امام مھدی (علیہ السلام) کی ولادت

مقدمہ:

رسول اکرم (ص )اور اھل بیت پاک علیھم السلام کی امام مھدی علیہ السلام کے بارے میں نقل شدہ متعدد روایات کی بنا پر عباسی خلفا ء اس حقیقت سے مکمل طور پر آگاہ تھے کہ جلد ہی  خاندان اہل بیت علیھم السلام میں ایک بچہ پیدا ہو گا کہ جو انسانی معاشرے سے ظلم و فساد کی بساط کو سمیٹ دے گا ۔اس بنا پر عباسی حکام نے نویں امام علیہ السلام  کے بعد سے اماموں پر کڑی نظر رکھنا شروع کر دی ۔یہاں تک کہ امام ھادی علیہ السلام اور ان کے فرزند امام حسن عسکری علیہ السلام کو مدینے سے عباسی حکومت کے مرکز سامراء میں منتقل کر دیا تاکہ ان کے پر نظر رکھ سکیں ۔اس دباو کا سلسلہ گیارہویں امام علیہ السلام کے دور میں اپنے اوج کوپہنچ گیا اور حضرت کے شیعوں کے ساتھ رابطے کو بالکل محدود کر دیا ۔عباسی حکمرانوں نے کئی بار آپ کو جیل بھیجا ،اورکبھی کبھی آپ کے گھر پر حملہ بھی کرتے تھےاور تلاشی کرتے تھے تا کہ وہ بچہ انہیں مل جائے ۔لیکن خدا کی مشیت یہ تھی کہ (یہ لوگ چاہتے ہیں کہ اللہ کی روشنی کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں ۔ مگر اللہ اپنی روشنی کو مکمل کیے بغیر ماننے والا نہیں ہے خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو)(1)  کا مصداق بن کر یہ مبارک بچہ  اس خاندان وحی و نبوت میں دنیا میں آئے۔

ولادت امام مھدی (عج):

۱۵شعبان سن ۲۵۵ ھجری قمری مطابق پہلی اگست 869 عیسوی اس حالت میں کہ آپ کی مادر گرامی میں حمل کے آثار بالکل نمایاں نہیں تھے ،اس امام ہمام نے اپنے نور سے زمین کو منور کیا ۔اس طرح ان دشوار حالات اور رعب و خوف سے مملو ماحول میں وعدۂ الہی تحقق پذیر ہوا  اور امامت کے بارہویں بر حق ستارے نے طلوع ہو کر ستم گروں کی حاکمیت کے زوال کی نوید دی (2)۔

اس مولود کی ولادت کے مخفی ہونے کے باوجود  امام حسن عسکری علیہ السلام نے اتمام حجت اور بعد میں پیش آنے والی گمراہی سے بچنے کے لیے بارہویں امام کی ولادت کی خبر اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور خاص شیعوں تک پہنچا دی ،یہاں تک کہ ان میں سے بعض کو امام علیہ السلام کی زیارت بھی کروا دی ۔مثال کے طور پر” احمد ابن اسحاق قمی” ایک بزرگ شیعہ کہتے ہیں :میں امام عسکری علیہ السلام کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور میں نے سوچا کہ میں آنحضرت کے جانشین کے بارے میں سوال کروں ۔جب میں حضرت کی خدمت میں پہنچا تو اس سے پہلے کہ آنحضرت سے  میں کچھ پوچھوں ،حضرت نے مجھ سے فرمایا:

اے احمد !خدا وند متعال نے جب سے آدم کو پیدا کیا ہے اس نے زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا ہے اور قیامت تک اس کو حجت سے خالی نہیں رکھے گا ۔ حجت خدا کے وجود کی وجہ سے بلائیں اہل زمین سے دور رہتی ہیں اور زمین اپنے اندر موجود نعمتوں اور برکتوں کو اہل زمین پرنچھاور کر دیتی ہے ۔

اسحاق ابن احمد قمی کہتے ہیں : اے میرے مولا ! آپ کے بعد امام کون ہے؟ اس سوال کے بعد امام گھر کے اندر تشریف لے گئے اور تھوڑی دیر کے ایک چودھویں کے چاند جیسا چہرہ رکھنے والے  تین سال کے بچے کو اپنی گود میں لیے ہوئے جلوہ افروز ہوئے ۔اس کے بعد مجھ سے فرمایا ؛ اے احمد !اگر تم خدا وند متعال اور اس کی حجتوں کے نزدیک محترم نہ ہوتے تو میں اپنے بچے کو تمہیں نہ دیکھاتا ؛ یقینا وہ رسول خدا کے ہمنام اور ہم کنیت ہیں وہ وہی ہیں جو زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔اس امت میں ان کی مثال حضرت خضر علیہ السلام کی سی ہے ۔خدا کی قسم ! وہ جلد ہی غائب ہو جائیں گے اور ان کی غیبت کا زمانہ اتنا طولانی ہو گا کہ اکثر لوگ گمراہی اور ہلاکت کا شکار ہو جائیں گے ۔صرف وہ لوگ نجات پائیں گے کہ جن کو خدا نے امامت پر پایدار رہنے کی توفیق دی ہے ۔

احمد ابن اسحاق کہتے ہیں ؛ اے میرے امام!کیا کوئی نشانی بھی ہے کہ جس کی مدد سے مجھے زیادہ اطمئنان قلب  حاصل ہو جائے ؟اس وقت اس خوبصورت اور نورانی بچے نے انتہائی فصیح عربی لہجے میں انتہائی سکون کے ساتھ فرمایا : میں ہوں بقیۃ اللہ زمین میں ؛وہی جو خدا کے دشمنوں سے انتقام لے گا ؛اے احمد ابن اسحاق !جب تم نے خود اس کی زیارت کر لی ہے تو دوسری علامت اور نشانی کے پیچھے نہ جاو (3)

نتیجہ: مکتب تشیع کے معتبر منابع میں موجود احادیث اور تاریخی حقائق سے ثابت ہوتا ہے کہ دشمنوں کی متعدد سازشوں کے باوجود امام کی ولادت نے دشمنوں کی تمام تر سازشوں کو ناکام کیا ۔ اور حجت خدا سے زمین منور ہوئی  بقول شاعر

راہ حق شمع الھی کو بجھا سکتا ہے کون ؟

جس کا حامی ہو خدا اسکو مٹا سکتا ہے کون(4)

 ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

منابع

1: سورہ صف آیت نمبر8

2: صبح انتظار ص نمبر 23

3:اصول کافی ج1 باب 76 حدیث نمبر 329

www.bazmesukhan.com :4