16 سورۂ بقرہ 27 ۔ 26قرآنی پیغام

16 سورۂ بقرہ 27 ۔ 26قرآنی پیغام

 

بسم اللہ الرّحمن الرّحیم

خداوند لوح و قلم خالق قرآن کی حمد و ستائش اور مالک نطق و بیان مرسل اعظم (ص) اور ان کے اہلبیت مکرم (ع) پر درود و سلام کے بعد سورۂ بقرہ کی چند آيات کے ترجمہ ؤ تفسیر پر مشتمل ” کلام نور ” لیکر حاضر ہیں ۔

عزیزان محترم ! قرآن کریم چونکہ اللہ کا کلام ہے اور امین وحی کے ذریعے مرسل تک پہنچا ہے اس لئے ہر قسم کے نقص و عیب سے منزہ اور ہر طرح کی ممکنہ خیانت اور تحریف سے مبرہ ہے اس لئے خود قرآن حکیم نے بعض اوقات اپنے مطالب کی صداقت پر تاکید کی ہے اور بعض اوقات خود اپنے طریقۂ بیان اور تعبیر کی حمایت اور دفاع کیا ہے چنانچہ مخالفین قرآن نے بھی چونکہ وہ قرآن کا مثل لانے اور قرآن کی منطقی گفتگو کا جواب دینے سے عاجز تھے کبھی تو قرآن مجید میں بیان شدہ مطالب پر اعتراض کیا ہے اور کبھی قرآن کے انداز بیان پر منہ بنایا اور منہ چڑھایا ہے، انداز بیان اور تعبیر پر اعتراض کرتے ہوئے مخالفین اس بات پر اکثر ناک بھؤں چڑھاتے تھے کہ قرآن میں مثل و مثل سے بہت کام لیا گيا ہے اور مختلف امور میں مچھر اور مکڑی کی مانند مثالیں دینے میں بھی قرآن نے کوئی شرم و حیا نہیں برتی ہے خدا یہ کام نہیں کرسکتا اس طرح کی مثالیں دینا خدا کے لئے زیب نہیں دیتا اس اعتراض کا جواب دیتے ہوئے سورۂ بقرہ کی چھبیسویں آیت میں خدا فرماتا ہے :اِنّ اللہَ لَا یَستَحیِی اَن یّضرِبَ مَثَلا” مّا بَعُوضَۃً فَمَا فَوقَہَا فَاَمّا الّذِینَ ءَ امَنُوا فَیَعلَمُونَ اَنّہُ الحَقّ مِن رّبّہِم وَ اَمّا الّذِینَ کَفَرُوا فَیَقُولُونَ مَاذَا اَرَادَ اللہُ بِہذَا مَثَلا” یُضِلّ بِہِ کثِیرا” و ّ یَہدِی بِہ کَثِیرا” وَ مَا یُضِلّ بِہ اِلّا الفَاسِقِینَ

بے شک اللہ کو اس بات سے کہ وہ مچھر یااس سے بھی گئی گزری کسی ادنی یا اعلی شےء سے مثالی بیان کرے، کوئی حیا نہیں ہے پس جو لوگ ایمان والے ہیں جانتے ہیں کہ وہ مثال ان کے پروردگار کی جانب سے ہے اور حق ہے لیکن جن لوگوں نے کفر اختیار کررکھا ہے کہتے ہیں کہ اس مثال کے پیش کرنے سے اس کا منظور و مقصود کیا ہے؟ ہاں ! خداوند (عالم ) اس مثال کے ذریعے بہت سے لوگوں کو گمراہ اور بہت سے لوگوں کو راہ راست پر لگادیتا ہے لیکن سوائے فاسقین کے اللہ کسی کو گمراہ نہیں کرتا ۔

ظاہر ہے گمراہی میں پڑنے والے فاسقین سے مراد وہی لوگ ہیں جو حق کی طاعت و اطاعت سے روگردانی کے سبب صراط مستقیم سے خارج اور منحرف ہوگئے ہیں ( اگرچہ وقتی طور پر ایک مومن سے بھی فسق و نافرمانی ممکن ہے ) ، قرآن ایک عالمی کتاب ہے اوراس میں تمام حقائق و معارف ایسی زبان اور ایسے انداز میں بیان ہوئے ہیں کہ تمام انسانوں کی سمجھ میں آجائے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ عام لوگوں کو کوئی بات آسانی سے سمجھانے کے لئے بہترین زبان مثال کی زبان ہوتی ہے چنانچہ قرآن نے اپنی چھوٹی بڑی اور اچھی اور بری باتوں کو سمجھانے کے لئے حسب ضرورت چھوٹی بڑی ہر قسم کی مثالیں دی ہیں ظاہر ہے مثالوں میں پیش کی گئی اشیاء کا چھوٹا یا بڑا ہونا ایک دوسرے کے مقابل ان کے ظاہری وجود یا افادیت کے لحاظ سے ہے ورنہ اللہ کی ہر مخلوق اپنا ایک مقام رکھتی ہے اور نگاہ آفرینش میں یکساں ہے ۔

