خدا کے قہر و غضب سے غفلت

 

گناہان ِ کبیرہ میں سے ایک مکر ِ اِلٰہی سے لا پرواہی و بے خوفی ہے ۔ بعبارت دیگر آدمی کا اپنے پروردگار کے غیبی انتقام اور ناگہانی قہر و غضب سے قطع نظر عیش و عشرت میں منہمک ہونا اور اپنے گناہوں کی وجہ سے عذاب ِالٰہی میں گرفتار ہونے کا احساس تک نہ کرنا یہ بھی ایک گناہ ِکبیرہ ہے ۔ چناچہ حضرت امام جعفر صادق و حضرت امام موسیٰ کاظم اور حضرت امام علی رضا نے مکر الٰہی سے نہ ڈرنا گناہان ِکبیرہ میں قرار دیا ہے ۔

اس کے علاوہ قرآن ِمجید میں ارشاد ہوتا ہے :

اَفَاَمِنَ اَھْلُ الْقُریٰ اَنْ یَاْتِیَھُمْ بَاْسُنَابَیَاتٌ وَّھُمْ نَائِمُوْنَ (سورہ۷۔آیت۹۷)

تو کیا ا ِن بستیوں کے رہنے والے اس بات سے بے خوف ہیں کہ ان پر ہمارا عذاب راتوں رات آ جائے جب کہ وہ (اطمینان ) سے سوئے ہوئے ہوں ۔

اَوَاَمِنَ اَھْلُ الْقُریٰ اَنْ یَاْتِیَھُمْ بِاْسُنَا ضُحیً وَّھُمْ یَلعَبُوْنَ (سورہ۷۔آیت۹۸)

کیا ان بستیوں والے اس سے بے خوف ہیں کہ ان پر دن دھاڑے ہمارا عذاب آپہنچے جبکہ وہ کھیل کود میں مشغول ہوں ۔

اَفَامِنُوْا مَکْرَ اللّٰہِ فَلَایَاْ مَنُ مَکْرَاللّٰہِ اِلاَّ الْقَوْمُ الْخَاسِرُوْنَ (سورہ۷۔آیت۹۹)

“تو کیا یہ لوگ (قہر ) و تدبیر خدا سے بے خوف و خطر ہو گئے ہیں ؟ (تو یاد رہے کہ) خدا کے نا گہانی عذاب بے خوف نہیں ہوتے مگر گھاٹا اٹھانے والے ۔”

ان تین آیتوں میں عذاب الٰہی سے نہ ڈرنے کے بارے میں واضح طور پر نہی فرمائی گئی ہے اور آخری آیت میں عذاب ِ الٰہی سے نہ ڈرنے والوں کو آخری گھاٹا اٹھانے والے گروہ سے تعبیر کیا ہے جس سے مراد عذاب آخرت کا وعدہ ہے کیونکہ سوائے کفّار اور گناہگاروں کو جو کہ مستحق ِعذاب ہیں ۔اہل ِبہشت و نجات کو قرآن میں خسارت اٹھانے والا نہیں فرمایا ۔

جبکہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ مکر الٰہی سے غافل رہنا گناہ کبیرہ ہے تو پروردگار ِعالم کے عذاب و مجازات سے بے باکی و دلیری خود اللہ تعالیٰ سے نہ ڈرنے اور اس کی عظمت و جلالت سے انکار کے مترادف ہے اور اس کے اوامرو نواہی سے رو گردانی کے برابر ہے ۔توضیح مطلب کے لئے بطور مثال عرض ہے کہ ایک آدمی یا کسی مملکت کی عوام غفلت و بے باکی سے بادشاہ ِ وقت کی نافرمانی کریں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بادشاہ کے انتقام اور حکمرانی سے منکر ہو گئے ۔ اسے واجب الاطاعت نہیں سمجھتے اور عَلَم ِبغاوت بلند کر دیا ہے ۔ از روئے اصول اس طرح کہ مخالفت نا قابل ِ معافی بہت بڑا گناہ ہو گا ۔ چہ جائیکہ سلطان ِحقیقی مو لائے واقعی ، دو جہاں کے مالک کے ساتھ حقیر اور ضعیف انسان مخالفت کی جرأت کرے ۔اس کی لا پرواہی اور بے خوفی کی حالت ہی گناہ ِکبیرہ ہے اور معافی کے قابل نہیں مگر یہ کہ وہ اپنی حالت سے پشیمان ہو کر توبہ و استغفار کرے ۔اس بیان سے واضح ہوا کہ گناہ بخشنے کے قابل ہوں یا نہ ہوں یہ خود گناہگار کی حالت امن اور خوف پر منحصر ہے یعنی جس قدر بندہ کے دل میں خوف ِخدا زیادہ ہے اسی قدر وہ مغفرت کے قابل ہے اور جتنا عذاب و انتقام ِ خدا سے بے باک ہے اتنا ہی مغفرت و رحمت الٰہی سے دور۔

خلاصہ یہ کہ مکر الٰہی سے مراد یہ ہے کہ گناہگار پر عذاب ِالٰہی اچانک ہی نازل ہو جاتا ہے ۔ چناچہ قرآن ِکریم میں ارشاد ہوتا ہے :

اَیَحْسَبُ الْاِنْسَانُ اَنْ یُتْرَکَ سُدیً

کیا انسان گمان کرتا ہے کہ وہ (بے لگام )آزاد چھوڑا ہوا ہے ؟

املاء

مکر الٰہی کی اقسام میں سے ایک “املاء” ہے۔

بنی نوع انسان کی پیدائش سے یہ سنّت چلی آرہی ہے کہ نا شکرے انسان کی طغیان و عصیان کے برابر گناہ گار کو ایفر کردار تک پہنچانے میں عجلت سے کام نہیں لیتا بلکہ مہلت دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سوائے معصومین کے کوئی بندہ بشر ایسا نہیں جس سے کوئی گناہ سر زد نہ ہو۔ اگر مجرم کو فوری سزا دے دی اور انتقام لے لیا تو روئے زمین پر کوئی جاندار باقی نہیں رہے گا اور سب کے سب ہلاک ہو جائیں گے۔ جیسا کہ قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

وَلَوْ یُوٴٰاخِذُ اللّٰہُ النَّاسَ بِظُلْمِھِمْ مَاتَرَکَ عَلَیْھَا مِنْ دَابَّةٍ وَّ لٰکِنْ یُوْخِّرُھُم اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمّیً (سورہ۱۶۔آیت۶۱)

“اور اگر خدا اپنے بندوں کی نافرمانیوں کی گرفت کرتا تو روئے زمین پر کسی ایک جاندار کو باقی نہ چھوڑتا مگر وہ تو ایک مقرّرہ وقت تک ان سب کو مہلت دیتا ہے۔”

دوسرے املاء (مہلت) سے مراد یہ ہے کہ خدائے مہربان اپنے بندوں کو مہلت دیتا ہے۔ یہاں تک کہ وہ گذشتہ گناہوں سے پشیمان ہو کر توبہ کریں اور آئندہ گناہوں سے باز رہنے کا پکّا ارادہ کریں۔ اس قسم کی مہلت صاحبان ایمان اور اہل تقویٰ کو فائدہ پہنچانے کے پیش نظر ہے۔ اس کے برعکس اہل کفر و طغیان کے لیے مہلت کی مدت میں گناہ پر گناہ کا اضافہ ہوتا ہے یہاں تک کہ ان کی خواہشات نفسانی کا پیمانہ لبریز ہوتا ہے تو اچانک مکر الٰہی یعنی غضب قہار نازل ہوتا ہے۔ چنانچہ کلام پاک ان کو تنبیہہ کرتا ہے:

وَاُمْلیْ لَھُمْ اِنَّ کَیْدِیْ متین (سورہ ۷۔آیت۱۸۳)

