۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے پر ھجوم

۲۔حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام کے دروازے پر ھجوم

 حضرت علی علیہ السلام اورحضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاکے دروازے پر ھجوم کرنا اسکی حرمت کا خیال نہ رکھنا ،دروازے پر لکڑیاں جمع کرنا اور گھر کو جلانے کی دھمکیاں دینا کیا ھے؟ جبکہ جناب فاطمہ سلام اللہ علیھاکا گھر انبیاء علیھم السلام کے گھروں سے بھی افضل تھا۔ سیوطی در منثور میں سورہ نور کے ذیل میں اللہ تعالی کے اس فرمان کی تفسیر بیان کرتے ھوئے کھتے ھیں :

یہ ایسے گھروں میں سے ھے جس کے بارے میں خدا نے حکم دیا ھے کہ ان کی تعظیم کی جائے اس کا نام ان میں لیا جائے ۔

ابن مردویہ اور بریدہ نے روایت بیان کی ھے کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے جب اس آیت مبارکہ کی تلاوت فرمائی تو ایک شخص نمودار ھوا اور اس نے دریافت کیا:

یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ کون سے گھر ھیں۔

 حضرت نے فرمایا:

 وہ انبیاء علیھم السلام کے گھر ھیں ۔

حضرت ابوبکر کھڑے ھوئے اور انھوں نے دریافت کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ گھر جس میں حضرت علی اور حضرت فاطمہ علیھاالسلام رھتے ھیں کیا یہ بھی انھیں گھروں میں سے ھے؟ حضرت نے جواب میں فرمایا: جی ہاں، بلکہ یہ تو انبیاء کے گھروں سے بھی افضل ھے۔

یہ وہ گھر تھا جہاں روح الامین تشریف لاتے تھے اور ملائکہ کی آمد و رفت ھوتی تھی اور اس گھر کو اللہ تعالی نے رجس سے اسطرح پاک رکھا جس طرح پاک رکھنے کا حق ھے یہ وہ گھر جس میں حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بھی اجازت کے بغیر داخل نہ ھوتے تھے ۔جب اس گھر کی بے حرمتی کی گئی اور یہ بھی نہ دیکھا گیا کہ اس گھر میں کون لوگ موجود ھیں؟ اور یہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کی وجہ سے کس قدر غمگین ھیں؟

 اس گھر کے اردگرد لکڑیاں جمع کی گئیں اور اس کو جلا دینے کی دھمکیاں دیں گئیں اور اھلبیت علیھم السلام کے ساتھ زیادتی کی گئی وہ اھلبیت جن کی مودت کے واجب ھونے کا اعلان آیت مودت کرتی ھے اور آیت تطھیر جن کی طہارت اور پاکیزگی کا قصیدہ پڑھتی ھے۔

ابن قتیبہ کھتے ھیں کہ خلافت پر قبضہ جمانے والوں نے چند مرتبہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف پیغام بھیجا لیکن آپ نے ان کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

ابن قتیبہ مزیدکھتے ھیں کہ یہ سن کر حضرت عمر کھڑے ھوئے ان کے ساتھ ایک گروہ تھا وہ لوگ جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھاکے دروازے پر آئے انھوں نے دق الباب کیا جب جناب سیدہ سلام اللہ علیھا نے ان کی بلند آوازیں سنیں ۔

تب بی بی فاطمہ زھراء سلام اللہ علےھا بلند آواز سے پکار کر کھتیں ھیں۔ اے میرے بابا، اے رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ کے بعد ابن خطاب اور ابن ابی قحافہ میرے دروازے پر کس طرح حملہ آور ھورھے ھیں ۔

جب لوگوں نے جناب سیدہ کے رونے کی آواز سنی تو ان میں سے بعض روتے ھوئے دروازے سے ہٹ گئے ،قریب تھا کہ ان کا دل اس دردناک آواز کو سن کر پھٹ جائے لیکن عمر اور ایک گروہ وہاں موجود رھاانھوں نے حضرت علی علیہ السلام کو گھر سے نکالا اور ابوبکر کے پاس لے آئے اور ان سے کھنے لگے کہ ابوبکر کی بیعت کرو۔

