اصلاح معاشرہ میں  مساجد و مدارس کاکردار اورہماری ذمہ داری

*🎇اصلاح معاشرہ میں  مساجد و مدارس کاکردار اورہماری ذمہ داری ۔۔۔🎇*

*شیخ مصطفی علی روحانی*

اصلاح معاشرہ  کی تعریف
لفظِ ”اِصْلاح“  صلح کا جمع اَصْلَح کا مصدر ہے۔ اہل لغت نے اصلاح کے مختلف معانی بیان کیا ہے کہ
1.زمین کو زراعت کے قابل بنانا۔
2.پرانے گھروں کی ریپیرینگ (مرمت) کرنا۔
3. اِزالَةُ الفَسادِ وَاِعادَةُ الاُمُورِ اِلى وَجْهِ الصَّوابِ :۔ کمی، بیشی کا ازالہ کرنا اور کسی بھی امور کو اپنی اصلی، درست حالت میں لانا۔ ہم غور کریں تو معنائے دوئم اور سؤم میں چنداں فرق نہیں ہے لیکن معنائے اوّل اور باقی دونوں معنوں میں عموم و خصوص من مطلق کی نسبت پائی جاتی ہے۔ کیونکہ معنائے اوّل ”کسی اچھی چیز کے خراب ہونے کے بعد مرمت کرنے اور کسی خراب چیز کو ٹھیک کرنے“ دونوں موارد کو شامل کرتاہے جبکہ باقی دونوں تعریفوں میں صرف کسی اچھی چیز کے خراب ہونے کے بعد والے مورد کو شامل کرتاہے۔

ان  معانی کی روشنی میں ہم اصلاح معاشرے کی تعریف یوں کرسکتے ہیں:
معاشرے کو تمام تر اخلاقی برائیوں سے پاک کر کےمہذب اس۔طرح  باوقاربنانا جس میں عدل و انصاف اور مساوات عام ہو،امن آشتی، پیار و محبت اتحاد و اتفاق کو فروغ ملے یعنی معاشرہ انسانی اور اسلامی اقدار پر گامزن رہے۔

*اصلاح معاشرے کی اہمیت:*
اصلاح معاشرے کی اہمیت اور ضرورت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا ہے یہ تو مسلم فیہ امر ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے کائنات میں انسانوں کو خلق کرنے سے پہلے حضرت آدم ؑ کو خلیفہ  اور ہادی بنا کر بھیجاپھر انسانوں کی ہدایت اور اصلاح معاشرے کیلئے مسلسل ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء ؑ مبعوث فرمایا۔ سلسلہ انبیاء ؑ کے بعد سلسلہ امامت کو تا قیامت باقی رکھا اصلاح معاشرے کیلئے انبیاء ؑ کرام علیہم السلام نے خصوصاً اللّٰہ کے آخری نبی حضرت محمد صل اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے بہت سے قربانیاں دی ہیں۔ ائمہ اطہار ؑ نے اپنی تمام تر زندگی لوگوں کی تعلیم و تربیت میں گزاری امام حسین  علیہ السلام نے اصلاح معاشرے کی خاطر قیام کیا اور اپنے پیاروں کی قربانی دی۔
بلکہ آپ کا مدینہ سے خروج کرنا ہی اصلاح معاشرہ اور اسلام کی حفظ و بقاء کیلئے تھا جیساکہ آپ نے خود صریحۃً ارشاد فرمایا :*” إِنّى لَمْ أَخْرُجْ أَشِرًا وَلا بَطَرًا ، وَلا مُفْسِدًا وَلا ظالِمًا ، وَإِنَّما خَرَجْتُ لِطَلَبِ الإصْلاحِ في أُمَّةِ جَدّي ، أُريدُ أَنْ آمُرَ بِالْمَعْرُوفِ وَأَنْهى عَنِ الْمُنْكَرِ ، وَأَسيرَ بِسيرَةِ جَدّي وَأَبي عَلِيّ بْنِ أَبيطالِب”*
میرا قیام خود پسندی و گردن کشی اور ظلم و فساد پھیلانے کے لئے نہیں ہے بلکہ میرا قیام اپنے نانا کی امت کی اصلاح کے لئے ہے۔ میں امر بالمعروف و نہی عن المنکر انجام دینا چاہتا ہوں اور اپنے نانا اور والد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی سیرت کو اپنانا چاہتا ہوں۔

