حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں

حکم بن ابی العاص قرآن کی نظر میں

ابن ابی حاتم روایت بیان کرتے ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  ارشاد فرماتے ھیں کہ میں نے حکم بن ابی العاص کے بےٹے کو بندروں کی طرح دےکھا اللہ تعالی نے اس کے بارے میں فرمایا :

وَمَا جَعَلْنَا الرُّؤْیَا الَّتِی اٴَرَیْنَاکَ إِلاَّ فِتْنَةً لِلنَّاسِ وَالشَّجَرَةَ الْمَلْعُونَةَ فِی الْقُرْآنِ>

جیسے آپ نے دےکھا ھے وہ ھم نے اس لئے دکھا یا ھے کہ وہ لوگوں کے درمیان فتنہ ھے اور قرآن میں وہ شجرہ ملعونہ ھے

ابن ابی حاتم ،ابن مردویہ ، نسائی اور حاکم نے عبداللہ سے روایت صحیحہ بیان کی ھے کہ جب مروان خطبہ دے رھاتھا تو اس وقت میں مسجد میں موجو د تھا وہ کھنے لگا اللہ تعالی نے امیر المومنین ےعنی معاویہ کو ےزید کے متعلق ایک خوبصورت خواب دکھایا کہ وہ اپنے بعد اس (ملعون)کو خلیفہ بناجائے جس طرح ابو بکر نے حضرت عمر کو خلیفہ منتخب کیا۔

عبدالرحمن بن ابو بکر کھنے لگے:

اے چوڑی باچھوں والے یہ کیا بات ھے خدا کی قسم حضرت ابو بکر نے اپنی اولاد میں سے کسی کو خلیفہ منتخب نہ کیا اور اسی طرح اپنے خاندان میں بھی کسی کو خلیفہ نہ بنایا تھا ۔لہٰذا معاویہ کو بھی نھیں چاھےے تھا کہ وہ اپنے بےٹے کو خلافت کے لئے منتخب کرے جبکہ یہ سب کچھ اس نے اپنے بےٹے پرلطف و کرم کیا ھے۔

مروان نے کھاکیا اس طرح کھنے سے تو اپنے والدین کو برا بھلا نھیں کہہ رہا؟عبد الرحمن نے کہاکیا تو ابن لعین نھیں ھے کیا تیرے باپ پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت نھیںکی تھی؟

 جب حضرت عائشہ نے یہ سنا تو مروان سے کھنے لگیں مراون تو عبدالرحمن کے ساتھ اس طرح کی باتیں کرتاھے یہ(مندرجہ ذیل )آیت عبدالرحمن کے بارے میں نازل نھیں ھوئی بلکہ تیرے باپ کے بارے میں نازل ھوئی ھے اللہ نے فرمایا :

  ۔ ہَمَّازٍ مَشَّاءٍ بِنَمِیمٍ>

اور کسی ایسے شخص کی بات تسلیم نہ کرنا جو بڑا قسمیں کھانے والا، ذلیل خیال، عےب جو اور چغلخور ھو ۔

جناب ابو ذرحضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت نقل کرتے ھیں کہ ابی العاص کے بےٹوں نے تےس (۳۰)افراد کے ساتھ اللہ کے مال کو لوٹا اللہ کے بندوں کو غلام بنا کر ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کیا اور اللہ کا دین اختیار کر کے اس کو خراب کرنے کی کوشش کی۔

 حلام بن جفال کھتا ھے کہ جب لوگوں نے ابوذر کی اس بات کو تسلیم نہ کیا توحضرت علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے گواھی دی کہ میں نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنا ھے آپ نے فرمایا :

ما اظلت الخضراء ولا اقلت الخبراء علی ذی لھجہ اصدق من ابی ذر۔

نیل گوں آسمان کے سایہ میں اور زمےن کے اوپر کوئی اےسا شخص نھیں جو حضرت ابوذر سے زیادہ سچا ھو (ےعنی ابوذر سب سے زیادہ سچے ھیں )

 پھر حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا میں یہ بھی گواھی دیتا ھوں کہ یہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ھے ۔

بھرحال آپ لوگ غور فرمائیں یہ حکم ابن ابی العاص کاواضح و روشن چھرہ ھے، اسے شھر سے نکالا گیا تھااور یہ خلےفہ ثالث کا چچا تھا۔

علامہ امینیۺ اپنی کتاب الغدیر میں ارشاد فرماتے ھیں:

