پارا چنار

پاراچنار پاکستان کے آزاد علاقے کرم ایجنسی کے دارالحکومت ، سب سے بڑے اور خوبصورت شہر کا نام ہے ۔اس علاقے میں بولی جانے والی زبان پشتو ہے ۔محل وقوع کے اعتبار سے یہ شہر افغانستان کی سرحد کے قریب واقع ہے ۔اس شہر کی بیشتر آبادی کا حصہ اہل تشیع حضرات پر مشتمل ہے ۔قدیمی تاریخ کے اعتبار سے آریائی لوگوں نے اس گذرگاہ کو اپنے لیے استعمال کیا ۔ 1890ء میں افغانوں کے ظلم و ستم سے تنگ آ کر طوری قبیلہ نے ہندوستان کی متحدہ حکومت کا حصہ بننے پر رضامندی ظاہر کی ۔1893ء میں باڈر کی نشاندہی ہوئی ۔1948ء میں قائد اعظم کے اصرار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی نے پاکستان کیساتھ الحاق کیا۔ پارا چنار میں قابل توجہ آبادی شیعہ ہونے کی وجہ سے مختلف سالوں میں سنی شیعہ مذہبی فسادات ہوتے رہے جس میں بہت سے لوگوں کا خون بہایا گیا ۔2007ء میں طویل ترین سنی شیعہ جنگ ہوئی جو 5 سال تک جاری رہی اور اس جنگ میں پارا چنار کا پاکستان سے ہر طرح کا رابطہ منقطع رہا اور یہاں غذا و ادویات کی قلت رہی ۔اس لڑائی میں ایک تخمینے کے مطابق 5000 افراد لقمۂ اجل بنے۔ اس ایجنسی میں دوسری ایجنسیوں کی نسبت شرح خواندگی کا تناسب سب سے زیادہ رہا ہے ۔درجۂ حرارت کے لحاظ سے موسم گرما میں درجۂ حرارت کم اور موسم سرما میں سخت سرد علاقہ شمار ہوتا ہے ۔

جغرافیائی حدود

پاکستان کی وفاقی حکومت کے زیر انتظام قبائلی علاقہ جات (فاٹا) کی 7 ایجنسیوں میں سے کرم ایجنسی دیگر تمام ایجنسیوں سے زیادہ خوبصورت ہے۔ پارا چنار کرم ایجنسی کا صدر مقام ہے پشاور سے 80 میل مغرب کی طرف کوہ سفید کے دامن میں واقع ہے۔[1]33.54 درجے عرض بلد(شمالی) اور 70.6 طول بلد(شرقی)پر افغانستان کی سرحد کے پاس درۂ کرم پر واقع ہے۔[2] درۂ کرم بالائی اور زیریں دو حصوں میں تقسیم ہوتا ہے ۔پارا چنار اس کے بالائی حصے پر واقع ایک مرکزی شہر ہے ۔اس کے اطراف کے بلند و بالا پہاڑ سبزے سے ڈھکے ہوئے ہیں۔سطح سمندر سے بلندی پر واقع ہونے کی وجہ سے گرمیوں میں اس کا درجۂ حرارت 37سنٹی گریڈ سے تجاوز نہیں کرتا ہے ۔

یہ شہر پاکستان کے صدر مقام اسلام آباد سے مغرب کی طرف 580 کلومیٹر [3] اور پشاور سے 258 کیلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔[4]

بارڈر کی نشاندہی

  • 1890 ء میں افغانستان کے متعصب حکمرانوں بچہ سقا اور امان الله خان کے مسلسل ظلم ستم سے تنگ آکر طوری قبیلے نے طویل جدوجہد کے بعد انگریزوں کیساتھ مل کر کرم ایجنسی کو متحده ہندوستان میں شامل کرلیا تھا اور ڈیورنڈ لائن کے اُس پار انگریزوں نے طوری قبیلے کے حفاظت کیلئے 1893ء میں طوری میلشیا کے نام سے قبائلی ملیشیا بنایا جو بعد میں کرم ملیشیا بن گیا اور 1948ء میں قائد اعظم کے اصرار پر دیگر ایجنسیوں کی طرح کرم ایجنسی بھی پاکستان کیساتھ ملحق ہو گئی ۔[5]
  • 1893ء میں افغانستان کے امیر آصف رحمان خان بنگش کے دور حکومت میں انڈین برطانوی حکومت اور افغانستان کے درمیان بارڈر کی نشاندہی رائل کمیشن کے ذریعے انجام پائی۔پاراچنار موجودہ فاٹا پاکستان کا حصہ اور اس کے نزدیک خوست کا علاقہ افغانستان کا حصہ قرار پایا۔برطانیہ کی جانب سے سر مورتائیمر ڈیورنڈ اور پولیٹیکل ایجنٹ صاحبزادہ عبد القیوم موجود تھے۔ [6]
چنار کا وہ قدیمی درخت جو وجہ تسمیہ بتایا جاتا ہے

