احساس کمتری،اسباب اورعلاج

شیخ حسین چمن آبادی

*احساس کمتری اور اس کا علاج*

*شیخ حسین چمن آبادی*

احساس کے لفظ سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا تعلق انسان کے وہم  و خیال سے ہے، اگرچہ خود احساس کا خارج میں وجود واقعی نہیں ہوتا لیکن اس کے آثار خارج میں پورے آب و تاب کے ساتھ موجود ہوتے ہیں،
اگر بد قسمتی  سے کسی انسان کو یہ بیماری لاحق ہو تو وہ اپنے آپ کو اجتماعی سوچ سے بالکل عاری محسوس کرتا  ہے.ساتھ ہی دوسروں میں بھی  اس کی یہ اخلاقی بیماری سرایت کر جاتی ہے، اوروبائی  بیماری کی طرح پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے، اور جس طرح معاشرتی سوچ مرجائے اور ہر کوئی اپنی ذاتی دکان کھول کر بیٹھ جائے تو اس سماج کو جگانا اور دوبارہ تعمیری سوچ اور مثبت کردار کی طرف لے کر آنا جوئے  شیر (مشکل )لانے کے مترادف ہے۔

*یہ سوچ کیسے  فرد یا معاشرے میں  پروان چڑھتی ہے*؟
اس کے مختلف علل واسباب ہیں. لیکن ہم صرف ایک سبب پر اکتفا کرتے ہیں اور وہ یہ کہ
*والدین کابچوں کی تربیت کے اصول و قواعد سے نابلد ہونا*۔
صرف بچے پیدا کرنا ہی انسان کا کمال نہیں بلکہ چرند پرند اور حیوانات  بھی بچے پیدا کرتے ہیں، لیکن انسان کی فضیلت اس  کی عقل، سوچ اور فکر کی وجہ سے ہے، اگر انسان اپنے بچوں کو شخصیت نہ دے سکے ، اس کے ساتھ  گھر کے ایک فرد جیسا سلوک نہ کرئے جیسا کہ ہمارے معاشرے میں منعقد ہونے والے مذہبی پروگرام ہوں یا غیر مذہبی؛ بہت ساری جگہوں پہ  بچوں کو اس میں گھسنے سے سختی کے ساتھ منع کرتے ہیں، بڑوں کے سامنے اپنی رائے کا اظہار نہیں کرنے دیتے،  کسی چیز کے  انتخاب میں ان کی مرضی شامل نہیں ہوتی ہے،  اختلاف رائے کی وجہ سے وہ بچہ سب کی نظر میں منفور ہوجاتا ہے، اس کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے، ان کو دوسروں کے سامنے مارا اور کوٹا جاتا ہے، برے القاب سے ان کو یاد کرتے ہیں، کبھی کبھار گالی گلوچ سے بھی نہیں شرماتے، ان کی شخصیت کشی ہوتی ہے، ان کے ہاتھوں چھوٹی اور بے حیثیت چیز کے نقصان پر ان کی ناک رگڑھ کے رکھ دیتے ہیں؛
اس کے برعکس اگر بچہ بڑوں کی تقلید پر اکتفا کرئے، ان کے جائز و ناجائز کاموں کے آگے سر تسلیم خم کرئے،  ان میں اختلاف رائے کی جرات نہ ہوں  اور ہر بات میں بڑوں کے ہاں میں ہاں ملاتے رہیں، شرمیلاپن اس کی رگ وپے میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہو اہوتو اس قسم کے بچوں کی خوب مدح سرائی ہوتی یے، انکی حوصلہ افزائی کرتے ہیں تو گویا وہ لوگ جان کر نہ جانتے ہوئے اس بچے کی خود اعتمادی اور عزت نفس کو نیست ونابود کر رہے ہوتے ہیں، اور صرف تقلیدی، ڈرپوک، بے حوصلہ، دوسرں کے ہر کام میں کیڑے نکالنے والا خود کو ہر اقدام و عمل سے دور رکھنے والا، منافقانہ روش کے مالک انسان آمادہ کر رہے ہوتے ہیں، اور  جب یہ بچے بڑے ہوکر معاشرے کا حصہ بنتے ہیں تو لا محالہ طور پر وہ انسان زندہ لاش کے سوا کچھ نہیں ہوتا، نہ خود کچھ کرسکتا ہے اور نہ ہی کام کرنے والے لوگوں کی مدد کرتا ہے، بلکہ وہ ریشمی کیڑے کی طرح اپنے گرد محکم حصار تعمیر کر کے دنیا و ما فیہا سے بے خبر مردے کی طرح زندگی گزارنا اس کا بھترین مشغلہ بن چکا ہوتا ہے۔

*اس بیماری کا علاج کیا ہے*؟
پڑھے لکھے، باشعور افراداور  وہ علماء جو خود اس بیماری سے محفوظ ہوں وه  اس بیماری کے خاتمہ میں  کردار ادا کر سکتے ہیں، اورآنے والی نسلوں کی تربیت کے لیے لوگوں کو آمادہ کرسکتے ہیں۔مساجد،سکول، مدارس، دینیات سنٹرز، اور امام بارگاہیں اس کام  کے لیے بہترین مراکز ہیں، بچوں کی تربیت کے حوالے سے  سیمینار، مجلے اور اخبارات سے استفادہ کرسکتے ہیں، اور بھرپور انداز میں آگاہی اور شعور کے مہم چلا سکتے ہیں، اور بچیوں کو بچوں سے کمتر اور حقیر نہ سجھے اور ان کو تعلیم دینے میں بخل سے کام نہ لے، جب تک بچیوں کو تعلیم نہیں دینگے ،اور ان کے ساتھ امتازی سلوک ختم نہیں ہوتا ایک صحتمند فرد یا معاشرہ وجود میں نہیں آسکتا.