مولفہ قلوب کا حصہ ختم کرنا

۷۔مولفہ قلوب کا حصہ ختم کرنا

 اللہ رب العزت کا فرمان ھے:

صدقات تو فقط محتاجوں ،مسکینوں اور صدقات وصول کرنے والوں اور ان لوگوں کا حق ھے جن کی قلبی تالیف منظور ھو نیز غلام آزاد کرنے اور قرض داروں کا قرض ادا کرنے کے لئے اور راہ خدا میں (مجاھدین کی تیاری)اور مسافروں کی امداد میں صرف کیا جائے اور یہ اللہ کی طرف سے مقرر ھو چکا ھے اور اللہ صاحب علم وحکمت ھے۔

آیت واضح طور پر یہ بتاتی ھے کہ صدقات مندرجہ بالا اصناف میں سے ھر اک صنف کا حصہ ھے۔ اور سیرت مستمرہ بھی یھی رھی ھے ۔لیکن جب حضرت ابوبکر خلیفہ بنے تو مؤلفة القلوب اس کے پاس آئے تا کہ اس سے اپنا حصہ وصول کریں۔ جس طرح یہ لوگ حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مؤلفة القلوب کے عنوان سے وصول کرنے کی عادت بنا چکے تھے۔ حضرت ابوبکر نے انھیں ان کا حصہ لکھ دیا وہ لوگ یہ خط حضرت عمر کے پاس لےکر گئے تا کہ اس سے اپنا حصہ وصول کریں ۔

حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کے خط کو پھاڑ دیا اور ان لوگوں سے کہا: ھمیں تمہاری کوئی ضرورت نھیں ھے اللہ نے ھی اسلام کو عزت دی ھے اور وہ تم لوگوں سے بے نیاز ھے اگر تم اسلام لے آؤ تو ٹھیک ھے وگرنہ ھمارے اور تمہارے درمیان تلوار فیصلہ کرے گی۔

 وہ لوگ حضرت عمر کی اس جسارت کو دیکھ کر حضرت ابوبکر کے پاس گئے اور ساراقصہ بیان کرنے کے بعد کہا: کیا آپ خلیفہ ھیں یا وہ خلیفہ ھے۔

 حضرت ابوبکر کھتے ھیں انشاء اللہ وھی خلیفہ ھیں جو کچھ حضرت عمر نے فیصلہ کیا تھا اسی کے مطابق عمل کیا اور انھیں کچھ بھی نہ دیا ۔

اس آیت کریمہ پر امت اسلامیہ کا اجماع ھے کہ یہ آیت منسوخ نھیں ھوئی لہٰذا خلیفہ کے لئے یہ کس طرح جائز ھے کہ وہ کتاب وسنت کی مخالفت کرے اورقرآن وسنت کے مقابلہ میں صرف اپنی رائے پر عمل کرے!!!

 جب جناب سیدہ فاطمہ الزھرہ سلام اللہ علیھا نے اپنے والد محترم حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی میراث کا مطالبہ کیا تو حضرت ابوبکر کھنے لگے کہ میں نے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ فرماتے ھوئے سنا ھے کہ ھم انبیاء وراثت نھیں چھوڑا کرتے اور جو چیز ھم چھوڑ کر جاتے ھیں وہ صدقہ ھوتا ھے۔

 اس کے بعد کھتے ھیں خدا کی قسم میں ھر اس کام کو ضرور انجام دوں گا جسے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو انجام دیتے ھوئے دیکھا ھے۔ انشاء اللہ تعالی۔

جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مؤلفة القلوب کو ان کا حصہ دیتے تھے تو حضرت ابوبکر نے ان کا حصہ کیوںختم کیا !!؟

۸۔اذان واقامت سے حی علی خیر العمل کا نکالنا  

حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانہ میں،حی علی خیر العمل اذان واقامت کا جز تھا۔ لیکن انھوں نے اللہ تعالی کے اس حکم کو اذان واقامت سے نکال دیا۔

