حضرت زہراسلام اللہ علیہا کی ولادت اور آج کی خواتین۔ایک جائزہ

حضرت زہراسلام اللہ علیہا کی ولادت اور آج کی خواتین۔ایک جائزہ

دیا زہرا

بیس جمادی الثانی حضرت فاطمہ زہرا کی ولادت کادن ہے۔جو تمام مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام ہستی ہے۔ جس کے مقام،منزلت اورفضیلت میں پیغمبر سے بہت سی روایات منقول ہیں۔ آپ کی تعریف میں یہی بس کہ رحمت للعالمین کی زبان سے آپ کو عالمین کی خواتین کا سردار کا لقب ملا۔یہ اس زمانے میں ہے جب عورت باعث ننگ وعار اور لڑکیوں کو زندہ درگو کیاجاتاتھا۔ایسے میں
حضرت محمد ﷺ نے عورت کو عظیم مقام عطا کیا۔جس کی اعلیٰ مثال حضرت زہرا ہے۔
آپ کی ولادت کے دن کو منانے کا مقصد بھی آپ کی سیرت،کردار،اخلاق اور زندگی کے مختلف پہلووں سے آشنائی ہے تاکہ آج کی خواتین کے لیے ایک آئیڈیل کے طور پر پیش کرسکیں۔
اس اہم موقع پرخواتین کے سلسلے میں کچھ حقائق پیش خدمت ہیں۔ تاکہ ان تمام مسائل اور مشکلات کا حل اسلام کے اصولوں اورتعلیمات خصوصاً زہرا کی سیرت وکردار کے ذریعے حل کر سکیں۔
کسی بھی دن کومنانے کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے اور جب اس دن کے حوالے سے اجتماعی آواز اٹھائے،اور وہ دن اس قوم یامکتب کی ثقافت شمار ہوجائے۔ تو اس اجتماعی اور ثقافتی عمل کے ذریعے ہم اس ہدف و منزل کے قریب پہنچ جاتے ہیں۔
اس تناظر میں حضرت زہرا کی ولادت منانے کا بھی کوئی نہ کوئی اعلیٰ مقصد ہونا چاہیے اوروہ مقصد خواتین کو اپنے مقام کا احساس، ان کو حقوق کی فرہمی اور ان پر ہونے والی ناانصافیوں کا خاتمہ اور ظلم وزبردستی کو روکنا ہے۔تاکہ مظلوم خواتین کی دبی آوازموثر طاقت میں تبدیل ہوں۔یہ سارے مقاصد اس وقت حاصل ہوں گے جب صرف ظاہری سلوگن کے بجائے خواتین کے حقیقی مسائل پر گفتگو ہوں۔ لیکن ہمارے ہاں مقصد کو چھوڑ کر صرف سلوگن کے اوپر بحث ومباحثہ کرتے نظر آتے ہیں یہاں تک کہ خواتین خود بلاجواز اور بے مقصد سلوگن سے اپنی عزت نفس مجروح کررہی ہیں۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ عورتوں کے حقوق کے حوالے سے کونسا دن مناسب ہے ۔جس دن عورت کے مقام،حقوق ومنزلت اور ذمہ داریوں پر مفید بحث ہوسکیں۔ جہاں عورتوں کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ ان کو اپنی شخصیت پر فخر محسوس ہو، اور عورت کے حوالے سے تمام شبہات وسوالات کا مطمعن جواب بھی مل سکے۔ ساتھ ہی ایک کامل آئیڈیل اس کے سامنے پیش ہوجو ہر لحاظ سے انسانی کمالات کامجموعہ ہونے کے ساتھ تمام عورتوں کے لئے مثال بن سکیں۔کیونکہ آج کی عورت دیگر ادوار کی مانند مظلوم ہے۔ نہ فقط عورت بلکہ معاشرے کا ہر طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں یہ بات عیاں ہے کہ زیادہ ترخواتین اپنے حقوق سے محروم ہیں۔اس معاملے میں کہیں مرد ظالم وجابر اور درندہ ثابت ہوتا ہے توکہیں خود عورت اس معاشرے میں ناسور بن کر معاشرے کی خوبصورتی کو دھندلاررہی ہوتی ہے۔
حقیقت میں بات مرد یا عورت کی نہیں بلکہ ایک انسان کا مسئلہ ہے ۔ ہمیں بحث انسانیت،ظالم ومظلوم ،انصاف وناانصافی کی کرنی چاہیے۔لیکن ہم اپنے پانچوں حس سمیت سو رہے ہیں،اچھائی اور برائی کی تمیز ختم ہوتی جارہی ہے اور انصاف اور ناانصافی میں فرق مٹ چکے ہیں۔دوسروں پرتنقید کے سوا خود احتسابی سے ہم محروم ہوچکے ہیں۔ صرف نعروں اور منافقت کو ترجیح دے رہے ہیں۔اصل انسانیت اورخلوص کی بجائے ظاہری قدوقامت کو لوگ پسند کرتے ہیں اور معاشرے کی ناکامی کاآغاز یہیں سے ہوتا ہے۔۔
حقوق کے نام پر عورت کو تماشہ عام بنا دیا گیا ہے۔ اصلی مسائل کی بجائے سلوگن پر بحث اور معاملہ ختم۔
یہ کہاں کا انصاف ہے!حقوق کی پامالی یہاں پر ختم نہیں،شروع ہورہی ہے کیونکہ اچھے اور برئے کی تمیز کے بغیر ہم ایک ہی کشتی کےسوار ہیں۔
کاش !اگر عورت کے نام پر ایسی آواز اٹھتی۔
جس میں عورت کی عزت نفس پامال نہ ہو،
عورت کے مقام پر بحث ہوتی،
ان کے اوپر ہونے والی ناانصافیاں اجاگر کرنے کے ساتھ ان مسائل کا حل پیش کیا جاتا تو ان کے دکھوں کا مداوا ہوتا۔
مگر بدقستمی سے ایسا نہیں ہوتابے، بےگناہ ومعصوم عورتیں عزت کی حفاظت کے لئے صبر واستقامت کا دامن نہیں چھوڑتیں، مگر ایسے پرفریب نعروں نے ان خواتین کی قربانیوں اور اصلی مسائل کونظروں سے اوجھل کردیاہے۔اور ہر کوئی ان پر اپنی بساط کے مطابق غیر ضروی مسائل تبصرہ کرتے نظر آتے ہیں۔