*اصلاح معاشرہ اور احیاء مساجد و مدارس میں باہمی رابطہ:*
اصلاح معاشرہ  کے مختلف طریقے ہیں ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ مبلغ در در جاکر تبلیغ کرے لوگوں کی اصلاح کرے جبکہ یہ طریقہ بہت مشکل ہے خصوصاً آج کے دور میں کیونکہ
*اَوّلاً* لوگ دنیاوی امور میں اتنے مصروف ہوچکے ہیں کہ ان کے پاس ٹائم ہی نہیں کہ کسی مبلغ کو سنیں ۔
*ثَانِیاً* بڑھتی ہوی آبادی کے مطابق ایک مبلغ کیلئے ہر دروازے پہ حاضر ہونا ناممکن ہے لہذا اصلاح معاشرے اور تبلیغ دین کیلئے کوئی دوسرا طریقہ انتخاب کرنا ہوگا وہ طریقہ ہے مساجد و مدارس کا احیاء کرنا۔

*اصلاح معاشرے میں احیاء مساجد و مدارس کا کردار:*
ہمیں معاشرے میں ایسے افراد کی ضرورت ہے جو اسلام کے اصولوں اور اسلامی مملکت کے تقاضوں کو سمجھیں اور وہ عملاً اسلام کی اخلاقی، سماجی اور معاشرتی اقدار کا حامل ہو۔ کسی بھی معاشرے کی ترقی کا انحصار مدرسے کی تعلیم پر ہوتا ہے کیونکہ مدرسہ خود ہی ایک چھوٹا سا معاشرہ ہے کہ جس میں بچوں کے فطری رجحانات اور طبعی میلانات کو ترقی دیتا ہے۔ معاشرے کو دینی ثقافتی روایات سے روشناس کراتا ہے اور معاشرے کے افراد کیلئے تربیت گاہ کا کرادار ادا کرتاہے۔ خلاصہ یہ کہ وہاں بچہ کی ہمہ گیر نشو و نما کی جاتی ہے۔ اسی طرح مسجد بھی افراد کی سیرت و کردار کی تعمیر کرتی ہے۔ پس مدرسہ و مسجد اسلامی معاشرے کے دو اہم اجزاء ہیں۔ لہذا مدارس ومساجد اور معاشرے میں گہرا ربط ہے کیونکہ مدرسے کا کام صرف پڑھنا اور خطیب کا کام صرف نماز جماعت قائم کرنا نہیں بلکہ افراد کی ذہنی، اخلاقی، روحانی اور جسمانی نشوونما بھی ہے۔ اسلامی معاشرے کی بقاء اور استحکام تعلیم و تربیت پر انحصار کرتاہے لھذا معاشرے میں نا خواندگی کو کم کرنے کیلئے مدارس ومساجد میں تعلیم بالغاں کا انتظام کیا جاسکتا ہے اور نہ صرف بنیادی تعلیمات اسلامی بلکہ بنیادی مہارتیں یعنی پڑھنا، لکھنا اور ابتدائی حساب کتاب وغیرہ بھی سیکھایا جاسکتا ہے۔
لہذا استاتذہ اور خطباء کو اپنے تدریس اور نماز جماعت قائم کرنے کے علاؤہ معاشرتی ذمہ داریوں اور فرائض اور دینی ذمہ داریوں اور فرائض و محرمات کا احساس بھی ہونا چاہئے تاکہ لوگ اچھے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کے حامل ہو کر ایک ذمہ دار شہری کی زندگی بسر کرسکیں۔

