اربعین اور  احساس ذمہ داری 

*اربعین اور  احساس ذمہ داری*

*حافظ سید شرافت موسوی*

*پیشکش :مجمع طلاب شگر*

سید الشہدا کی اربعین منانے کی اہمیت، جذبہ خدمت زاٸرو فلسفہ اربعین پر ہمیں  غورفکر کرنے کی ضرورت ہے۔
ایسا کیوں نہ ہو،حسین جیسے عظیم  رہبر وپیشوا  نے اپنی لازوال قربانی کے ذریعے انسانیت کو ایک بار پھر حیات نو عطا کی۔
اربعین تہذیب وتمدن انسانیت کا آئینہ دار ہے جو بقاۓ ملت و شرف انسانی کا قیمتی ترین سرمایہ ہے۔اس لیے ہر اس شخص کا(جو حسین سے عشق محبت ومودت رکھتا ہو) اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اربعین کی اہمیت کو سمجھے،امام حسن عسکری(ع) نے ایک حدیث میں “مومن” کی پانچ علامات کا ذکر کیا ہے :
علامات المومن خمس : صلاۃ احدی و خمسین ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ و زیارۃ الاربعین[١]
51رکعت نماز ادا کرنا ، زیارت اربعین، انگوٹھی کو دائیں ہاتھ میں پہننا ، نماز میں پیشانی کو خاک کربلاء پر رکھنا ، اور نماز میں “بسم اللہ” کو  بلند آواز میں پڑھنا۔
جس چیز کی اہمیت جتنی بڑی اتنی ہی اسکی معرفت اتنی ضروری ہے۔
،لہذا عاشقین اربعین میں ایک عجیب وحیرت انگیز ولولہ عشق اور والولہ دیکھنے کو ملتی ہے اسکی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ،کوٸی زاٸرین کی خدمت کررہا ہے، گھروں میں دعوتیں دی جارہی ہیں،لاکھوں کھربوں نذر نیاز پر خرچ کررہے ہیں کوٸی زاٸرین کے لیے کھانے کا انتظام کررہاہے ،کوٸی زاٸرین کی استراحت کی فکر میں ہے،خواتین سے لے کر جوان،بوڑھے حتی چھوٹے چھوٹے بچے ، یاد کاروان عشق ,(ایک بیٹا شام کی زندان سے چھوٹ کر سرزمین کربلا کی جانب  گامزن  ہے ایک بہن اپنے بھاٸی کے  چہلم کیلٸے کربلا پہنچ رہی ہے ایک قافلہ جو دھیرے دھیرے کربلا کی طرف رواں دواں ہے ) اسی کاروان عشق کے ساتھ ہم بھی آنکھوں میں اشکوں کے نم لیے،فضاؤں ہواؤں  میں لبیک یاحسین،مظلوم یاحسین،کی صدا بلند کرتے ہوۓ کربلا پہنچ رہے ہیں۔