“اور میں ان کو (دنیا میں) مہلت دیتا ہوں ۔ بے شک میرا کید (نا گہانی عقوبت) سخت مضبوط ہے۔”

بعبارت دیگر کافروفاجر کی طویل عمر کا کامیاب زندگی اور فراہمی ٴ اسباب ِ تعیش اگر چہ بظاہر اس کے لیے خوشی کا باعث ہیں ۔وہ اپنے آپ کو بزرگ و بر تر تصوّر کرتا ہے لیکن در حقیقت اس قسم کی ڈھیل قہر و غضب اور انتقام الٰہی کی ایک قسم ہے جسے مکر سے تعبیر کی گیا ہے۔

بد کردار کو مہلت دینا (غلط ہے)

قرآن مجید اس کی تائید میں فرماتا ہے:

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِنَّمَا نُمْلِیْ لَھُمْ خََیْرٌ لِاَنْفُسِھِمْ

“جو لوگ کافر ہیں وہ ہر گز یہ خیال نہ کریں کہ ہم نے جو ان کو مہلت و فارغ البالی دے رکھی ہے وہ ان کے حق میں بہتر ہے (حالانکہ) ہم نے مہلت اور فارغ البالی (دنیا کی زندگی میں) صرف اس وجہ سے دے رکھی ہے تاکہ وہ خوب گناہ کر لیں اور آخر تو ان کے لیے رسوا کرنے والا عذاب ہے۔”(سورہ۳۔آیت۱۷۸)

حضرت امام رضا (علیہ السلام) نے ارشاد فرمایا:

وَاللّٰہِ مَاعَذَّبَھُمُ اللّٰہُ بِشَیءٍ اَشَدُّ مِنَ الامِلآءِ (سفینة البحار ج۲۔ص۵۵۱)

“قسم بخدا ان کو کسی چیز سے عذاب نہیں کیا گیا جو کہ املآء کی سزا سے زیادہ سخت ہو(املاء اُسی مہلت کو کہا جاتا ہے جو اسی دنیا میں دی جاتی ہے)۔”

حضرت امام سجاد (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

وَعمِرْنی مَاکَانَ عُمْرِیْ بَذْلَةً فِیْ طَمَاعَتِکَ وَاذاکَانَ عُمرِیْ مَرْتَعاً لِلشَّیْطٰنِ فَاقْبِضْنِیْ اِلَیْکَ (دعای مکارم الاخلاق)

“(خداوندا)مجھے (ایسی)عمر عطا فرما کہ میری طویل عمر سراسر تیری بندگی اور اطاعت میں صرف ہو جائے اور جب میری عمر شیطان کی چراگاہ بن جائے تو میری روح قبض کر لے اور اپنی طرف لے جا (قبل اس کے کہ تیرا قہر و غضب مجھ پر نازل ہو جائے)۔”

استد را ج

استدراج بھی مکر الٰہی کی ایک قسم ہے ۔ یعنی بعض لوگ معصیت اور گستاخی کی وجہ سے قہر الٰہی کے مستحق ہو گئے ہیں ۔ جب بھی ان کو موقع ملتا ہے ایک نئے گناہ کے مرتکب ہوتے رہنے ہیں۔ خدا بھی ان پر گناہ کے بعد ایک تازہ نعمت عطا کرتا ہے۔ پس وہ شرمندگی محسوس کرنے اپنے گناہوں پر پشیمان ہو کر توبہ کرنے اور شکر خدا ادا کرنے کی بجائے سر ے سے گناہ ہی کو فراموش کر دیتے ہیں۔ بلکہ مزید نافرمانی پر نافرمانی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے باغی انسانوں کے بارے میں اللہ کا فرمان ہے:

وَالَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِٰایٰاتِنَا سَتَنسْتَْدرِجُھُمْ مِّنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ

“اور جن لوگوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا ، ہم انہیں بہت جلد آہستہ آہستہ (جہنم) میں لے جائیں گے۔ انہیں خبر بھی نہ ہو گی۔”

سفینة البحارج ۱ ص ۴۴۲ میں درج ہے کہ

اِذَا اَرَادَاللّٰہُ بِعَبْدِ خَیْراً فَاَذْنَبَ ذَنْبًا اَتْبَعَہ بِنِقْمَةٍ وَّیْذَکِرُہ الْاِسْتِغْفَارَ وَاذَا اَرَادَاللّٰہُ بِعَبْدٍ شَرّاً فَاَذْنَبَ ذَنْباً اِتَّبَعَہ بِنِعْمَةٍ لِینْسِیَہ الْاِسْتِغْفَارَ وَھُوَ قَوْلُہ تَعَالٰی سَنَسْتَدْرجُھُمْ مِنْ حَیْثُ لَا یَعْلَمُوْنَ ۔

“یعنی جب اللہ تعالیٰ کسی بندے کو خیر فراہم کرانا چاہتا ہے پس وہ گناہ کرتا ہے ۔ خدا اُسے مصیبت میں مبتلا کرتا ہے تا کہ وہ متنبّہ ہو جائے کہ گرفتاری کا سبب میرا گناہ ہے۔ اس لیے استغفار اور توبہ کرتا ہے اور جب کسی بندے کو اس کے بُرے اعمال کی بنا پر شر سے دو چار کرنا چاہتا ہے پس وہ بھی گناہ کا مرتکب ہوتا ہے۔ اس کے بعد اُسے تازہ نعمت عطا ہو تی ہے تا کہ وہ نعمت سے سرشار ہو کر توبہ استغفار بھول جائے۔ یہی ہے قول خدا سے مراد کہ (ہم انہیں بہت جلد اس طرح آہستہ آہستہ جہنم میں لے جائیں گے کہ انہیں خبر بھی نہ ہو گی)۔”

استد راج کا معنٰی ترکِ استغفار ہے

سُئِلَ اَبُوْعَبْدِ اللّٰہ (ع)عَنْ الْاِسْتِدَرَاج فَقَال: ھُوَ الْعَبْدُ یَذنِبُ الذَّنْبَ فَیُمْلِیْ لَہ وَیُجَدِّدُ لَہُ عِنْدَھَا النِّعَمُ فَیُلْھِیْہِ عن، الْاِسْتِغْفَارِ فَھُوَ مُسْتَدْرِجٌ مِنْ حِیْثُ لَایَعْلَمْ (وسائل الشیعة۔ کتاب جہاد۔ باب ۸۸۔ ص۱۶۲)

“حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے جب استدراج کا مفہوم دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: کوئی بندہ گناہ

(۱۔ استدراج کے لغوی معنی یہ ہیں کہ کوئی شخص قدم بہ قدم بلندی کی طرف جائے یا نیچے اتر آئے اور علمائے اخلاق کے نزدیک اس کے معنی ایک نعمت کے بعد دوسری نعمت سے مالا مال ہونا ہے۔)

کرنے لگتا ہے تو اسے مہلت دیتا ہے اور تازہ نعمت فراہم کرتا ہے ۔ پس وہ توبہ و استغفار سے باز رکھتا ہے ۔وہ آہستہ آہستہ ہلاکت کی طرف کھینچتا ہے جس سے وہ غافل اور بے خبر ہو تا ہے۔ اس حالت کو استدراج اور مکر الٰہی کہتے ہیں۔”

امیر المومنین (علیہ السلام) سے مروی ہے کہ آپ (علیہ السلام) نے فرمایا:

اِنَّہُ مَنْ وَّسِعَ لَہُ فِیْ ذَاتِ یَدِہِ فَلَمْ یَرَذٰلِکَ اِدْرَاجاً فقد اَمِنَ مَخُوْفاً

(بحار ج۱۵ ص۱۶۲)