امام مالک اپنی کتاب موطہ ابن مالک میں بیان کرتے ھیں کہ مؤذن حضرت عمر ابن خطاب کے پاس آیا تا کہ اسے نماز صبح کی اطلاع دے لیکن اس نے حضرت عمر کو سویا ھوا پایا تواس نے یہ جملہ کھا:

 الصلوٰةُ خیرٌ من النوم ۔

نماز نیند سے بھتر ھے۔

 اس کے بعد حضرت عمر نے اس کو حکم دیا کہ صبح کی اذان میں اس جملے کا اضافہ کردیا جائے ۔

زرقانی موطا ابن مالک کی شرح بیان کرتے ھوئے حضرت عمر کی روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت عمر نے مؤذن سے کھانماز فجر کی اذان میں جب تم

(حی علی الفلاح )پر پھنچو تو تم(   الصلوٰةُ خیرٌ من النوم ۔)کا اضافہ کردینا ۔

۹۔بیت المال کی تقسیم میں سیرت نبی(ص) سے انحراف

حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یہ سیرت تھی کہ عطیات کو فوراً تقسیم کردیتے تھے اور تمام مسلمانوں کے درمیان مال غنےمت برابر برابر تقسیم فرماتے تھے۔

خواہ کو ئی عرب ھو یا غیر عرب مہاجر ھو یا انصار سب کو برابر کا حصہ ملتا تھا۔لیکن(آپ (ص)کی وفات کے بعد)اموال کی تقسیم میںکافی فرق کر دیا گیا۔

  خصوصاً حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کے دور میں تو اس تقسیم میں بھت زیادہ فرق ھونے لگا،مثلاً کسی کو۳ ہزارکسی کو۴ ہزار کسی کو۵ ہزاریہاں تک کہ کسی کو۱۲ہزارتک دیا جانے لگا جب کہ عوام الناس اور فقراء کو ۲ہزار (۲۰۰۰)ملتا تھا ۔

خلیفہ ثالث کے دور میں تو کوئی حساب کتاب ھی نہ تھا اس کا جتنا جی چاھتا اتنا مال دے دیتا۔ اس نے اپنے خاندان کے قریبی رشتہ داروں کو عوام الناس پر مسلط کردیا ،گورنری اور دیگر حکومتی عھدوں کو فقط اپنے خاندان میں ھی منحصر کردیا تھا۔

حضرت عثمان نے اپنے چچا حکم بن ابی عاص کو صدقات میں سے کثیر رقم قرابت داری کی وجہ سے عنایت کی حالانکہ حضرت رسول (اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم)نے اسے مدینہ سے نکال دیا تھا (اسی وجہ سے اسے طرید النبی(نبی کا نکالا ھوا )کھاجاتا ھے)۔

بلازری اپنی کتاب انساب میں روایت بیان کرتے ھیںکہ اسے دیئے جانے والے صدقات کی مالیت تین لاکھ درھم تھی جب یہ واپس آگیا تو عثمان نے صدقات کی یہ رقم

اپنے چچا حکم کو ھدیہ کر دیا۔

حضرت عثمان نے اپنے چچا زاد اور اپنی بیٹی ام ابان کے شوھر مروان بن حکم بن ابی عاص کو افریقہ سے حاصل ھونے والے غنائم کا خمس دے دیا جبکہ ان کی مالیت پانچ ملاکھ دینار تھی۔

اس وقت عبدالرحمن بن حنبل الجمعی الکندی شاعر نے خلیفہ کو مخاطب کر کے یہ اشعار کھے:

دعوتْ اللعینَ فاٴدنےتہُ                          خلافا لسنةمن قد مضیٰ

واٴعطیتُ مروانَ خُمس الَعبا                      دظلما لھم وحمیتُ الحمیٰ

تونے اپنے لعےن چچا کو بلا کرمال و دولت سے نوازا جبکہ اس کو بلانا تم سے پھلے والے لوگوں کی سنت اور سیرت کے خلاف تھا اور تو نے رشتہ داری کی وجہ سے اسے خمس دے کر دوسرے لوگوں پر ظلم کیا۔ 