*اصلاح معاشرے میں احیاء مساجد و مدارس کی ضرورت و اہمیت:*
تعلیم و تربیت لازم و ملزوم ہے اسی لئے تعلیمات اسلامی میں جتنا حصول تعلیم پر تاکید کی گئی ہے اتنا تربیت پر زور دیا گیا ہے بلکہ تربیت کا مرحلہ تعلیم سے پہلے ہے جیسے ارشادِ ربانی ہے:*”ھوالّذی بعث فی الامیین رسولا منھم یتلو علیھم آیاتہ و یزکیھم و یعلمھم الکتاب“*
وہ ذات جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انہیں پاکیزہ کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔
پس تربیت کے بغیر تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ یہ معاشرے کے لئے ناسور ہے کیونکہ تربیت سے عاری علم انسان کو تربیت یافتہ چور، تربیت یافتہ ڈاکو، تربیت یافتہ لڑاکو، تربیت یافتہ مکار اور تربیت یافتہ فحاش بناتاہے۔
اس سلسلے میں مدارس نمایاں کردار ادا کرسکتے ہیں کیونکہ یہ مدرسہ ہی تھے جہاں سے قائد اعظم محمد علی جناح ؒ، علامہ اقبال ؒ اور امام خمینی ؒ اور شہید مطہریم شہری تیار کئے جاتے ہیں۔ بچے جب مدرسے میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس چھوٹے سے معاشرے کا ایک رکن بن جاتے ہیں اور مدرسے کی اخلاقی فضا اس پر براہ راست اثر انداز ہوتی ہے۔ اور مدرسے کے تمام چیزیں غیر شعوری طور پر بچے کے دل و دماغ پر اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ منتظمین کی ذمہ داری ہے کہ بچے کی تربیت کو اسلام کے اخلاقی نظام سے ہم آہنگ کریں تاکہ مدرسے کے اخلاقی ماحول کے ذریعے بچوں میں پسندیدہ اوصاف اور تعمیری طرزِ فکر پیدا ہوسکے یہ تب ممکن ہوگا جب گھر، سکول، محلے، معاشرہ اور زندگی کے ہر شعبہ اسلام کے بنیادی اصول کار فرما آئیں گے۔ جدید معاشرے میں اخلاقی اور معاشرتی سطح پر زبردست تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں ریڈیو، ٹیلی ویژن، اخبارات اور جرائد خصوصاً سوشل میڈیا طلبہ کے ذہنوں پر گہرے اثرات ڈال رہے ہیں اس لئے اساتذہ کو چاہئے کہ وقت کی نزاکت کے پیشِ نظر اسلام کے زرین اخلاقی ضوابط، سچائی، ایمانداری، فرض شناسی، ہمدردی، رحم دلی، عفو درگذر، صلہ رحمی اور عجز و انکساری سے ماحول میں ایک خوشگوار اخلاقی انقلاب بپا کر دیں کیونکہ طلبہ آج بھی استاد کو اپنا مرشد تسلیم کرتے ہیں، اس کے اعلیٰ اخلاق سے متاثر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو اس کے نمونہ پر ڈھالنا پسند کرتے ہیں۔ اسی طرح مساجد کے خطباء بھی اس حوالے اہم اقدامات کرسکتے ہیں کیونکہ وہی مساجد تھے جہاں سے سلمان ؑ ، ابوذر ؑ اور جابر ابن حیان ؒ و زرارہ  ؒ جیسی شخصیات نے تربیت حاصل کی۔
بشرطیکہ خطباء بھی پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے صادق و آمین، علی مرتضی علیہ السلام کی طرح عادل و متقی امام جعفر صادق کشّاف الحقائق علیہ السلام کی طرح عالمِ فاضل ہو لیکن جب ممبر کسی نااہل کے حوالے ہو معاشرہ تنَّزُل کی طرف آنے میں دیر نہیں لگتا۔ تعجب کی بات ہے کہ آج محراب و ممبر الگ کیا جارہاہے وہ شخص جو محراب کا لائق نہیں وہ ممبر کا لائق کیسے ہوسکتاہے؟ اہل خرد غور کریں تو سہی! محراب و منبر میں کس قدر گہرا ربط پایا جاتا ہے کہ معاشرتی اصلاح کی بنیادی تعلیمات میں محراب کی اہلیت کے جو شرائط ہیں وہی شرائط منبر کی اہلیت کی بھی ہیں۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ جس معاشرے میں منبر و محراب میں مشرق و مغرب کا فاصلہ کر دیا جائے وہاں منبر اصلاحی کردار کے بجائے انتشار کی دعوت دیتے ہیں اور منبر و محراب آمنے سامنے آجاتے ہیں تو معاشرہ تباہ و برباد ہونا شروع ہوجاتاہے۔

