اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکیں

آئمہ ہدیٰ۱(ع)کی زندگیاں تعلیمات‘ رہبری اور اجتماعی اصلاح کی غمازی کرتی ہیں‘ ان کے علاوہ ہم اسلامی تاریخ میں اور بھی کئی اصلاحی تحریکیں دیکھتے ہیں‘ لیکن چونکہ ان تحریکوں کا مفصل مطالعہ نہیں کیا گیا‘ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اسلامی تاریخ ایک جمود کا شکار رہی ہے اور اصلاحی تحریکیں ناپید ہیں۔
ہزاروں سال پہلے مسلمانوں کے اذہان میں ایک خیال ابھرا (پہلے سنیوں میں‘ پھر شیعوں میں) کہ ہر صدی کے شروع میں ایک “مجدد” کا دین کے احیاء کے لئے ظہور ہوتا رہا ہے۔ سنیوں نے اس روایت کو ابوہریرہ سے نقل کیا کہ ہر صدی کے آخر میں ایک ایسا شخص آتا ہے جو خدا کے دین کی تجدید کراتا ہے‘ اگرچہ اس روایت کی پختگی اور تاریخی ثبوت کا تعین نہیں ہو سکتا‘ لیکن مسلمان عمومی طور پر اس بات کے متعلق یقین کے ساتھ توقعات رکھتے ہیں اور ہر صدی میں ایک یا ایک سے زیادہ مصلح رونما ہوتے رہے ہیں۔ عملی طور پر یہ صرف اور صرف اصلاحی تحریکیں رہی ہیں… اس لئے اصلاح‘ مصلح‘ اصلاحی تحریکیں اور حال ہی میں استعمال ہونے والا لفظ “مذہبی خیالات کی تجدید” وہ الفاظ ہیں جن سے مسلمانوں کے کان مانوس ہیں۔
اسلامی تاریخ میں اصلاحی تحریکوں کا بغور مطالعہ اور ان کا عملی تجزیہ ان کے لئے مفید اور قوی ثابت ہو سکتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ایسے باصلاحیت افراد یہ کام کر گزریں گے اور اپنے مطالعہ اور علمی تحقیق کے نتائج خواہش مند افراد کے سامنے پیش کریں گے۔
یہ ظاہر ہے کہ وہ تمام تحریکیں جن کا مقصد اصلاح ہو‘ ایک ہی طرح کی نہیں رہی ہیں‘ بعض ایسی تھیں کہ ان کا بنیادی مقصد اصلاح تھا اور اس طرح وہ قدرتی طور پر اصلاح تھیں‘ کچھ ایسی تھیں جنہوں نے اصلاح لانے کی آڑ میں فساد برپا کیا اور کچھ ایسی بھی تھیں جو کہ شروع میں اصلاحی پہلو لے کر ابھریں لیکن بعد میں اپنے راستے سے بھٹک گئیں۔
عثمانیوں اور عباسیوں کے ادوار میں علویوں کا ابھرنا بھی اصلاح کا قیام تھا۔ اس کے برعکس بابک خرم دین اور اس قسم کی دیگر تحریکیں اتنی بے ہودہ اور غلاظت اور کثافت اور آلودگی میں ڈوبی ہوئی تھیں کہ اسلام کو ان کی وجہ سے کافی نقصان پہنچا‘ ان کی وجہ سے لوگوں کے دلوں میں عباسیوں کی ظالمانہ حکومت کے خلاف نفرت اور غصہ کم ہو گیا‘ ان تحریکوں کا مقصد شاید عباسیوں کی حکومت کو دوام دینا تھا۔ حقیقت میں ان تحریکوں نے عباسیوں کو مواقع فراہم کئے۔ شعوبیہ کی تحریک کا آغاز بھی اصلاحی تھا‘ کیونکہ یہ مہم امویوں کی تفریق کی پالیسی کے خلاف تھی اور ان کا نعرہ تھا:
یا یھا الناس انا خلقنا کم من ذکر و انتی و جعلنا کم شعوبا و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عنداللہ اتقاکم
