روزہ کا ظاھر وباطن

انسان جسم اور روح سے مرکّب ھے، جسم روح کی فعّالیت کا وسیلہ اور روح جسم کی حیات ھے۔ اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم مردہ اور بے حرکت ھو جاتا ھے ،     اور دوسری طرف روح کی فعّالیت کا سلسلہ متوقّف ھو جاتا ھے ۔انسان کے اعمال وعبادات بھی بالکل انسان کے مانند ھیں ،    ان میں  بھی ایک جنبہٴ ظاھری وجسمانی ھے یعنی پیکر عمل،     اور ایک جنبہٴ باطنی و روحانی ھے یعنی فلسفہ واسرار عمل۔ جس طرح انسان کی زندگی اس کی روح میں  ھے اسی طرح عمل کی حیات بھی اس کے اسرار اور فلسفہ میں  ھے اور جس طرح روح کے بغیر انسان مردہ ھے اسی طرح اسرار و فلسفہ کے بغیر اعمال مردہ ھیں ،     لیکن اکثر انسانوں  کی مشکل یہ ھے کہ وہ جسم پرست اور ظاھر بین ھیں ،     وہ جسم کی زینت اور خدمت میں  خود کو اتنا مشغول کر لیتے ھیں  کہ انھیں  روح کی طرف توجہ دینے کی فرصت ھی نھیں ملتی ۔ یہ پوری انسانیت کی مشکل ھے، آج کا انسان روح اور روح کے تقاضوں  سے بے خبر صرف جسم کی خدمت میں  لگا ھوا ھے اور بغیر روح کے جسم کتنا ھی قوی کیوں  نہ ھو جائے مردہ ھے۔ آج کے انسانی معاشروں  نے بڑی مضحکہ خیز بلکہ بھیانک شکل اختیار کر لی ھے ۔ شھر،     سڑکیں، گلیاں، مکان سب سجے ھوئے ھیں  لیکن ان میں  حرکت کرنے والے انسان مردہ ھیں ۔جنکی حرکت ایک انسانی حرکت نھیں بلکہ ایک مشین یا روبوٹ کی حرکت کے مانند ھے، جن کی ساری بھاگ دوڑاس لیے ھے کہ ان کے جسم کی تمام ضرورتیں  اور خواھشیں  پوری ھو جائیں  لیکن اسکی کوئی فکر نھیں  کہ روح کا کوئی تقاضا پورا ھویانہ ھو۔تعجب اس بات پر ھے کہ پھر یھی انسان شکایت کرتا ھے کہ معاشرے میں  فساد اور جرائم بڑھتے جا رھے ھیں  جبکہ اسے معلوم ھے کہ مردہ جسم کو اگر دفن نہ کر دیا جائے تو اس میں  تعفّن اور فساد کا پیدا ھونا لازمی ھے۔

ایک سنجیدہ مسئلہ

انسانوں  ھی کی طرح انسانی اعمال اور عبادتیں بھی اگر بغیر روح کے انجام دی جائیں  تو نہ صرف یہ کہ ان کا انسانی زندگی پر کوئی مثبت اثر نھیں  پڑتا بلکہ در حقیقت وہ مزید فساد کا باعث بنتی ھیں ۔ تصنّع، ریا کاری ، فریب، تکبّر، اور خود نمائی جیسے اخلاقی مفاسد بعض اوقات انھیں  بے روح عبادتوں  کے نتیجے میں  پیدا ھوتے ھیں  جن میں  اکثر عباد ت گزار مبتلا ھوجاتے ھیں ۔عبادتوں  کے ان نتائج کو دیکہ کر ایک بڑا طبقہ ان سے دور ھو جاتا ھے اور دور ھونا بھی چا ھیے کیونکہ مردہ چیزوں  سے ھر شخص دوری اختیار کرتا ھے۔ پھر یہ شکایت کی جاتی ھے کہ جوان نسل مسجد میں  نھیں  آتی،    جوان روزہ نھیں  رکھتے اور یہ درست بھی ھے لیکن وہ مسجد میں  اس لئے نھیں آتے کیوں کہ انھیں  اسرار نماز نھیں  معلوم ، وہ روزہ اسلئے نھیں  رکھتے کیوں کہ انھیں  فلسفھٴ روزہ نھیں  بتایا گیا ھے ۔

راہ حل

آج جب کہ پوری بشریت شدّت سے اپنے اندر معنویت اور روحانیت کا خلا محسوس کر رھی ھے او ر دوسری طرف ان بے روح عبادتوں  کو قبول بھی نھیں  کیا جا سکتا تو ضرورت اس بات کی ھے کہ ان تمام عبادتوں  کے اسرار و فلسفے بیان کیے جائیں  ، لوگوں  کو جتنے احکام بتائے جائیں  اس سے کھیں  زیادہ ان کے اسرار بتائے جائیں ، احکام کا فلسفہ بیان کیا جائے۔

ممکن ھے کوئی یہ راہ حل پیش کرے کہ جو چیز بے روح ھو جائے اسے ترک کردیا جائے لھٰذا یہ بے روح نمازیں ، بے روح روزے ،    بے روح حج،    بے روح عبادتےں ،     بے روح عزاداری،    حتّیٰ بے روح دین ان سب کو ترک کر دیا جائے ۔اگر اس ترک کرنے سے مراد یہ ھو کہ ان بے روح عبادتوں اور اعمال کو ترک کر کے زندہ عبادتےں ،     زندہ اعمال اور زندہ دین کو اپنایا جائے تو یہ وھی راہ حل ھے جو پھلے بیان کیا گیاھے یعنی ان میں  روح پیدا کی جائے ان کے اسرار وفلسفے بیان کئے جائیں ، لیکن اگر اس سے مراد یہ ھو کہ سرے سے دین کو ترک کر دیا جائے،    سرے سے عبادتےں ھی نہ انجام دی جائیں ، سرے سے عزاداری ھی نہ کی جائے تو یہ راہ حل ایسا ھے جیسے کوئی کھے کہ آج اکثر انسان اور انسانی معاشرے روحانیت اور معنویت سے خالی ھیں  لھٰذاان سب کا خاتمہ کر دیا جائے۔یہ کوئی راہ حل نھیں  ھے کہ ابرو سنوارنے میں آنکھیں  پھوڑ دی جائیں ۔

تبصرے
Loading...