وجہ تسمیہ

اس شہر کو پارا چنار یا پاڑا چنار کہتے ہیں ۔اس کی وجہ تسمیہ میں کہا جاتا ہے کہ

  • کرم ایجنسی ہیڈ کوارٹر کے پاس ایک بڑا چنار کا درخت ہے ۔ کرم ایجنسی میں پارا چمکانی نام کا قبیلہ اپنے قبائلی مسائل کے حل کیلئے اس درخت کے نیچے میٹنگیں کرتا تھا وہ درخت آج بھی موجود ہے ۔[7]مال کرتے ہیں۔[8]
  • اس شہر میں چنار کے درختوں کی کثرت کی وجہ سے اسے پارا چنار کہا جاتا ہے۔
  • اس شہر میں پارا نام کا قبیلہ آباد تھا اس مناسبت سے پارا چنار کہلاتا ہے۔[9]

تاریخچہ

قدیم ایام سے ہی درۂ کرم ایک آسانترین گذرگاہ شمار ہوتی تھی۔4000-2000 ق م آریائی قوم نے برصغیر پاک و ہند آنے کیلئے اسی آسان گذرگاہ کو اپنے لئے استعمال کیا ۔5اور7ویں صدی کے چینی بودائی راہبانوں نے اس علاقے کے لوگوں کو دیکھا اور کہا کہ اس علاقے کے لوگ بودائی آئین کے پروکار تھے۔[10]

اسلامی تاریخچہ

مرکزی جامع مسجد اور امام بارگاہ

اس علاقے کی اسلامی تاریخ کے مطابق شروع میں غزنویوں پھرغوریوں کے زیر تسلط رہا ۔مغلوں کے ساتھ ملحق رہا اور اس دور میں ایک نہایت اہم فوجی چھاؤنی سمجھا جاتا تھا۔مغلوں کی حکومت کے کمزور ہو جانے کے بعد افغان حکام کے تابع فرمان رہا۔1151 ھ ق /1738 میلادی میں نادر شاہ نے ہندوستان پر قبضے کے دوران اس پر قبضہ کیا۔

1272ق / 1856م انگریزی غوجیں وہاں داخل ہوئیں اور اس پر قابض تو ہو گئیں لیکن افغان قبائل سے انکی جھڑپیں جارہیں یہانتک کہ 1309ق میں اس علاقے کے ساکنین طوری قبیلے کے شیعہ لوگوں کی درخواست پر انگریزوں کی حاکمیت میں آگئے۔بالآخر 1310ق/1892م میں یہ شہر بھی برطانیہ کی انگریز حکومت کا حصہ قرار پایا۔[11]
1947م پاکستان کی آزادی کے موقع پر پارا چنار پاکستان میں منضم ہو گیا ۔[12]

روس کی افغانستان میں فوجی مداخلت کے موقع پر بہت سے افغان مہاجرین نے اس شہر کا رخ کیا جس کی وجہ سے یہاں کے حالات خراب رہنے لگے یہانتک کہ سنی شیعہ فسادات میں طرفین کے لوگ مارے جاتے رہے ۔فوجی حاکم صدر ضیاء الحق کی حاکمیت کے سن 1985 میں حکومتی پشت پناہی، وہان کے مقامی سنی اور افغان مہاجرین کے باہمی گٹھ جوڑ کی وجہ سے پارا چنار میں سنی شیعہ فسادات جاری ہوئے آگ لگی رہی ۔اخیرا افغانستان میں القاعدہ کی حکومت کی سرنگونی کے بعد طالبان اور القاعدہ کے افراد کی یہ مضبوط پناہ گاہ رہا ۔2002 ء میں امریکی اور پاکستانی افواج نے طالبان اور القاعدہ کی تحریک کچلنے کیلئے پارا چنار پر چڑھائی کی ۔[13]

