۔نظریاتی اور اعتقادی بنیاد کو کھوکھلا کرنا

۴۔نظریاتی اور اعتقادی بنیاد کو کھوکھلا کرنا

یہ لوگ نظریاتی اور اعتقادی بنیادوں کو مھمل قرار دے کر فقط فتوحات کی طرف متوجہ ھو گئے اور محرمات خدا میں ظلم و تعدی کرنے لگے جیسا کہ جلیل القدر صحابی رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مالک بن نویرہ اور ان جیسے دوسرے افراد کو قتل کرنا ان کے ظلم کا واضح ثبوت ھے۔

اس جلیل القدر صحابی کو خالد بن ولید نے بڑی بے دردی کے ساتھ قتل کیا جب کہ وہ جانتا تھا کہ وہ مسلمان ھیں نمازیں پڑھتے ھیں شہادتین پر ایمان رکھتے ھیں۔

 یعقوبی اپنی تاریخ میں لکھتے ھیں کہ مالک بن نویرہ کو خالد بن ولےد کے پاس لایا گیا اس کے پیچھے پیچھے اس کی بیوی بھی آگئی جب خالد نے اسے دیکھا تو اس پر فریفتہ ھوگیا۔

 خالد کھنے لگا خدا کی قسم میں تجھے قتل کردوں گا اور تلوار کے ذریعہ اس نے مالک بن نوےرہ کی گردن اڑادی اور اس کی بیوی کے ساتھ شادی کرلی۔بلکہ اس سے زنا کیا۔

 ابو قتادہ نے حضرت ابوبکر کو اس کی اطلاع دی اس نے فقط اس کی قیدی بیوی کو خالد کے چنگل سے آزاد کروادیا، جبکہ مالک بن نوےرہ مسلمان تھا اور اسلام کی حالت میں قتل ھوا تھا ،اس کے متعلق حضرت ابوبکرنے خالد کو کچھ بھی نہ کہا۔

خمس میں ذوی القربی کا حصہ ختم کرنا

حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد خمس سے قریبی رشتہ داروں کا حصہ ختم کردیا گیا جبکہ قرآن مجید میں خمس میں ذوی القربی کے حصے کے متعلق نص موجود ھے ۔

ارشاد رب العزت ھوتا ھے :

اور یہ جان لو جب کسی طرح کی غنیمت تمہارے ہاتھ آئے تو اس کا پانچواں حصہ اللہ اور رسول کا ھے (اور رسول کے )قرابت داروں،یتیموں، مسکینوں،اور مسافروں کا حق ھے اگر تم اللہ پر ایمان لائے ھو اور اس پر جو ھم نے اپنے بندے پر فیصلہ کے دن نازل کی تھی جس دن دوگروہ آمنے سامنے آگئے اور اللہ تعالی ھر چیز پر قدرت رکھنے والا ھے ۔

چنا نچہ تمام مسلمانوں کااجماع ھے کہ خمس میں سے ایک حصہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مخصوص تھا اور ایک علیحدہ حصہ آپ(ص) کے قریبی رشتہ داروں کے ساتھ مخصوص تھا اس میں کسی قسم کی تبدیلی نہ ھوئی حتی کہ اللہ تعالی نے آپ(ص) کو اپنی بارگاہ میں بلالیا۔

لیکن آپ(ص) کی وفات کے بعد خلافت پر مسلط ھونے والے اصحاب رسول نے خمس میں سے بنی ھاشم کا حصہ ختم کردیا اور انھیں دوسرے لوگوں کے برابر سمجھنے لگے اور انھیں دوسری یتیم عورتوں ،مسکینوں اور مسافروں کی صفوں میں شامل کردیا ۔

یہ آیت مبارکہ منسوخ بھی نھیں ھوئی ھے اور جیسا کہ پھلے گزر چکا ھے کہ۔

 حلال محمد حلال الی یوم القیامةوحرامہ حرام الی یوم القیامة ۔

حلال محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کے لئے حلال اور حرام محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قیامت تک کے لئے حرام ھے۔ جب اس طرح ھے تو پھر خمس میں سے ذوی القربی کا حصہ کیوں ساقط کیا گیا !!!؟

۶۔متعہ الحج کا ختم کرنا

ارشاد رب العزت ھے:

جو شخص حج تمتع کا عمرہ کرے تو اسے جو قربانی میسر آئے وہ کرنا ھوگی اور جس کے لئے قربانی کرنا ناممکن ھو تو اسے تین روزے حج کے زمانہ میں اور سات روزے جب وہ حج سے واپس آئے (رکھنے ھوں گے)اس طرح یہ دس دن پورے ھو جائیں گے یہ حکم اس شخص کے لئے ھے جو مسجد الحرام (مکہ) کے باشندہ نہ ھوں ۔

عمرہ تمتع کی حج کے ساتھ صفت بیان کرنے کا مطلب یہ ھے کہ حج کے مھینوں میں کسی ایک میقات سے احرام باندھنا ھوتا ھے پھر مکہ میں خانہ کعبہ کے طواف کے لئے داخل ھونا ھوتا ھے‘ اور نماز ادا کر نی پڑتی ھے ‘ اس کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنی ھوتی ھے اور پھر بال کٹواتے ھیں اس وقت احرام باندھنے کی وجہ سے جو کچھ حرام تھا وہ سب حلال ھو جائے گا۔ پھر اسی حالت پر باقی رھے اور اسی سال حج کے لئے ایک اور احرام باندھ کر عرفات کی طرف نکل جائے وہاں سے مشعر الحرام میں اعمال کے اختتام تک ٹھھرے۔ یھی عمرہ تمتع الی الحج ھے۔

اللہ تعالی نے جو ارشاد فرمایا ھے : 

فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَی الْحَج۔

اس سے مراد یہ ھے کہ جو اس میں متعہ اور لذت پائی جاتی ھے احرام کے محرمات وغیرہ (دونوں احراموں کی مدت کے درمیان) مباح ھوگئے ھیں۔ اب محرم اور غیر محرم میں کسی قسم کا فرق نھیں ھے۔ یہاں تک کہ اپنی بیویوں کو لمس بھی کر سکتا ھے۔ یھی قرآن کی شریعت ھے لیکن حکومت پر مسلط اور قابض بعض اصحاب نے اس کی مخالفت کی ۔احمد بن حنبل ابو موسی سے روایت بیان کرتے ھیں کہ ابوموسی نے متعہ کا فتوی دیا ایک شخص کھنے لگا تیرے بعض فتوے عجیب ھیں کیا تم نھیں جانتے امیر نے اس کے متعلق کیا کچھ نھیں کھاھے۔ ابو موسی کھتا ھے کہ میں حضرت عمر کے پاس گیا اور اس سے پوچھا تو حضرت عمر کھنے لگے جیسا کہ تو جانتا ھے کہ حضرت نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کے اصحاب نے متعہ کیا لیکن میں اسے ناپسند کرتا ھوں ۔

ابی نضرہ حضرت جابر رضی اللہ سے روایت بیان کرتے ھیں کہ جابر نے کھاابن زبیر تو متعہ سے روکتا ھے لیکن ابن عباس متعہ کرنے کے لئے کھتے ھیں، راوی کھتا ھے کہ ھمارے سامنے یہ سیرت موجود ھے کہ ھم حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابوبکر کے زمانے میں متعہ کرتے تھے۔

 جب عمر خلیفہ بنے تو انھوں نے لوگوں کو خطبہ دیا اور اس میں انھوں نے کھابے شک رسول اللہ ھی رسول ھیں اور قرآن یھی قرآن ھے ان دونوں نے متعہ کی اجازت دی تھی اور حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں اسی پر عمل بھی ھوتا رھالیکن میں تمھیں ان دونوں سے منع کررھاھوں اور جو شخص متعہ کرے گا، میں اسے سزا دوں گا۔

 ان دونوں میں ایک متعہ النساء ھے۔ میرے پاس کوئی ایسا شخص نہ لایا جائے جس نے معینہ مدت کے لئے کسی عورت سے نکاح کیا ھو میں اسے پتھروں میں چھپا دوں گا (یعنی سنگسار کردوں گا )اور دوسرا متعہ الحج ھے ۔

بالفاظ دیگر خلیفہ یہ کھنا چاھتے ھیں کہ خدا کا حکم ھے (کہ اس نے اسے جائز قرار دیا ھے) اور میرا یہ حکم ھے (کہ میں اسے ناجائز قرار دیتا ھوں )۔اس سے بڑھ کر (اللہ کے فرمان کی مخالفت کرنے میں)اور بڑا اعتراف کونسا ھوگا اوراس سے بڑی اور کیا جسارت ھو گی !!!۔


سورہ :بقرہ :۱۹۶

تبصرے
Loading...