 ھمارے ذھن میں یہ سوالات ابھرتے ھیں کہ ھم خلیفہ سے پوچھیں کہ (جس لعین کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اس کے بارے میں آپ کو بھی تو معلوم تھا )اور قرآن مجےد کی آیت بھی اس کی مذمت میں نازل ھو ئی ھے اور اس طرح حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حدیث کا بھی علم ھے کہ حضور نے اس پر اور اسکی پوری نسل پر لعنت کی ھے( مگر جو اس کے صلب سے مومن پیدا ھو اور وہ بھت ھی کم ھیں)

اے خلےفہ وہ کونسی وجہ تھی جو آپ کو اسے مدینہ واپس بلانے پر مجبور کر رھی تھی جب کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے اور اس کے بےٹوں کو مدینہ سے نکال دیا تھا کیونکہ ان میں اموی پلیدگی اور گند گی پائی جاتی تھی اور اب خلیفہ سوم اسے دور کرنے کی کوشش کررھے ھیں۔ خلےفہ سوم اس سے پھلے حضرت ابو بکر اور پھر حضرت عمر سے بھی واپس بلانے کی درخواستےں کر چکے تھے اور انھوں نے یہ جواب دے کر اس کی درخواستوں کوردّ کردیا تھا کہ یہ ھمارے لئے حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے عھد کو توڑنا جائز نھیں ھے۔

 حلبی اپنی سیرت کی دوسری جلد کے ۸۵ ویں صفحہ پر لکھتے ھیں: جس کو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ سے نکال دیا تھا اور اس پر حضور نے لعنت کی تھی اور وہ طائف کی طرف چلا گیا تھا اور وہاں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت ابو بکر کے زمانے تک رھاحضرت عثمان نے حضرت ابو بکر سے اسے مدینہ واپس لانے کی درخواست کی تو حضرت ابو بکر نے واپس لانے سے انکار کر دیا۔ 

حضرت عثمان سے کھاتیرے چچا کو واپس لاؤ ں؟تیرا چچا تو جھنم میں ھے میرے لئے بھت ھی مشکل ھے کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کو بدل دوں( اےسا ممکن نھیں ) ۔جب حضرت ابو بکر وفات پا گئے اوراس کے بعد حضرت عمر خلیفہ بنے توحضرت عثمان نے وھی جملے حضرت عمر سے دھرائے۔ 

 حضرت عمر نے جواب دیا:  عثمان تجھ پر بھت افسوس ھے کہ تو اس شخص کے متعلق درخواست پیش کر رھاھے جس پر حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لعنت کی تھی اور اسے مدینہ سے نکال دیا تھا اور وہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دشمن ھے۔لیکن جب حضرت عثمان خود مسند خلافت پر بےٹھے تو اس لعین کو مدینے واپس لے آئے، یہ بات مہاجرین اور انصار کے دلوں پر بھت سخت نا گوار گزری اور بزرگ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے لئے بھی یہ بات بھت گراں تھی اور انھوں نے اس کی مخالفت کی اوریہ بات ان کے نزدیک عثمان کے خلاف قیام کرنے کا بھت بڑا سبب تھا ۔

علامہ امینیۺ قدس سرہ کھتے ھیں کیاخلیفہ وقت کے لئے رسول کو نمونہ نھیں مانتے تھے؟ جب کہ خدا وند عالم حضرت کے متعلق ارشاد فرماتا ھے ۔:

 مسلمانوں تمہارے لئے تو رسول اللہ کی زندگی ایک بھترین  نمونہ ھے(لیکن یہ اس شخص کے لئے ھے )جو خدا اور روز آخرت کی امید رکھتا ھو اور کثرت سے خدا کی یاد کرتا ھو۔

 یا یہ کہ خلیفہ سوم اپنی قوم اورساتھیوں کو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ پسند کرتے تھے جب کہ قرآن حکیم بھی ان کے پاس موجود تھا اللہ تعالی ارشاد فرماتا ھے :

 اے رسول کہہ دو کہ تمہارے باپ دادا نے اور تمہارے بےٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے رشتہ دار نےز وہ مال جو تم نے کمایا اور وہ تجارت جس کے نقصان کا تمھیں اندےشہ ھے اور وہ مکانات جنھیں تم پسند کرتے ھو اگر (یہ سب چیزےں)تمھیں خدا اور اس کے رسول اور ان کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزےز ھیں تو تم انتظار کرو یہاں تک کہ خدا کا حکم (عذاب)آجائے اور خدا نافرمان لوگوں کو ھدایت نھیں کرتا ۔