آئیے بحث کو ہم آج سے چودہ سوسال پہلے کی جانب لے چلتے ہیں جہاں عرب کے جاہلی معاشرہ میں نور اسلام طلوع ہوا،اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ پیغام سعادت لے کرآئے اور مسلمان مردوعورت دونوں کے لئے بحثیت انسان اپنے دائرہ کار میں حقوق معین ہیں۔ اگر اسلام کے مطابق یہ حقوق دئیے جائیں تو کسی کے اوپر زیادتی نہیں ہوگی۔ اس عرب معاشرہ میں عورت کو انسان شمار نہیں کیا جاتا تھا، بیٹی کی پیدائش باعث شرم بلکہ ان کو زندہ درگور کیا جاتا،ہر قسم کے حقوق سے عورت محروم تھی۔ایسے میں حضور نے عورت کوبیٹی،بہن،ماں،بیوی کے روپ میں اعلیٰ مقام عطا کیا۔ خصوصاً اپنی بیٹی فاطمہ زہرا کو ایک بیٹی کے اعتبار اس قدر عزت،عظمت اور وقار عطا کیاتاکہ انسانیت عورت کے مقام کو سمجھ سکے۔ اس لیے خواتین کے لیے زہرا ایک نمونہ عمل ہے۔ آپ کی زندگی ایک بیٹی،ماں،بیوی اور پیغمبر کے ساتھ اسلامی دعوت میں شریک کار ہونے کی حیثیت ہمارے لیئے راہنما اصول فراہم کرتی ہے۔ اس لئے آپ کی ولادت بیس جمادی الثانی ہی عورت کے مقام وحقوق کے حوالے سے ایک حقیقی یوم خواتین ثابت ہوسکتے ہیں۔ اگر مسلمان عورت اپنی حیثیت ومقام کو سمجھنا چاہیں تو یہ بہترین فرصت وموقع ہے۔
عورت کائنات کی قابل احترام مخلوق ہے اس لیے اس کو میراجسم میری مرضی کے مطابق نہیں بلکہ معاشرتی اقدار اور اخلاقیات کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حقوق کی جدوجہد کرنا چاہیے۔
مگر افسوس اس بات کا ہے ہزاروں عورتیں اپنے جائز حقوق سے محروم ہیں مگر بعض عورتیں حقوق کے نام پر ناجائز حقوق کے لئے چیخ رہی ہیں۔
اسلام نے عورت کو بے شمار حقوق دئیے ہیں۔ارث، شریک کے انتخاب کا حق،تعلیم کا حق،باعزت زندگی گزارنے اوراسلامی حدود کی رعایت کرتے ہوئے معاشرتی وسماجی سرگرمیوں اور تعمیر وترقی میں حصہ لینے کا حق دیا ہے۔
سوال یہ ہے کہ اسلام کے یہ عطا کردہ حقوق کیا آج ہمارے معاشرے میں عورت کوحاصل ہے؟
اگر یہ حقوق حاصل ہیں تو پھر کتنی خواتین حقوق کا منفی مطلب لے رہی ہیں۔یہ انسان کی سوچ پر منحصر ہے کہ وہ آزادی کاکیامطلب لیتاہے۔۔۔افسوس کی بات تو یہ ہے کہ اسلام نے جو حقوق عورتوں کو دئیے ہیں وہ بھی معاشرہ میں نہیں دیاجارہا ہے۔عورت کی آزادی کا مطلب اسلامی اصولوں کے خلاف چلنا نہیں بلکہ اصل آزادی عورتوں کی عزت نفس مجروح کئے بغیرپردہ،عفت اور شخصیت کی حفاظت کے ساتھ اسلام نے جو حقوق عطا کی ہےجیسے تعلیم،ارث،برابری اور شادی میں اختیار کے معاملات شامل ہیں۔ لیکن پچاس فیصد خواتین ان بنیادی حقوق سے محروم ہیں توکیایہ اسلام کا قصور ہے یا مسلمانوں کا ؟