مذہبی فسادات

  • 1981 و 1982ء میں کرم ایجنسی کے تمام سنی قبائل نے افغان مہاجرین کے ساتھ مل کر صدہ قصبہ میں شیعہ آبادی پر ہلہ بول کر دادو حاجی کے سارے خاندان ہلاک کر دئے اور صده قصبے سے شیعہ آبادی کو مکمل طور پر بے دخل کر دیاگیا جو آج تک آباد نہیں ہو سکے۔ اس وقت تک انگریز کا بنایا گیا کرم ملیشیا وادی کرم میں موجود تھا لہذا جنگ صده تک ہی محدود رہی اور ایجنسی کے دیگر علاقوں تک نہیں پھیلنے دی گئی۔ یاد رہے کرم ملیشیا صرف طوری قبیلہ پر مشتمل نہیں تھا بلکہ اس میں مینگل، مقبل، بنگش سمیت ایجنسی کے سارے قبائل کی متناسب نمائیندگی موجود تھی جو کہ اپنے اپنے علاقے کے امن قائم رکھنے کے ذمہ دار تھی۔
  • 1987/88 ضیاءالحق کے دور میں شیعہ مسلک کے قائد علامہ عارف حسین الحسینی کو شہید کیا گیا اور علاقے کے سنی قبائل نے افغان مہاجرین کیساتھ ملکر مقامی شیعہ آبادی پر حملہ کردیا جو صده قصبے سے ہوتے ہوئے بالش خیل اور ابراہیم زئی جیسے بڑے گاؤں کو روندتے اور جلاتے ہوئے سمیر گاؤں تک پہنچنے میں کامیاب ہوئے اور بعد میں طوری لشکر نے پسپا کرکے واپس صده کی طرف دھکیل دیا لیکن دسیوں گاؤں جلائے اور لوٹے گئے، امام بارگاہیں اور مساجد مسمار کردی گئیں۔ 17 دن پر محیط لڑائی میں ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے۔اس لڑائی میں انتظامیہ نے مداخلت نہیں کی۔
  • 1996ء میں رسول اللہ کے چچا اور حضرت علی کے والد حضرت ابو طالب کی توہین کی گئی اور مقامی شیعہ آبادی کو اشتعال دلا کر خونریز جنگ کا آغاز کیا گیا جو کئی ہفتے تک جاری رہی۔پاراچنار ہائی سکول میں اسکے پرنسپل اسرار حسین کو قتل کیا گیا جسے بعد صدارتی تمغہ دیا گیا، اسکے بعد کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کو محصور کیا گیا اور انکے لئے پاراچنار تک رسائی کے صرف ایک راستے ٹل پاراچنار روڈ کو بند کر دیا ۔
  • 2001ء میں فرقہ ورانہ فسادات شروع ہوئے اور پیواڑ پر لشکر کشی کی گئ، پیواڑ کے مختلف گاؤں سمیت مرکزی امام بارگاه پر بمباری کئ گئی جس میں درجنوں لوگ قتل کیے گئے۔
  • 2007ء میں طالبان نے انجمن سپاه صحابہ پاراچنار کے سیکریٹری جنرل عید نظر المعروف “یزید نظر” کیساتھ ملکر 12 ربیع الاول کے عید میلاد النبی کے جلوس میں حسین مرده باد اور یزید زنده باد کے اشتعال انگیز نعروں کی وجہ سے فرقہ ورانہ جنگ کا آغاز کیا۔جس میں حکیم الله محسود اور منگل باغ نے جنگ کی کمان سنبھالی اور وزیرستان سے لیکر خیبر تک کے سنی قبائل کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی پر حملہ آور ہوئے۔ سینکڑوں قتل ہوئے اور امام بارگاه سمیت آدھے پاراچنار شہر کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا۔ پانچ ہزار سے زیاده ہلاکتیں ہوئیں۔ صده کے مین بازار میں شیعہ افراد گاڑیوں سے اتار کر قتل کئے گئے ۔یہ لڑائی پانچ سال تک جاری رہی۔ پاراچنار کو پاکستان سے ملانے والی واحد شاہراه کئی سال تک بند رہی۔ تین سال پاراچنار کا محاصره جاری رہا اور طوری بنگش قبائل افغانستان کے راستے تیس گھنٹے کا سفر طے کر کے پارا چنار پہنچتے۔ بچے ادویات اور خوراک نہ ملنے کی وجہ سے مرنے لگے اور لوگ فاقے کاٹنے پر مجبور ہوئے۔
  • 2011ء میں شلوزان تنگی اور خیواص میں فسادات ہوئے۔ جس میں خیواص گاؤں پر حملہ کرکے جلایا گیا، ایک سو سے زیاده لوگ قتل کئے گئے اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔[14]

آبادی اور تعلیم

طوری پارا چنار کےسب سے بڑے قبیلے کا نام ہے جو شیعہ مسلک سے تعلق رکھتا ہے ۔اسی وجہ سے پارا چنار ایک شیعہ نشین علاقے کے طور پر جانا جاتا ہے ۔اس کے علاوہ اس شہر میں آباد قبیلے سید،اورکزئی،مینگل ، پارا تسامکانی ، ملک خیل ، غلزائی ، مُقبل ، ہزاراہ،خوشی مسیحی اور سکھ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔باشندوں کی اکثریت پشتو زبان میں گفتگو کرتی ہے ۔شیعہ نشین علاقہ ہونے کی وجہ سے ملک کی داخلی سیاست اور افغانستان کے مذہبی متشددانہ عوامل اور سیاست کی بنا پر اس علاقے میں کئی مرتبہ شیعوں کا بلا دریغ خون بہایا گیا ہے ۔

