں نکلا تو فرعون نے بلعم باعور سے کہا: موسیٰ (ع) کے خلاف دعا کرو۔ بلعم باعور حضرت موسیٰ(ع) کے تعاقب میں نکلنے کے لیے اپنے گدھے پر سوار ہوا لیکن گدھے نے ساتھ نہ دیا اور اسم اعظم بھی ذہن سے نکل گیا۔

مفسرین و محدثین کو اختلاف ہے کہ یہ آیت کس کے بارے میں نازل ہوئی۔ بعض کے نزدیک امیہ بن ابی صلت ہے۔ بعض کے نزدیک عامر بن نعمان راہب ہے۔ لیکن حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت ہے کہ اس آیت کا اصل شان نزول بلعم باعور کے بارے میں ہے۔ (مجمع البیان)۔

وَلَوْ شِئْنَا : اگر ہم چاہتے۔ اللہ کی مشیت ہے۔ اس کی مشیت حکمت و مصلحت کے تحت ہوتی ہے۔ اس شخص نے اگر اپنے علم پر عمل کیا ہوتا تو اس کا رتبہ بلند ہونا تھا۔ مگر اس نے بدعمل ہو کر اپنے آپ کو گرا دیا اور زمین بوس ہو گیا۔ جب علم رکھنے و الا خواہش پرست اور دنیا دار ہو جاتا ہے تو اس کی مثال کتے کی سی ہو جاتی ہے کہ وہ اپنے مزاج اور طبیعت میں لچک نہیں رکھتا، اسے نصیحت کرو یا اسے اپنی حالت پر چھوڑ دو، وہ قابل ہدایت نہیں ہوتا۔ یعنی اس کی حرص و ہوس کی آتش بجھنے والی نہیں ہے۔


سَآءَ مَثَلَاۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ﴿۱۷۷﴾

۱۷۷۔ بدترین مثال ان لوگوں کی ہے جو ہماری آیات کی تکذیب کرتے ہیں اور خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں۔


مَنۡ یَّہۡدِ اللّٰہُ فَہُوَ الۡمُہۡتَدِیۡ ۚ وَ مَنۡ یُّضۡلِلۡ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡخٰسِرُوۡنَ﴿۱۷۸﴾

۱۷۸۔راہ راست وہ پاتا ہے جسے اللہ ہدایت عطا کرے اور جنہیں اللہ گمراہ کرے وہ خسارے میں ہیں۔

178۔حقیقی ہدایت وہ ہے جس میں اللہ کی مشیت شامل ہو۔ اللہ کی مشیت تو صرف اہل لوگوں کے بارے میں ہوتی ہے اور اس طرح گمراہ وہ ہے جس کی گمراہی میں اللہ کی مشیت شامل ہو اور اللہ کی مشیت صرف ناقابل ہدایت لوگوں کی ضلالت کے بارے میں ہوتی ہے۔


وَ لَقَدۡ ذَرَاۡنَا لِجَہَنَّمَ کَثِیۡرًا مِّنَ الۡجِنِّ وَ الۡاِنۡسِ ۫ۖ لَہُمۡ قُلُوۡبٌ لَّا یَفۡقَہُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اَعۡیُنٌ لَّا یُبۡصِرُوۡنَ بِہَا ۫ وَ لَہُمۡ اٰذَانٌ لَّا یَسۡمَعُوۡنَ بِہَا ؕ اُولٰٓئِکَ کَالۡاَنۡعَامِ بَلۡ ہُمۡ اَضَلُّ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡغٰفِلُوۡنَ﴿۱۷۹﴾

۱۷۹۔ اور بتحقیق ہم نے جن و انس کی ایک کثیر تعداد کو (گویا) جہنم ہی کے لیے پیدا کیا ہے، ان کے پاس دل تو ہیں مگر وہ ان سے سمجھتے نہیں اور ان کی آنکھیں ہیں مگر وہ ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں مگر وہ ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے، یہی لوگ تو (حق سے) غافل ہیں۔

179۔ یہاں چار صورتیں قابل تصور ہیں: اول یہ کہ اللہ مومن و کافر سب کو جنت بھیج دے۔ دوم یہ کہ کافر و مومن سب کو جہنم بھیج دے۔ سوم یہ کہ مومن کو جہنم اور کافر کو جنت روانہ کرے اور چہارم یہ کہ مومن کو جنت اور کافر کو جہنم بھیج دے۔ پہلی، دوسری اور تیسری صورتیں ناممکن ہیں۔ پس چوتھی صورت ہی ممکن اور عدل و انصاف کے مطابق ضروری بھی ہے۔ اس نظام عدل کے مطابق لازم آتا ہے کہ کچھ لوگوں کو گویا جہنم ہی کے لیے پیدا کیا گیا ہے


وَ لِلّٰہِ الۡاَسۡمَآءُ الۡحُسۡنٰی فَادۡعُوۡہُ بِہَا ۪ وَ ذَرُوا الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اَسۡمَآئِہٖ ؕ سَیُجۡزَوۡنَ مَا کَانُوۡا یَعۡمَلُوۡنَ﴿۱۸۰﴾

۱۸۰۔اور زیبا ترین نام اللہ ہی کے لیے ہیں پس تم اسے انہی (اسمائے حسنیٰ) سے پکارو اور جو اللہ کے اسماء میں کج روی کرتے ہیں انہیں چھوڑ دو، وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔

180۔ مسمّٰی کی عظمت اور حسن سے اسم میں عظمت اور حسن آتا ہے۔ مسمی اگر آپ کا محبوب ہے تو اسم بھی شیریں محسوس ہوتا ہے۔ لہٰذا آداب بندگی یہی ہیں کہ اللہ کو اس کے اچھے ناموں کا ساتھ پکارا جائے۔ فریقین کی روایات میں آیا ہے کہ اللہ کے ننانوے اسمائے حسنیٰ ہیں۔ جو ان اسما کے ساتھ دعا کرے اس کی دعا قبول ہو گی۔


تبصرے
Loading...