ایسا کیوں؟
ایسا اس لیے  کہ اربعین منانے کا مقصد تجدید عہد ،عہد وفا اور ذمہ داریاں ادا کرنے کا نام ہے۔
اربعین حسینی جہاں  اپنے وجود میں احساس ذمہ داری ومعرفت  پیدا کرنے کابہترین موقع ہے۔وہاں  اس بات کا سبب بھی ہے کہ ہم واقعہ کربلا کے پیش نظر اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں کہ
آج کی کربلا میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
اور سیدالشہداء کا ہم سے مطالبہ کیا ہے۔؟
واقعہ کربلا ایک ایسی جاوداں تحریک  ہے،جو اپنے محرکات و مقاصد کے پیش نظر طول تاریخ میں حق،حقیقت و تحقیق کے متلاشی افراد کیلۓ ایک زندہ و جاوید درس گاہ  ہے اور اسکے وقوع  سے لیکر اب تک ہر ایک نے اپنے اپنے اعتبار سے اس سے مثبت نتائج اخذ کئے ہیں، جتنا جتنا لوگ کربلا کی پناہ میں آتے گئے، اتنا ہی انکے عزم میں اضافہ ہوتا گیا۔ انکا وقار بڑھتا گیا، انکی شان و شوکت ہمہ گیر ہوتی چلی گئی، اسکی ایک مثال امام حسین علیہ السلام کا چہلم ہے، جو نہ صرف ہر سال گزرے ہوئے سال سے زیادہ عظمت کے ساتھ منعقد ہوتا ہے بلکہ اربعین میں لوگ پہلے سے زیادہ عزم و ہمت کے ساتھ امام حسین علیہ السلام کے حضور تجدید بیعت کرتے ہوئے پہلے سے زیادہ وقار کے ساتھ دنیا کے سامنے اپنے وجود کا احساس دلاتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ ہر ایک کے اندر ایک ذمہ دار عزادار ہونے کا احساس جاگتا ہے۔امام خمینی (رہ) سے لیکر علامہ طباطبائی و شہید مطہری جیسے مفکرین اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے جب یزیدی حکومت کا حد درجہ انحراف دیکھا تو اسکے مقابل جو ردعمل پیش کیا، وہ حقیقت میں اپنی ذمہ داری کی ادائیگی کے سوا اور کچھ نہ تھا۔ انہوں نے اپنی شرعی ذمہ داری کی تشخیص دیتے ہوئے نہ صرف یہ کہ بروقت ردعمل کا اظہار کیا بلکہ کوشش کی کہ دوسرے لوگ بھی اپنی شرعی ذمہ داری کو سمجھتے ہوئے اس کی  ادائیگی کے لئے آگے قدم  بڑھائیں۔[٢]
امام خمینی (رہ) نے تو بہت ہی واضح الفاظ میں بیان کر دیا کہ سیدالشہداء علیہ السلام نے جو کچھ کیا، وہ اپنی ذمہ داری پر عمل تھا، آپ اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا چاہتے تھے اور آپ نے اپنی شرعی ذمہ داری پر عمل بھی کیا۔[٣]امام خمینی (رہ) نے یزید کے خلاف امام حسین علیہ السلام کے قیام کو انکی شرعی ذمہ داری کی حیثیت سے پیش کرتے ہوئے یہ بیان کرنے کی کوشش کی ہے کہ جس طرح امام علیہ السلام یزید جیسے ظالم کے سامنے کھڑے ہونے کو اپنا فریضہ سمجھتے ہیں، ویسے ہی ہمیں بھی اپنے وقت کے یزید کو پہچانتے ہوئے اسکے مقابل اٹھ کھڑے ہونے کا عزم رکھنا چاہیے، چونکہ امام حسین علیہ السلام کی سیرت تمام ہی مسلمانوں اور خاص طور پر شیعان حیدر کرار کے لئے نمونہ عمل ہے، لہذا آپکی سیرت کو دیکھ کر ہر انسان کے اندر احساس ذمہ داری جاگنا چاہیے،  ایسا نہیں ہے کہ یزید صرف 61 ہجری میں تھا اور اسکے مقابلہ کے لئے امام حسین علیہ السلام کھڑے ہوگئے اور بات ختم ہوگئی، ہر دور کی حسینیت کا تقاضا ہے کہ زمانے کی یزیدیت کے خلاف اٹھے اور اسے ذلیل و رسوا کرتے ہوئے پرچم حق کو بلند کرے۔یہاں پر جو بات اہم ہے، وہ انسان کے وجود کے اندر ذمہ داری کے احساس کا جاگنا ہے، جب انسان کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے تو وہ ہر کام سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ اسکا کام مرضی الہیٰ کے مطابق ہے یا نہیں؟ وہ تمام تر شرعی جوانب کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے بڑھتا ہے، وہ زندگی کے امور میں اپنی ذات کو لیکر نہیں سوچتا بلکہ خدا کو محور قرار دیکر سوچتا ہے اور خدا محوری کا جذبہ ہی کسی عمل کے ترک یا اس کے انجام پذیر ہونے کا محرک قرار پاتا ہے۔[٤]
امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ نے اسی محرک کو مختلف مقامات پر بیان کرتے ہوئے اس بات کی کوشش کی ہے کہ امام کی شہادت کو انکے وجود میں ذمہ داری کے احساس ساتھ جوڑ کر موجودہ دور میں شہادتوں کے محرک کی وضاحت اسی ذمہ داری کے محور پر کرتے ہوئے ظلم و ستم لوگوں کے سامنے  سوءے ضمیر کو بیدار کریں، لہذا ایک مقام پر آپ فرماتے ہیں:
“سیدالشہداء نے خود پر لازم جانا کہ اٹھ کھڑے ہوں اور شہادت کے درجے پر فائز ہو جائیں، امیر شام و اسکے بیٹے کے آثار کو صفحہ روزگار سے مٹا ڈالیں۔[٥]
اسی احساس ذمہ داری کو ایک اور مقام پر امام خمینی رضوان اللہ تعالیٰ علیہ اس انداز سے بیان کرتے ہیں:
“سیدالشہداء نے خود پر ضروری و فرض جانا کہ اس فاسد طاقت سے مقابلہ کرتے ہوئے شہید ہو جائیں، آپ نے واجب جانا کہ جہاں ضروری ہے، وہاں قیام کریں، اپنا لہو دیں، تاکہ یزید کا پرچم سرنگوں ہوسکے، آپ نے ایسا ہی کیا اور سب کچھ ختم ہوگیا[٦]جب انسان حق کی سربلندی کے لئے، احیاء دین کے لئے اٹھ رہا ہے، نفاذ عدالت کے لئے کھڑا ہو رہا ہے، بدعتوں سے مقابلہ کے لئے کھڑا ہو رہا ہے، سیرت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے آثار و برکات کو محو ہونے سے بچانے کے لئے اٹھ رہا ہے، ولایت کے دفاع کی خاطر اٹھ رہا ہے تو یقیناً اسکے سامنے مشکلات بھی آئیں گی اور پریشانیاں بھی، لیکن جو کچھ بھی اسکے مقدس ہدف کے تحت اسے ملے گا، سب کے سب اسی بل پر حاصل ہوگا کہ کسی بھی بات کی پراہ کئے بنا اسے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنا ہے اور بس اب ایسے میں یہ نہیں کہہ سکتا کہ زمانہ خراب ہے، ماحول سازگار نہیں ہے، ہمارا کیا ہوگا۔
رہبر انقلاب اسلامی اسی سلسلہ سے اپنی ایک تقریر میں فرماتے ہیں:
اگر امام حسین علیہ السلام اپنے سامنے آنے والے دشوار حالات، تلخ حوادث کو دیکھتے، جیسے جناب علی اصغر (ع) کی شہادت، اہل حرم کا اسیر ہونا، بچوں کی تشنگی،  جوانوں کا شہید ہو جانا، ان تمام چیزوں کو اگر آپ معمولی شریعت پر عمل کرنے والے عام انسان کی طرح دیکھتے تو آپکو اپنی واقعی ذمہ داری کو بھلا دینا چاہیے تھا اور قدم بہ قدم “الضرورات تبیح المحظورات” کے تحت پیچھے کی طرف قدم بڑھانا چاہیے تھا اور یہ کہنا چاہیے تھا کہ یہ سب میری ذمہ داری نہیں ہے، لیکن امام علیہ السلام نے سخت ترین شرائط میں اپنی زندگی کے آخری لمحوں تک اپنی شرعی ذمہ داری کی ادائیگی پر اصرار کیا۔ اس لئے کہ انسان کے عقیدے اور اسکے دین کی اہمیت، آبرو، مال، جان اور ناموس سے کہیں بڑھ کر ہے، ایسی صورت میں اپنی دینی ذمہ داری کی ادائیگی کا احساس اور اس سلسلہ میں آپ کا  موقف آپکی روحانی طاقت اور دینی بصیرت سے مربوط ہے۔[٧]
شہید کا کردار ہمارے لیے   در س ہے۔ لہذا ہم  اربعین اس طرح  منعقد کراٸیں تاکہ  شہادت و مظلومیت کے بارے میں عصرحاضر  اور آنے والی نسلیں آگاہ ہوسکیں۔ شہید باعث درس اور نمونہ عمل ہے کہ جس کا خون جوش مارے اور تاریخ کے ساتھ ساتھ بہتا چلا جائے۔ کسی قوم کی مظلومیت صرف اس وقت ملتوں کے ستم کشیدہ زخمی پیکر کو مرہم لگا کر ٹھیک کر سکتی ہے کہ جب اس کی مظلومیت فریاد بن جائے۔ اس مظلومیت کی آواز دوسرے انسانوں کے کانوں تک پہنچے۔  یہی وجہ ہے کہ آج چھوٹی بڑی طاقتوں نے شور و غل مچا رکھا ہے تا کہ ہماری آواز بلند نہ ہونے پائے۔ اسی وجہ سے وہ تیار ہیں کہ چاہے جتنا زیادہ سرمایہ خرچ ہو جائے مگر دنیا یہ نہ سمجھ پائے کہ جنگ کیوں شروع کی گئی اور کس محرک کے تحت چھیڑی گئی اس دور میں بھی استعماری طاقتیں آمادہ تھیں کہ چاہے جتنا سرمایہ لگ جائے مگر نام  اور یاد خون حسین (ع) اور شہادت عاشوراء ایک درس بن کر اس زمانے کے لوگوں اور بعد کی ملتوں کے اذہان میں نہ بیٹھنے پائے۔ وہ ابتداء میں نہیں سمجھ پائے کہ مسئلہ کتنا با عظمت ہے مگر جیسے جیسے وقت گزرتا گیا لوگ زیادہ سے زیادہ سمجھنے لگے۔
چہلم سے جو ہمیں درس لینا چاہیے  وہ یہ ہے کہ شہادت کی حقیقت کو دشمنوں کی تبلیغات کے طوفان کے مقابلے میں زندہ رکھنا،چاہے وہ تبلیغات اور طوفان ہوں کہ جو جنگ کے خلاف اٹھائے گئے وہ جنگ کہ جو عوام کی شرافت اور حیثیت اور ملک و اسلام کی حفاظت اور ان کے دفاع کی خاطر تھی.
_______________________
حوالہ جات:
[1!مجلسی ، بحار الانوار ، ج 98
[2! سید رضا موسیٰ، نہضت خمینی جلد ۱ ص 73
[3!صحیفہ نور جلد ۴ ص 16
[4! ایضاً۔ جلد ۱ ص 77
[5!صحیفہ نور ، جلد ۳ ص 182
[6! صحیفہ نور جلد ۱۳ ص 158
[7! سید علی خامنہ ای، امانداران عاشورا و درس حا و عبرت ھای کربلا69

تبصرے
Loading...