انتظار یا اعتقاد؟ جشن و سرور یا انتظار؟

انتظار یا اعتقاد؟ جشن و سرور یا انتظار؟

بعض لوگ عریضے لکھتے ہيں لیکن ان عریضوں میں بھی صرف اپنے مسائل کے حل کی التجا ہوتی ہے کہ اے امام زمانہ (عج) ہمارے لئے اللہ کی بارگاہ میں دعا فرمانا تا کہ ہماری شادی ہوجائے، ہمیں روزگار ملے، ہمیں اللہ تعالی فرزند عطا فرمائے، ہمارے گھریلو مسائل حل ہوجائیں، ہمیں گھربار ملے یا شاید بعض لوگ ان عریضوں کے ذریعے ملک و ملت کے مسائل حل ہونے کی دعا کریں جن شاذ و نادر ہی ہوتے ہیں تا ہم ان عریضوں میں امام زمانہ کے ظہور کی التحا کم ہی ہوتی ہے اور ان میں کم ہی ایسا مواد ہوتا ہے جو امام زمانہ کی معرفت کی دلیل ہو۔سب سے پہلا سوال انتظار ظہور یا اعتقاد ظہور؟انتظار کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسہن ظہور کی قبولیت کے لئے تیار کرے بلکہ اس کے لئے ظہور کے بارے میں سوچنا اور اس کی آرزو کرنا بھی ضروری ہے۔مثال: ہوسکتا ہے کہ ہم ایک مہمان کی پذیرائی اور آؤ بھگت کے لئے تیار ہوں اور ہمارے پاس یہ مہم سر کرنے کے وسائل بھی ہوں لیکن ہم نے کسی کو دعوت نہ دی ہو اور کسی مہمان کے آنے کی توقع ہی نہ رکھتے ہيں۔ ایسی صورت میں یہ کہنا بےجا ہوگا کہ “ہم مہمان کے منتظر ہیں”۔ کیونکہ اس صورت میں ہم نہ تو مہمان کے آنے کے منتظر ہیں اور نہ ہی اس کے نہ آنے سے فکرمند، مغموم اور پریشان ہوتے ہیں۔ہم ان چند سطروں ہی سے سمجھ سکتے ہیں کہ خودسازی اور تہذیب نفس بھی اس وقت تک کامل نہیں ہے جب تک انتظار کا مسئلہ انسان کے لئے حل نہ ہوا ہو یعنی تہذیب و تزکیہ کرنے والے کے لئے بھی ضروری ہے کہ اس زمانے اور اس عصر کا منتظر ہو جب پوری دنیا ظلم و ستم سے پاک ہوگی اور اس مقصد کا حصول ممکن ہوگا جس کی طرف حرکت انسان کے پیدائشی فرائض ميں سے ہے۔بالفاظ دیگر: اصلاح نفس و تطہیر نفس صرف اس صورت میں عروج تک پہنچتی ہے کہ انسان پوری دنیا کی تطہیر کے بارے میں سوچتا ہو، پوری دنیا کی تطہیر کے لئے فکرمند ہو اور صرف اپنی ذات کی اصلاح ہی کے بارے میں نہ سوچے چنانچہ جو اصلاح نفس کی کوشش کرتا ہے اس کو عالمی مصلح کے ظہور پر اعتقاد پر ہی اکتفا نہیں کرنا چاہئے بلکہ عالمی منتظَر اور ان کے ظہور کا بھی انتظار کرنا چاہئے۔حقیقت یہ ہے کہ ظہور پر عقیدہ رکھنے اور ظہور کا انتظار کرنے میں بہت زيادہ فرق ہے کیونکہ نہ صرف تمام شیعیان آل محمد (ص) ہی ظہور کا عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ غیر شیعہ حتی کہ غیر مسلم مکاتب کی اکثریت بھی اس حقیقت پر عقیدہ رکھتے ہیں لیکن اس کے منتظر نہيں ہیں بالفاظ دیگر وہ ایک حقیقتِ منتظَر کے آنے کے معتقد ضرور ہیں لیکن اس حقیقت کے آنے کا انتظار نہیں کررہے ہیں۔ وہ جو معتقد ہوں اور منتظر بھی ہوں اور انہيں امید بھی ہو آنے کا بقیۃاللہ الاعظم علیہ السلام کے اور انتظار و امید کے مطابق عمل بھی کرتے ہیں وہ حقیقی منتظر بھی ہیں اور تزکیہ نفس میں کامیاب ہونا بھی ان کے مقدر میں مقرر ہے۔