جہاں تک مخالفین کا سوال ہے اس طرح کی باتیں وہ اس لئے کرتے تھے کہ قرآن اور پیغمبر اکرم (ص) کی نبوت و رسالت کے سلسلے میں مسلمان شکوک و شبہات میں پڑجائیں اور ان کا ایمان متزلزل ہوجائے ورنہ قرآن حکیم میں ہرجگہ اس طرح کی مثالیں نہیں ملیں گی ابھی اس سے قبل کی آیات میں منافقین کو ایک ایسے مسافر سے تعبیر کیا گيا ہے جو راہ بھٹک گيا ہو اور زمین و آسمان کے سیکڑوں خطرات سے روبرو ہو اور راستے میں روشنی کے لئے کوئی چراغ بھی اسے میسر نہ ہو علاوہ ازیں مثالیں تو صرف حقائق کو مجسم کرنے کے لئے دی جاتی ہیں چنانچہ جب کسی کی عاجزی اور کمزوری کو بیان کرنا مقصود ہو اس کی مچھریا مکھی سے مثال دی جاتی ہے جیسا کہ سورۂ حج کی تہترویں آیت میں خدا فرماتا ہے : ” یا اَیّہَا النّاس ضُرِبَ مَثَلٌ فَاستَمِعُوا لَہ ” اے لوگو! تمہارے لئے ایک مثل بیان کی گئي پس اسے غور سے سنو یہ لوگ جنہیں تم خدا کو چھوڑ کر آواز دیا کرتے ہو یہ سب مل جائیں تو بھی ایک مکھی پیدا نہیں کرسکتے اور اگر ایک مکھی ان سے کوئی چیز چھین لے یہ اسے مکھی سے واپس لینے کی بھی قوت نہیں رکھتے ، یہ طلب کرنے والے اور جن سے طلب کررہے ہیں دونوں کس قدر بودے اور کمزور ہیں ۔”

اسی بنیاد پر آیت میں اعلان ہوا ہے کہ خداوند عالم کو ایک مچھر یا اس سے چھوٹی بڑی کسی بھی چیز کی مثال دینے میں کوئی عار نہیں ہے وہ عقلی اور معنوی حقائق قابل محسوس مثالوں کے لباس میں بیان کرتا ہے تا کہ لوگ بات کو سمجھ لیں اور عقل و منطق سے کام لینے والے مومنین اس روش کو پسند کرتے ہیں اور حق بین نگاہیں ہدایت و رہنمائی حاصل کرلیتی ہیں لیکن جو لوگ کفر و نفاق کے سبب ضد اور دشمنی دکھاتے ہوئے بہانے بازی یا بے جا تنقید و اعتراض سے کام لیتے ہیں نہ صرف یہ کہ قرآن سے بے بہرہ ہوجاتے ہیں بلکہ نبی (ص) اور قرآن کے سلسلے میں شکوک و شبہات کے سبب الہی ہدایت سے بھی محروم ہوجاتے ہیں ۔ یہاں یہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ قرآن کریم نے مومن کی علم کے سبب تعریف کی ہے اور کافر کی جہالت پر توبیخ کی ہے اگرچہ صاف طور پر یہ نہیں کہا ہے کہ کافر جاہل ہے لیکن تقابل بتاتا ہے کہ علم کی ایمان کے ساتھ آمیزش ہوئی ہے اور مومن عالم ہوا کرتا ہے اور کفر جہالت کا نتیجہ ہے اور کافر جاہل ہوا کرتا ہے اور اس پر لازم ہے کہ وہ اپنے کفر و جہالت کو دور کرے ۔