“بے شک کسی کی ملکیت و جائیداد کو اللہ وسعت دیتا ہے تو وہ اور کچھ گمان نہ کرے۔ یہ تو سعہ اور مہلت درحقیقت استدراج (۱)ہے۔ وہ (مکر الٰہی) سے بے خوف نہ رہے(چونکہ سکون کے بعد طوفان آتا ہے)۔”

استد راج کا معنٰی ترکِ استغفار ہے

خدائے بزرگ و برتر کی دو صفات ہیں۔ جمالی اور جلالی

صفات ِ جمالیہ ، جیسے رحمان ، رحیم، کریم، حلیم، شکور اور غفور وغیرہ

صفات ِ جلالیہ، جیسے جبار، قہار، منتقم، مذل، متکبر اور شدید العقاب وغیرہ

چنانچہ آیہٴ جمالیہ سے پہلے خوش خبری دیتا ہے۔ پھر صفت جلالیہ سے ڈراتا ہے۔

نَبِیْءْ عِبَادِی اِنِّی اَنَا الْغَفُوْرُا الرَّحِیْمِ Oوَاَنَّ عَذَابِیْ ھُوَ الْعَذَابُ الْاَلیْمُ

(سورہ حجر آیت۴۹)

“اے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) میرے بندوں کو آگاہ کر دو کہ بے شک میں بڑا بخشنے والا مہربان ہوں اور میرا عذاب بھی بڑا دردناک عذاب ہے۔”

ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے:

غافِرُ الذَّنْبِ وَقَابِلُ التَّوْبِ شَدِیْدُ العِقَابِ ذِیْ الطَّوْلِ

“گناہوں کا بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا سخت عذاب دینے والا صاحب فضل و کرم ہے۔”

(سورہ ۴۰۔آیت۲)

خلاصہ ، وہ ارحم الراحمین ہے: فِیْ مَوْضِعِ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ عفو و رحمت کے مقام میں اور وہ اَشَدُّ الْمُعَاقِبِیْنَ ہے فی مَوْضِعِ النَّکَالِ وَ النَّقِمَةِ سختی اور بدلہ لینے کے مقام میں۔

خوف و امید معرفت کی نشانی ہے

جس نے اپنے رب کو ان صفات کمالیہ سے پہچانا تو یہ لازمی امر ہے کہ اس کی امید کو تقویت ملتی ہے۔ اگر اس نے توبہ کی تو گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ عبادت کرے تو قبول کرتا ہے اور بہترین جزا عنایت کرتا ہے۔ اس کی دعا ہدف اجابت سے مقرون فرماتا ہے۔ اس لیے کہ وہ غفور و رحیم اور مجیب الدعوات ہے۔

جس طرح جمالی صفات کی معرفت سے بندے کی امید قوی ہوتی ہے اُسی طرح صفات جلالی و قہری کو پہچاننے کے نتیجے میں بندے کے دل میں خوف شدت اختیار کر لیتے ہے۔ وہ ڈرتا ہے کہ گناہ اختیار کرے تو عذابِ الٰہی سے تصادم یا جلد انتقام سے دو چار ہو گا۔ اس خوف کی برکت سے بندے کو توبہ و استغفار کی توفیق ہوتی ہے۔

گناہ کے ارتکاب سے ڈرنا چاہیئے

جب بھی گناہ کا ارادہ کرے تو اسے عملی جامہ پہنانے سے ڈرنا چاہیئے۔ شاید وہ ان افراد میں شامل ہو جائے کہ اس گناہ کے مرتکب ہونے کے بعد کبھی بھی رحمت و مغفرت کے قابل نہ رہے۔ جیسا کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

قَالَ اَبُوْ عَبْدِ اللّٰہِ (ع)مَنْ ھَمَّ بِسَیّئَةٍ فَلَایَعْمَلْھَا فَاِنَّہُ رُبَّمَا عَمَلَ الْعَبْدُا لسَّیِئَةَ فَبَرَّاَہُ الرَّبُّ فَیَقُولُ عِزَّتِیْ وَجَلَالِیْ لَا اَغْفِرُلَکَ بَعْدَ ذٰلِکَ اَبَداً (اصول کافی)