انتظار کے بارے میں وارد ہونی والی روایات میں جہاں انتظار کو بہترین عبادت قرار دیا گیا ہے اور منتظرین کی تعریف ہوئی ہے وہاں اس بات پر بھی زور دیا گیا ہے کہ امید رکھیں، اس امر عظیم کے رونما ہونے کو ممکن سمجھنا اور ظہور مولا کے ادراک کو بھی ضروری سمجھا گیا ہے کیونکہ اگر امید اور انتظار نہ ہو اور انتظار زمان ظہور کے واقعات و فرائض سے بے خبر ہو تو وہ منتظر کونکر ہوسکتا ہے؟ کیا اس نے ان روایات پر عمل کیا ہے جن کے توسط سے ہمیں امید و آرزو کا درس دیا گیا ہے؟(ماخوذ از صحیفہ مہدیہ)منتظرین کے فرائض کیا ہیں؟امام زمانہ (عج) کی عظمت کی وجہ سے ایک ہزار سال سے زائد کے اس عرصے میں ہر گروہ اور ہر جماعت نے اپنی گروہی اور جماعتی افکار و آراء کے تناسب سے آپ (عج) کی شخصیت، مقام و منزلت اور عالم وجود میں آپ (ع) کے مقام و منزلت کے بارے میں الگ الگ رائے قائم کرتے ہیں۔مثلا عرفان و سیروسلوک والے آپ (ع) کے عرفانی اور خلیفۃاللہی اور ماوراءالطبیعی (Metaphysical) پہلو کو موضوع بحث قرار دیتے ہیں اور آپ (عج) کی شخصیت کے دیگر پہلؤوں سے غفلت برتتے ہیں۔بعض اہل شریعت نے آپ (عج) کے وجود شریف کے طبیعی پہلو کو لیا اور امام و پیشوا کے عنوان سے آپ (عج) کی امامت و رہبری پر بحث کرتے ہوئے آپ (عج) کی غیبت کے زمانے میں عوام کے لئے کسی ذمہ داری کے قائل نہیں ہیں اور کہتے ہیں کہ صرف آپ (عج) کے لئے دعا کریں تا کہ وہ تشریف لائیں اور خود ہی لوگوں کے معاملات و امور کی اصلاح کریںکچھ لوگ آپ (عج) کے ماوراء الطبیعی پہلو کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور آپ (عج) سے ملاقات کے لئے بے چین رہتے ہیں تا کہ آپ (عج) سے اپنے ذاتی مسائل حل کروائیں۔تاہم بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو ان تمام پہلوؤں کو بھی مد نظر رکھتے ہیں اور انتظار کے صحیح معنی کی طرف توجہ کرتے ہوئے غیبت کے زمانے میں منتظرین کے فرائض پر بھی زور دیتے ہیں۔ اس رائے میں انسان کامل کی خلافت الہیہ بھی ان کے مد نظر رہتی ہے اور ہاں اس رائے کے حامل افراد اہل شریعت کے اس نکتے کو بھی نہيں بھولتے کہ لوگوں کو آپ (عج) کے ظہور کے لئے دعا کرنی چاہئے۔امام خمینی رحمۃاللہ علیہ اس رائے کے بانیوں میں شمار ہوتے ہیں فرماتے ہيں:”البتہ جہاں تک دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا تعلق ہے تو یہ کام ہم نہیں کرسکتے، اگر ہم کرسکتے تو ضرور کرتے لیکن چونکہ ہم ایسا نہیں کرسکتے آپ (عج) کو آنا چاہئے … لیکن ہمیں اس کام کو فراہم کرنا چاہئے، اس کے اسباب فراہم کریں اور اس کے اسباب فراہم کرکے ظہور کو قریب تر کردیں، ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری کے لئے اسباب فراہم ہوجائیں …”. (1)”البتہ جہاں تک دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دینے کا تعلق ہے تو یہ کام ہم نہیں کرسکتے، اگر ہم کرسکتے تو ضرور کرتے لیکن چونکہ ہم ایسا نہیں کرسکتے آپ (عج) کو آنا چاہئے … لیکن ہمیں اس کام کو فراہم کرنا چاہئے، اس کے اسباب فراہم کریں اور اس کے اسباب فراہم کرکے ظہور کو قریب تر کردیں، ہمیں ایسا کام کرنا چاہئے کہ امام علیہ السلام کی تشریف آوری کے لئے اسباب فراہم ہوجائیں …”. (1)آپ (رح) انتظار فَرَج کے بارے میں فرماتے ہیں: انتظار فَرَج اسلام کی قوت و وطاقت کا انتظار ہے اور ہمیں کوشش کرنی چاہئے کہ اسلام کی قوت دنیا میں عملی صورت اپنائے اور ظہور کے مقدمات ان شاء اللہ فراہم ہوں۔ (2)شیعہ تفکر میں انتظار کے مفہوم کو سمجھنے کے لئے بعض روایات کا سہارا لیتے ہیں تا کہ واضح ہوجائے کہ:1. کیا انتظار کی ضرورت ہے؟2۔ انتظار کی فضیلت کیا ہے؟3۔ عصر غیبت میں منتظرین کے فرائض کیا ہیں؟4۔ انتظار کے آثار و نتائج کیا ہیں؟1۔ انتظار کی ضرورتشیعہ تفکر میں موعود (عج) کا انتظار ایک مسلمہ اعتقادی اصول ہے اور بہت سی روایات میں قائم آل محمد (عج) کے انتظار کے وجود پر تصریح ہوئی ہے مثال کے طور پر:1۔ محمد بن ابراہیم نعمانی نے کتاب الغیبۃ (غیبت نعمانی) میں روایت کی ہے کہ امام صادق علیہ السلام نے ایک روز اپنے اصحاب سے مخاطب ہوکر فرمایا: کیا میں تمہیں ایسے عمل سے آگاہ نہ کروں کہ خداوند صاحب عزت و جلال بندوں کے کسی بھی عمل کو اس کے بغیر قبول نہیں فرماتا؟میں نے عرض کیا: کیوں نہيں میرے مولا؟فرمایا: گواہی دینا کہ “کوئی بھی اہل عبادت نہیں ہے سوائے خداوند متعال کے اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) خدا کے بندے اور رسول ہیں اور ان چیزوں کا اقرار کرنا جن کا اللہ تعالی نے حکم دیا ہے اور ہماری ولایت کا اقرار کرنا اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری ظاہر کرنا ـ بالخصوص ائمہ اطہار علیہم السلام کے دشمنوں سے ـ اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنا، اور پرہیزگاری اور کوشش و مجاہدت و اطمینان اور قائم علیہ السلام کا انتظار۔ (3)2۔ ثقة الاسلام کلینی اپنی کتاب الکافی میں روایت کرتے ہیں کہ ایک روز ایک مرد امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا جس کے ہاتھ میں ایک صفحہ تھا، حضرت باقر علیہ السلام نے اس شخص سے فرمایا:یہ مکتوب ایک مُناظر (مناظرہ کرنے والے) کا ہے جو ایسے دین کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہے جس میں تمام اعمال مقبول ہیں۔اس شخص نے عرض کیا: اللہ کی رحمت ہو آپ پر، میں نے یہی چاہا ہے۔پس امام ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا: گواہی دینا اس پر کہ خدا ایک ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور یہ کہ محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) اللہ کے بندے اور رسول ہیں اور یہ کہ اقرار کرو اس پر جو اللہ کی طرف سے آیا ہے اور ہمارے خاندان کی ولایت پر گواہی دینا اور ہمارے دشمنوں سے برائت و بیزاری کا اظہار کرنا، اور ہماری اطاعت کرنا اور ہمارے سامنے سرتسلیم خم کئے رکھنا، اور پرہیزگاری اور منکسرالمزاجی اور ہمارے قائم کا انتظار کرنا، کیونکہ ہمارے لئے ایک حکومت ہے جو اللہ تعالی جب چاہے گا لے کر آئے گا۔ (4)3۔ شیخ صدوق کتاب “کمال الدین” میں “عبدالعظیم الحسنی” سے روایت کرتے ہیں:میں ایک دن اپنے آقا و مولا محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن الحسین بن علی بن ابیطالب علیہم السلام (یعنی امام محمد تقی الجواد (ع)) کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں آپ (ع) سے حضرت قائم علیہ السلام کے بارے میں پوچھنا چاہتا تھا کیا مہدی آپ (ع) خود ہیں یا آپ (ع) کے بعد آئیں گے؛ امام (ع) نے اپنے کلام کا آغاز کیا اور مجھ سے فرمایا: اے ابالقاسم! بے شک مہدی ہم میں سے ہیں اور وہ وہی مہدی ہیں جن کی غیبت میں انتظار کرنا واجب ہے۔ اس حوالے سے روایات بہت زیادہ ہیں لیکن ہمارے اس مکتوب میں ان کا مفصل حوالہ دینا ممکن نہیں ہے چنانچہ ہم دیکھنا چاہتے ہیں کہ انتظار کی فضیلت کیا ہے اور کلام معصومین علیہم السلام میں انتظار کا مقام کیا ہے؟
2۔ انتظار کی فضیلت
اسلامی روایات میں منتظرین کے لئے جس مقام و منزلت کا ذکر ہوا ہے کبھی انسان کی حیرت کا باعث بنتی ہے کہ انتظار جیسا عمل ـ جو بظاہر سادہ ہے ـ اتنی فضلیتوں کا حامل کیونکر ہوسکتی ہے؟ تا ہم جب ہم فلسفۂ انتظار کی طرف توجہ دیتے ہیں اور منتظرین کے فرائض اور ذمہ داریوں کو مد نظر رکھتے ہیں تو ان توصیفات کا فلسفہ بھی سمجھ میں آنے لگتا ہے۔
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم) کی حدیث: انتظار برترین عبادت
1۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہيں: “انتظارِ فَرَج برترین اور بہترین عبادت ہے”۔ (6)
انتظارِ فَرَج بہترین جہاد
2۔ رسول اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں کہ: “میری امت کا بہترین جہاد انتظارِ فَرَج ہے”۔ (7)
امیر المؤمنین (ع) کی حدیث: انتظار خوشآیند ترین عمل
3۔ علامہ محمدباقر مجلسی روایت کرتے ہيں کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: فَرَج (فراخی اور بہتر صورت حال یا مصائب و مشکلات سے چھٹکارے) کے منتظر رہو بے شک خداوند عز و جل کے نزدیک برترین اور خوشآیند ترین عمل انتظارِ فَرَج ہے۔ (8)
رسول اللہ (ص) اور ائمہ معصومین (ع) کی حدیث: منتظر شہید کی مانند
4۔ شیخ صدوق کمال الدین میں روایت کرتے ہيں کہ امام صادق علیہ السلام نے اپنے آباء و اجداد طاہرین علیہم السلام کے حوالے سے فرمایا: ہماری حکومت کا منتظر شخص اس شہید کی مانند ہے جو راہ خدا میں اپنے خون میں تڑپتا ہے۔ (9)
منتظرین اولیاء الہی ہیں
5۔ اسی کتاب میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ (ع) نے فرمایا:
خوش بحال ان کے جو ہمارے قائم کی غیبت میں ان کے ظہور کے منتظر ہيں اور ظہور کے بعد ان کے فرمانبردار ہيں، وہ اللہ کے اولیاء ہیں وہی جن کے لئے نہ کوئی ڈر ہے اور نہ ہی وہ غم و حزن سے دوچار ہوتے ہیں۔ (10)