اس کے بعد خداوند عالم نے سورۂ بقرہ کی ستائیسویں آیت میں منظور نظر فاسقین کی خصوصیات بیان کی ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ آیت میں فاسقین سے مراد وہ کفار و مشرکین ہیں جو دائرہ ایمان سے خارج ہوچکے ہیں ، دائرہ ایمان میں رہ کر گناہ کے مرتکب ہونے والے مومنین مراد نہیں ہیں چنانچہ ارشاد ہوتا ہے : 

” اَلّذِینَ یَنقُضُونَ عَہدَ اللہِ مِن بَعدِ مِیثَاقِہِ وَ یَقطَعُونَ مَا اَمَرَ اللہُ بِہِ اَن یُوصَلَ وَ یُفسِدُونَ فِی الاَرضِ اُولئِکَ ہُمُ الخاسِرُونَ ”

یعنی ( یہ فاسقین ) وہ لوگ ہیں کہ جنہوں نے اللہ کے محکم پیمان کے بعد الہی عہد کو توڑ دیا ہے اور وہ رشتے جنہیں خداوند عالم نے برقرار کرنے کا حکم دیا ہے منقطع کرلئے ہیں اور روئے زمین پر برائیاں پھیلا رہے ہیں اور یہی وہ ہیں جو یقینا” گھاٹے میں ہیں ۔

عزیزان محترم ! اس سے قبل آیت میں خدا نے اعلان کیا تھا کہ وہ فاسقوں کےسوا کسی کو گمراہ نہیں کرتا لہذا اپنے مقصود کو سمجھانے کےلئے اس آیۂ کریمہ میں فاسقین کا تعارف کرایا ہے اور ان کے تمام صفات رذیلہ کا سرچشمہ ان کی ” پیمان شکنی ” کو قرار دیا ہے کیونکہ جو لوگ اپنے خدا سے کیا گیا عہد توڑ دیں چاہے وہ جس سطح پر جس میزان میں بھی ہو اسی کے اعتبار سے راہ مستقیم سے دور اور منحرف ہوتے چلے جاتے ہیں ۔

” اَلّذینَ یَنقُضُونَ عَہدَ اللہ ” یعنی وہ لوگ جنہوں نے عہد الہی کو توڑدیا ہے ”

اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اللہ نے انسانوں سے عہد و پیمان لیا ہے جسے کچھ لوگوں نے توڑا ہے جو فاسق ہیں اب اس پیمان الہی سے مراد کیا ہے ، کچھ کی نظر میں اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہے جو عالم ذر میں اللہ نے انسانوں سے لیا ہے بعض کہتے ہیں اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہے جو خدا اور بندوں کے درمیان باطنی حجت یعنی عقل و فطرت کے ذریعے خدا نے تمام انسانوں سے لیا ہے اور یہی صحیح ہے البتہ یہ عہد صرف عقیدہ ، اخلاق اور اعمال کے دائرے میں احکام عقلی تک محدود و منحصر نہیں ہے بلکہ پورے دین سے تعلق رکھتا ہے اور آدمی کی ناقابل تغییر فطرت جس کو مانتی اور قبول کرتی ہے یہ فطری عہد خدا نے تمام انسانوں سے لیا ہے اور عقل و فطرت، وحی و کتاب اور سنت معصومین علیہم السلام سب کو شامل ہے ۔ چنانچہ قرآن اس عہد کے سلسلے میں خاص اہمیت کا قائل ہے اور تمام انسانوں کو اس کے سلسلے میں جواب دہ مانتا ہے جیسا کہ سورۂ اسراء کی 34 ویں آیت میں خدا فرماتا ہے : ” و اوفوا بِالعہد انّ العہد کان مسئولا” یعنی عہد کو پورا کرو اپنے عہد کے لئے ہر انسان جواب دہ ہے ۔ چنانچہ جو لوگ اپنے عہد کو وفا کرتے ہیں اجر عظیم کے مستحق قرار پاتے ہیں سورۂ فتح کی دسویں آيت میں خدا نے فرمایا ہے : وَ مَن اَوفی بِما عہد عَلَیہ اللہَ فَسَیوتِیہِ اَجرا” عَظِیما” جو عہد الہی کو پورا کرتا ہے خدا عنقریب اسے عظیم اجر عطا کرے گا ۔