۱۱۔غلاموں پر بھروسہ

 مملکت چلانے کے لئے غلام زادوںپر بھروسہ کیا گیااور حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بعض مخلص اصحاب کو دشمنی کی وجہ سے نظر انداز کیا گیا ان غلام زادوں میں چند مندرجہ ذیل ھیں :

۱۔ معاویہ بن ابو سفیان

خلیفہ ثانی نے اسے شام کا گورنر بنایا اور اس نے شام میں ۲۲/سال تک حکومت کی۔

خدا کی قسم ھماری سمجھ نھیں آتا کہ خلیفہ ثانی کی نظر میں اس کی کونسی سی فضیلت تھی جس کے پیش نظر اسے شام کی گونری کے لئے معین کیا گیاحا لانکہ یہ کافروں کے سردار اور بھت بڑے منافق ابو سفیان کا بیٹا تھا کیا دین اسلام میں اس کا کوئی کردار تھا؟ کیا جہاد میں اس کی کوئی فضیلت تھی؟ کیا اسلام کی تروےج کا اس نے کوئی بوجھ اٹھایا تھا؟

 (ےقےنا نھیں)تو پھر سب سے پھلے اسلام لانے والوں جہاد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والوں اور تقوی میں بلند مقام حاصل کرنے والے لوگوں کو کیوں نظر انداز کیا گیا؟!!  ھمیں نھیں معلوم کہ اللہ کی بارگاہ میں اس کا کیا جواب دیں گے جب کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ فرمان ان کی نظروں کے سامنے تھا :

من اِستعمل عاملاً من المسلمےن وھو ےعلم اٴنَّ فےھم اٴولیٰ  بذلک منہ واٴعلم بکتاب اللہ و سنةِ نبیہ فقد خانَ اللہُ ورسولَہ وجمےع المسلمینَ۔

اگر کوئی شخص یہ جانتے ھوئے کسی بد کردار شخص کو حکومت کے کسی عھدے پر نصب کر ے جب کہ اس سے بھتر افراد مسلمانوں موجود ھوں جو اللہ کی کتاب اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو زیادہ جانتے ھوں تو اس نے اللہ ، اس کے رسول(ص) اور تمام مسلمانوں کے ساتھ خیانت کی ھے۔

ابن ابی الحدید شرح نھج البلاغہ میں معاویہ کے بارے میں کھتے ھیں۔ ھمارے بزرگوں کی رائے کے مطابق معاویہ اپنے دین میں مطعون ھے اور علماء اس کو زندےق سمجھتے ھیں۔اس طرح وہ مزید کھتے ھیں ھمارے بزرگ اپنی علم کلام کی کتابوں میں بیان کرتے ھیں یہ ملحد تھا ، حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے جھگڑتا تھا اس میں جبر اور ارجاء کا عقیدہ پایا جاتا تھا اس کا کوئی اور جرم نہ بھی ھوتا تو بھی اس کے مفسد ھونے کے لئے یہ کافی ھے کہ اس نے امام علیہ السلام سے جنگ کی تھی۔

۲۔ولید بن عقبہ بن ابی معےط

یہ ماں کی طرف سے خلیفہ ثالث کا بھائی تھا اس کا باپ عقبہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سخت ترےن دشمن تھا اور حضور کو اذیت پھنچانے میں کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتا تھا ۔

حضرت عائشہ روایت بیان کرتی ھیں کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میں ابو لھب اور عقبہ بن معےط جیسے گندے اور شرےر لوگوں کاھمسایہ تھا یہ دونوں کوڑاوغیرہ اٹھا کر میرے دروازے پر پھنک جایا کرتے تھے۔

 اس ملعون کے متعلق مشھورواقعہ ھے کہ اس نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ جسارت کی اور آپکے (مقدس اور پاک )چھرے پر لعاب دھن پھےنکا۔

 اس ملعون کے بارے میں خدا وند عالم نے اس طرح ارشاد فرمایا :

 اور جس دن ظالم اپنے ہاتھوں کو اپنے دانتوں سے کاٹے گا اور کھے گا کہ کاش میں حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ھمرا ہ ھوتا ہائے افسوس میں نے فلاں کو اپنا دوست نہ بنایا ھوتا باتحقےق میں تو ذکر کے آجانے کے بعد گمراہ ھوگیا اور شےطان انسان کو بھت ذلیل و رسوا کرتا ھے

یہ تو ولید کے باپ کے متعلق تھا اور جہاں تک خود ولید کا تعلق ھے تو یہ وحی مبین کی زبان میں فاسق زانی ،فاجراورشرابی و کبابی ھے اور اس نے دین کو تباہ و برباد کیا ھے اور بڑے بڑے اصحاب کو اس نے کوڑے مارے اس نے صبح کی نماز میں چار رکعتےں پڑھیں اور شراب کے نشے میں چور ھو کر یہ شعر کھنے لگا :

