علیؑ اور تنہائی

علیؑ اور تنہائی

تحریر: سویرا بتول

جیسے مولائے کائنات کی شہادت کے ایام نزدیک آتے ہیں، ایک عجیب حزن و ملال کا احساس پوری فضاء کو گھیر لیتا ہے۔ جیسے یہ فضائیں امام اول کی مظلومیت کا نوحہ پڑھ رہی ہوں۔ انیس رمضان سن چالیس ہجری شبِ ضربت امیرِ کائناتؑ کا روز ہے، جہاں ایک طرف علیؑ اپنی کامیابی کا اعلان کرتے دکھائی دیتے ہیں، وہی دوسری جانب ہاتف ِغیبی کی صدا بلند ہوتی ہے کہ خدا کی قسم آج ارکان ِہدایت منہدم ہوگئے۔ امیرالمومنین علی علیہ السلام کو دنیا میں مجموعہ اضداد شخصیت کے طور پر پہچانا اور لکھا جاتا ہے، یعنی آپ ہی وہ شخصیت ہیں، جن میں بیک وقت ایک دوسرے کی ضد صفات پائی جاتی ہیں، کوئی اندازہ کرسکتا ہے کہ مصلٰی عبادت پر محو رہنے والا علیؑ میدان کارزار کا شہسوار بھی ہے، اس کی شجاعت و بہادری کا ڈنکا عالم عرب میں بجتا ہے اور اسے یہ کمال بھی حاصل ہے کہ اس کے خطبات اور اقوال ایسے فصیح و بلیغ ہیں کہ آج تک شیدائے علم و ادب انہیں ادب و زبان کی گہرائیوں کے عنوان دیتے ہیں اور اہل علم ان سے استفادہ کرتے ہیں۔

آج کروڑوں دل علیؑ ابنِ ابی طالب کی محبت میں تڑپتے ہیں۔ کیسی معجز نما ہستی ہے کہ عشقِ حیدر ؑمیں ہر انسان جان دینے کو تیار ہے۔ ہر مفکر، دانشور، عالم خواہ وہ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو مگر علم کی خیرات درِ باب العلم سے لیتا دکھائی دیتا ہے۔ اس قدر عشق اور محبت کے باوجود علیؑ آج بھی اپنی تنہائیوں کیساتھ تنہا دکھائی دیتے ہیں۔ نجانے کیسا درد تھا علیؑ کو کہ بعد از شہادتِ بنت رسول پچیس سال تک حجتِ خدا کنویں میں منہ دیکر اپنا درد بیان کرتے رہے۔ فاطمہؑ جو علیؑ کی تنہائیوں کی واحد رازداں تھیں، جو علیؑ کے ہر درد ہر غم کو ایک مخلص دوست کی طرح سنا کرتی تھیں، نہیں معلوم بعد از سیدہؑ اِس جری پر کیا گزری کہ علیؑ اپنا ہر زخم شب کی تنہائی میں مدینے سے دور کنویں میں منہ دیکر بیان کرتے۔

امام علیؑ کو زندگی میں جو زخم ملے وہ دو طرح کے تھے۔ ایک وہ زخم جو ابنِ ملجم کی تلوار سے امامؑ کو ملا، جس کے ملتے ہی نفسِ رسول نے فرمایا: “فزت ورب الکعبہ” رب کعبہ کی قسم علیؑ کامیاب ہوگیا” اور دوسرا وہ زخم جس نے علیؑ جیسے جری کو شب کی تاریکی میں آبادیوں سے دور تنہائیوں میں جا کر رولایا۔ ہمیں امام کا جو زخم دکھایا گیا، وہ تلوار کا زخم ہے جبکہ حقیقت میں ابنِ ملجم کی تلوار کا زخم مولاؑ کے لیے کوئی زخم نہ تھا۔ علیؑ نجانے کب سے لقائے الہیٰ کے منتظر تھے۔ اس حوالے سے بوقتِ ضربت خود فرمایا: “میں موت کا چشمہ لگاتار ڈھونڈ رہا تھا کہ اس کے گھاٹ پر آپہنچا اور اسی منزل کی طلب و تلاش میں تھا کہ اسے پا لیا اور نیکوکاروں کے لیے اللہ کے یہاں کی نعمتوں سے بڑھ چڑھ کر کیا ہوسکتا ہے اور پیغمبرِ اسلامﷺ کا بھی فرمان ہے کہ “لیس للمومن راحة ودن لقائے اللہ” لقائے ربانی کے علاوہ مومن کے لیے کہیں پر بھی راحت کا سرو سامان نہیں۔

آج تک کوئی سمجھا کہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں
بس فقط ہیں تیری رازداں
اے علیؑ تیری تنہائیاں

ابتداء انتہا کبریا
انبیاء اولیاء اوصیاء
سب ہیں چپ، بولتی ہیں جہاں
اے علیؑ تیری تنہائیاں

کیسا کوئی سلام و کلام
جب نہیں ہے جواب سلام
اف یہ توقیر علم الاماں
اے علیؑ تیری تنہائیاں

رو رہی ہیں جو شام و سحر
فاطمہؑ تیری تنہائی پر
فاطمہؑ پہ ہیں گریہ کناں
اے علیؑ تیری تنہائیاں

ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ہم امام علیؑ کے زخم پہچان نہ پائے۔ وہ زخم جس پر امامؑ نے کامیابی کا اعلان کیا، اُس پر گریہ کناں ہیں مگر حقیقت میں وہ زخم جن کی وجہ سے مولا علیؑ کنویں کے پاس جا کر اپنا درد بیان کرکے روتے رہے، ہم آج تک اُسے درک نہ کرسکے۔ اُس زمانے کے علیؑ کے پاس سلمان، میثم، مقداد، بو ذر جیسے باوفا اصحاب موجود تھے، مگر آج کا علیؑ اِس سے بھی زیادہ مظلوم ہے۔ چودہ سو سال گزر گئے اور وقت کا علیؑ آج بھی پردہ غیبت میں تنہا ہے، کیونکہ ابھی ہم تیار نہیں ہیں۔ ایک بار پھر زمانے کا علیؑ امت کی خاموشی، باوفا اصحاب کی کمی، نام نہاد مصلحت اور گروہ بندی کے باعث تنہائی کی قید کاٹ رہا ہے۔ اُس دور کے علیؑ کے پاس تو کنواں تھا اپنے درد سنانے کے لیے، نہیں معلوم مہدی زماں اپنے درد کسے سناتے ہوں گے؟ عشقِ حیدر اور امام کی ضربت کے ایام ہم سے تقاضہ کرتے ہیں کہ آج کے علیؑ کی تنہائی کے اسباب کو درک کریں۔ جس روز ہم اِس درد کو درک کر لیں گے، اُس روز حقیقی معنی میں ہم علیؑ کے دوستوں میں شامل ہو جائیں گے، ورنہ ساری رات اللھم لعن کی تسبیح کچھ فائدہ نہیں دے گی۔

تبصرے
Loading...