غنائم کی تقسیم کے حوالہ سے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت اور سیرت یہ تھی کہ اللہ کے لئے پانچواں حصہ اور باقی چار حصے لشکر والوں کے لئے ھوتے اور اس سلسلہ میں کسی کو کسی دوسرے پر کوئی برتری حاصل نھیں تھی۔

اپنی طرف سے کسی کے حصے میں اضافہ نھیں کیا کرتے تھے اور اگر کوئی زیادہ کا مطالبہ کرتا تو اس سے کھتے تھے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے زیادہ حق دار نھیں ھو۔ جب حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے مال غنیمت لایا جاتا آپ اسے اسی دن تقسیم فرما دیتے اور اھل جنگ کو دوحصے اور باقی عربوں میں ایک حصہ بانٹا جاتا۔

مندرجہ بالا مطلب کی روشنی میں صحابہ کرام خلیفہ ثانی سے راضی نہ تھے کیونکہ مال کی تقسیم کے حوالہ سے یہ بعض لوگوں کو دوسروں پر ترجیح دیتے تھے جس کو کسی دوسرے پر کوئی فضیلت ھوتی اسے معتبر قرار دیتے جیسا کہ وہ حضرت نبی خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیگمات اور امہات مومنین کو دوسر ی عورتوں پرترجیح دیتے تھے اسی طرح بدری کو غیر بدری پر مہاجرین کو انصار پر اور مجاھدین کو گھر بیٹھنے والے پر وہ ترجیح دیتے تھے ۔

غلط تقسیم اور مالی تفاوت کی وجہ سے طبعی تفاوت بھی پیدا ھوگیا تھا اور انھوں نے اسلام کے خلاف چلنے کا فیصلہ کرلیا تھااور خلیفہ ثالث کے زمانہ میں تو یہ لوگ خاص طور پر زمانہ جا ھلیت کی طرف پلٹ گئے اس وقت غالب اور مغلوب طبقات پیدا ھوگئے ۔ جب ساری حکومت بنی امیہ کے ہاتھوں میں چلی گئی تو ایسا معلوم ھوتا تھا کہ یہ بوستان فقط قریش کے لئے ھے اور ان کے علاوہ کسی کو اس میں داخل ھونے کاکوئی حق نھیں ھے۔ یہ انحراف قرآن کی روشنی میں شجر ملعونہ کی شکل میں ظاھر ھوا اس کے بعد لوگ غلام بن گئے اور قرآن مجید میں موجود شجرہ ملعونہ کا ثمرہ یزید بن معاویہ اور اس جیسے دوسرے لوگ تھے ۔

اگرحضرت علی علیہ السلام کو حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات حسرت آیات کے بعد خلافت مل جاتی اور تا حیات آپ کے پاس رھتی اور آپ کی شہادت کے بعد یہ خلافت،امین، طاھر اور نیک لوگوں اور اپنے سچے وارثوں کی طرف منتقل ھوتی رھتی اور اس کے وارث صحیح معنی میں ائمہ ھدی علیھم السلام قرار پاتے تو دنیا کے سامنے اسلام درست تابناک اور روشن چھرے کے ساتھ ظاھر ھوتا۔

جبکہ حضرت علی علیہ السلام کی خلافت بھت کم مدت کے لئے تھی اور آپ کو خلافت اس زمانہ میں ملی جس میں طبعی تفاوت اپنی انتھاء کو پھنچ چکے تھے کمزور لوگ مغلوب بنا لئے گئے تھے ھلاکت میں ڈالنے والی جنگوں کی وجہ سے ھر طرف وحشت ھی وحشت تھی۔

 ان سپاہ سالاروں اور ان کی فتوحات پر ترقیاں اور انعامات دئیے جارھے تھے جبکہ اسلام کے صحیح وارثوں اور حقےقی امین لوگوں کو پس پشت ڈال دیا گیا جبکہ ان کے علم وعدالت سے لوگوں کی مشکلات کو حل کیا جاسکتا تھا اور یہ ھستیاں لوگوں کو آزادزندگی بسر کرنے کے وسائل فراھم کرسکتیں تھیں۔