          علق القلب الربابا               بعد ما شابت و شابا

میں جب سے جوانی کا مالک بنا ھوں اس وقت سے میرا دل سرداری کے لئے مچل رھاھے پھر نشے میں کھنے لگا میںاس سے بھی زیادہ رکعتےں پڑھوں گا۔

 یہ سن کر ابن مسعود نے جوتے سے اس کی پٹائی کی اور تمام نمازیوں نے ھر طرف سے اس پر پتھر بر سائے تویہ بھاگ کر اپنے گھر میں گھس گیا ۔

قارئین کرام! ھم یہ کھتے ھیں کہ اس جیسے گمراہ شخص کی طرف ان کی نظریں کیوں لگی ھوئی تھیں جب کہ خدا وند متعال نے قرآن مجےد میں اس ملعون کا اس طرح تعارف کروایاھے ۔

  جَا ءَ کُمْ فَاسِقٌ بِنَباٴٍ فَتَبینواْ ۔>

اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لائے تو اس میں اچھی طرح چھان بین کر لیا کرو۔

کیااس (ملعون)جیسا فاسق انسان کیو نکر اللہ کے حدود ،اس کے احکام، مسلمانوں کے اموال اور عزتوں کا نگھبان ھو سکتا ھے ؟!

اٴنّا للّٰہ و اِناّ اِلیہ راجعون۔

 ۳۔عبداللہ بن ابی سرح

یہ خلیفہ ثالث کا رضائی بھائی تھا اس کو مصر کا گورنر بنایا گیا اس نے فتح مکہ سے پھلے اسلام قبول کیا تھا اور مسلمانوں کے ساتھ ھجرت بھی کی تھی لیکن بعد میں مرتد اور مشرک ھو گیا تھا۔ اور قریش مکہ کے ساتھ جا ملا تھا،اور ان سے کھنے لگا : میں نے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ایسی کاری ضرب لگائی ھے جیسی میں چاھتا تھا۔ جب مکہ فتح ھو گیا تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا کہ اس( ملعون)کا خون مباح ھے اگرچہ یہ خانہ کعبہ کے غلاف میں ھی کیوں نہ چھپا ھو۔

یہ حضرت عثمان کے پاس چلا گیا اور حضرت عثمان نے اس کو چھپا دیا یہاں تک کہ حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اھل مکہ سے اطمینان حاصل ھو گیا تو حضرت عثمان نے حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کے لئے امان مانگی حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کافی دےر تک خاموش رھے۔ پھر فرمایا ہاں اسے امان ھے۔جب حضرت عثمان چلے گئے تو حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے ارد گرد بےٹھنے والے صحابیوں سے ارشاد فرمایا: میں اتنی دےر صرف اس لئے خاموش رھاتھا تاکہ تم میں سے کوئی شخص اس کی گردن اڑا دے۔

قرآن مجےد نے سورہ انعام میں اس کے کفر کا اس طرح اعلان فرمایاگیا ھے:

اس سے بڑھ کر کون ظالم ھو گا جو خدا پر جھوٹ اور افتراء پر دازی کرے اورکھے کہ ھمارے پاس وحی آئی ھے حا لانکہ اس کے پاس کو ئی وحی وغیرہ نھیں آئی یا وہ یہ دعوی کرے کہ جیسا خدا وند عالم نے قرآن نازل کیا ھے میںبھی اےسا قرآن عنقریب نازل کئے دیتا ھوں۔

 تمام مفسرےن اس بات پر متفق ھیں کہ یہ عبداللہ بن ابی سرح کے الفاظ ھیں کہ میں بھی عنقریب ایسا ھی قرآن نازل کرونگا جس طرح اللہ تعالی نے نازل کیا ھے۔

اے اھل دین اور اھل انصاف کیا حضرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عمال معین کرنے کا یھی معیار اور شرائط بیان فرمائے تھے جن کا ھم معاویہ کے متعلق کی گئی بحث میں ذکر کر چکے ھیں کیا یہ کھلی ھوئی جاھلیت نھیں ھے ؟

کیا یہ حکم خدا اور رسول سے انحراف نھیں ھے ؟یقینا یہ تو الٹے پاؤ ں جاھلیت کی طرف پلٹنا اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے احکام سے انحراف کرنا ھے ۔!!!

تبصرے
Loading...