جنگ كے نتائج

جنگ كے نتائج

صفين كى تباہ كن جنگ كے باعث دونوں ہى لشكروں كا سخت مالى و جانى نقصان ہوا اس كے ساتھ ہى اس جنگ كے جو سودمند و ضرر رساں نتائج برآمد ہوئے ان كى كيفيت مندرجہ ذيل ہے_

:1 جب لشكر عراق ميدان جنگ سے واپس آيا تو اس كى فوج ميں سخت باہمى اختلاف پيدا ہوگيا_ چنانچہ ان ميں سے بعض كو تو ميدان كارزار ترك كرنے كا اتنا سخت افسوس وملال ہوا تھا كہ ان كے دلوں ميں ان لوگوں كے خلاف دشمنى و عداوت پيدا ہوگئي جو ميدان جنگ ترك كرانے كے اصلى محرك تھے_چنانچہ يہ دشمنى و عداوت اس حد تك پہنچى كہ بھائي بھائي سے اور بيٹا باپ سےنفرت كرنے لگا _ اور كہيں كہيں تو نوبت يہاں تك آئي كہ انہوں نے ا يك دوسرے كو خوب زد كوب كيا_

2:اگر چہ معاويہ كا نقصان بہت زيادہ ہوا ليكن اس كے باوجود وہ عمرو عاص كى نيرنگى كے باعث اپنى سياسى حيثيت برقرار ركھنے ميں كامياب ہوگيا _ جنگ سے قبل وہ اميرالمومنين حضرت على (ع) كى حكومت كا معزول و باغى كارگزار تھا ليكن اس معاہدے كى رو سے جو اس جنگ كے بعد كيا گيا اس كا مرتبہ حضرت على (ع) كے ہم پايہ و ہم پلہ تھا_ اور اسے سركارى سطح پر رہبر شام تسليم كرليا گيا تھا_

3: اگر چہ لشكر عراق ميں ايسے سپاہيوں كى تعداد كم ہى تھى جنہوں نے اس جنگ سے درس عبرت ليا اور راہ حق پر كاربند رہے ليكن اس ميں ايسے ظاہربين فوجيوں كى تعداد بہت زيادہ تھى جو منافق اور اقتدار پرست افراد كے دام فريب ميں آگئے اور انہوں نے اپنى نيز دين اسلام كى تقدير كو حيلہ گر ، نيرنگ ساز،كج انديش حكمين كے حوالے كرديا اور اپنے لئے مصائب و آلام كو دعوت دے دى _

:4 اس جنگ كا دوسرااہم نتيجہ فتنہ و آشوب كا بيج بويا جانا تھا اور يہ در حقيقت عراقى فوج كے بعض نادان افراد كى خود سرى و ضد كا ثمرہ تھا_

چنانچہ اشعث اس معاہدے كو لے كردونوں لشكروں كے سپاہيوں كى جانب روانہ ہوا اور اس كى شرائط پڑھ كر انھيں سنائيں_ شاميوں نے سن كر خوشى كا اظہار كيا اور انہيں قبول بھى كرليا ليكن فوج عراق ميں سے بعض نے تو اس پر رضايت ظاہر كي، بعض نے مجبور انھيں پسند كيا مگر چند ايسے بھى تھے جنہوں نے سخت مخالفت كى اور معترض ہوئے_

مخالفت كى پہلى صدا طايفہ ” عَنزہ ”كى جانب سے بلند ہوئي جو چار ہزار سے زيادہ افراد پر مشتمل تھا_ اور ان ميں دو افراد نے بلند كہا لا حكم الا اللہ يعنى خدا كے علاوہ كسى كو حاكميت كا حق نہيں  اس كے بعد وہ معاويہ كے لشكر پر حملہ آور ہوگئے مگر شہيد ہوئےدوسرے مرحلے پر ” بنى تميم” كا نعرہ سنا گيا بلكہ اس قبيلے كے ايك فرد نے تو اشعث پر حملہ بھى كرديا_ اور كہا كہ امر خداوندى ميں افراد كو حاكم قرار ديا جاسكتا ہے ايسى صورت ميں ہمارے جوانوں كے خون كا كيا انجام ہوگا؟

تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ لا حكم الا للہ كا ہلہلہ و غلغلہ بيشتر سپاہيوں كے گلے سے جوش مارنے لگا_ انہوں نے اپنے گذشتہ عمل كى اس طرح اصلاح كى كہ ”حكميت” كے لئے راضى ہوجانا در اصل ہمارى اپنى ہى لغزش تھى ليكن اپنے كئے پر ہم اب پشيمان اور توبہ كے طلب گار ہيں چنانچہ انہوں نے على (ع) سے كہا كہ جس طرح ہم واپس آگئے ہيں آپ(ع) بھى آجايئےرنہ ہم آپ (ع) سے بيزار ہوجائيں گے_

وہ اس قدر جلد پشيمان ہوئے كہ انہوں نے پورى سنجيدگى سے يہ مطالبہ كرديا كہ معاہدہ جنگ بندى پر كاربند نہ رہا جائے_ ليكن حضرت على (ع) نے آيات مباركہ و افوا بعہداللہ اذا عاہدتم و لا نتقضوا الايمان بعد توكيدہا ( اللہ كے عہد كو پور كرو جب تم نے ان سے كوئي عہد باندھا ہو اور اپنى قسميں پختہ كرنے كے بعد توڑ نہ ڈالو) (اور اوفوا بالعقود ( لوگو بندشوں كى پورى پابندى كرو) سناكر انھيں عہد و پيمان شكنى سے باز ركھا

مگر ان كى سست رائے اور متزلزل ارادے پر اس كا ذرا بھى اثر نہ ہوا جنگ كى كوفت كے آثار بھى ان كے چہرے سے زائل نہ ہوئے تھے كہ دوسرے فتنے كا بيج بوديا گيا