“جس نے گناہ کا قصد کر لیا (تو خواہش نفس کو روک لے) اسے چاہیئے کہ عملاً انجام نہ دے۔ بے شک کبھی بندہ گناہ کرتا ہے تو پروردگار اس سے نفرت کرتا ہے اور فرماتا ہے : میری عزت و بزرگواری کی قسم اس کے بعد تجھے نہیں بخشوں گا۔”

اس لیے ممکن ہے ہر وہ گناہ جو انسان سے سر زد ہوتاہے وہ نا قابل معافی ہو۔ اس لیے ہر چھوٹے یا بڑے گناہ کے اقدام سے ڈرنا چاہیئے۔ کیونکہ بعض روایتوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ گناہ جو مغفرت کے قابل نہیں وہ غالباً ایسے ہوتے ہیں کہ جرأت کرنے والے کی نظر میں چھوٹے اور نا چیز ہوتے ہیں اور وہ لاپرواہی سے فخریہ انداز میں کہتا ہے : میں نے فلاں گناہ کیا یا کہتا ہے کہ دیکھو میں نے اتنا بڑا گناہ انجام نہیں دیا جتنا کہ فلاں آدمی بجا لایا ہے۔ چنانچہ جناب صادق آل محمد (علیہ السلام) یوں تنبیہ فرماتے ہیں:

اِتَّقُوا الْمُحقَّرَاتَ مِنَ الذُّنوْبِ فَاِنَّھَا لَا تُغْفَر قُلْتُ وَمَا الْمُحَقرَّاتُ؟

قَالَ؛ الرَّجُلُ یَذْنِبُ الذَّنْبَ فَیَقُوْلُ طُوْبٰی لِیْ اِنَ لَّمْ یَکُنْ لِیْ غَیْرَ ذٰلِکَ (وسائل الشیعہ کتاب جہاد باب۴۲)

“تمہیں چھوٹے گناہوں سے ڈرنا چاہیئے۔ پس یقینا وہ بخشے نہیں جاتے (راوی کہتا ہے) میں نے عرض کیا: محقرات (حقیر چیزوں) سے آپ کی کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا: بندہ گناہوں میں ملّوث ہوتا ہے اور اسے چھوٹا تصور کرتا ہے اور کہتا ہے کہ میں لائق تحسین ہوں کہ میں نے اتنا بڑا گناہ نہیں کیا جتنا کہ فلاں آدمی نے انجا م دیا۔”

کردار و گفتار ہمیشہ خوف و رجآء کے درمیان ہونا چاہیئے

اگر بندہٴ گناہ گار کو توبہ نصیب ہو تو پھر بھی خائف رہنا چاہیئے کیونکہ ممکن ہے اس کی توبہ جامع الشرائط نہ رہی ہو۔ اس وجہ سے قبول درگاہ الٰہی نہ ہوئی ہو اور شاید توبہ کے دوران گناہ کی طرف نہ پلٹنے کا جو عہد کیا گیا تھا اس پر وفا نہ کرسکے اور توبہ شکنی ہو جائے۔

اسی لیے آخر عمر تک خوف اور امید کے درمیان زندگی گزارنا چاہیئے۔ مثلاً کوئی عبادت و اطاعت بجا لائے تو فضل و کرم الٰہی سے امید رکھنا چاہیئے کہ قبول ہو گی۔ اس کے ساتھ ہی ڈرتے بھی رہنا چاہیئے کہ کہیں عدل الٰہی جنبش میں نہ آجائے۔ اگر ایسا نہ کیا ہو تو مسترد کر دیا جائے گا۔ اور ہو سکتا ہے کہ محاسبہ کے دوران حقیقی بندگی اس سے طلب کرے۔

 

تبصرے
Loading...