 حضرت نے فرمایا اگر میں اس کی بیعت نہ کروں تو پھر؟

 وہ کھنے لگے: خدا کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نھیں ھم آپ(ع) کی گردن اتار لیں گے ۔

ایک اور روایت میں ابن قتیبہ بیان کرتے ھیں کہ حضرت ابوبکر نے ان لوگوں کو گرفتار کرنے کا حکم دیا جنھوں نے اس کی بیعت کرنے سے انکار کیا تھا اور یہ لوگ حضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام کے پاس موجود تھے۔ حضرت ابوبکر نے حضرت عمر کو ان کی طرف بھیجا حضرت عمر گئے اور اس نے ان سے بیعت کرنے کا مطالبہ کیا وہ لوگ حضرت علی علیہ السلام کے گھر موجود

تھے انھوں نے گھر سے باھر نکلنے سے انکار کر دیا تو حضرت عمر نے لکڑیاں لانے کے لئے کھااور کھنے لگا :

والذي نفس عمر بیدہ لتخرُجن اٴولاٴحرقنھا علیٰ مَن فیھا فقیل لہ یا اٴبا حفص اِنّ فیھا فاطمہ فقال واِن ۔

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں عمر کی جان ھے اگر یہ لوگ باھر نہ نکلے تو میں اس گھر کو گھر والوںسمیت جلا کر راکھ کر دوں گا۔

کسی نے اس سے کھا: اے ابو حفص جا نتے ھو کہ اس گھر میں تو جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا موجود ھیں ، وہ کھنے لگا تو ھوتی رھیں ۔جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا فرماتی ھیں تم میں سے جو بھی بری نیت لے کر میرے دروازے پر آیا ھے میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق نھیں ھے۔

 حق کی جستجو کرنے والے قاری محترم آپ نے ملاحظہ کیا کہ کس کس طرح لوگوں نے رفتار گفتار اور عمل کے میدان میں حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عمل اور ان کی رفتار گفتار سے انحراف کیا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی آل پاک کے ساتھ کیسا سلوک کرنے کو کھااور ان لوگوں نے ان کے ساتھ کیا کیا؟

فدک کا غصب کرنا

فدک جناب فاطمہ زھراء سلام اللہ علیھا کا حق تھا۔ لیکن ان لوگوں نے بی بی (ع)کے اس حق کو غصب کرلیا۔بی بی (ع)نے یہ دعوی کیا تھا کہ یہ میری میراث ھے۔ لیکن اس دعوی کو انھوں نے رد کردیا اور جناب امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام اور جناب ام ایمن کی گواھیوں کو جھٹلادیا ۔

 علامہ امام شرف الدین کھتے ھیں کہ فدک کے متعلق حاکم کا اتنا علم ھی کافی تھا کہ یہ مدعی(فاطمہ) تقدیس کی معراج پر فائز ھے اور تقدس میں وہ جناب مریم(ع) بنت بن عمران (ع)کی ھم پلہ ھے بلکہ ان سے بھی افضل ھے ۔جناب زھرا(ع)ء جناب مریم (ع)جناب خدیجہ(ع) جناب آسیہ (ع)اھل جنت کی عورتوں سے افضل ھیں ۔جس طرح اللہ تعالی نے اپنی واجب نمازوں میں اپنے بندوں پر شہادتین پڑھنا واجب قرار دیا ھے اسی طرح ان پر درود سلام بھیجنا بھی واجب قرار دیا ھے اور یہ بی بی(ع) ان ھستیوں میں سے ھے جن پر نماز میں درود بھیجنا واجب قرار دیا گیا ھے ۔

شیخ ابن عربی کھتے ھیں جیسا کہ ابن حجر کی کتاب صواعق المحرقہ وغیرہ میں بھی موجود ھے ۔