قبائلی ایجنسیوں میں سے کرم ایجنسی تعلیمی تناسب کے لحاظ سے سب سے آگے ہے۔کرم ایجنسی میں تعلیم کی شرح 6.25٪ جس میں سے مردوں کی شرح خواندگی 11.4 اور خواتین کی شرح خواندگی 0.85٪ ہے۔ پارا چنار شہر کرم ایجنسی کیلئے ایک تعلیمی مرکز کی حیثیت رکھتا ہے ۔پارا چنار میں اس وقت تین کالج : پوسٹ گریجویٹ کالج پاراچنار، مینجمنٹ سائنسز پاراچنار کے گورنمنٹ کالج، اور گرلز پاراچنار بینظیر کالج قابل ذکر ہیں۔ [15]

شخصیات

اس علاقے کی معروف شخصیات جن کا پاراچنار میں کلیدی کردار رہا ہے ان میں سے مندرجہ ذیل بعض قابل ذکر ہیں:

  • شہید علامہ سید عارف حسین حسینی

سید عارف حسین حسینی 25 نومبر 1946 عیسوی کو پاکستان کے شمال مغرب میں واقع شہر پاراچنار کے نواحی گاؤں پیواڑ کے ایک مذہبی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ امام خمینی سمیت نجف اور قم کے حوزات علمیہ کے مشہور فقہاء کے شاگردوں میں سے تھے۔ 5 اگست سنہ 1988 کو پشاور میں اپنے مدرسے میں صبح کے نماز کے بعد نامعلوم افراد کی گولی کا نشانہ بن کر جام شہادت نوش کرگئے۔

  • شیخ رجب علی نجفی۔
  • شیخ علی مدد نجفی۔
  • شہید محمد نواز عرفانی
  • جنرل جمال سید میاں۔
  • پرنسپل اسرار حسین(صدارتی تمغہ)۔

مقامات

پارا چنار کے درج ذیل مقامات قابل ذکر ہیں:

  • پارا چنار ائر پورٹ
پاکستان کی مرکزی حکومت کے تحت آزاد علاقات جات(فاٹا) کی ایجنسیوں کا تنہا ائر پورٹ کرم ایجنسی کے شہر پارا چنار سے 25 منٹ کی مسافت پر واقع ہے ۔اس ائر پورٹ پر ایک رن وے ہے جو ائربس اے 330 کیلئے استعمال ہو سکتا ہے نیز کارگو کی سہولت بھی موجود ہے 2007ء کے بعد سے پروازوں کاسلسلہ معطل ہے ۔[16]
کرم ایجنسی اور افغانستان کے یکتا صوبے سے ملانے والے پہاڑی راستے کا نام درۂ پیواڑ ہے۔ یہیں اسی راستے پر کرم ایجنسی کیجانب پارا چنار سے کچھ مسافت پر موجود سرحدی گاؤں کو پیواڑ کہا جاتا ہے ۔28/29 نومبر1878ء میں سر فیڈرک رابرٹ کی کمان میں برطانوی فوج اور کریمخان کی کمان میں افغان فوج کی جنگ ہوئی جس میں برطانوی فوج کو فتح حاصل ہوئی[17][18]۔یہی گاؤں شہید سید عارف حسین حسینی کا آبائی وطن بھی ہے۔ جہاں آپ پیدا ہوئے ۔1988ء میں سید عارف حسین حسینی کو یہاں دفن کیا گیا۔اب ہر سال ان کی شہادت کی مناسبت سے اس گاؤں میں شیعہ آبادی کا ایک پر رونق اجتماع ہوتا ہے ۔
پارا چنار سے پہلے ایک قصبے کا نام ہے جو شیعہ آبادی پر مشتمل تھا۔1981/1982 میں تمام سنی قبائل نے مل کر اس قصبے پر حملہ کر دیا اور حاجی قبیلے کے تمام افراد کو قتل کر دیے نیز شیعوں کو اس شہر سے نکال دیا ۔ اس کے بعد سے لے کر ابھی تک شیعہ اپنے قصبے میں آباد نہیں ہو سکے ہیں۔
  • سرکٹ ہاؤس.
  • چپری ریسٹ ہاؤس.
  • مانالا ڈیم ریسٹ ہاؤس.
  • پارا چنار ریسٹ ہاؤس.
  • مرکزی امام بارگاہ۔
  • مدرسہ جعفریہ(لڑکوں کا مدرسہ)۔
  • مدرسہ آیت اللہ خامنہ ای(لڑکوں کا مدرسہ)۔
  • مدرسہ دارالزھراع(لڑکیوں کا مدرسہ)۔

حوالہ جات

مآخذ