بہرحال ، عہد شکنی فسق و ضلالت کا باعث ہے اور فاسقوں کے خصوصیات میں سے ہے ، عہدشکنی کے علاوہ فاسقین کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ ان رشتوں کو توڑ دیتے ہیں کہ جن کے استحکام کا خدا نے حکم دیا ہے چاہے یہ دینی اور مذہبی رشتے ہوں یا سماجی اور خاندانی رشتے ہوں ، خداؤ رسول (ص) اور قرآن و عترت (ع) سے بھی رشتہ توڑ لیتے ہیں اور دینی بھائیوں ، پڑوسیوں اور رشتہ داروں سے بھی خاندانی، ملکی اوربین الاقوامی سطح پر رشتے منقطع کرلیتے ہیں جبکہ ان رشتوں کو توڑنا عہد الہی کو توڑنے کے ہی مترادف ہے کیونکہ اپنے خاندان اور سماج کی ایک فرد ہونے کی حیثیت سے خدا نے ہی ان رشتوں کو مستحکم رکھنے کا حکم دیا ہے فاسقین کی تیسری صفت یہ ہے کہ وہ زمین پر ” فسا د” یعنی خرابیاں اور برائیاں پھیلاتے ہیں چنانچہ قرآن نے ” اصلاح ” کے مقابلے میں ” افساد ” سے منع کیا ہے کہ ہم نے دین کے ذریعے زمین کی اصلاح کی ہے اس اصلاح شدہ زمین کو فاسد نہیں کرنا چاہئے سورۂ اعراف آیت چھپن میں ہے :

لاتُفسِدُوا فی الارض بعد اصلاحہا ” اصلاح کے بعد زمین پر خرابیاں نہ پھیلاؤ ۔

فساد کے بعض مصادیق بھی قرآن میں ذکر ہوئے ہیں کفر کو خدا نے ” فساد کبیر ” سے تعبیر کیاہے ( انفال / 73)

ناپ تول میں کمی کو باعث فساد قرار دیا ہے ( سورۂ شعراء / 83 ۔ 82 ) اسی طرح قرآن کی نظر میں اسلامی نظام کے خلاف فتنہ انگیز سرگرمیاں زمین پر فساد پھیلانے کے حکم میں ہے ( سورۂ نمل / 48)

اور ان تمام خصوصیات کے بعد خدا نے نتیجہ بھی بیان کردیا ہے کہ فاسقین اپنی ان تمام حرکتوں کے باعث خسارہ اور نقصان میں رہیں گے: ظاہر ہے جو لوگ ہدایت و معرفت کے فطری سرمایہ سے ہی محروم ہوجائيں ان کو زندگي میں خسارہ کے سوا کیا ہاتھ آسکتا ہے ۔ البتہ یہ لوگ نہ صرف خود بلکہ اپنے خاندان اور قوم کو بھی خسارے میں مبتلا کردیتے ہیں ” خسروا انفسہم و اہلیہم ” ( زمر / 15) ظاہر ہے جب گھر کا سرپرست گمراہ ہوجائے تو خاندان والے بھی گمراہی میں پڑجاتے ہیں ۔

معلوم ہوا :

– دینی حقائق و معارف سے آشنائی یا تعلیم و تربیت میں شرم و حیا کا کوئی دخل نہیں ہے البتہ بیہودہ اور ناپسند امور میں حیا ضروری ہے ۔

– مفید اور کارآمد باتیں آسان و عام فہم زبان میں بیان کرنا چاہئے تا کہ ہر ایک اس سے فائدہ اٹھاسکے ۔

– قرآنی مثل اور مثالیں حقیقت رکھتی ہیں اور صحیح واقعات کی طرف ہدایت و رہنمائي کرتی ہیں ۔

– گناہ و معصیت حقائق کی شناخت میں رکاوٹ بنتے ہیں اور انسان گمراہی کی طرف بڑھتا چلا جاتا ہے ۔

– عہد شکنی دینداری کے ساتھ میل نہیں کھاتی مومن حتی کافروں کے ساتھ کئے ہوئے وعدے نہیں توڑتا چہ جائيکہ کوئی مومن اپنے خدا اور اس کے دین کے ساتھ اپنا پیمان وفا توڑنے کی جرات کرے ۔

– اپنی عمر کا سرمایہ ضایع کردینا ہی انسان کا سب سے بڑا خسارہ ہے ۔

– خدا کے بندے نہ خدا سے عہد شکنی کرتے اور نہ ہی خدا نے جن کے ساتھ رشتہ جوڑا ہے ان سے اپنا سببی یا سبی رشتہ توڑتے اور نہ ہی دینی اور معاشرتی رشتہ کمزور پڑنے دیتے ۔

تبصرے
Loading...