تاریخ کے دو ماخذوں کا موازنہ:ہجری اور عیسوی

*تاریخ کے دو ماخذوں کا موازنہ:ہجری اور عیسوی*

*استاد شہید مطہری*

ہمارے پاس تاریخ کا ایک ماخذ ہے اور وہ ہجری تاریخ کا ماخذ ہے۔ ہر قوم کا ایک تاریخی ماخذ ہوتا ہے۔ بحیثیت مسلمان ہماری تاریخ کا ماخذ ہجری ہے جو کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے ہے۔

*استعمار نے بہت کوشش کی کہ ہجری تاریخ کا ماخذ ہم سے چھین لیا جائے اور اس کی جگہ کسی دوسری تاریخ کا آغاز کیا جائے جو کہ عیسوی تاریخ کے ماخذ کی طرح ہے۔*

آئیے اس بات کو چھوڑتے ہیں کہ گریگورین تاریخ کی ابتدا بنیادی طور پر ایک بے اصل اور فرضی چیز ہے، اور یہ جھوٹ کا حصہ ہے۔ مثال کے طور پر، یہ کہنا کہ آج حضرت عیسیؑ کی پیدائش کو1972 (یہ 1972 کی تحریر ہے، آج 2021 ہے) سال ہوچکا ہے، بنیادی طور پر ایک جھوٹ ہے، اور یہ ان جھوٹی باتوں میں سے ایک ہےجسے انہوں نے بعد میں گھڑ لیا ہے۔

علماء کا خیال ہے کہ یسوع مسیح یا تو اس تاریخ سے دو سو یا تین سو سال پہلے کا ہے یا دو سو تین سو سال بعد کا۔ اس لئے یہ ایک من گھڑت بات ہے۔

لیکن بہرحال، فرنگیوں نے اسے قبول کر لیا ہے۔ پھر بھی یہ زیادہ سے زیادہ ایک نبی کی پیدائش کی طرف اشارہ کرتا ہے.

🔻 لیکن ہجری تاریخ ایک ایسی تاریخ ہے جو سو فیصد درست ہے۔ ایک ہزار سال سے زیادہ پرانی تاریخوں میں آپ کو کوئی بھی تاریخ نہیں ملتی جو ہجری کی تاریخ جتنی درست ہو، خواہ اس کا دن مشخص بھی ہو۔

٭ مسلمانوں نے خلیفہ دوم کے زمانے میں سوچا اور اپنے لیے ایک آزاد تاریخ شروع کرنے کے لیے ایک کونسل تشکیل دی، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اسلام دوسروں کی نقل کرنےاوربھیڑ چال سے نفرت کرتا ہے۔ اس بارے میں ہر شخص کا اپنا نظریہ تھا۔

بعض نے کہا کہ ہمیں حضور کی وفات کو تاریخ کا ماخذ بنانا چاہیے۔ دوسروں نے رد کرتے ہوئے کہا کہ حضور کی وفات ایک المناک واقعہ ہے، ہماری تاریخ کا اصل المناک واقعہ کیوں ہو؟

’’بعض نے کہا کہ ہمیں تاریخ کی اصل کورسول اکرم کی بعثت اور نزول وحی سمجھنا چاہیے۔ اس کو بھی رد کر دیا گیا کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ یہ صحیح ہے کہ بعثت اسلام کی ابتداء ہے، لیکن اس وقت ہم سب کافر تھے، اور یہ ہمارے لیے کوئی خوش کن یاد نہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ولادت کے بارے میں کیا خیال ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ سلم کی ولادت کا زمانہ ابھی اسلامی نہیں تھا۔

اس دوران ایک پیشکش آئی جسے قبول کر لیا گیا اور وہ پیشکش حضرت علی علیہ السلام نے فرمائی کہ ہماری تاریخ کی اصل ہجرت ہونی چاہیے۔

بظاہر لگتا ہے کہ ہجرت سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا۔ یہ مسلمانوں کا مکہ سے مدینہ کا سفرتھا جس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

لیکن انہوں نے کہا کہ یہ اہم ہے کیونکہ ہجرت کے دوران ہی ہم آزاد ہوئے تھے۔ جب ہم مکہ میں تھے تو ہم کفار قریش کے زیر اثر تھے، تقیہ میں اور چھپ کر رہتے تھے۔

ہم ایک خود مختار اکائی نہیں تھے، ہماری اپنی حکومت نہیں تھی، ہمیں آزادی اور استقلال حاصل نہیں تھا ۔

’’لیکن ہجرت میں ہماری تاریخ پلٹ گئی، ہم مدینہ آئے، ہم آزاد ہوئے، ہم نے ایک آزاد حکومت بنائی، ہمیں آزادی ملی، ہم نے کھل کراپنی عبادت کرنی شروع کی ۔

استاریخ کے دو ماخذوں کا موازنہ:

ہجری اور عیسوی ليے ہجرت، جو ہماری آزادی کا آغاز ہے، ہماری تاريخ کا آغاز ہونا چاہیے، کيونکہ جب ہم آزاد تاريخ کا انتخاب کرنا چاہتے ہيں، تو ہماری تاريخ کا ماخذ ہماری آزادی کا سرچشمہ ہونا چاہیے۔

ہمیں اس تاریخ کو محفوظ کرنا چاہیے۔

🔻تاہم لوگ کبھی اخبارات میں یہ لکھتے ہیں، یہ ایک پریشانی ہے کہ ہم جمعہ کو تعطیل کرتے ہیں۔ تمام دنیا کے لوگ اتوار کو تعطیل کرتے ہیں، اس لئے ہمیں بھی اتوار کو تعطیل کرنی چاہئے…

یا پھر وہ لکھتے ہیں کہ ہماری تاریخ کی ابتداء اچھی نہیں ہے، آئیے ہم بھی عیسوی تاریخ شروع کرتے ہیں،
یہی بات بدقسمتی سے انہوں نے بہت سے اسلامی ممالک میں کرلی ہے۔

استعمار کا یہ اثر اب بھی عرب ممالک میں موجود ہے۔

اور یہ بحیثیت ایرانی ہمارے اعزازات میں سے ہے کہ ہم نے اس مسئلے پر ہتھیار نہیں ڈالے، الحمد للہ ہم آئندہ بھی کبھی ایسا نہیں کریں گے، اور وہ یہ ہے کہ ہماری تاریخ ہجری تاریخ ہے، ہم اپنی ہجری تاریخ کو کبھی نہیں چھوڑیں گے۔

▪️مجموعه آثار استاد شهيد مطهرى (لزوم تعظيم شعائر اسلامى(پانزده گفتار))، ج‏25، ص: 391-390- با تلخیص و ترمیم جزئی-

تبصرے
Loading...