          رایتُ ولائي آل طہ فریضةً

                             علیٰ رغم اٴھل البعد یُورثني القُربیٰ

          فما طلب الرحمن اٴجراً علیٰ الھدیٰ

                                       بتبلیغہِ اِلاّ المودةَ في القربیٰ         

میں سمجھتا ھوں کہ آل طہ کی ولایت واجب ھے ۔قرابت دار ھی وراثت کے حق دار ھوتے ھیں۔ اگرچہ بعض لوگوںنے ان کے اس حق کو نظر انداز کیا ھے۔ خداوند عالم نے صرف محبت اھلبیت ھی کو اجر رسالت و تبلیغ ھدایت کے عوض قرار دیا ھے۔

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام حضرت ابوبکر سے کھتے ھیں:

 اے ابوبکر کیا تم نے اللہ کی کتاب کو پڑھا ھے ۔

وہ کھنے لگے جی ہاں۔

 آپ (ع)نے فرمایا مجھے یہ بتاؤ کہ اللہ تعالی کا یہ فرمان کس کی شان میں نازل ھواھے :

۔

اے اھلبیت اللہ فقط یہ چاھتا ھے کہ آپ اھلبیت (ع) سے ھر قسم کی گندگی اور رجس کو دور رکھے اور ایسا پاک رکھے جیسا پاک رکھنے کا حق ھے ۔

یہ آیت ھماری شان میں نازل ھوئی ھے یا ھمارے علاوہ کسی اور کی شان میں نازل ھوئی ھے؟

وہ کھنے لگا کہ یقینا آپ(ع) کی شان میں نازل ھوئی ھے۔

 حضرت نے فرمایا اچھا یہ بتاؤ اگر چند لوگ گواھی دیں کہ جناب سیدہ فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فلاں غلط کام کیا ھے تو تم کیا کروگے ؟

وہ کھنے لگے میں ان پر اس طرح حد جاری کروں گا جس طرح میں تمام مسلمان عورتوں پر حد جاری کرتا ھوں ۔حضرت نے فرمایا تو پھر اس وقت تو اللہ کے نزدیک کافروں کے ساتھ محسوب ھوگا۔

 وہ کھنے لگا کیوں ؟

حضرت نے فرمایا چونکہ اللہ نے اس کی طہارت کی گواھی دی ھے اور تو نے اس کی گواھی کو جھٹلادیا ھے اور اس کے عوض لوگوں کی گواھی کو قبول کیا ھے تم نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات کو جھٹلا دیا ھے اور ایک اعرابی کی گواھی کو قبول کیا ھے کیونکہ اللہ اور اس کے رسول نے فدک جناب سیدہ کو عطافرمایا ھے اور تم نے جناب سیدہ سے اس کو چھین لیا ھے اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :

البیّنة علیٰ المدعي والیمین علیٰ المدّعٰی علیہ ۔

گواہ اور بینہ پیش کرنا مدعی کی ذمہ داری ھے اور مدعی علیہ پر قسم ھے ۔

استاد محمود ابو ریہّ مصری المعاصر کھتے ھیں کہ اس مقام پر ضروری ھے کہ ھم اس بات کی وضاحت کریں کہ جناب فاطمہ صلوات اللہ علیھا کے ساتھ آپ(ع) کے والد محترم کی میراث کے حوالے سے حضرت ابوبکر نے جو رویہّ اختیار کیا ھے ھمیں کھل کر اس کی وضاحت کرنی چاھےے۔ اس سلسلے میں وہ کھتے ھیں کہ اولاً تو ھم اس حدیث کو مانتے نھیں جو انھوں نے گھڑی ھے۔ اورثانیا ً اگر ھم اس کو تسلیم بھی کر لیں تو یہ خبر واحد ظنی ھے اور خبر واحد ظنی، کتاب قطعی(قرآن) کے لئے کس طرح مخصص بن سکتی ھے ؟

