غزوہٴ بنی سلیم اور غزوہ غطفان

۱۵ محرم سنہ ۳ ہجری مطابق ۲۴ تیر ماہ سنہ ۳ ہجری شمسی، رسول خدا کی خدمت میں یہ خبر پہنچی کہ غطفان و بنی سلیم مکہ اور شام کے درمیان بخاری کے راستہ میں ”اطراف قرقرة الکدر‘و میں مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

 محرم سنہ ۳ ہجری مطابق ۲۴ تیر ماہ سنہ ۳ ہجری شمسی، رسول خدا کی خدمت میں یہ خبر پہنچی کہ غطفان و بنی سلیم مکہ اور شام کے درمیان بخاری کے راستہ میں ”اطراف قرقرة الکدر‘و میں مدینہ پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

رسول خدا دو سو افراد کے ساتھ ان کی طرف بڑھے دشمن نے جب لشکر اسلام کو اپنے وزدیک ہوتے ہوئے حسوس کیا تو تاریکی شب سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بھاگ کھڑا ہوا۔

لشکر اسلام نے دشمنوں کے پانچ سو اونٹ غنیمت میں حاصل کئے اور مدینہ کی طرف لوٹ گیا۔

قردة میں سریہ زید بن حارثہ

یکم جمادی الثانی ۳ ھ ق، مطابق یکم آذر سنہ ۳ھ، ش، جنگ بدر اور یثرب میں تحریک اسلامی کے نفوذ کے پھیلاؤ کے بعد، قریش کا مغربی تجارتی راستہ جو مکہ سے شام کی جانب جاتا تھا غیر محفوظ ہوگیا۔ قریش نے یہ ارادہ کیا کہ اپنے اور اپنے قافلہ کے تحفظ کے لیے وہ اس راسطہ کو چھوڑ دیں گے اور طولانی، مشرقی راستہ طے کر یں گے۔ یہ راستہ نجد کی آبادیوں سے ہو کر، عراق سے شام جاتا تھا۔ انہوں نے اس راستہ سے گزرنے کے لیے ایک ”رہنما“ کا انتظام کیا۔

پہلا قافلہ جو اس راستہ سے شام گیا وہ صفوان بن امیہ اور دوسرے رہبران قریش کی رہبری میں گیا تھا۔

رسول خدا اس قافلہ کی روانگی سے آگاہ ہو گئے اور انہوں نے بلاتاخیر سو سواروں پر مشتمل ایک مضبوط لشکر تشکیل دیا اور زید بن حارثہ کو اس کا کمانڈر مقرر فرمایا تاکہ اس نئے راستے پر پہلے سے پہنچ کر قریش کے قافلہ کا راستہ بند کر دیں۔ جناب زید نجد کی طرف گئے اونٹوں کے نشان قدم کے ذریعے قافلہ کا تعاقب کیا۔ یہاں تک کہ مقام قردة تک پہنچے اور کارواں کو جا لیا۔

قافلہ کے نگراں اور سربراہ افراد بھاگ کھڑے ہوئے اور پورا قافلہ بلا مقابلہ مسلمانوں کے ہاتھ آگیا اور قافلہ کے دو نگہبان اسیر ہوئے۔

خمس نکالنے کے بعد بقیہ مال جو کہ اسی ہزار درہم تھے اس جنگی گروہ کے سپاہیوں کے درمیان تقسیم ہوا۔ (مغازی ج۱ ص ۱۹۷)

غزوہ غطفان

نجد میں ذی امر کے مقام پر ریاض سے ۱۱ کلومیٹر شمال مغرب میں ۱۲ ربیع الاول سنہ ۳ھ، ق مطابق ۱۴ شہر یور سنہ ۳، ھ کو یہ غزوہ ہوا۔

رسول خدا کو خبر ملی کہ ”بنی ثعلبہ“ اور ”بنی محارب“ کی ایک بڑی جمعیت نے مقام ذی امر میں ڈیرہ ڈال رکھا ہے اور ”عشور“ نامی شخص کی قیادت میں مدینہ پر حملہ کا ارادہ رکھتے ہیں رسول خدا چار سو پچاس جنگجو افراد کو جمع کرکے دشمن کی طرف بڑھے۔ دشمن یہ اطلاع ملتے ہی پہاڑیوں میں بھاگ گئے اور کوئی ٹکراؤ نہیں ہوا۔

تبصرے
Loading...