حضرت زینب نمونہ صبر واستقامت

*حسین کی ذمہ داری کا اختتام اور رسالت ذینبی کا آغاز*

*حضرت زینب ؑ نمونہ صبر واستقامت*

*علی احمد سعیدی*

مدینہ میں مسلمانوں کی قائم کردہ حکومت کو ابھی چھے سال گزر رہے تھے کہ علی ؑکے گھر زہرا ؑکے آغوش میں دنیا کو صبر و استقامت کا درس دینے والی ہستی نے جنم لیا۔ جس طرح خداوند عالم نے اپنے نبی کو فاطمہ ؑکی شکل میں خیر کثیر کا تحفہ عطا کیا اسی طرح اسی ذات پروردگار نے اپنے نبی کے وصی کو زینب جیسی بیٹی عطا کر کے دنیا و آخرت میں با زینت بنا دیا.

حضرت زینب ؑنے بچپنے سے ہی مصائب و مشکلات میں صبرواستقامت کی مشق کرنا شروع کی ۔ کیونکہ ابھی آپ تقریباً چار سال کی تھی تو نانا رسول اللہ ؐ کا محبتوں اور شفقتوں بھرا سایا سر سے اٹھا تو اس کے ساتھ ہی وقت کے مسلمانوں کی طرف سے آپ کے بابا اور والدہ گرامی کے ساتھ کیا جانے والا سلوک آپ کی آنکھوں کے سامنےحاجت تھا جس کے ختم ہونے سے پہلے آپ کے دل پر مادر گرامی کی جدائی کا داغ بیٹھ گیا۔

پھر ایک زمانہ آیا کہ اپنے بابا کا خون سے رنگین چہرے کو دیکھنا زینب کی قسمت میں تھااس کے کچھ عرصے بعد بڑے بھائی امام حسن مجتبیٰ ؑکے جگر کے ٹکڑے طشت میں دیکھنا زینب ؑ کے امتحان کا ایک حصہ بنا ۔
یہاں تک ہم نے حضرت زینب ؑ کے اوپر آنے والی بڑی بڑی مصیبتوں اور مشکلات میں سے کچھ کو بطور نمونہ ذکر کیا ہے جن پر آپ نے کمال صبر و استقامت دکھائی ہیں۔
لیکن اگر حقیقت میں دیکھا جائے تو زینب ؑ کی صبر و استقامت کا امتحان سنہ ۶۱ ہجری میں کربلا سے شروع ہوتا ہے۔

کربلا اور کربلا کے بعد شام اور کوفہ کے درباروں اور بازاروں میں زینب ؑ پر آنے والی مصیبتوں کے بارے میں عموما ہر شخص مجالس وغیرہ کے ذریعے آگاہ ہے.لہٰذا ہم یہاں ذکر نہیں کرتے، ہم یہاں حضرت زینب ؑ کے فقط دو جملے ذکر کرتے ہیں کہ جو آپ نے اپنے اوپر آنے والی مصیبتوں کا تجزیہ اور تبصرہ کرتی ہوئی بیان فرمائے ہیں۔ایک جملہ وہ ہے جو آپ نے اسیری سے پہلے گودال قتل گاہ میں امام حسین ؑ کے جسم اطہر کو سینے سے لگا کر آسمان کی طرف رخ کر کے فرمایا :
*’’اللہم تقبّل منّاھذا القربان ‘*
‘ خدایا ! ہم سے اس قربانی کو قبول فرما!
آپ ذرا اس جملہ پر غور کریں اور حضرت زینب ؑکے اس وقت کی حالت کو بھی یاد کریں کہ ایک خاتون جس پر اتنی ساری مصیبتیں آئی ہوں اور خود دشمن کے ہاتھوں اسیر ہوکر جارہی ہو اور اس بھائی کے لاش پرکھڑی ہو جس سے محبت کا اندازہ کرنا کسی کے بس کی بات نہیں ہے پھر ایسے میں آپ کی زبان سے اس طرح کا پُر معرفت جملہ نکلنا اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ آپ علم و معرفت اور صبر استقامت کے کس معراج پر فائز ہیں۔
اور دوسرا جملہ ، کہ جس نے آپ کے دشمنوں کو ذلت و رسوائی کے ساتھ ورطہ حیرت میں ڈال دیا، آپ کا وہ جملہ ہے جو یزید لعین کی گستاخی کے جواب میں فرمایا ۔جب یزید نے آپ سے پوچھا : کہ کربلا میں تم نے کیا دیکھا کہ خدا نے تم لوگوں کے ساتھ کیا کیا ؟
تو آپ نے جواب میں فرمایا:
*ما رأیت الّا جمیلاً!‘‘*
میں نے خدا سے نیکی اور خوبصورتی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھا ہے۔
یعنی زینب ؑکربلا میں پڑنے والی اتنی بڑی مصیبتوں ، کہ جن میں سے ایک چھوٹی سی بھی مصیبت ہم میں سے کسی پر آجائے تو نہیں معلوم ہمارا کیا حال ہوگا؟،کے مقابلے میں یزید کو ایک ہی جملے کے ذریعے اس کے کفر آمیز جملے کا جواب دے کر اس کو ہمیشہ کے لئے ذلیل کر دیتی ہے اورصبر و استقامت کی مثال قائم کرتی ہوئی دشمن کے بھرے دربار میں کار امامت انجام دے کر دنیا والوں کے لئے نمونہ اور اسوہ بن جاتی ہے ۔
اسی لئے مفکر بزرگ علامہ محمد اقبال ؒ فرماتے ہیں :
حدیث عشق دو باب است کربلا و دمشق
یکی حسین ؑ رقم کرد و دیگری زینب
’’حدیث عشق کے دو باب ہیں ایک کربلا اور دوسرا دمشق، ایک حسین ؑ نے لکھا ہے اور دوسرا زینب نے‘‘
یعنی امام حسین ؑ اور حضرت زینب دونوں کے کاموں میں ایک نکتہ جو اقبال کو مشترک نظر آیا ہے وہ خدا سے عشق اور محبت ہے اور اسی خدا کی محبت اور معرفت ہی کا نتیجہ تھا جس کی وجہ سے حسین ؑ اور زینب ؑ دونوں کے لئے اتنی ساری مصیبتیں بہت آسان لگیں۔

تبصرے
Loading...