ثالثاً اگر یہ سچ ھے اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ فرمایا تھا کہ ھم وراثت نھیں چھوڑا کرتے(  جبکہ اس خبر کے عموم کی تخصیص بھی نھیں ھے) تو اس وقت حضرت ابوبکر کے لئے بھترین موقع تھا کہ حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے والد محترم حضرت رسول اکرم(ص) کی چھوڑی ھوئی تمام میراث پر قبضہ جما لیتے۔

 فقط خاص طور پر فدک پر ھی قبضہ کیوں کیا اور اس کو مخصص بنا کر اس حدیث کی تخصیص کیوں کی ھے؟ جبکہ فدک جناب سیدہ سلام اللہ علیھا کا وہ حق تھا جس میں کسی کو کسی قسم کا اشکال نھیں ھے۔

 اس کی تخصیص تو فقط زبیر بن عوام اور محمد بن مسلمہ وغیرہ نے کی ھے کہ حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی متروکات میں سے فدک ھی وہ ھے جس سے ابوبکر نے جناب فاطمہ سلام اللہ علیھا کو روک دیا تھا، اگر فدک واقعا کسی کی میراث نھیں بن سکتا تھا تو خلیفہ عثمان کبھی بھی مروان کو اس کے کچھ حصے کا مالک نہ بناتا ۔

ابن ابی حدید نے بعض بزرگوں سے ایک روایت نقل کی ھے جس کا مضمون یہ ھے کہ ان دونوں خلفاء نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دختر کے ساتھ ان کی وفات کے بعد جو رویہّ اپنایا، ھمیں اس پر سخت تعجب ھوتا ھے!!

 آخر میں کھتے ھیں :

وقد کان الاٴجلّ اٴن یمنعھما التکرُّم عما ارتکباہ من بنت رسول اللہ فضلاً عن الدین۔

اور اس سے بڑھ کر کہ انھوں نے بنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اکرام تک نہ کیا چہ جائیکہ وہ بی بی(ع) کا حق ادا کرتے۔

اس کے ذیل میں ابن حدید کھتے ھیں کہ اس بات کا کوئی شخص بھی جواب نھیں دے سکتاھے ۔

صاحب فدک فی التاریخ میں ایک مطلب کو بیان کرتے ھیں کہ اگر خلیفہ کا موقف درست تھا اور یہ بھی مان لیتے ھیں کہ حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارشاد بھی فرمایا تھا ھم انبیاء وراثت نھیں چھوڑا کرتے اور جو کچھ ھم چھوڑ جاتے ھیں وہ صدقہ ھوتا ھے تو پھر حضرت عمر نے خلیفہ کے فرمان کو کیوں مھمل قراردیا اور پس پشت ڈال کر فدک کو جناب عباس اور جناب علی (ع) کے سپرد کردیا؟

 فدک کو ان دونوں کے سپرد کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ فدک حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث تھی اور یہ کام انھوں نے اپنی خلافت کے دوران انجام دیا تھا۔

 قارئین کرام !آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح یہ لوگ الٹے پاؤں پھر گئے اللہ تعالی اور اس کی شریعت نے اھل بیت علیھم السلام سے متعلق مودت کا حکم دیا تھا اور وہ ان سے کس طرح روگردان ھو گئے ۔

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کئی مرتبہ ارشاد فرمایا :

  المرء یحفظ فی ولدہ ۔

کسی شخص کی عزت و اکرام اس کی اولاد کی عزت و حفاظت کے ساتھ ھوتی ھے۔

 جیسا کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حدیث ثقلین میں ارشاد فرمایا ھے (جس کا تذکرہ پھلے ھو چکا ھے )

فانظروا کیف تخلفونني فیھما۔

 میں دیکھ رھاھوں کہ تم ان دونوں گراں قدر چیزوں میں کس طرح میری مخالفت کررھے ھو۔


سیوطی درمنثور میں مندرجہ بالاآیت کی تفسیر بیان کرتے ھوئے ۔

مجلہ رسالہ مصریہ نمبر ۵۱۸ ،السنہ :۱۱ص ۴۵۷۔

تبصرے
Loading...