جب ایسے معاملات پر بھی ایک عورت بولیں تویہ اس کا حق ہے۔اوراس کوجائز حقوق سے روکناسراسر ظلم اور زیادتی ہے۔
کیا اسلام نے عورتوں کو تعلیم اور ارث کا حق نہیں دیا؟
کیا اسلام نے عور ت کی مرضی کے بغیر جس کے ساتھ چاہے باندھنے کاحکم دیاہے؟؟
اگر ایسا اسلام کا حکم نہیں تو مسلمان معاشرہ میں یہ سب کیوں ہورہاہے؟
ہزاروں خواتین اسلام کے دئیے حقوق سے محروم ہیں،غیرت کے نام پرسسکتی بلکتی زندہ درگو ہوتی ہیں۔
آج کے حقوق کے دعویدار خواتین ایسے حقوق کے لئے آواز اٹھائیں۔تو درست ہے ورنہ بے جا،سادہ لوح خواتین کو حقوق کے نام پر گمراہ کرنا اور سڑکوں پر لانا،بے مقصد سلوگن کے پیچھے اور ایک دوسرے کو نشانہ تنقید بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔جس سے اصل مقصد کے بجائے عورت کی شخصیت اور عزت مجروح ہورہی ہے۔
عورت کو اگر اسلام کے تحت حقوق ملیں تو کوئی عورت عدم تحفظ کا شکار نہیں ہوگی۔خواتین کے ساتھ زیادتی،تشدد،جبراور غیرت کے نام پر قتل کی اسلام کسی صورت اجازت نہیں دیتا ہے۔آئے روز میڈیا پر سینکڑوں بچیوں اور خواتین کے ساتھ ظلم وستم کی خبریں ملتی ہیں تو کیا یہ سب جھوٹ ہے؟
نہیں بلکہ یہ تلخ حقیقت ہے۔ اگر یہی سلسلہ چلتا رہا تو حقوق کی آواز اٹھتی رہے گی۔مگر خواتین مسائل کے دلدل سے نہیں نکلیں گی اور مشکلات کاشکار رہے گی۔ ان مسائل کا پائیدار حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔
آج کی انسانی حقوق کے نعرے بلند کرنے والی خواتین سے گزارش ہے کہ اگر خواتین کے ساتھ مخلص ہیں تو عورت کی تعلیم کی بات کریں، والدین کی لاشعوری کے حوالے سے آواز بلند کریں جو لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف ہیں، ان سسرال والوں کی ذہنی پسماندگی پر گفتگو کریں جو بہو کوجہیز نہ ملنے پرجلا دیتے ہیں۔ان خواتین کی بات کریں جورات کارخانوں اور کھیتوں میں کام کرکے اپنی اور بچوں کی پیٹ پالتی ہیں۔اگر ہم نے حقیقی معنوں میں ان ناانصافیوں پر شعور اجاگر کیااور معمولی باتوں پر ظلم کاشکار بننے والی حوا کی بیٹیوں کی آواز بن کر مظالم کے سدباب کی کوشش کی ۔اس سے بڑھ کرعورت کے لئے مار پیٹ سے زیاد اہم عزت نفس ہے جسے ہزاروں لوگ پائمال کر رہے ہیں۔ان مسائل پر علم بلند کیا۔ورنہ اصل حقائق پر پردہ لگا رہے گا۔
آئیے!اسلامی عورت کی آواز بنیں۔
فاطمہ زہرا کی سیرت وکردار کے آئینے میں خواتین کے مسائل، مشکلات اور اس کے حل کی جانب اقدام اٹھائیں ۔ اس کے لئے فاطمہ زہرا کی زندگی کے مختلف پہلووں اور اسلام میں خواتین کے مقام وحقوق کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ خواتین اسلامی اصولوں کی روشنی میں ایک باعزت زندگی گزارسکیں۔

تبصرے
Loading...