*احیاء مساجد و مدارس کیلئے کچھ تجاویز:*
1️⃣جب مساجد و مدارس ہی انسان کی روحانی و جسمانی تربیت گاہ ہیں تو یقیناً وہاں ایک اچھا قابل و لائق استاد کی ضرورت ہے جوکہ کم خرچے پر مشکل ہے لہذا عوام الناس خصوصاً مالدار طبقہ دل کھول کر مالی تعاون کریں آجکل ایک مذدور کی اجرت ۸ سو سے ہزار تک ہے جبکہ ایک استاد کو مہینہ وار دو ،تین ہزار روپیہ تنخواہ دینا انتہائی نامناسب ہے کیونکہ تدریس ایک مقدس شعبہ ہے، استاد ایک انمول تخفہ ہے جوکہ ایک حقیر سی قیمت سے تولنا جسارت ہے۔
2️⃣ہم احیاء مساجد و مدارس کی اہمیت کو اجاگر کرکے اس کیلئے راہ ہموار  کرسکتے ہیں جب لوگ اس کی اہمیت و فضلیت سے آگاہ ہوں گے قرآن و حدیث کی روشنی  میں اسکی جو قدر وقیمت ہیں اور جو اجر و ثواب ہیں اسے آگاہ ہوں گے تو یقیناً ہر ایماندار شخص اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گا۔
3️⃣ہر محلہ میں ایک مسجد کمیٹی بنایا جائے تاکہ وہ لوگوں کو نماز کیلئے بلائے اور لوگوں کو شوق دلانے کیلئے بنیادی وسائل پیدا کرے اور احیاء مساجد کیلئے مؤثر قوانین وضع کرے۔
4️⃣معاشرے کے ہر فرد پر لازم ہے کہ اپنے رشتداروں اور دوستوں کو اس نہضت عظمیٰ میں شریک ہونے کی ترغیب دے کیونکہ نیکیوں کی طرف رہنمائی کرنے والا اسے انجام دینے والے کی طرح ہے۔
یہ راہ خدا کی طرف دعوت اور امربالمعروف کے مصدادیق میں سے ہے۔خصوصاً علمائے کرام، خطباء اور ذاکرین اس سلسلے میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جبکہ متاسفانہ عرض کرنا پڑتاہے کہ بعض خطباء اور طلاب خود مسجد میں نظر نہیں آتے ہیں گویا کہ یہ فریضہ ان پر سے ساقط ہوا ہو۔
5️⃣ احیاء مساجد و مدارس کی اہمیت و فضائل پر مشتمل مقالے اور کتب شائع کرکے بھی احیاء مساجد و مدارس کے لیے زمینہ فراہم کرسکتے ہیں۔ آج کل انٹرنیٹ کا دور ہے اس سلسلے میں ہم سوشل میڈیا سے بھی خوب استفادہ کرسکتے ہیں۔

تبصرے
Loading...