رہ گئی رسم عزا

مقصد عزاداری

*رہ گئی رسم عزا*

*از:شہید سیدسعید حیدر زیدیؒ*

مکتب تشیع میں واجبات دینی کے بعد جس مذہبی رسم کو سب سے زیادہ اہمیت دی گئی ہے وہ ’’عزاداری سیدالشہداؑ‘‘ ہے۔ مکتب اہل بیت ؑ کے پیروکار سب سے زیادہ اسی رسم کی انجام دہی کا اہتمام کرتے ہیں اور عزاداری نے شیعیت کے فروغ‘ استحکام اور پہچان میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے؛لیکن بتدریج یہ رسم اپنی روح سے عاری ہورہی ہے۔
ہماری نظر میں اس کی بڑی وجہ عزاداری کے اجتماعات میں حسین ابن علی ؑ کی تحریک اور اس تحریک کے مقاصد کا بیان نہ کیا جانا بھی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ سالہا سال مجالس عزا میں شرکت کرنے والے افراد بھی حسین ابن علی ؑ کی تحریک، اس کے اسباب اور اس قیام میں امام ؑکے پیش نظر مقاصد سے نابلد رہتے ہیں۔ذرا سوچ کر بتائیے کہ زندگی میں آپ نے کتنی ایسی مجالس سنی ہیں جن میں مقرر نے تفصیل کے ساتھ امام حسین ؑ کے قیام پرروشنی ڈالی ہو،اُس دور کے حالات بیان کئے ہوں،امام ؑکے لائحہ عمل کا جائزہ پیش کیا ہو؟
ہماری اکثر مجالس میں کربلا اور امام حسین ؑ کا تذکرہ بس آخری چند منٹ کے مصائب میں ہوا کرتا ہے۔ لہٰذا بعض لوگ واقعہ کربلا کو بنی ہاشم اور بنی امیہ کی قبائلی رنجشوں کا شاخسانہ سمجھتے ہیں،جبکہ بعض لوگوں کا خیال یہ ہے کہ یزید کا امام حسین ؑ سے بیعت طلب کرنا اور اہل کوفہ کا امام حسین ؑ کو اپنی قیادت کی دعوت دینااور پھر اپنے وعدے سے مکر جانا واقعہ کربلا کاسبب بنا۔
اس دور کی تاریخ کاسرسری جائزہ بالخصوص امام حسن مجتبیٰ ؑ کی شہادت کے بعد امام حسین ؑ کے اقدامات ،اُس دوران ان لوگوںسے آپ کی گفتگوؤں‘آپ کے خطبات اور مختلف لوگوں کو لکھے گئے آپ کے خطوط کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ مذکورہ بالا چیزیں امام حسین ؑ کی تحریک کا باعث نہ تھیں‘ہاں طلب ِ بیعت اور اہل کوفہ کی دعوت نے اس تحریک کو تیز ضرور کیا‘ اور اس کے بعد واقعات تیزی سے ظہور پذیر ہونے لگے؛لیکن اس تحریک کے اصل اور بنیادی اسباب یہ نہ تھے۔بلکہ در اصل امام حسین ؑ کے پیش نظر شریعت محمدی کا نفاذ،دینی شعائر واقدار کا رواج اور معاشرے میں عدل وانصاف کا قیام تھا۔اور انہی مقاصد کے حصول کے لئے آپؑ نے اپنی تحریک کی بنیاد رکھی تھی۔
یعنی اگر اہل کوفہ کی دعوت نہ بھی ہوتی اور یزید کی جانب سے بیعت کا مطالبہ نہ بھی کیا جاتا ،تب بھی امام حسین ؑ اس مقاصد کے حصول کے لئے جدوجہد منظم کرتے۔اپنی اس رائے کے ثبوت میں ہم خود امام حسین ؑ کے اقدامات اور آپ ؑ کے چند فرامین پیش کرتے ہیں۔
ابھی جبکہ یزید بن معاویہ برسر اقتدار آیا بھی نہ تھاا اور ظاہر ہے اس کی جانب سے طلب بیعت کا کوئی سوال ہی درپیش نہ تھا،امام حسین ؑ نے ۵۸ھ میں یعنی واقعہ کربلا سے ٹھیک دوبرس پہلے حج کے موقع میں منیٰ کے مقام پر ایک کانفرنس منعقد کیا،جس میں اس دور کے عالم اسلام کی چیدہ چیدہ شخصیات کو مدعو کیا اور ارباب حل وعقد میں سے قریب ایک ہزار افراد سے خطاب فرماتے ہوئے اس دور میں اسلام اور امت اسلامیہ کی صورتحال پر افسوس کا اظہار کیا ۔اور ان حالات کی تبدیلی کے لئے ان حضرات کو جدوجہد پر ابھارا،بلکہ ان حالات کو ان افراد کی خاموشی‘سستی اور نااہلی کانتیجہ قرار دیا۔
اس تفصیلی خطاب کے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں :
*’’آپ دیکھ رہے ہیں کہ اللہ سے کئے ہوئے عہد وپیمان کو توڑا جارہا ہے ‘اس کے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے‘ اسکے برخلاف اپنے آبا واجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں۔جبکہ رسول اللہ کے عہد وپیمان نظر انداز ہورہے ہیں اور ان کی کوئی پروا نہیں کی جارہی۔اندھے‘گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پر رحم نہیں کرتا۔آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کر تے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔آپ لوگوں نے خوش آمد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے؛ جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو منع کرنے کو بھی کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔‘‘*
اس خطاب کے آخر میں پرودگار عالم سے التماس کرتے ہوئے امام ؑنے اپنی جدوجہد کے اسباب ان الفاظ میں بیان کئے ہیں:
*’’بارالٰہا! تو جانتا ہے کہ جو کچھ ہماری جانب سے ہوا‘ وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اور نہ ہی مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے ۔بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کردیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں‘تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اورجو فرائض،قوانین اور احکام جو تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔‘‘*
آپ ؑ نے مکہ سے اہل کوفہ کو لکھے گئے اپنے خط میں‘ جسے آپ نے مسلم بن عقیل ؑ کے ہاتھ روانہ کیا‘مسلم حکمران کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرمایا:
*’’اپنی جان کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ امام ورہبر وہ ہے جو کتاب خدا پر عمل کرے، عدل وانصاف کا راستہ اختیار کرے‘ حق کی پیروی کرے اور اپنے وجود کو اللہ کے لئے وقف کر دے۔‘‘*

تبصرے
Loading...