امام صادق (ع) کی حدیث: منتظر امام زمانہ (عج) کا ہم نشین6۔ علامہ مجلسی روایت کرتے ہیں کہ امام صادق علیہ السلام نے فرمایا: تم میں سے جو شخص اس امر کا انتظار کرتے ہوئے مرتا ہے وہ اس شخص کی مانند ہے جو امام علیہ السلام کے ساتھ ایک خیمے میں رہا ہو۔ اور کچھ لمحات خاموشی کے بعد فرمایا: نہیں! بلکہ اس شخص کی مانند ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے رکاب میں شمشیرزنی کرچکا ہو اور پھر فرمایا: نہیں، اللہ کی قسم! بلکہ اس شخص کی مانند ہے جس نے رسول اللہ (ص) کے رکاب میں جان کی بازی لگا دی ہو اور شہادت پالی ہو۔ (11)منتظرین کے لئے اتنی فضیلت کیوں؟اس لئے کہ:1۔ انتظار امام معصوم کے ساتھ شیعیان آل محمد (ص) کا اتصال:ولایت اور امامت مکتب تشیع کا بنیادی ستون سمجھی جاتی ہے اور ہر عصر میں امام معصوم کی موجودگی کا عقیدہ اس مکتب کو دوسرے مکاتب سے ممتاز کردیتا ہے۔شیعہ مکتب میں ائمہ معصومین کی ولایت کو تسلیم کرنا اور امام و حجت عصر کے سامنے سرتسلیم خم کرنا تمام فضائل کی چوٹی اور بندوں کے تمام اعمال و عبادات کی قبولیت کی اساس ہے۔ ہمارے اس زمانے کے امام اور حجت خدا حضرت امام مہدی امام زمانہ ہیں جو فیض الہی کا واسطہ اور عصر حاضر میں ہمارے امام اور ہمارے مددگار ہیں۔2۔ 2۔ انتظار انسانوں کی وقعت کا پیمانہ: انسانوں کی خواہشیں اور آرزوئیں ان کے کمال اور بلندی کا معیار ہیں حتی بعض لوگ کہتے ہیں: “بتاؤ کہ تمہاری خواہش کیا ہے تا کہ میں کہہ دوں کہ تم کون ہو!”۔ بلند خواہشیں اور قابل قدر اور اہم آرزوئیں انسان کی روح اور شخصیت کی بلندی کی دلیل ہیں اور یہ خواہشیں چھوٹی چھوٹی اور حقیر آرزؤں سے مختلف ہیں جو انسان کی حقارت اور بے وقعتی اور بے ہمتی اور عدم نشوو نما کی دلیل ہیں۔امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:انسان کی وقعت اس کی ہمت کے برابر ہے۔ (12)اس تمہید کے بعد کہا جاسکتا ہے کہ چونکہ منتظر اعلی ترین آرزؤوں کا حامل ہے لہذا وہ فطری طور پر بہترین اور والاترین اقدار کا بھی حامل ہے۔وضاحت:منتظر انسان کی آرزو پوری دنیا میں دین خدا کی حاکمیت اور مذہب آل محمد (ص) کے نفاذ اور پوری دنیا پر صالحین اور مستضعفین کی حکومت کے قیام کی خواہش سے عبارت ہے اور اس کی آرزو ہے کہ مستکبرین اور ظالمین کے ہاتھ کاٹ دیئے جائیں اور دنیا کے گوشے گوشے میں عدل و انصاف کی حکومت ہو اور تمام انسانوں کو فلاح اور عدل و انصاف مل جائے۔3۔ انتظار فرد اور معاشرے کے تحریک و تعمیر کا سببانتظار ـ جیسا کہ اگلی سطور میں واضح کیا جائے گا ـ غیبت کے زمانے میں فرد اور معاشرے کی تعمیر، تحرک (Dynamism) نیز اصلاح کا سبب بنتا ہے اور اگر منتظر انسان اپنے مقررہ فرائض پر عمل کرے تو وہ ایک دیندار انسان کی علامت بن جائے گا اور اعلی مقام و منزلت کا مالک بن جاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اگر انتظار کی تمام شرطوں پر پورا اترے تو وہ اسی مقام و منزلت کو حاصل کرلے گا جو دین اسلام ہم سے چاہتا ہے اور وہ کمال کی چوٹیوں کو سر کرلیتا ہے۔ 3۔ منتظرین کی ذمہ داریاںروایات اور احادیث کے ضمن میں، زمانہ غیبت میں شیعیان آل محمد (ص) اور منتظرین امام زمانہ (عج) کے لئے متعدد فرائض بیان ہوئے ہیں اور حتی “مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم” میں خاتم الاوصیاء حضرت بقیۃاللہ ارواحنا لہ الفداء کے منتظرین کے لئے اسی (80) فرائض بیان کئے گئے ہیں۔ (13) لیکن ہم یہاں بعض اہم فرائض بیان کرنے پر اکتفا کرتے ہیں۔1۔ حجت خدا اور امام عصر علیہ السلام کی شناختہر منتظر کا اولین فریضہ یہ ہے کہ وہ اپنے زمانے کے امام کو پہچان لیں۔ یہ موضوع اس قدر اہم ہے کہ شیعہ اور سنی منابع سے منقولہ روایت کے مطابق رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ طاہرین علیہم السلام نے فرمایا:جو مرے اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے وہ جاہلی موت مرا ہے۔ (14)اسی حدیث نبوی کے تسلسل میں امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:جو بغیر امام کے مرجائے اس کی موت جاہلی موت ہے اور جو شخص اپنے امام کو پہچان کر مرے اس امر [یعنی آل محمد (ص) کی عالمی حکومت کے قیام] میں تعجیل یا تاخیر سے اس کو کوئی نقصان نہيں پہنچے گا اور جو مرے گا ایسے حال میں کہ اس نے اپنے امام کو پہچان لیا ہے، وہ اس شخص کی مانند ہے جو امام عصر علیہ السلام کے خیمے میں آپ (عج) کا ہم نشین رہا ہو۔ (15)غیبت کے زمانے میں جن دعاؤں کی قرائت پر زور دیا گیا ہے ان کی طرف توجہ بھی ہمیں حجت خدا کی شناخت کی اہمیت سے آگاہ کردیتی ہے۔ جیسا کہ ہم کتاب “کمال الدین” میں شیخ صدوق سے منقولہ ایک دعا میں پڑھتے ہیں:بار خدایا! تو مجھے اپنی معرفت عطا فرما کہ اگر میں تجھے نہ پہچانوں تو تیرے پیغمبر کو نہ پہچان سکوں گا۔بارخدایا! مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنے نبی کی شناخت عطا نہ کرے گا تو میں تیری حجت کی معرفت سے بے بہرہ رہوں گا۔بار الہا! مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما کیونکہ اگر تو مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ کرے گا تو میں اپنے دین سے گمراہ ہوجاؤں گا۔خداوندا! مجھے جاہلیت کی موت نہ دے کیونکہ میرے دل کو منحرف نہ فرما بعد اس کے کہ تو نے مجھے ہدایت عطا فرمائی … (16)امام صادق علیہ السلام امام کی معرفت کی کم از کم حدود بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:امام کی شناخت و معرفت کا نازل ترین مرتبہ یہ ہے کہ تم جان لو کہ امام پیغمبر کے برابر ہے مگر نبوت کے درجے کے سوا؛ امام پیغمبر کا وارث ہے اور بے شک امام کی اطاعت رسول اللہ کی اطاعات اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اطاعات اللہ تعالی کا اطاعت ہے اور ہر مسئلے میں امام کے سامنے سراپا تسلیم ہونا چاہئے اور اس کے کلام و فرمان پر عمل کرنا چاہئے … (17)
 

http://shiastudies.com/ur/1912/%d8%a7%d9%86%d8%aa%d8%b8%d8%a7%d8%b1-%db%8c%d8%a7-%d8%a7%d8%b9%d8%aa%d9%82%d8%a7%d8%af%d8%9f-%d8%ac%d8%b4%d9%86-%d9%88-%d8%b3%d8%b1%d9%88%d8%b1-%db%8c%d8%a7-%d8%a7%d9%86%d8%aa%d8%b8%d8%a7%d8%b1%d8%9f/