۱۰۔حکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلانا

خلےفہ ثالث کے چچاحکم بن ابی العاص کو مدینہ واپس بلایا گیا حالانکہ اس کو حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر لعنت کی تھی ۔

عجےب بات ھے کہ خلیفہ ثانی نے اللہ تعالی اور اس کے پاک رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے متعتہ الحج اور متعة النساء جیسے احکام پر لوگوں کو عمل کرنے سے منع کر دیا حا لانکہ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے زمانے میں ان پر عمل کیا جاتا تھا، یہ تو تھے حضرت ثانی جنھوں نے اللہ اور اس کے رسول(ص)کی اس طرح مخالفت کی۔

 جہاں تک حضرت ثالث کا تعلق تھا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو کسی اور انداز میں ٹھکراتے ھوئے اپنی خواھش پر عمل کرتے ھیں اور اسے مدینہ واپس لاتے ھیں جسے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر لعنت کی تھی۔

 بلاذری اپنی کتاب انساب میں کھتے ھیں زمانہ جاھلیت میں حکم بن الی العاص حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پڑوسی تھا اور اسلام کا جانی دشمن تھافتح مکہ کے بعد مدینہ آیا اور اس نے مجبور ھو کر اسلام قبول کیاحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب گفتگو  فرماتے تو یہ ملعون آپ کی نقلیں اتارتا اور ناک منہ چڑھاتا تھا۔

 جب حضرت نماز پڑھتے تو تو یہ پیچھے کھڑے ھو کر انگلیوں سے اشارے کرتا تھا حضرت رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس کی بد تمیزی سے مطلع کیا گیا اس وقت حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنی کسی بےگم کے حجرہ میں تشریف فرما تھے آپ باھر تشریف لا ئے ۔اور فرمایا یہ لعین قابل معافی نھیں ھے اسے اور اس کے بےٹے کو یہاں نہ رھنے دیا جائے۔ اصحاب نے ان دونوں کو طائف کی طرف نکال دیا اور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تو حضرت عثمان نے حضرت ابو بکر سے اس سلسلے میں بات کی اور اسے واپس بلانے کی درخواست کی حضرت ابو بکر نے یہ جملے کھتے ھوئے حکم ابن ابی العاص کو واپس لانے سے انکار کر دیا۔ اور کھامیں طرےد رسول اللہ کو واپس نھیں لا سکتا۔

 اس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے تو حضرت عثمان نے اسے واپس لانے کے لئے کھاتو حضرت عمر نے بھی حضرت ابو بکر والی بات دھرائی اور اسے واپس لانے سے انکار کر دیا لیکن جب حضرت عثمان خود خلیفہ بنے تو اسے واپس مدینہ لے آئے۔ میں نے بذات خود حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے متعلق بات کی تھی اور اسے واپس لانے کی درخواست کی تھی تو انھوں نے وعدہ کیا تھا کہ ان کو واپس بلا لیا جائے گا لیکن اس سے پھلے آپ کی روح مالک حقےقی کی طرف پرواز کر گئی اور مسلمانوں نے انھیںمدینہ واپس بلانے سے انکار کر دیا ۔

حاکم اپنی کتاب مستدرک میں لکھتے ھیں کہ حکم ابن ابی العاص نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں آنے کی اجازت طلب کی حضرت نے اس کی آواز کو پہچان لیا اور فرمایا:  کیا اسے اجازت دی جائے جس پر اور جو اس کے صلب میں موجود ھیں (اس پر)(مومنین کے علاوہ) اللہ نے لعنت کی ھے وہ اوراسکی اولاد فرےبی اور مکار ھیں دنیا میں ان سب پر لعنت ھے اور آخرت میں بھی ان کاکوئی حصہ نھیں ھوگا۔


تاریخ یعقوبی ج۲ ص۴۱۔

سنن البیہقی ج۶ ص ۳۲۴،سنن ابی داؤد ج۲ ص ۲۵،مسند احمد ج۶ ص۲۹۔

تبصرے
Loading...