غیبت روایات کی روشنی میں

معتبر روایات کے مطابق امام علیہ السلام کی غیبت سے مراد نگاہوں سے پوشیدہ ہونا ہے یعنی لوگ آپ کی زندگی میں شاید آپکو دیکھتے ہوں اور آپ لوگوں کے درمیان رہتے ہیں لیکن کیونکہ آپ کی معرفت نہیں رکھتے ہیں لذا ان کو معلوم نہیں ہے کہ یہ وہی امام مھدی علیہ السلام ہیں اسی لیے آپ کی غیبت کو حضرت یوسف (ع)سے تشبیہ دی گئ ہے جب حضر ت یوسف کے بھائی خریدوفروش کیلئے مصر پہنچے توحضرت یوسف کودیکھا لیکن پہچان نہ سکے ۔نیز محمد بن عثمان عمری سے روایت نقل ہے کہ (واللہ صاحب ھذا الامر لیحضر الموسم کل سنۃ فیری الناس ویعرفھم ویرونہ ولایعرفونہ )کمال الدین ص۴۴۰

ترجمہ   خدا کی قسم صاحب امر حج کے موسم میں ھر سال حاضر ہوتے ہیں لوگوں کو دیکھتے ہیں اور ان کو جانتے ہیں لوگ بھی ان کو دیکھتے ہیں لیکن ان کو پہچانتےنہیں ہیں

غیبت تاریخ کی نگاہ میں:

غیبت کوئی ایسی چیز نہیں ہے کہ جو پہلی مرتبہ حضرت حجت علیہ السلام کیلئے قرار دی گئی ہوبلکہ بہت زیادہ روایات سے ثابت ہے کہ بعض گذشتہ انبیاء کرام نے بھی غیبت کی زندگی گزاری ہے جس طرح حضرت صالح نبی کے غائب ہونے کے بارے ہیں امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں

ان صالحا علیہ السلام غاب عن قومہ زمانا وکان یوم غاب عنھم کھلا فلما رجع الی قومہ لم یعرفونہ بصورۃ )

ترجمہ :بہ تحقیق حضرت صالح ایک مدت کیلئے اپنی قوم سے غائب ہوئے جب غائب ہوئے توبوڑھے تھے اور جب اپنی قوم کیطرف لوٹے تو کوئی بھی ان کو نہیں پہچانتا تھا

اسی طرح حضرت شعیب علیہ السلام کے بارے میں امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں

ان شعیبا النبی دعا قومہ الی اللہ حتی کبرسنہ وق عظمہ ثم غاب عنھم ما شاءاللہ ثم عاد الیھم شاب )بحارالانوار ج۱۲ س۳۸۵

ترجمہ :شعیب پیامبر نے اپنی قوم کو خدا کی دعوت دی یہاں تک کہ بوڑھے ہوگئے ہڈیاں ناتواں ہوگئیں اس وقت خدا کی مرضی سے لوگوں سے غائب ہوگئے اس کے بعد جب لوٹے توجوان تھے۔

پس جس طرح گذشتہ انبیاء کرام کے لیے غیبت تھی اسی طرح خداوندمتعال نے حضرت مھدی علیہ السلام کے لیے بھی غیبت قراردی ہے نیز آپ کی غیبت کی خبریں آپ کی ولادت سے پہلے مطرح تھیں پیامبر اسلام سے لے کرامام حسن عسکری تک تمام پیشواوں نے آپ کی غیبت کے بارے میں خبر دی ہے مثلا پیامبر اکرم فرماتےہیں مھدی علیہ السلام ہمارے فرزندان میں سے ہونگے ان کیلیے ایک غیبت ہے یہاں تک کہ لوگ اپنے دین سے گمراہ ہوں گے تواس زمانے میں شھاب ثاقب چمکتے ہوئے ستارے کی مانند آئیں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے پر کردیں گے جس طرح ظلم وجور سے بھر چکی ہوگی (کمال الدین ج۱ص۵۳۶ )

پس غیبت ایک سنت الھی ہے جوتمام اقوام پر حاکم رہی ہے

غیبت کی اقسام

آپ کی غیبت دواقسام پر مشتمل ہے (۱)غیبت صغری (۲) غیبت کبری

غیبت صغری

غیبت صغری  امام حسن عسکری علیہ السلام کی شھادت کے بعد

۲۶۰ سے شروع ہوئی اور اسی غیبت صغری میں جب آپ کی امامت کا آغازہوا توسیاسی فضا بہت زیادہ خراب تھی کیونکہ عباسی دور تھا توانہوں نے حکونتی سطح پر بہت زیادہ مشکلات پیدا کردی تھیں سب سے اہم ترین مشکل یہ تھی کہ آپ کی والدہ ماجدہ کو حکومت کی نگرانی میں رکھا گیا اور اس غیبت صغری کے زمانے میں آپ کے وکلاء مقررہوئے جو کہ نواب اربعہ کے نام سے مشھور ہیں ان بزرگان نے ستر سال تک آپ کی وکالت کی ذمہ داری سنبھالی یہ بزرگان بہت زیادہ عظمت وجلالت کے مالک اور صاحب کرامات تھے لوگ انہی کے ذریعہ اپنے پیغامات امام علیہ السلام تک پہنچاتے تھے اور اپنے سوالوں کے جوابات دریافت کرتے تھے ۔

غیبت کبری ۳۲۹ھ سے

جناب علی بن محمد سمری نائب چھارم کے بعد غیبت کبری کا دور شروع ہوا نائب چھارم نے وفات سے چند دن پہلے امام علیہ السلام سے توقیع حاصل کی جس میں حضرت نے غیبت صغری کے ختم ہونے کی خبر دی اور وصیت کی کہ اپنے بعد کسی کو میرا نائب مقرر نہ کیا جائے (کمال الدین ص۵۱۶ )

