ایران کے چابہار معاہدے سے ہندوستان کا اخراج،تجزیہ نگار

تجزیہ نگار: مولانا سید ضیغم عباس زیدی کلیان

حوزہ نیوز ایجنسی | سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی کی حکومت میں چابھار بندرگاہ کے ترقیاتی منصوبے اور ریلوے لائن بچھانے کا معاہدہ ایران کی حکومت سے کیا گیا تھا۔ 
اس معاہدے کے تحت ہندوستان کو اس پورے ترقیاتی منصوبے کے لئے فنڈ مہیا کرانے کے ساتھ ایران کے شانہ بہ شانہ اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔ 

لیکن ایران کی مسلسل کوششوں،جدوجہد اور دیرینہ رفاقت کے لحاظ کے باوجود ہندوستان کی بےاعتنائی اور سردمہری کے سبب بڑی خاموشی سے ایران نے اپنے چابھار منصوبے سے ہندوستان کو باہر نکال دیا. چابھارسے ہندوستان کا اخراج موجودہ حالات کےتناظر میں ایران کاعاقلانہ اور دانشمندانہ فیصلہ ہے۔ آخر کب تک ایران پاس و لحاظ رکھتا؟!۔دوستی دوطرفہ لحاظ، گرمجوشی اور اعتبار پر قائم اور استوار ہوتی ہے. جبکہ ماضی قریب کی تاریخ گواہ ہے کہ اقوام متحدہ سے لیکر علاقائی سطح تک جب بھی ایران کو ہندوستان کی ضرورت ہوئی ہندوستان نے ہمیشہ منفی کردار ہی پیش کیا اور ایران کو مایوسی کیا ہے پھر ہندوستان میں حکومت چاہے سیکولر کانگریس کی رہی ہو یا فرقہ پرست بھاجپا کی۔

دراصل ہندوستان کی خارجہ پالیسی جب سے امریکہ اور اسرائیل نواز ہوئی ہے اس وقت سے نہ صرف یہ کہ ایران بلکہ روس جیسے پرانے دوست سے بھی ہندوستان کے تعلقات میں سرد مہری آئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ روس کو منانے کیلئے راجناتھ سنگھ کو ماسکو کا سفر کرنا پڑا۔ ایران، ہندوستان کو ہمیشہ سستے داموں میں تیل فراہم کرتا رہا مگر ہندوستان نے امریکی دباؤ میں ایران سے تیل کی درآمد پر پابندی عائد کر دی جسکے نتیجے میں تیل کی قیمتیں آسمان چھونے لگیں اور تیل کی مہنگائی کی سیدھا اثر ہمارے ملک کی معیشت پرپڑ رہا ہے. ملک کا معاشی ڈھانچہ چرمرا رہا ہے۔ اگر ہندوستان،ایران سے تیل کی درآمد جاری رکھتا تو ملک کی معیشت قدرے بہتر ہوتی اور عوام کو مہنگائی سے کافی حد تک راحت ملتی۔

بہر حال ایران سے تعلقات میں سردمہری اور تیل کی درآمدات پر پابندی کا نقصان ہندوستان کو ہی ہے کیوں کہ ایران نے دانشمندی کا ثبوت دیتے ہوئے چابہار سے ہندوستان کو خارج کیا اور چین کو شامل کرلیا اور ساتھ چین کے ساتھ پچیس سالہ معاہدہ بھی کرلیا جسکے تحت چین نہ صرف چابھار کے ترقیاتی منصوبوں  بلکہ ریلوے لائن میں سرمایہ کاری کرے گا اور ایران کے تیل کا سب سے بڑا خریدار بھی بن گیا جس کا فائدہ دونوں ممالک کو ہوگا. اور خاص طور پر چین کی ہندوستان اور دوسرے ایشیائی ممالک پر بالادستی میں زبردست اضافہ ہوگا کیوں کہ پاکستان کی گوادر بندرگاہ کے ساتھ اب ایران کی چابھار بندرگاہ کے منصوبوں میں چین کا اختیار ہوگا جس سے مشرقی ایشیا سے لیکر مشرق وسطیٰ تک چین کی بالادستی ہوگی اور ہندوستان اپنی غلط پالیسیوں اور امریکہ اور اسرائیل نوازی کی وجہ سے اپنے پڑوسی دوستوں کے ساتھ ایشیائی ممالک سے بھی دور ہوتا چلا جائے گا بلکہ کسی حد تک دور ہوگیا ہے۔ 

ہندوستان نے اگر اپنی خارجہ پالیسیوں پر نظر ثانی نہیں کی تو مستقبل میں ملک کو سخت دشوار حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ امریکہ اور اسرائیل کبھی کسی کے اچھے دوست نہیں بن سکتے اور نہ کسی کا بھلا کرسکتے ہیں۔

نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

تبصرے
Loading...