چونکہ شعوبیہ تفریق کی پالیسی کے خلاف تھے‘ لہٰذا ان کو “اہل التسومیہ” سے پکارا گیا اور ان کا نعرہ قرآن کی مندرجہ بالا آیت تھا‘ لہٰذا شعوبیہ کہلائے جانے لگے‘ لیکن بدقسمتی سے وہ خود اس بات کا شکار ہو گئے جس کے خلاف انہوں نے علم انقلاب بلند کیا تھا‘ یعنی وہ نسل اور قوم کی تفریق میں مبتلا ہو گئے‘ ان کے اس عمل نے عباسیوں کو ایک اور موقع فراہم کیا‘ شاید عباسیوں نے ایک گھناؤنی سازش کی اور ایرانیوں کو اسلامی عدل کے راستے سے ہٹا کر ایرانی نسل پرستی کے چکر میں ڈال دیا۔ تاریخ میں شعوبیہ کے انتہائی گروپ نے جس شدت کے ساتھ عباسیوں کی حمایت کی ہے وہ اس مفروضے کو تقویت دیتا ہے۔
اسلامی تحریکیں کچھ صرف فکری تھیں‘ کچھ اجتماعی اور بعض فکری اور اجتماعی دونوں پہلو لئے ہوئے تھیں‘ غزالی کی تحریک صرف ایک فکری تحریک تھی اس کے خیال میں اسلامی علوم اور اسلامی خیالات آسیب زدہ تھے۔ اس لئے اس نے “احیاء علوم دین” پر کام کیا‘ علویوں اور سربداروں کی تحریکیں حکومت وقت کے خلاف اجتماعی تحریکیں تھیں‘ اخوان الصفا کی تحریک فکری اور اجتماعی دونوں حیثیتوں میں تھی۔
اوپر دی گئی تحریکوں میں چند ترقی پسند تھیں اور کچھ دوسری‘ مثلاً اشعری چوتھی صدی میں اور اخباریگری (شیعوں میں) دسویں صدی میں اور وہابی تحریک بارہویں صدی میں صرف رجعت پسند تحریکیں تھیں۔
ان تمام تحریکوں کے جو عملی یا فکری ہیں یا ترقی پسند اور رجعت پسند ہیں بغور مطالعہ اور وسیع تحقیق کی ضرورت ہے‘ ان کا مطالعہ اس وجہ سے اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ حال ہی میں کچھ موقع پرستوں نے موجودہ خلا سے فائدہ اٹھایا اور انہوں نے اسلامی تاریخ میں تحریکوں کا تجزیہ ذہن میں پہلے سے طے شدہ “مقصد” اور “قیاس” کے تحت کرنے کی کوشش کی تاکہ اپنی عالمانہ رائے ناسمجھ لوگوں کے سامنے پیش کر سکیں۔
اس وقت ہم ایک مختصر جائزہ میں ان اسلامی تحریکوں کا تذکرہ کریں گے‘ جو پچھلے ایک سو سال سے چل رہی ہیں کیونکہ یہ دور ہماری موجودہ زندگی کے قریب تر ہے‘ ہماری کوشش یہ معلوم کرنا ہو گا کہ ان تحریکوں نے کیا اثرات مرتب کئے ہیں۔
تیرہویں صدی ہجری کے دوسرے نصف میں اور انیسویں صدی عیسوی میں ایران‘ مصر‘ شام‘ لبنان‘ شمالی افریقہ‘ ترکی‘ افغانستان اور ہندوستان میں اسلاسمی تحریکیں چلائی گئی ہیں‘ وہ لوگ جنہوں نے مصلح ہونے کا دعویٰ کیا اور اصلاح کرنے کے لئے خیالات اور نظریات پیش کئے ان ملکوں میں نمودار ہوتے رہے ہیں‘ یہ تحریکیں صدیوں کے جمود کے بعد شروع ہوئیں‘ یہ کسی حد تک مغرب کی سیاسی‘ اقتصادی اور تہذیبی نو آبادیاتی پالیسیوں کے خلاف تھیں اور اسلامی دنیا میں احیاء اور بعثت ثانیہ شمار کی گئی ہیں۔

 

تبصرے
Loading...