اور آئندہ کا لائحہ عمل امام علیہ السلام کی طرف سے ملا کچھ اس طرح تھا

 (اماالحوادث الواقعہ فارجعوفیھا الی رواۃ احادیثنا فانھم حجتی علیکم وانا حجۃ علیھم )

آنے والے زمانہ میں جو واقعات پیش آئیں ان میں تم ہماری احادیث کے راویوں کیطرف رجوع کرنا وہ میری طرف سے تم پر حجت ہیں اور میں ان پر حجت ہوں

کیونکہ غیبت صغری میں نیابت خاص نہیں ہے (جس طرح نواب اربعہ تھے )بلکہ نیابت عامہ ہے اس لیے امام زمان علیہ السلام کے نمائندوں کی صفات بیان کی ہیں اور ایک ملاک اور معیار معین کردیا ہے

پس جس میں بھی وہ صفات پائی جائیں وہ زمانہ غیبت کبری میں آپ کا نمائندہ ہوگا اور وہ صفات بہ زبان معصوم کچھ اس طرح ہیں

(اما من کان من الفقھاء ،صائنا لنفسہ ،حافظا لدینہ ،مخالفا لھواہ ۔مطیعا لامرمولاہ ۔فللعوام ان یقلدوہ

ترجمہ :فقھاء میں سے ایسے جو اپنے نفس پر کنٹرول رکھتے ہیں ،دین کی حفاظت کرنے والے ہوں اپنی خواہشات نفس کے مخالفت کرنے والے ہوں اپنے مولا کے حکم کے فرماں بردار ہوں توعوام کو چاہیے کہ ایسے فقھاء کی تقلید کریں

غیبت کبری کا فلسفہ امتحان وآزمائش

بعض روایات میں آپ کی غیبت کی وجہ شیعوں کی آزمائش اور امتحان بیان ہوئی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ (ھمارے قائم کیلیے ظھور سے پہلے غیبت ہے کیونکہ خداوندمتعال پسند کرتاہے کہ شیعوں کا امتحان لے پس وہ جو باطل کیطرف میلان ورجحان رکھتے ہوں گے وہ شک کریں گے

امتحان وآزمائش ایک ایسی سنت ہے جو کہ سابقہ انبیا کی امتوں میں رائج تھی اور اب تک قرآن کی روشنی میں جاری وساری ہے جیسا کہ خداوند متعال فرماتا ہے کہ (الم احسب الناس ان یقولوا امنا وھم لا یفتنون ولقد فتناالذین من قبلھم فلیعلمن اللہ الذین صدقوا ولیعلمن الکاذبین )عنکبوت ایت

کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ امنا اور صدقنا کہنے سے انہیں ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا بغیر اس کے کہ انہیں آزمایا جائے ہرگز نہیں ہم نے توسابقہ امتوں کوبھی آزمایا تھا تاکہ اللہ تعالی ضرور پہچان لے ان لوگوں کو جنہوں نے سچ کہا اور ان کو پہچان لے جوجھوٹے ہیں

جابر بن عبداللہ انصاری پیامبر اکرم سے پوچھتے ہیں کہ یا رسول اللہ والقائم من ولدک غیبۃ ؟)

قال ای وربی لیمحص اللہ الذین امنوا وبمحق الکافرین )معجم الاحادیث الامام المھدی ٓص۱۱۳

ترجمہ :اے رسول خدا کیا آپ کے فرزند قائم علیہ السلام کیلیے غیبت ہے ؟تو آپ نے جواب میں فرمایا ہاں پروردگار کی قسم یہ غیبت اس لیے ہے کہ اللہ تعالی اس دورانیہ میں چاہتاہے کہ مومنین کو خالص کرے اور کافروں کونابود کرے ،،

(۲)جان کی حفاظت

بعض روایات میں امام مھدی علیہ السلام کی غیبت کی وجہ جان کی حفاظت قرار دیا گیا ہے کیونکہ آپ ہی کے ذریعہ دنیا کو عدل سے پر ہونا ہے اور عالم کائنات کا قیام اپ ہی کے ذریعہ ہے تو آپ کی حفاظت انتہائی ضروری تھی

اور اس وجہ کی طرف متعدد روایات میں ذکر ہواہے پیامبر اسلام فرماتے ہیں کہ

لا بد للغلام من غیبتہ فقیل لہ ولم رسول اللہ قال یخاف القتل )

ترجمہ:میرا بیٹا ضرورغائب ہوگا پس پوچھا گیا کیوں یا رسول اللہ توآپ نے فرمایا قتل کے خوف کی وجہ سے

نیز امام صادق علیہ السلام فرماتےہیں (للقائم غیبۃ قبل قیامہ قلت ولم ؟قال یخاف علی نفسہ الذبح )کمال الدین ج۲ص۴۸۰

ترجمہ :ہمارے قائم کیلے قیام سے پہلے ایک غیبت ہے تو راوی کہتا ہے میں نے عرض کیا کہ یہ غیبت کی کس لیے ہے ؟تو امام نے فرمایا یہ غیبت قتل کے خوف کیوجہ سے ہے

(۳)اپنے زمانہ کے حاکموں کی بیعت نہ کرنا

اسی طرح بعض روایات میں آپ کی غیبت کی وجہ اپنے زمانہ کے حاکموں کی بیعت نہ کرنا بیان ہوئی ہے جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتےہیں کہ

(یقوم للقائم علیہ السلام ولیس لاحد فی عنقہ بیعۃ )کمال الدین ص۴۸۰

ہمارا قائم عج قیام کرے گا یہاں تک کہ کسی کی بیعت آپ کی گردن پر نہ ہوگی

تبصرے
Loading...